رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن صفت خاصہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نہیں ہے ۔ دیوبندی عقیدہ
محترم قارئینِ کرام : دیوبندیوں کے نزدیک رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صفت مخصوص نہیں بلکہ علما ء ربانین کوبھی رحمۃ للعالمین کہنا جائز ہے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ یہ لوگ ہر اس بات کا انکار کرتے ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان مبارک کا اظہار ہوتا ہے میرے ناقص خیال کے مطابق ان لوگوں کے سرپرستوں نے ان کی ڈیوٹی ہی یہی لگائی تھی کہ مسلمانوں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانوں کو گھٹاؤ اور لوگوں کے دلوں سے عظمت و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نکال دو اس مشن کی تکمیل کےلیئے کبھی اپنے جیسا بشر کہا تو کبھی جانوروں کے علم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم مبارک سے تشبیہ دی ، کبھی شیطان کے علم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زیادہ بتایا تو کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بڑا بھائی اور گاؤں کے چودھری کی طرح قرار دیا اسی ڈیوٹی میں یہ بھی شامل ہے چونکہ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفتِ خاصہ ہے اور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایسی شانیں ظاہر ہوتی ہیں جن کے بعد کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ان لوگوں نے اپنے اندر چھپے اس بغض کو ظاہر کرنے اور اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیئے جہاں اور شانوں کا انکار کیا وہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صفتِ خاصہ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن کا بھی انکار کر دیا ان الفاظ میں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفتِ خاصہ نہیں آیئے پہلے دیوبندیوں کے عالمِ ربانی ، قطبُ العالم جناب گنگوہی صاحب کا فتویٰ بمعہ اصل اکینز پڑھتے ہیں پھر معتبر تفاسیر کی روشنی میں شانِ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پڑھتے ہیں یہ پہلا حصّہ تصوّر کیا جائے زندگی نے مہلت دی تو اللہ عزّ و جل کے فضل و کرم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نظرِ عنایت سے جلد دوسرا حصّہ بھی پیش کیا جائے گا ان شاء اللہ ۔ اہل علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرما دیں ۔
دیوبندیوں کے پیشوا جناب رشید احمد گنگوہی صاحب اپنے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھتے ہیں : رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن صفت خاصہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیا ء وانبیاء اور علمائے ربانین بھی موجب رحمتِ عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب میں اعلے ٰ ہیں ۔ لہٰذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے، تو جائز ہے ۔ فقط بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 244 دارالاشاعت کراچی،چشتی) ، (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 245 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
قطبُ الاقطاب دیوبند رشید احمد گنگوہی کو جب حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی خبر ملی تو قطبُ الاقطاب دیوبند رشید احمد گنگوہی حاجی صاحب (یعنی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی) رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت بار بار فرماتے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن تھے ۔ (ملفوظاتِ حکیمُ الاُمّت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 138 مطبوعہ ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان)
علمائے دیوبند کے نزدیک چونکہ مولوی رشید احمد صاحب عالم ربّانی ہیں اور ان کا حکم ہے کہ عالم ربانی کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن کہنا درست ہے ۔ لہٰذا علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی رشید احمد رحمۃ للعالمین ہوئے ۔ اسی لئے مولوی رشید احمد صاحب نے اپنی رحمت کے بہت سے جلوے دکھائے ، جن میں سے ایک خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے ۔ وہ یہ کہ آپ نے "کوّا" کھانے پر ثواب مقرّر کردیا ہے ۔ یہ بے پیسہ اور بغیر دام ،مفت کا سیاہ مرغ مولوی رشید احمد صاحب نے حلال فرما کر اس کے کھانے والے کے لئے ثواب بھی مقررکردیا ہے ۔ اس سے زیادہ دیوبندیوں کے لئے اور کیا رحمت ہوگی کہ پیسہ لگے نہ کوڑی ، مفت ہی میں سالن کا سالن اور ثواب کاثواب ۔
اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ : رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن‘‘خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصفِ جمیل ہے اس میں دوسرے کو شریک کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان کو گھٹانا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ۔ ﴿سورۃُ الانبیاء آیت نمبر 107﴾
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات ، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبدا للّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیامیں رحمت ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا ۔ (تفسیر خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳/۲۹۷،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عالَم ماسوائے اللّٰہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں، اُولیٰ وآخرت میں ،دین ودنیا میں، روح وجسم میں، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی ۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰/۱۴۱)
اور فرماتے ہیں ’’حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے ، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق : ’’لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ‘‘ ۔ (سورہ توبہ:۱۲۸)
(ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں)
تمام عاصیوں کی شفاعت کے لئے تو وہ مقررفرمائے گئے : ’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘ ۔ (سورہ محمد:۱۹)
(ترجمہ : اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴/۶۷۴-۶۷۵)
آیت’’وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
یہ آیتِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں :
(1) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ (اللّٰہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں ۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۲/۵۲۱،چشتی)
تفسیر روح البیان میں اَکابِر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق ، تام ، کامل ، عام ، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو ۔ (تفسیر روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵/۵۲۸)
(2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا ۔
امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : لوگ کفر ، جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکا تھا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مبعوث فرمایا جب حق کے طلبگار کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ آ رہی تھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کوحق کی طرف بلایا اور ان کے سامنے درست راستہ بیان کیا اور ان کے لئے حلال و حرام کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق طلب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا (اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا ۔ (تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۸/۱۹۳،چشتی)
تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت میں فرق :
ویسے تو اللّٰہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رحمت ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ، اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت میں فرق ملاحظہ ہو،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وَ رَحْمَۃً مِّنَّا‘‘ ۔ (سورہ مریم :۲۱)
ترجمہ : اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں) ۔
اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں ارشاد فرمایا : ’’وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ‘‘ ۔
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مبعوث ہونے تک چلا ، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا ۔
اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی ، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شفاعت کے محتاج ہوں گے ۔ (تفسیر روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵/۵۲۸) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment