Thursday, 29 April 2021

شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

 شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ۔ (سورۃ الدھر: ۸)
ترجمہ : اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبّت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو ۔

صدرُ الاَفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یہ آیت حضرت علیِ مرتضٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ (خزائن العرفان ، پ۲۹، الدھر، تحت الآیۃ : ۸، ص ۱۰۷۳)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ابو ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : علی مع القرآن والقرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ قرآن کے ساتھ اور قرآن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)،(المستدرک، ج: 3، ص: 123، رقم: 4685)
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے ۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِنَّ عَلِیًا بْنَ ابی طَالِبٍ عِنْدَهٗ عِلْمُ الظَاهِرِ والبَاطِنِ ۔
ترجمہ : بے شک علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔ (حلیة الاولیاء، جلد نمبر1 صفحہ نمبر 105)

صحيح مسلم شريف ميں حضرت سعد بن ابي وقاص رضي اللہ عنہ سے روايت ہے : ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي ۔
ترجمہ : جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔(الصحيح لمسلم، 2 : 278،چشتی)

جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ : ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ : تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم ۔ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔ (آل عمران 3 : 61)

حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا ًو حسینا ًیعنی علیا ً (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا ً و حسینا ً(ابناء نا) ہوئے۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و جماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے ۔

عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ ثَلاٰثُ مِائَةِ آیَةٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں ۔ (خطیب ِ بغدادی ،ترجمہٴ اسماعیل بن محمد بن عبدالرحمٰن شمارہ 3275، تاریخ بغداد جلد6، ص:221)(شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودة، باب42، ص148۔)(حافظ بن عساکر،حدیث 941 ، ترجمہ امیر الموٴمنین از تاریخ دمشق، جلد2، ص431،طبع دوم،چشتی)(گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب باب62، ص231)(سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء ،ص172 اور اللّٰئالی المصنوعہ ، ج1،ص192، ط1)(ابن حجر ، کتاب صواعق، ص76)

عَنْ یَزِیدِ ابنِ رُومٰان قَالَ: مَا نَزَلَ فِی اَحَدٍ مِنَ القُرآنِ مَانَزَلَ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ۔
ترجمہ : یزید ابن رومان روایت کرتے ہیں کہ جتنی تعداد میں آیاتِ قرآنی علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوئیں ۔ (ابن عساکر، حدیث 940 تاریخ دمشق، ج2، ص430، ط2)0ابن حجر، کتاب صواعق المحرقہ ، ص76)(سیوطی ،تاریخ الخلفاء، ص 171)(حافظ الحسکانی، حدیث 50، باب اوّل 5 ، از مقدمہ کتاب شواہد التنزیل، ج1، ص39طبع اوّل اور حدیث 55 ، ص 41 ۔ اسی کتاب میں)(گنجی شافعی، باب 62، کتاب کفایة الطالب ، ص 253۔
شبلنجی ، کتاب نورالابصار، ص73)

مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا،آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر،زہد و ورع ،شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا،آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں ۔

سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی ،جیساکہ روایت ہے : ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام ۔۔۔ولم يولد فی البيت الحرام قبله احد سواه ۔ قاله ابن الصباغ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر ہوئی۔علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی ۔ (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص 84)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی ، اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے ، آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّظْرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبَادَةٌ-
ترجمہ : سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا :علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر:4665،چشتی)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ : بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ ابِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْانْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ارْقَمَ يَقُوْل:اوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِیٌّ .
ترجمہ : انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)

جامع ترمذی شریف میں روایت ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094،چشتی)

حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے،چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لئے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے ۔

آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمای ا : اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ ۔ ترجمہ:ائے علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 )

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح ،خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِیْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَۃَ مِنْ عَلِیٍّ.
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا :بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا)کا نکاح علی(رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،8،ص،497،حدیث نمبر:،10152،چشتی)

حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام اور بزرگان دین کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ اور رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہا جاتا ہے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ ان عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص"کرم اللہ وجہہ"کہا جاتا ہے،اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ)فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ"کرم اللہ وجہہ ۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔ جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیںسجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ"(اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے)کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار ،ص 85)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:"مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی ۔
ترجمہ : سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،6،ص ، 47 ، حدیث نمبر:5973)

حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر " . وأنی أظن ہذا مما لم یجب.
ترجمہ : سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،چشتی)

غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ .
ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی (رضی اللہ عنہ )کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا : فَأُتِیَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ۔ جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا ، اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر:3701،چشتی)

فاتح خیبر، حیدر کرار،صاحب ذو الفقار،شیریزداں،شان مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجوان افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا۔ أخرجہ ابن عساکر .
ترجمہ : سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے)دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا،یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا، یہاں تک کہ چالیس( 40)افراد نے اسے اٹھایا ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالی عنہ )کو دیکھ لے ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی،ج1ص 75،چشتی)

سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کوعشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی : وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔ ترجمہ:اور علی(رضی اللہ تعالی عنہ)جنت میں ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر:138)

صحابۂ کرام میں سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ آپ کی شان میں سینکڑوں آیات مبارکہ نازل ہوئیں ‘ جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام ابن عساکر نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ، آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شان میں بے شمار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 70،چشتی)

سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نہ صرف قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں بلکہ آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین ،معجم اوسط طبرانی اورمعجم صغیر طبرانی وغیرہ میں روایت ہے : عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر : 4604۔ المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، حدیث نمبر :5037۔ المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد،حدیث نمبر: 721)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے : وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 68)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی سخاوت بارگاہ الہی میں مقبول اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔
ترجمہ : جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں)رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)
اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے : عن ابن عباس فی قولہ ( الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً وعلانیۃ)قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً ، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً .
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔ سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر ۔ (الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ ،274،چشتی)

آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کے لئے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔

حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنے شہزادوں کو قربان کیا ۔

اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی او ر معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کے لئے یہ بشارت عنایت فرمائی : وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
ترجمہ : یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الزخرف۔72)
چونکہ جنت کو مومنین کے لئے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ،اسی لئے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کے لئے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّۃَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلاَثَۃٍ عَلِیٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا جنت تین افراد کی مشتاق ہے (1) (حضرت)علی(رضی اللہ عنہ) (2) (حضرت) عمار (رضی اللہ عنہ)(3) (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہ) ۔ (جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166،چشتی)

دور خلافت : جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے : استخلف یوم قتل عثمان وہو یوم الجمعۃ لثمانی عشرۃ خلت من ذی الحجۃ سنۃ خمس وثلاثین ۔
ترجمہ : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سنہ پینتیس (35) ہجری ،18 ذوالحجہ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘میں ہے : وکانت خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشہر وایاما ۔ آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ،چشتی)

مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوفہ کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہاوند میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا :دس(10) اہل اسلام شہید ہوں گے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس(10) لوگ بچیں گے ۔

شہادت کی بشارت : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی،چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن جابر بن سمرۃ ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی : إنک مؤمر مستخلف وإنک مقتول ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کئے جانے والے ہو ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی ،ج 1 ص 347)

شہادت عظمی : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں : ضربہ عبد الرحمن بن ملجم المرادی بالکوفۃ صبیحۃ الجمعۃ لثمانی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر رمضان سنۃ اربعین ومات بعد ثلاث لیال من ضربۃ ۔
ترجمہ : ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس(40)ہجری ،سترہ (17)رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اورحملہ کے تین(3)دن بعد(بیس(20)رمضان المبارک کو) آپ کی شہادت عظمی ہوئی۔ ۔(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

غسل مبارک : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل مبارک اور نمازجنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں : وغسلہ ابناہ الحسن والحسین وعبد اللہ بن جعفر وصلی علیہ الحسن ۔
ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...