رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے روزے
خواہشات نفسانی کو کم کرنے اور حصول تقوی کے لئے روزہ ایک بے مثال عبادت ہے ۔جو اللہ رب العزت کو بے حد پسند ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ:روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا(ہر عمل کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے یہ روزے کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فر مائی)اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ۔جب وہ افطار کرتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو خوش ہوگا ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے!روزے دار کی منھ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔دوسری روایت میں آیا کہ:روزے دار کے منھ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔(صحیح مسلم ،حدیث:۱۱۵۱)
یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔آپ ﷺ کے روزوں کی مختصر فہرست مندرجہ ذیل ہیں۔
عاشورے کا روزہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:زمانہ جاھلیت میں قریش عاشورے کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے ۔جب آپ ﷺنے مدینہ ہجرت کی تو آپ نے خودبھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فر ض ہوئے تو آپ نے فر مایا:جو چاہے عاشورے کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔(صحیح مسلم،حدیث:۱۱۲۵)
چونکہ یہود صر ف دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے اس لئے آپ ﷺنے اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملا کر یہودیوں کی مخالفت کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس روزے کی فضیلت بھی بیان فر مائی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: جب رسول اللہ ﷺنے عاشورے کا روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ!اس دن کی تو یہود ونصاری تعظیم کرتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺنے فر مایا:جب اگلا سال آئے گا تو انشاء اللہ ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے ۔راوی کہتے ہیں کہ ابھی سال نہ آنے پایا تھا کہ رسول اللہ ﷺوصال فر ماگئے۔(صحیح مسلم،حدیث:۱۱۳۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشورے کے دن کے روزہ کو اللہ تعالیٰ اس سے پہلے کے ایک سال کے گناہ کا کفارہ بنادے۔(ابن ماجہ ،حدیث:۱۷۳۸)
رمضان کے روزے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:جس نے رمضان کے مہینے کا ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ،حدیث:۱۶۴۱،مسلم، حدیث:۷۶۰)۔ آپ ﷺنے رمضان کے روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان فر مائی ۔اور خود بھی ہمیشہ اس مہینے کا روزہ رکھا اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فر مائی۔ہاں البتہ ،سفر ،مرض وغیرہ کی صورت میں نہ رکھنے کی رخصت بیان فر مائی اور آپ ﷺ نے بھی دونوں صورتوں پر عمل کیا کبھی آپ نے رکھا اور کبھی نہیں ۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے رمضان المبارک میں سفر کیا اور روزہ رکھا ۔جب مقام عسفان پہنچے تو آپ نے ایک برتن منگایا جس میں پینے کی کوئی چیز تھی ،آپ ﷺ نے اس کو دن میں نوش فر مایا تاکہ سب لوگ دیکھ لیں۔ پھر آپ ﷺ نے روزے نہیں رکھے یہاں تک کہ مکہ پہونچ گئے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور چھوڑے بھی ہیں ۔تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے چھوڑدے۔(مسلم،حدیث:۱۱۱۳)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :ہم سخت گرمی میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے ۔گر می کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ بعض لوگ اپنے سر پہ ہاتھ رکھ لیتے تھے ۔اور رسول اللہ ﷺاور رواحہ بن عبد اللہ کے علاوہ ہم میں سے کوئی شخص بھی روزہ دار نہیں تھا۔(صحیح مسلم،حدیث:۱۰۶۲)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر کیا پس روزہ دار روزہ رکھتا تھا اور روزہ چھوڑنے والا روزہ چھوڑتا تھا اور کوئی کسی کو برا نہیں کہتا تھا۔(مسلم،حدیث:۱۱۱۷)
شوال کے روزے: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جس شخص نے رمضان شریف کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کی طرح ہے۔(مسلم، حدیث:۱۱۶۴)
شوال کے یہ چھ روزے لگاتار بھی رکھ سکتے ہیں اور وقفے کے ساتھ بھی دونوں درست ہے۔
یوم عرفہ یعنی ۹؍ویں ذی الحجہ کا روزہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے والے کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ کو معاف فر مادے گا۔اور عاشورے کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے کا گناہ معاف فر مادے گا۔(مسلم، حدیث:۱۱۶۲)
لیکن حاجیوں کے لئے یہ روزہ رکھنا مستحب نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺنے اپنے حج کے دوران یہ روزہ نہیںرکھا۔چنانچہ حضرت ام الفضل بنت حارث بیان کرتی ہیں کہ: ان کے پاس لوگوں نے بحث کی کہ عر فہ کے دن رسول اللہ ﷺنے روزہ رکھا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں دودھ کا ایک پیا لہ بھیجا اس وقت آپ ﷺ میدان عرفات میں اونٹ پر کھڑے ہوئے تھے ۔آپ نے وہ دودھ پی لیا۔(تو سب کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺنے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا ہے۔اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت جو حضور ﷺ نے بیان فر مائی کہ اس دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ غیر حاجیوں کے لئے ہے حاجیوں کے لئے یہ مستحب نہیں ۔)(مسلم،حدیث:۱۱۲۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر میں تھے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے عرفہ کا روزہ عرفات میں رکھنے سے منع فر مایا۔(ابوداود،حدیث:۲۴۴۰)
پیر کے دن کا روزہ: آپ ﷺپیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔جب آپ ﷺسے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فر مایا کہ :میں اسی دن پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا تھا۔(صحیح مسلم،حدیث:۱۱۶۲)
ایام بیض ،یعنی ہر مہینے کے تین روزے: حضرت معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ:کیا رسول اللہ ﷺہر مہینے میں تین روزے رکھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ:ہاں!حضرت معاذہ نے پوچھا کہ:کون کون سی تاریخ میں؟انہوں نے کہا کہ:دنوں کا اہتمام نہ کرتے تھے جب چاہتے روزہ رکھ لیتے تھے۔(ترمذی،حدیث:۷۶۳،مسلم،حدیث:۱۱۶۰)
آپ ﷺ خود تو کسی تاریخ کا اہتمام نہ فر ماتے تھے تا کہ امت پر آسانی رہے اور کوئی اسے لازم نہ سمجھ لے ۔لیکن آپ ﷺ نے بغیر ضروری خیال کئے ہوئے اس روزہ کے رکھنے والوں کے لئے ۱۳۔۱۴۔۱۵۔تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم فر مایا:چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:اے ابوذر!جب تم مہینے کے تین دن روزہ رکھو تو ۱۳۔۱۴۔۱۵ تاریخ کو روزہ رکھو۔(ترمذی،حدیث:۷۶۱)
اسی طرح ابن ملحان قیسی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺایام بیض کے روزے ۱۳۔ ۱۴۔۱۵۔تاریخ کو رکھنے کا حکم فر ماتے تھے۔اور آپ ﷺ ارشاد فر ماتے تھے کہ یہ روزے رکھنا ہمیشہ روزہ رکھنے کی طرح ہے۔(ابوداود، حدیث:۲۴۴۹)
اس روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جس نے ہر مہینے تین دن روزہ رکھا تو وہ ہمیشہ کا روزہ ہے۔(یعنی اس کو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا )اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺکی اس بات کی تصدیق میں یہ آیت مبارکہ نازل فر مائی:جس نے ایک نیکی کی تو اس کے لئے دس نیکی ہے ۔(تو جس نے ہر مہینے تین روزہ رکھا گویا اس نے پورے مہینے روزہ رکھا اور اسی طرح ہر مہینے کیا تو گویا اس نے ہمیشہ روزہ رکھا) ۔(ترمذی،حدیث:۷۶۲)
وصال کے روزے: لگاتار بغیر افطار کئے ہوئے مسلسل کئی دن روزہ رکھنے کو وصال کا روزہ کہا جاتا ہے۔آپ ﷺ رمضان المبارک میں بغیر افطار کئے ہوئے مسلسل رات ودن روزے رکھتے تھے۔مگر صحابہ کرام کو ایسے روزے رکھنے سے منع فر ماتے تھے ۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:بے شک نبی کریم ﷺنے وصال سے منع فر مایا۔صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ آپ تو اس طرح سے روزہ رکھتے ہیں ۔آپ ﷺنے فر مایا:انی لست کھیئتکم انی اطعم واسقی۔بے شک میں تمہاری طر ح سے نہیں ہوں ۔بے شک مجھے تو کھلادیا جاتا ہے اور پلا دیا جاتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے ان الفاظ میں بیان فر مایاکہ:انی لست مثلکم۔بے شک میں تمہارے مثل نہیں ہوں۔(صحیح مسلم،حدیث:۱۱۰۲)
حضرت انس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فر مایا:انی لست کاحدکم ان ربی یطعمنی ویسقینی۔بے شک میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں۔بے شک میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے۔(تر مذی،حدیث:۷۷۸۔بخاری،۷۲۴۱،مسلم،۱۱۰۴)
امام تر مذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت بیان کرنے کے بعد فر مایا کہ:یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت انس کے علاوہ سات صحابہ کرام سے یہ حدیث مروی ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس صاف اور صریح فر مان ہونے کے باوجود جب خود کو اہل حدیث کہلانے والے نام نہاد مسلمان حضور کو اپنی طر ح کہتے ہیں تو مسلمانوں کو ان کی حقیقت سمجھنے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہئے۔
ان روزوں کے علاوہ آپ ﷺ اور بھی روزے رکھا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ روزے رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم سوچتے تھے کہ اب حضور ﷺافطار نہ کریں گے یعنی روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے۔اور افطار کرتے تھے یعنی روزے چھوڑتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب حضور روزے نہ رکھیں گے۔آپ بیان فر ماتی ہیں کہ :میں نے حضور ﷺکو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل پورے مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔اور شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔یعنی مکمل مہینہ صرف رمضان میں رہتے تھے۔اور رمضان کے علاوہ سب سے زیادہ شعبان میں روزہ رکھا کرتے تھے۔(ابوداود،حدیث:۲۴۳۴)
آپ ﷺنے فر مایا :جوراہ خدا میں ایک دن روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو اس کے چہرے سے ستر(۷۰)سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے ۔ (مسلم،حدیث:۱۱۵۳) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment