Monday, 5 April 2021

حدیث ابن عباس اور 20 رکعات تراویح کی روایات پر اعتراضات کے جوابات

 حدیث ابن عباس اور 20 رکعات تراویح کی روایات پر اعتراضات کے جوابات


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس (20) رکعات (تراویح ) اور وتر ادا فرماتے تھے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصّلوٰۃ صفحہ 395 عربی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد)( بیس رکعات نماز تراویح کے منکر اور تراویح و تہجد کی نمازوں کو ایک کہنے والے اب کیا کہتے ہیں؟)


دلیل نمبر1: قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.

تحقیق السند: اسنادہ حسن و قد تلقتہ الامۃ بالقبول فہو صحیح۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)

اعتراض نمبر 1 ۔ غیرمقلدین کی طرف سے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ ضعیف ہے ۔ اس کو امام بہیقی ؒ ۔ امام زیلعی ؒ ۔ امام نسائی ؒ ۔ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ۔ امام بخاریؒ نے اس کے بارے میں سکتوا عنہ اور امام ابو حاتم ؒ نے سکتوا عنہ اور ترکوا حدیثہ فرمایا ہے ۔ امام احمد ؒ نے اس کو منکر الحدیث اور امام ابن عدی ؒ نے اس کو لین کہا ہے اور اس کی حدیث کو انہوں نے اپنی کتاب الکامل میں ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔ امام شعبہ ؒ نے اس کی ایک روایت کے بارے میں کذب کہا ہے ۔ (محصلہ انوار المصابیح ص 169 -177 )

بعض غیر مقلدین تو اس حدیث کو موضوع تک قرار دیتے ہیں ، العیاذ باللہ من ذالک

جواب نمبر 1 ۔ اس روایت کا راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ اگرچہ مجروح ہے لیکن یہ اتنا ضعیف نہیں ہے کہ اس کی روایات کو بالکل رد یا موضوع قرار دیا جائے کیونکہ بعض ائمہ رجال نے اس کی توثیق بھی کی ہے چنانچہ امام شعبہ بن الحجاج ؒ نے اس سے روایت لی ہے ۔ ( تہذیب الکمال 1/390 تہذیب التہذیب 1/144

اور غیر مقلدین کے ہاں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ امام شعبہ صرف اسی سے روایت لیتے ہیں جو ثقہ راوی ہو اور اس کی احادیث صحیح ہو ۔ چنانچہ مولانا عبد الرؤف سندھو غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ شیخ احمد شاکر ( جو غیر مقلدین کے بڑے عالم تھے ) فرماتے ہیں کہ محمد بن مہران سے شعبہ نے بھی روایت لی ہے اور وہ ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں ( القول المقبول شرح صلوٰۃ الرسول ص 386 ) علامہ شوکانی اور مولانا عبد الرحمان مبارک پوری وغیرہ مقلدین علماء امام شعبہ ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں وھو لا یحمل عن مشائخھم الا صحیح حدیثھم ( نیل الاوطار 1/16 ابکار المنن ص 147 ، 150 وغیرہ ) امام شعبہ ؒ اپنے مشائخ سے صرف وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے ۔ اس طرح جن جن ثقہ (قابل اعتماد) محدثین نے بیس (٢٠) رکعت کی روایت لی، یہ ان کی قوی تائید ہے ورنہ یہ حضرات اس طرح متفق نہ ہوتے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ابو شیبہ اتنا ضعیف راوی ہے اور اس کی حدیث صحیح نہیں تو پھر امام شعبہ ؒ نے اس سے روایت کیوں بیان کی ہے ؟؟

2 ۔امام ابن عدی ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں : لہ احادیث صالحۃ کہ ابو شیبہ کی احادیث درست ہیں ( تہذیب الکمال 1/ 393 )

( غیر مقلدین کی طرف سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرچہ ابن عدی نے ابو شیبہ کی روایات کے بارے میں لہ احادیث صالحہ فرمایا ہے لیکن اس قول سے اس کی مذکورہ روایات کو کیا فائدہ ہوا کیونکہ انہوں نے اس روایت کو ابو شیبہ کی مناکیر میں شمار کیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ مذکورہ روایت اس کی صالح حدیثوں میں شامل نہیں ہے ۔ ( محصلہ انوار المصابیح ص 183 ) وغیرہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس اعتراض کا جواب خود غیر مقلدین ( مولانا نزیر رحمانی وغیرہ ) نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ امام ابن عدی کسی راوی کسی راوی کی روایت کو منکر شمار کریں تو وہ روایت فی الواقع بھی منکر ہی ہو ۔ چنانچہ مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں : ابن عدی کا یہ صنیع صرف مجروح راوی کیساتھ خاص نہیں اور نہ یہ بات ہے کہ ( جس روایت کو وہ منکر شمار کریں ۔ ناقل ) وہ روایت منکر ہوتی ہے جیسا کہ علامہ مئوی کہہ رہے ہیں بلکہ وہ روایت ذکر کرتے ہیں جس پر جرح و انکار کیا گیا یہ ضروری نہیں کہ فی الواقع وہ منکر بھی ہو ۔ ( انوار المصابیح ص 126 ) اب غیر مقلدوں کے اعتراض کا جواب خود انہی کے علماء کے قلم سے دیئے گئے جواب سے زیادہ بہتر کیا ہوسکتا ہے ۔ )

واضح رہے کہ امام ابن عدی نے شیبہ کی احادیث کو تو صالح کہا ہے لیکن انہوں نے عیسی بن جاریہ ( جو رسول اللہ ﷺ سے مروی گیارہ رکعات والی روایت کے راوی ہیں ) کے بارے میں فرمایا ہے : احادیثہ غیر محفوظہ کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں ۔ تہذیب التہذیب 8/187

اب جس کی روایات صالح اور درست ہیں وہ تو غیر مقلدین کے نزدیک نہایت ضعیف راوی ہے لیکن جس کی احادیث غیرمحفوظ اور شاذ ہیں ، وہ غیر مقلدین کے ہاں اونچے درجے کا ثقہ راوی ہے ۔ غیر مقلدین کا یہ بھی عجیب انصاف ہے ؟؟؟


3 ۔ امام بخاری ؒ کے استاز الاستاذ حضرت یزید بن ہارون ؒ جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاء میں ان کے کاتب اور منشی تھے ، وہ بھی ابو شیبہ کے بڑے مداح تھے ۔ چنانچہ وہ اس کے بارے میں یہاں تک فرماتے تھے ۔

ما قضی علی الناس رجل یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ ۔ ابرھیم ابو شیبہ سے بڑھ کر اپنے زمانے میں کوئی قاضی عادل نہیں ہوا ۔ تہذیب الکمال 1/392

اب جو شخص قضاء اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں اتنا بڑا عادل ہے وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں عادل کیوں نہیں ہوگا ؟؟؟؟ اور راوی کے ثقہ ہونے کیلئے بنیادی طور پر دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں ، ایک ضبط یعنی قوت حافظہ اور دوسری عدالت ۔ چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری غیر مقلد لکھتے ہیں : لابد فی کون الشخص ثقۃ من شیئین العدالۃ و الضبط ۔ راوی کے ثقہ ہونے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں نمبر 1 عدالت نمبر 2 قوت حافظہ ۔۔ ( ابکار المنن ص 169

اب امام ابن عدی کا ابو شیبہ کے بارے میں لہ احادیث صالحۃ کہنا ابو شیبہ کے ضبط اور قوت حافظہ کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس کا حافظہ اگر قوی نہیں تھا تو اس کے پاس صالح اور درست حدیثیں کیسے آگئیں ؟؟؟ اور یزید بن ہارون کی اس شہادت کے بعد تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اونچے درجے کا عادل تھا ۔

4 ۔۔ امام ابن عدی نے ابوشیبہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے : وهو وإن نسبوه إلى الضعف خرب من إبراهیم بن أبی حیة،{ تہذیب الکمال ج1 ص393 ) لوگوں نے اگرچہ ابو شیبہ کو ضعف کی طرف منسوب کیا ہے لیکن وہ ابرھیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے ۔

اور ابراهیم بن ابی حیہ کے بارے میں امام الرجال حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں : ثقۃ کبیر ، یہ شیخ ہیں اور بہت بڑے ثقہ ہیں ۔( لسان المیزان 1/53 )

یہ امام ابن معین کی طرف سے ابرھیم بن ابی حیہ کی زبردست اور مقرر توثیق ہے کیونکہ لفظ ثقۃ الفاظ تعدیل میں سے تو ہے ہی ۔ لفظ شیخ بھی الفاظ تعدیل میں سے ہے ۔ دیکھئے توضیح الکلام 1/480

نیز مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ اصول حدیث کے طالب پر مخفی نہیں کہ مقرر توثیق تعدیل میں درجہ اول کے الفاظ میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( توضیح الکلام 1/268 )

اگرچہ ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، ( لسان المیزان 1/53 )

لیکن یہ سب جرحین غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں کیونکہ اس کی توثیق بھی کی گئی ہے لہذا یہ مختلف فیہ راوی ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محدث حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : کہ جب راوی مختلف فیہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہوتی ہے ( خیر الکلام ص 238 )

بنابریں جب ابن ابی حیہ اس درجہ کا راوی ہے کہ بقول غیر مقلدین اس کی حدیث حسن ہے تو پھر ابراھیم ابو شیبہ جو اس سے بہتر ہے اس کی حدیث کیوں قابل قبول نہیں ؟؟؟

لہذا جب ابراہیم بن ابی حیہ ثقہ ہے تو ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ بدرجہ اولی ثقہ ہونا چاہیے۔

آپ اپنے جو رو جفا پہ خود ہی ذرا غور کریں

ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ابو شیبہ پر کی گئی جرحوں کا جائزہ ۔۔

پیچھے ہم یہ بیان کرچکے ہیں ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے ابن ابی حیہ پر جرح (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، لسان المیزان 1/53

لیکن یہ سب جرحین خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں : چنانچہ زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : صرف ضعیف یا متروک یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے ۔ (رسالہ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص65 ) مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : متروک جرح غیر مفسر ہے ۔ ( تو ضیح الکلام 1/143 ) مولانا نزیر رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : مستند علماء نے اس ( لفظ منکر الحدیث ) کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 119 ) مولانا محمد گوندلوی تو امام بخاری کی جرح منکر الحدیث کو بھی غیر مفسر کہتے ہیں ۔ ( دیکھئے خیر الکلام ص 162 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

پس جب یہ تمام جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہیں اور متعدد علمائے غیر مقلدین نے تصریح کی ہے جرح مبہم توثیق کے بعد معتبر نہیں ہوتی ۔ چنانچہ مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : مبہم جرح توثیق کے بعد مقبول نہیں ہوتی ۔ ( خیر الکلام ص 158 ) مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب فرماتے ہیں : کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔ ( دیکھئے ابکار المنن ص 80 وغیرہ ) مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ جب کسی راوی کی تعدیل و توثیق کسی حاذق اور ماہر فن محدث نے کی ہو تو اس کے حق میں جرح مفسر ہی مقبول ہوگی غیر مفسر اور مبہم جرحوں کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 138 )

تو اس تفصیل کیساتھ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ابو شیبہ پر جتنی جرحیں کی گئی ہیں ۔ تقریبا وہ سب جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی مبہم اور غیر مفسر ہیں ۔ مثلا امام ابو داؤد ؒ ، امام بہیقی ؒ اور امام زیلعی ؒ وغیرہ نے اس کو ضعیف اور امام نسائی وغیرہ نے اس کو متروک کہا ہے اور ابن حیہ کے تذکرہ میں غیر مقلدین کے حوالے سے ہم نے بیان کردیا ہے کہ یہ جرحیں مبہم ہیں ۔ نیز یہ بات بھی ہم نے متعدد علمائے غیر مقلدین کے حوالہ سے بیان کردی کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔

اب ان جرحوں کی حیثیت خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں ملاحظہ ہوں ۔

1 ۔ امام بخاری ؒ اور امام ابو حاتم ؒ نے ابو شیبہ کے بارے میں سکتوا عنہ اور ترکوا عنہ فرمایا ہے اور ان دونوں جملوں سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ دوسروں لوگوں کی رائے نقل کی ہے ۔ اور یہ کلام بھی موجب جرح نہیں کیونکہ جرح کرنے والے مجہول ہیں چنانچہ اس قسم کی ایک جرح لینوہ کے بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام دار قطنی ؒ نے اگر لینوہ کہا ہے تو اس کو لین کہنے والے مجہول ہیں لہذا اس کا کوئی اعتبار نہیں (توضیح الکلام 1/534)

نیز لکھتے ہیں : اگر جارح مجہول ہے تو اہل علم نے جرح قبول نہیں کیا ۔ ( توضیح الکلام 1/534 ) مزید لکھتے ہیں : یہ کلام موجب جرح نہیں کیونکہ یہ مجہول آدمی سے ہے کہ کس نے یہ کہا ہے ۔ (توضیح الکلام 1/534) زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : ابن ابی حاتم کا قول تکلموا فیہ کئی لحاظ سے مردود ہے ۔ 2 ۔ یہ جرح غیر مفسر ہے ۔ 3 ۔ اس کا جارح نہ معلوم ہے ۔( نور العنین ص 88 ) کیا ہم بھی غیر مقلدین سے ایسے انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟؟؟ دیدہ باید

2 ۔ امام احمد نے ابو شیبہ کو منکر الحدیث کہا ہے لیکن اول تو یہ جرح بھی غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہے جیسا کہ گزر چکا ۔

ثانیا ۔ امام احمد کی لفظ منکر الحدیث کے بارے میں اصطلاح ہی جدا ہے ۔ چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام احمد نے کسی کو منکر الحدیث بالفرض کہا بھی ہو تو اس کی جرح مفسر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ منکر الحدیث امام احمد کی اصطلاح میں اس پر بولا جاتا ہے جو غریب حدیث لائے اور غریب حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے ۔

مولانا محمد گوندلوی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : امام احمد اور اس قسم کے لوگ کسی کو منکر کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ قابل احتجاج نہیں ہے ۔ ( خیر الکلام ص 45 )

3 ۔ امام شعبہ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک قصہ میں اس کے بارے میں کذب فرمایا ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : وکذب شعبۃ فی قصۃ ( تہذیب 1/145 ) اور وہ قصہ کیا تھا ؟؟ اس کو حافظ ذہبی ؒ نے یوں بیان کیا : امام شعبہ نے ابو شیبہ کو اس لئے جھٹلایا کہ اس نے حکم سے یہ روایت بیان کی کہ حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں جنگ صفین میں ستر اہل بدر نے شرکت کی تھی ۔ امام شعبہ نے فرمایا اس نے غلط بیانی کی ۔ واللہ میں اس بارے میں حکم سے مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے کسی اہل بدر کو نہیں پایا جس نے جنگ صفین میں شرکت کی ہو ۔ ( میزان الاعتدال 1/23 ) اس بیان سے واضح ہوگیا کہ امام شعبہ ؒ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک واقعہ بیان کرنے میں اسے جھٹلایا ہے اور اس قصہ میں بھی ابو شیبہ کا کوئی قصور نہیں ۔ کیونکہ انہوں نے یہ روایت امام حکم سے نقل کی تھی ۔ اب اگر یہ روایت غلط ہے تو اس میں قصور امام حکم ؒ کا ہے کہ انہوں نے ہی یہ روایت بیان کی نہ کہ ابو شیبہ نے ۔۔

پھر جب شعبہ نے حکم سے اس بارے میں مذاکرہ کیا تو حکم نے بھی یہ انکار نہیں کیا کہ انہوں نے یہ روایت ابو شیبہ سے نہیں بیان کی بلکہ وہ تو الٹا شعبہ کیساتھ اس بارے میں مذاکرہ کیلئے تیار ہوگئے لیکن سوائے ایک کے کسی دوسرے اہل بدری شرکت جنگ صفین میں ثابت نہ کرسکے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکم نے ابو شیبہ کے سامنے یہ روایت ضرور بیان کی تھی ورنہ وہ امام شعبہ سے مذاکرہ کرنے اور ستر 70 اہل بدر کے اسماء ڈھونڈنے کے بجائے صاف انکار کردیتے کہ انہوں نے یہ روایت ہی بیان نہیں کی ۔

پس امام حکم کو بھی تسلیم ہے کہ انہوں نے ابو شیبہ ؒ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ اب اگر یہ واقعہ غلط ہے تو اس کا قصور امام حکم کے سر ہے کیونکہ وہ ہی صاحب واقعہ ہیں اور دلیل بھی ان کے ذمہ ہے ۔ لہذا حکم کی وجہ سے امام شعبہ ؒ کا ابو شیبہ کی تکذیب کرنا غلط اور ناقابل قبول ہے ۔

امام شعبہ کا دعویٰ کے صفین میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بدری شریک نہیں ہوا ، اور درست نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ نے امام شعبہ ؒ کی اس جرح کا یوں مزاق اڑایا ہے : قلت سبحان اللہ اما شھدھا علی اما شھدھا عمار (میزان الاعتدال 1/32 ) میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ : کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں شرکت نہیں کی تھی ؟؟ کیا حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے شرکت نہیں کی تھی ۔ ( اور یہ دونوں اہل بدر میں سے ہیں )

یعنی امام شعبہ نے صرف اس وجہ سے ابو شیبہ ؒ کی تکذیب کردی کہ بجائے ستر بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے صرف ایک حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی شرکت ثابت ہوسکی حالانکہ امام ذہبی ؒ کے مطابق حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بھی جنگ صفین میں شرکت ثابت ہے ۔ اور معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک بھی ابو شیبہ پر امام شعبہ ؒ کی یہ جرح غلط ہے ۔

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کئ نزدیک بھی شعبہ کی یہ تکذیب قابل قبول نہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب میں ابو شیبہ کے بارے میں متروک الحدیث لکھا ہے ۔ ( دیکھئے انوار المصابیح ص 481 ) اور حافظ نے متروک الحدیث کو الفاظ جرح کے طبقہ عاشرہ میں شمار کیا ہے جبکہ جس راوی پر کذب کی تہمت لگائی گئی ہے اس کو انہوں نے طبقۃ الحادیۃ عشرہ میں شمار کیا ہے اور جس راوی پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے اس کو انہوں نے طبقہ الثانیۃ عشرۃ میں شمار کیا ہے ۔ ( دیکھئے مقدمہ تقریب 1/52 )

لہذا جب حافظ ابن حجر نے ابو شیبہ کو نہ طبقہ حادیہ عشرہ میں شمار کیا اور نہ طبقہ ثانیہ عشرہ میں شمار کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک نہ ابو شیبہ پر کذب کی تہمت صحیح ہے اور نہ اس پر کذب کا اطلاق درست ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ اور ان کی اس کتاب تقریب التہذیب کے متعلق مولانا نزیر احمد رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : حافظ نے یہ بھی لکھا ہے اس کتاب میں کسی راوی پر وہی حکم لگاؤں گا جو اس کے حق میں کہے گئے اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور اس کے متعلق بیان کئے گئے اوصاف میں زیادہ مناسب ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 116 بحوالہ تقریب )

پس جب بقول مولانا رحمانی حافظ ابن حجر کے نزدیک ابو شیبہ کے بارے میں تکذیب کا قول غیر صحیح اور غیر مناسب ہے تو پھر غیر مقلدین کس منہ سے ابو شیبہ کی تکذیب پر کمربستہ ہیں ۔؟؟

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے

ثانیا : یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کذب قصدا جھوٹ بولنے کے معنی میں نہ ہو کیوں کہ کذب کا اطلاق صرف قصدا جھوٹ بولنے پر نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس کا اطلاق کسی بات کو بلا تحقیق نقل کرنے پر بھی ہوتا ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس کی کئی مثالیں مقدمہ فتح الباری میں ذکر کی ہیں ۔

اور یہی معنیٰ قرین قیاس ہے کیوں کہ امام شعبہ ؒ جنہوں نے خود ابرھیم ابو شیبہ سے روایت لی ہے ( اور غیر مقلدین کو اقرار ہے کہ وہ صرف ثقہ راوی سے روایت لیتے ہیں ) وہ کیسے ابو شیبہ کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں ۔

اس صورت میں کذب کا مطلب ہوگا کہ ابو شیبہ نے بلا تحقیق حکم کی روایت کو آگے بیان کردیا کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شرکت کی تھی ، فلا اشکال ۔ یا یہاں کذب خطاء کے معنیٰ میں ہے یعنی ابو شیبہ سے یہ روایت بیان کرنے میں خطاء اور غلطی ہوئی ہے کیوں کہ کذب خطاء کے معنیٰ میں بھی آتا ہے ، چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : وقد یطلق الکذب علی الخطاء ۔ ( مقدمہ فتح الباری ص 181 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

علامہ طاہر صدیقی اور علامہ ابن الاثیر جزری ؒ لکھتے ہیں : وقد استعملوا الکذب علی الخطاء ۔ ( مجمع بحار الانوار 4/390 النھایہ 4/159 )

محدثین کبھی کبھی کذب کو خطاء کے معنیٰ میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔

غیر مقلدین حضرات بھی ضرورت پڑنے پر کذب کو خطاء کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں چنانچہ امام مالک ؒ نے حدیث کے ایک راوی محمد بن اسحاق کو کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) قرار دیا ہے ۔ اس پر مولانا ارشاد الحق اثری امام یحییٰ بن معین ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں غالبا انہوں ( یعنی امام مالک ناقل ) نے کلام میں غلطی ( خطاء ) کی بنا پر کذاب کہا ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/240 )

کیا غیر مقلدین ابراہیم ابو شیبہ کے ساتھ یہی انصاف کریں گے ؟؟

ثالثا : بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ کذب یہاں اپنے اصلی معنیٰ ( جھوٹ ) میں ہی مستعمل ہے تو پھر امام شعبہ کی طرف سے ابو شیبہ پر یہ ایک جرح ہے لیکن امام شعبہ کا اس سے روایت لینا اس کی توثیق ہے ( جیسا کہ غیر مقلدین کے حوالے سے گزر چکاہے ) اور مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں : ایک ہی امام کے قول میں اختلاف ہو تو ترجیح توثیق کو ہوتی ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/523 )

پس بالفرض اگر امام شعبہ نے ابو شیبہ کی تکذیب بھی کی ہے تو اس سے روایت لے کر اس کی توثیق کردی ۔ لہذا ان کی توثیق کرنا ان کے جرح کرنے پر راجح ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

5 ۔ مولانا نزیر رحمانی صاحب علامہ زیلعی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ابن عدی نے اس ( ابرہیم ابو شیبہ ) کو لین کہا ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 170 ) اب لین کا لفظ الفاظ جرح میں کس درجہ کا ہے ؟؟؟ اس کا جواب خود مولانا رحمانی کے قلم سے ملا حظہ فرمائیں ۔ چنانچہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں : محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے ۔ ( ا نوار المصابیح ص 115 ) نیز لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ جس راوی کے متعلق فیہ لین یا لین الحدیث کہا ہو اس کی روایت قابل جرح و ترک نہیں ہے ۔ (نوار المصابیح ص 170 )

قارئین : یہ ہیں ابو شیبہ پر کی گئی مبہم اور غیر متعلق جرحیں جو خود غیر مقلدین کے ہاں بھی قابل قبول نہیں ۔ اور اس آخری جرح سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ ابو شیبہ اگرچہ مجروح اور کمزور راوی ہے لیکن یہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ اس کی حدیث کو ترک کردیا جائے لیکن اس کے باوجود غیر مقلدین کا تعصب اور ان کی بے انصافی ملاحظہ کریں کہ جو جرحیں خود ان کے نزدیک بھی ناقابل قبول ہیں ، ان ہی کے بل بوتے وہ ابو شیبہ کو کس طرح سے سخت سے سخت ضعیف قرار دیکر اس کی یہ بیس تراویح والی روایت کو موضوع تک قرار دینے سے نہیں چوکتے ، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہ روایت ان کے مذہب کے خلاف ہے لیکن یہی راوی ابو شیبہ جب ان کے مذہب کے موافق کوئی روایت نقل کرتا ہے تو پھر ابو شیبہ نہ تو ضعیف ہے اور نہ اس کی روایت موضوع ہے ۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔ مثلا مشہور غیر مقلد لکھاری مولانا صادق سیالکوٹی صاحب کی کتاب صلوٰۃ الرسول غیر مقلدین کے درمیان نہایت مشہور اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ کتاب غیر مقلدین کے تمام اکابر ( مولانا داؤد غزنوی ۔ مولانا اسماعیل سلفی ۔ مولانا عبد اللہ امرتسری ۔ مولانا نور حسین گرجاگھی ۔ مولانا احمد دین لتھا گھگڑوی اور مولانا محمد گوندلوی وغیرہ کی مصدقہ ہے ۔ اس کتاب میں سیالکوٹی نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کے طور پر ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۔ ( صلوٰۃ الرسول ص 434 ) حالانکہ یہ روایت بھی ترمذی اور ابن ماجہ میں اسی ابو شیبہ سے مروی ہے لیکن پھر بھی مولانا سیالکوٹی صاحب بڑے طمطراق سے اس روایت سے استدلال کر رہے ہیں اور خود انہوں نے بھی اور ان کی کتاب کے تمام مصدقین نے بھی اس روایت کے راوی ابو شیبہ ؒ کے ضعف کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا ۔ یہ ہے غیر مقلدین کا انصاف ۔

ع ایں گنا ہیست کہ در شھر شما نیز کنند

بہر حال ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ابو شیبہ مجروح راوی ہے لیکن اس کی روایت کو موضوع کہنا اور بالکل رد کردینا یہ بے انصافی ہے ۔ اگر یہ ہماری بات تسلیم نہ ہو تو آیئے اہلسنت و الجماعت اور غیر مقلدین دونوں کی مسلمہ شخصیت اور غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نزیر حسین دہلوی صاحب کے استاذ الاستاذ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ؒ کی بات کو مان لیا جائے ۔ چنانچہ شاہ صاحب اپنے فتاوی میں اسی بیس تراویح والی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔ امام بہیقی این روایت را تضعیف نمودہ بعلت آنکہ راوی ایں حدیث جد ابی بکر ابی شیبہ است حالانکہ جد ابی بکر ابی شیبہ آں قدر ضعف ندارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود ۔ ( فتاویٰ عزیزیہ 1/119)

بہیقی نے اس روایت کو اس بنا پر ضعیف قرار دیا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی ابو شیبہ جو ابوبکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے ضعیف ہے حالانکہ ابوبکر ابن ابی شیبہ کا دادا اس قدر ضعیف نہیں کہ اس کی روایت کو مسترد کردیا جائے ۔

یہ ہے اس شخصیت کا فیصلہ جس کو خود غیر مقلدین بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں ۔

ضد چھوڑیئے بر سر انصاف آیئے

انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک

جواب ثانی : اس حدیث کی سند کو اگرچہ کتنا ہی ضعیف مان لیا جائے لیکن بہرحال یہ بات ضرور ہے کہ اس حدیث کا متن بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ( جس طرح حدیث کی سند کا صحیح ہونا اس کے متن کی صحت کو مستلزم نہیں کما قالہ المبارکپوری فی ابکار المنن ص 28 ۔ اسی طرح سند کا ضعیف ہونا بھی اس کے متن کے ضعف کو مستلزم نہیں چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری امام ترمذی کے قول ھذا الحدیث لا یصح من قبل اسنادہ ( یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے ) کے تحت لکھتے ہیں ای من جھۃ اسنادہ وان کان صحیحا باعتبار معناہ ۔ تحفۃ الاحوذی 1/146 ۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اگرچہ اس کا معنیٰ ( مضمون ) صحیح ہے ۔ معلوم ہوا کہ کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود مضمون کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے جیسا کہ یہ مذکورہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے )کیونکہ اس حدیث تلقی بالقبول حاصل ہے کہ تمام امت نے بالاتفاق اس کے مضمون ( بیس رکعات تراویح ) کو عملی طور پر قبول کیا ہے ۔ خصوصا حضرات خلہفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور مسعود میں اس حدیث کو شرف قبولیت حاصل رہا ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےاس کے مضمون پر اجماع اور اتفاق کیا ہے ۔یہ بات خود غیر مقلدین کے اکابر کو بھی تسلیم ہے ۔ چنانچہ غیر مقلدین کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان صاحب یہ حقیقت بے چوں و چرا تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد عدوا ما وقع فی زمن عمر کالاجماع ( عون الباری 1/317 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو طریقہ بیس تراویح کا رائج ہوا اس کو علماء نے مثل اجماع کے شمار کیا ہے ۔ مولانا وحید الزماں غیر مقلد رقم طراز ہیں : کوئی یہ وہم نہ کرے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ( تراویح کی جماعت مقرر کرکے ۔ ناقل ) دین میں ایک بات شریک کردی جسکا اختیار ان کو نہ تھا ۔ اسی طرح بیس رکعات تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا ۔

حاشا وکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی ﷺ کا اتباع کیا ۔آنحضرت ﷺ کی حیات میں ایک ہی امام کے پیچھے سب نے تراویح پڑھی ۔ ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ایک ہی وقت آنحضرت ﷺ کے عھد میں کبھی نہیں ہوئیں ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور آنحضرت ﷺ کو بیس رکعتیں تراویح کی پڑھتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ گو ہم تک یہ روایت بہ سند صحیح نہیں پہنچی ۔ اس کی سند میں ابو شیبہ ابر ہیم بن عثمان منکر الحدیث ہے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اس سے بہت پہلے تھا ۔ ان کو بہ سند صحیح یہ پہنچ گئی ہوگی یا انہوں نے خود دیکھا ہوگا ۔ ( لغات الحدیث مادہ وزغ )

مولانا میاں غلام رسول صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ اربعہ اور مسلمانوں کی عظیم جماعت کا عمل یہ ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لیکر اس وقت تک مشرق و مغرب میں تئیس 23 ) بیس 20 تراویح اور تین 3 وتر ) ہی پڑھتے ہیں ، ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 28 )ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود تعامل اور توارث سے مؤید ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت مسلمہ کی طرف سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے وہ سند کے اعتبار سے کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو پھر بھی وہ قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے ۔ چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : بعض ضعف ایسے بھی ہیں جو امت کی تلقی بالقبول سے رفع ہوگئے ہیں ۔ ( اخبار اہلحدیث 19 اپریل 1907 بحوالہ رکعات تراویح ص61)

فتاوی علمائے حدیث میں ہے ۔ ضعیف حدیث جبکہ قرون مشہود لھا بالخیر ( خیر القرون ۔ناقل ) میں معمول بہ ہو وہ امت کے ہاں مقبول ہے ۔ (فتاوی علمائے حدیث 6/74) نواب صدیق حسن خان صاھب غیر مقلد لکھتے ہیں : اگر کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف بھی ہو لیکن اس کے مضمون پر پوری امت کا عمل ہو تو اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو ضعیف کہنے والے علماء بھی اس پر عمل کرتے ہیں ۔ (الروضۃ الندیہ ص6 )

علامہ ابن حزم ظاہری غیر مقلد لکھتے ہیں : جب کوئی مرسل حدیث ہو یا کوئی ایسی حدیث ہو جس کے راوی میں ضعف ہو اور ہم دیکھیں کہ سب لوگوں کا اس پر اجماع ہے اور سب اس کے قائل ہیں تو یقینا ہم یہ جان لیں گے کہ وہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ( توجیہ النظر ص 50 بحوالہ تسکین الصدور ص33 )

قاضی محمد شوکانی غیر مقلد ایک حدیث کی تحقیق میں امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : یہ ایسی حدیث ہے کہ اس کے قبول کرنے پر فقہاء نے بالاتفاق اس حدیث کو قبول کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے جیسا کہ فقہاء نے لا وصیۃ لوارث والی روایت کو قبول کرکے اس سے احکام مستنبط کیے ہیں حالانکہ اس کی سند میں جو ضعف ہے وہ ظاہر ہے ۔ ( نیل الاوطار 5/238 )

مولانا اسماعیل سلفی صاحب غیر مقلد ( سابق ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ) ابن ماجہ کی ایک ضعیف روایت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد قبل جمہور الامۃ روایۃ ابن ماجہ مع ضعفھا ۔ ابن ماجہ کی اس حدیث کو ضعیف ہونے کے باوجود جمہور امت نے قبول کیا ہے ۔ ( حرکۃ انطلاق الفکری ص441 ) پس جب اکابرین غیر مقلدین کو بھی تسلیم ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور ان کو یہ بھی اقرار ہے کہ اگر کوئی حدیث ضعیف بھی ہو تو تلقی بالقبول کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ حدیث خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں بھی بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بعض غیر مقلدین تو ابو شیبہ کی روایات کو موضوع تک قرار دیتے ہیں جبکہ غیر مقلدین کا ابرہیم ابو شیبہ کی روایات کو موضوع کہنا باطل ہے ۔ اولا ۔ آج تک کسی بھی معتبر اور ثقہ محدث نے اس کو موضوع نہیں کہا ورنہ دلیل پیش کی جائے ۔ دیدہ باید ۔ ثانیا ۔ ابو شیبہ کی کم از کم ایک روایت ترمذی میں بھی موجود ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محقق مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب نے تصریح کی ہے کہ ترمذی میں ایک بھی موضوع حدیث نہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : قلت الاحادیث الضعاف موجودۃ فی جامع الترمذی و قد بین الترمذی نفسہ ضعفھا وابان علتھا و اما وجود الموضوع فیہ فکلا ثم کلا ۔ میں کہتا ہوں کہ ضعیف حدیثیں ترمذی میں موجود ہیں اور خود ترمذی نے ان کا ضعف بیان کیا ہے اور ان کی علت کو ظاہر کیا ہے ۔ باقی رہا اس میں موضوع حدیث کا وجود تو وہ ہرگز ہرگز نہیں ہے ۔ پس جب ترمذی میں ایک بھی حدیث موضوع نہیں ہے تو پھر ابو شیبہ کی احادیث کیسے موضوع ہیں حالانکہ اس کی حدیث بھی ترمذی میں موجود ہے ۔( تحفۃ الاحوذی 1/181 )

دلیل نمبر2:روی الامام المورخ أبو القاسم حمزة بن يوسف السهمي الجرجاني (م427ھ): حدثنا أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد القصري الشيخ الصالح رحمه الله حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال أخبرني محمد بن حميد الرازي حدثنا عمر بن هارون حدثنا إبراهيم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتيك عن جابر بن عبد الله قال خرج النبي صلى الله عليه و سلم ذات ليلة في رمضان فصلى الناس أربعة وعشرين ركعة وأوتر بثلاثة ۔ اسنادہ حسن و رواتہ ثقات۔(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)

فائدہ: اس روایت میں چار رکعت فرض، بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔

اعتراض: اس میں دو راوی ہیں؛ محمد بن حميد الرازی اور عمر بن ہارو ن البلخی اور دونوں ضعیف ہیں۔

جواب: یہ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں۔

محمد بن حميد الرازی : (م248ھ)

آپ ابوداود ،ترمذی، ابن ماجہ، کے را وی ہیں ۔

( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)

اگرچہ بعض محدثین سے جر ح منقول ہے لیکن بہت سے جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل و تو ثیق اور مدح بھی فر ما ئی ہےمثلا

1 ۔ امام احمدبن حنبل :وثقہ (ثقہ قراردیا )۔

(طبقات الحفاظ للسیوطی ج:1ص:40)

اور ایک بار فر ما یا ”لایزال با لری علم مادام محمد بن حمید حیاً“۔(جب تک محمد بن حمید زند ہ ہیں مقام ری میں علم با قی رہے گا )

(تہذیب الکمال للمزی ج:8ص:652)

2 ۔ امام یحی بن معین: ثقۃ ،لیس بہ باس، رازی کیس [ثقہ ہے اس احا دیث پر کو ئی کلام نہیں ، سمجھ دار ہے] (ایضاً)

3 ۔ امام جعفر بن عثمان الطیالسی: ثقۃ۔( تہذیب الکمال ج:8ص:653

4 ۔ علامہ ابن حجر :الحافظ [حافظ ہے]۔

( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)

5 ۔ علامہ ہیثمی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ” وفی اسناد بزار محمد بن حمید الرازی وھو ثقۃ “[بزاز کی سند میں محمد بن حمید الرازی ہے اور وہ ثقہ ہے ]۔

(مجمع الزوائد ج:9ص:475)

چونکہ اس پر کلام ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے،لہذا اصولی طور پر یہ حسن درجہ کا راوی ہے ۔

عمر بن ہارو ن البلخی : (م294ھ)

آپ ترمذی اور ابن ماجہ کے را وی ہیں۔ بعض حضرات نے جر ح کی ہے لیکن بہت سے ائمہ نے آپ کی تعدیل وتوثیق اور مدح وثناء میں یہ الفا ظ ارشاد فر ما ئے ہیں

”الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“[علم کا خزانہ تھے ]کثیر الحدیث ، وارتحل [حصول علم کے اسفار کئے ] ثقۃ ،مقارب الحدیث ۔

(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152،تہذیب التہذیب ج:4ص:315تا317)

لہذا اصولی طور پر آپ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں ۔

٣) حدیث: انہ ﷺ صلی بالناس عشرین رکعة لیلتین فلما کان فی اللیلة الثالثہ اجتمع الناس فلم یخرج اليہم، ثم قال من الغد وخشیت ان تفرض عليکم فلا تطیقوھا متفق علی صحتہ۔ (تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثرىہ)؛


ترجمہ: آپ ﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپﷺ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



































No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...