Sunday 18 April 2021

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

0 comments

 عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)


عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دُنیا سے تو جانا ہے​

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سزا موت ہے مسلم ہو یا غیر مسلم


گستاخِ رسول کی سزا قرآن وحدیث اور اقوال ائمہ کے مطابق کیا ہے۔ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ابھی عشق رسول کی چنگاری زندہ ہے ؟ جن کے جذبے ابھی سرد نہیں پڑے ۔ جو لوگ اب بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سینے میں سجائے ہوئے ہیں ۔


توہین رسالت کی سزا قرآن پاک کی روشنی میں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرۃ واعد لھم عذاباً مھیناً (الاحزاب ،۵۷) ’’بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔ دوسرا فرمان مبارک ہے : والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (التوبہ ،۶۱) ’’جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ تیسر ی جگہ فرمایا : ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا (الاحزاب ،۶۱) ’’پھٹکارے ہو ئے جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کئے جائیں ‘‘۔


توہین رسالت کی سزا احادیث مبارکہ کی روشنی میں


بخاری اور مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے واقعۂ افک کے بارے میں خطبہ دیا اور تہمت لگانے والے عبد اللہ بن ابی سلول کے بارے میں فرمایا من یعدرنی من رجل بلغنی اذاہ فی اھلیکون میری جان چھڑا ئے اس آدمی سے جس نے میری اہلیہ کے بارے میں مجھے ایذا دی ہے ،تو قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ص نے عرض کیا یا رسول اللہ بندہ حاضر ہے اگر وہ اوس میں سے ہوا تو اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں سے ہے تو ہم ان سے اس پر عمل کا کہیں گے ۔ (البخاری ، ۴۱۴۱،چشتی)


حضرت سعد کا قول واضح طور پر دلیل ہے کہ موذی کا قتل مسلم تھا اور پھر حضور ا نے بھی ان کی بات کو ثابت رکھا یہ نہیں فرمایا کہ اس کا قتل نا جائز ہے ۔ فتح مکہ کے دن آپ ا نے ابن ابی سرح کے قتل اور عبد اللہ بن حلال بن خطل اور مقیس بن صبابہ کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا اگرچہ انہوں نے غلاف کعبہ کے نیچے پناہ لی ہو ، اس طرح حویرث بن نقید ، ھبار بن اسود ، ابن زبعری ، عکرمہ بن ابی جہل ، وحشی ، ابن خطل کی دو لونڈیاں فرتنا اور ارنب ، عمرو بن ہاشم کی لونڈی سارہ ،یہ تما م قتل ہوئے البتہ ابن ابی سرح ، ھبار بن اسود، ابن زبعری ، عکرمہ ، وحشی وفرتنا اسلام لے آئے ۔ حضرت انس ص سے ہے کہ ایک نصرانی اسلام لایا اور وہ حضور ا کا کاتب مقرر ہوا پھر وہ نصرانی ہو گیا اور وہ کہتا محمد(ا) اتنا ہی جانتے ہیںجتنا میں لکھ دیتا وہ مر گیا لوگوں نے دفن کیا تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا ، کہنے لگے یہ حضور ا کے صحابہ کا عمل ہے جنہوں نے اسے قبر سے نکال کر پھینک دیا انہوں نے اس کے لئے خوب گہری قبر کھودی اور دبا دیا مگر جب صبح ہو ئی دیکھا تو اس نے اسے باہر پھینک دیا تو سمجھ گئے یہ کسی کا عمل نہیں ۔(البخاری)


امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب اوس نے ابن اشرف کو قتل کیا تو خزرج نے بھی ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو رسول اللہا کی عداوت میں اس کی مثل تھا اور وہ خبیر میں ابن ابی الحقیق تھا انہوں نے اس کے قتل کی آپ ا سے اجازت چاہی تو آپ ا نے اجازت دے دی ۔ اس کے قتل کا واقعہ بخاری میں معروف ہے ۔ امام ابو دائود نے ، باب الحکم فیمن سبب النبی ا میں یہ روایت ذکر کی ہے، حضرت عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ، ایک نابینا آدمی کی ام دلد (لونڈی ) سرور عالم ا کی گستاخی کیا کرتی اس کے منع کے باوجود وہ باز نہ آئی ، اس نے اسے خوب ڈانٹا مگر وہ کہاں سمجھنے والی تھی ، ایک رات جیسے ہی اس نے گستاخی شروع کی تو آدمی نے اس کے پیٹ پر سوا ر کھ کر دبایا اور اسے قتل کر دیا اس کا بچہ قدموں میں گرا اور وہیں خون میں لت پت ہو گی ۔ صبح حضور اکی خدمت میں کیس آیا آپ ا نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا میں اسے اللہ کی قسم یاد دلاتا ہوں بتائے جس نے یہ عمل کیا ، نابینا صحابی کھڑے ہو ئے ، حالت اضطراب میں لوگوں کو پھلانگتے آپ ا کے سامنے حاضر ہو گئے ، عرض کیا یا رسول اللہ ا میں اس کا مالک ہوں یہ آپ کے بارے میں بکواس وگستاخی کیا کرتی ، میں نے روکا ، منع کیا مگر یہ باز نہ آئی ، اس سے میرے دو موتیوں کی طرح بیٹے ہیں اور یہ میری رفیقہ تھی گذشتہ رات اس نے جب گستاخی کا سلسلہ شروع کیا تو سُوا لے کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا حتیٰ کہ ختم ہو گئی ، آپ ا نے فرمایا :الا اشھدوا ان دمھا ھدر گواہ ہو جائو اس کا خون ضائع ہے۔ (سنن ابو دائود ،۴۳۶)(سنن نسائی ،۷:۱۰۷) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے ایک خطمی عورت نے آپ ا کی ہجو کی تو فرمایا کون ہے جو اسے سنبھالے ؟اسی کی قوم سے ایک آدمی نے عرض کیا ، یا رسول اللہ میں حاضر ہوں ، اس نے جا کر اسے ٹھکانے لگا دیا حضور ا کو اطلاع دی گئی تو فرمایا : لا ینطح فیھا عنزان (الکامل لابن عدی،۲:۱۴۵،چشتی) ’’اس میں کسی کو اختلاف اور نزاع نہیں ‘‘۔


امام واقدی رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ بدر کے آخر میں اشعار نقل کرتے ہو ئے لکھا مجھے عبد اللہ بن حارث نے اپنے والد سے بیان کیا ، عصماء بنت مروان یزید بن زید حصن خطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہا کو اذیت دیتی تھی ، اسلام پر طعن اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت پر ابھارنے کے لئے شعر کہتی ، حضرت عمیر بن عدی بن خرشہ بن امیہ خطمی رضی اللہ عنہ کو اس بارت میں خبر ہو ئی تو انہوں نے یہ نظر مانی اے اللہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بدر سے با خیر یت مدینہ آجائیں گے تو میں اسے ضرور ٹھکانے لگائوں گا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جیسے ہی واپس آئے حضرت عمیر بن عدی رات کو اس کے ہاں داخل ہو گے وہاں اس کے ارد گرد بچے سوئے ہو ئے تھے ایک بچہ دودھ پی رہا تھا اسے ہاتھ سے پیچھے کیا اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے ۔ نمازصبح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ادا کی جیسے ہی آپ ا نے سلام پھیرا ، حضرت عمیر کو بلا کر فرمایا اقتلت بنت مروان ؟ بنت مروان کو تم نے ٹھکانے لگایا ہے ؟ عرض کیا ، میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر فدا ، میں نے کیا ہے ، ساتھ ڈرے کہ میں نے بغیر پوچھے ایسا کر دیا ہے عرض کیایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھ پر کچھ لازم تو نہیں ؟ فرمایا لا ینتطح فیھا عنزان ’’اس میں تو دوسری کوئی رائے ہی نہیں ‘‘پھرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی’’اگر تم ایسا شخص دیکھنا چا ہو جس نے غائبانہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ا کی خدمت کی تو عمیر بن عدی کو دیکھو ‘‘۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی فرمایا ، اسے کون ٹھکانے لگائے گا ، حضرت خالد ص نے عرض کیا بندہ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ (مصنف عبد الرزاق )


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک یہودی عورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کیا کرتی تھی ۔ ایک شخص نے اسے قتل کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا ۔ ( سنن ابی داؤد)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی اور ایک منافق فیصلے کیلئے آئے ۔ ان دونوں کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہلے فرما چکے تھے لیکن منافق نے حضور ا کے فیصلے تو تسلیم نہ کیا تو حضرت عمرص نے اس منافق کی گردن اڑا دی ۔ مقتول کے ورثاء نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کوئی قصاص مقرر نہ فرمایا ۔ بلکہ آپ کو اسی واقعہ کے بعد ’’فاروق‘‘ کا لقب عطا کیا گیا ۔ گستاخ رسول کی سزا آئمہ امت و بزرگان دین کی نظر میں : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم او شتمہ او عابہ او تنقصہ قتل مسلما کان او کافرا ولا یسطاب (الصارم المسلول ص ۵۲۶،چشتی)

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسلم ہو یا غیر مسلم واجب القتل ہے اس پر اجماع امت ہےیہ صدرِ اول کے مسلمانوں یعنی صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا  اجماع ہے۔(الصّارم المسلول مترجم صفحہ نمبر 23 )

جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں تحقیر و تنقیص کا ارتکاب کیا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کر دیا جائے گا اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔


امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل من شتم النبی او تنقصہ مسلما کان او کافرا فعلیہ القتل ۔ (الصارم المسلول ص ۵۲۵)

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وایما رجل مسلم سب رسول ا او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر با اللہ وبانت منہ زوجہ ۔ (کتاب الخراج ص ۱۸۲) ترجمہ : کوئی بھی مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دے یا آپ کی تکذیب کرے یا عیب جوئی کرے یا آپ کی شان میں کمی کرے اس نے یقینا اللہ کا انکار کیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ (جد ا ہو گئی) ۔


قاضی عیاض علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں : ہر شخص جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی اور آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس کے متعلق اور نسب وحسب اور آپ کے لائے ہو ئے دین اسلام یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عادات کریمہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص وکمی منسوب کی یا اشارۃً کنائۃً آپ کی شان اقدس میں نا مناسب وناموزوں بات کہی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی شے سے گالی دینے کی طریق پر تشبیہہ دی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان وعظمت وتقدس اور رفعت کی تنقیص وکمی چاہی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام و مرتبے کی کمی کا خواہش مند ہو یا عیب جوئی کی تو فھو سب والحکم فیہ حکم الساب لیقتل ۔ (الشفا ء ج ۲ ص ۲۲) ’’یہ شخص سب وشتم کرنے والا ہے اس میں گالی دینے والے کا حکم ہی جاری ہو گا اور وہ یہ کہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ امام احمد بن سلمان نے فرمایا : من قا ل ان النبی کان اسود یقتل (الشفا ء ج ۲ ص ۶۳۹) ’’جس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رنگ سیاہ ہے وہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔


امام ابو بکر بن علی نیشا پوری فرماتے ہیں : اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی یقتل قال ذالک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مذہب الشافعی وھو منتھیٰ قول ابی بکر ۔ (الصارم المسلول درالمختار ۲۳۲) ’’سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے نبی اکرم ا کو سب وشتم کیا وہ قتل کیا جائے گا ۔ جن آئمہ کرام نے یہ فتوی دیا ان میں امام مالک امام لیث امام احمد وامام اسحاق شامل ہیں یہی امام شافعی کا مذہب ہے اور یہی حضرت ابو بکر صدیق کے قول کا مدعا ہے ‘‘۔ تنویر الابصار اور در مختار فقہ حنفی کی بڑی مستند کتابیں ہیں ان میں یہ عبارت در ج ہے : کل مسلم ارتدفتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب نبی من الانبیاء فانہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقاً ‘‘(در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۱) ’’جو مسلمان مرتد ہو اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر ومرتد کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کو گالی دے تو اسے حداً قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی ‘‘۔


امام ابن سحنون مالکی نے فرمایا : اجمع المسلمون ان شاتمہ کافر وحکمہ القتل ومن شک فی عذابہ وکفرہٖ کفر (در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۳) ’’مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ حضور نبی ا کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کا حکم قتل ہے جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ کافر ہے ‘‘۔


امام ابن عتاب مالکی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے ادبی اور گستاخی کرنے والے کے لئے سزائے موت کا فتویٰ دیا ہے : الکتاب والسنۃ موجبان ان من قصد النبی باذی او نقص معرضا او مصر حاوان قل فقتلہ واجب فھدا الباب کلہ مماعدہ العلماء سبا او تنقصا وجب قتل قائلہ لم یختلف فی ذالک متقدمھم ولا متاخرھم ۔ ’’قرآن وسنت اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایذا کا ارادہ کرے صریح وغیر صریح طور پر یعنی اشارہ وکنایہ کے انداز میں آپ کی تنقیص کرے اگرچہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو ایسے شخص کو قتل کرنا واجب ہے اس باب میں جن جن چیزوں کو آئمہ وعلماء کرام نے سب وتنقیص میں شمار کیا ہے آئمہ متقدمین ومتاخرین کے نزدیک بالاتفاق اس کے قائل کا قتل واجب ہے ‘‘۔


امام ابن الھمام حنفی کا فتوی : والذی عند ی من سبہ او نسبہ مالا ینبغی الی اللہ تعالیٰ وان کانوا لا یعتقد ونہ کنسبۃ الولدالی اللہ تعالیٰ وتقدس عن ذالک اذا اظھرہ یقتل بہ وینتقض عھدہ ۔ (فتح القدیر ج ۵ ص ۳۰۳) ’’میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ ذمی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا غیر مناسب چیز اللہ تعالیٰ کی طر ف منسوب کی جو کہ ان کے عقائد سے خارج ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹے کی نسبت حالانکہ وہ اس سے پاک ہے جب وہ ایسی چیز کا اظہار کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس کا عہد ٹوٹ جائے گا ‘‘۔


امام ابو سلیمان خطابی کا فتویٰ : لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما ۔ (الشفاء ۲ ص ۹۳۵) ’’میں مسلمانوں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں جانتا جس نے گستاخ رسول کی سزائے قتل کے واجب ہو نے میں اختلاف کیا ہو جبکہ وہ مسلمان بھی ہو ۔


ا بو بکر الجصاص کا فتوی : ولا خلاف بین المسلمین ان من قصد النبی صلی اللہ بذالک فھو فمن ینتحل الاسلام انہ مرتد یستحق القتل ۔ (احکام القرآن للجصاص ج ۳ ص ۱۰۹،چشتی) ’’مسلمانوں کے مابین اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جس نے رسول اللہ ا کی اہانت وایذا کا قصد کیا حالانکہ وہ خود کو مسلمان بھی کہلواتا ہو تو ایسا شخص مرتد اور مستحق قتل ہے ۔


امام حصکفی کا فتویٰ : من نقص مقام الرسالۃ بقولہ بان سبہ او بفعلہ بان بغضہ بفعلہٖ قتل حدا (درالمختار ۴ص ۲۳۲) ’’جس شخص نے مقام رسالت مآب ا کی تنقیص وتحقیر اپنے قول کے ذریعے بایں صورت کہ آپ کو گالی دی یا اپنے فعل سے اس طرح کہ دل سے آپ سے بغض رکھا تو وہ شخص بطور حد قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : واذا کان کذالک وجب علینا ان ننصر لہ ممن انتھک عرضہ والانتصار لہ با لقتل لان انتھاک عرضہ انتھاک دین اللہ (الصارم المسلول ص ۲۱۱) ’’اور جب یہ حقیقت ہم پر لازم ہے کہ حضور ا کی خاطر اس شخص کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں جو آپ کی شان میں گستاخی کرے اور احتجاج یہ ہے کہ اسے قتل کردیں اس لئے آپ ا کی عزت کو پامال کر نا اللہ کے دین کی اہانت کرنا ہے ‘‘۔


فتاوٰی حامدیہ میں ہے : فقد صرح علماء نافی غالب کتبھم بان من سب رسول اللہ ا أو احدا ً من الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام وااستخف بھم فانہ یقتل حدا ولا توبۃ لہ اصلاً سواء بعد القدرۃ علیہ والشھادۃ او جاء تایباً من قبل نفسہ لا تہ حق تعلق بہ حق البعد فلا یسقط بالتوبۃ کسائر حقوق الآدمیین ووقع فی عبارۃ البزازیہ ولو عاب نبیاً کفر (فتاوٰی حامدیہ صفحہ ۱۷۳) ’’ہمارے علماء کرام نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرے یا انبیاء کرام میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے ۔ یا ان کا استخفاف کرے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا ۔ اس کی توبہ اصلاً قبول نہیں ۔ خواہ گرفتار ہونے اور شہادت پیش ہونے بعد توبہ کرے یا گرفتاری اور شہادت سے قبل از خود توبہ کر لے بہر صورت اس کی توبہ مقبول نہیں ۔ کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کے ساتھ حق عبد متعلق ہو چکا ہے ۔ لہذا انسانوں کے تمام حقوق کی طرح یہ حق بھی توبہ سے ساقط نہیں ہو گا اور بزازیہ کی عبارت میں ہے جو شخص کسی نبی پر عیب لگائے وہ اس کے سبب کا فر ہو جائے گا ‘‘۔


گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل پر صحابہ کا اجماع


علامہ ابن تیمیہ مذکورہ مسئلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اجماع کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ اما اجماع الصحابہ فلان ذالک نقل عنھم فی قضا یا متعددۃ ینتشر مثلھا ویستفیض ولم ینکر ھا احد منھم فصارت اجماعا (الصارم المسلول ۲۰۰) ’’مذکورہ مسئلے پر اجماع صحابہ کا ثبوت یہ ہے کہ یہی بات گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم واجب القتل ہے ان کے بہت سے فیصلوں سے ثابت ہے مزید برآں کہ ایسی چیز مشہور ہو جاتی تھی لیکن اس کے باوجود کسی صحابی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا جو اس کی بین دلیل ہے ‘‘۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں : من اذی رسول اللہ بطعن فی شخصہ ودینہ او نسبہ او صفتہ من صفاتہ او بوجہ من وجوہ الشین فیہ صراحۃ وکنایۃ او تعریضا او اشارۃ کفرو لعنھم اللہ فی الدنیا واعد لہ عذاب جہنم (۱ تفسیر مظہری ج ۷ صفحہ ۳۸۱) ’’جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اشارۃ وکنائۃ صریح وغیر صریح طریق سے عیب کی جملہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صفات میں سے کسی ایک صفت میں ، آپ کے نسب ، میں آپ کے دین میں یا آپ کی ذات مقدسہ کے متعلق کسی قسم کی زبان طعن دراز کی تو وہ کافر ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اس پر لعنت کی اور اس کے لئے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔


اندلس کے فقہائے اسلام نے ابن حاتم طلیلی کو قتل کرنے اور سولی چڑھانے کا فتویٰ دیا کیونکہ اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں بے ادبی وگستاخی وتحقیر تنقیص اور اتخفاف کا مرتکب ہونے کی معتبر شہادتیں موصول ہوئی تھیں ۔ اس نے ایک مناظرے کے دوران گستاخانہ لہجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یتیم اور ختن حیدر (حضرت علی ) کا سسر کہا تھا ۔


جمیع امت مسلمہ کا فیصلہ


امام ابو بکر الفارسی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کرنے والے کو حد قتل کرنے کو اجماع امت کا قول کہا ہے : قد حکیٰ ابو بکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی القتل کما ان حد من سب غیرہ الجلد وھذا لا جماع الذی حکاہ محمول علی الصدر الاول من الصاحبۃ والتابعین اوانہ ارادا جماعھم علی ان ساب النبی یجب قتلہ اذا کان مسلما (الصار م المسلول ۳)

امام ابو بکر فارسی رحمۃ اللہ علیہ جو اصحاب شافعی میں سے ہیں انہوں نے امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع بیان کیا ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی تو اس کی سزا حد اً قتل ہے جس طرح کہ کسی غیر نبی کو گالی دینے والے کی سزا (حد ) کوڑے لگانا ہے یہ اجماع صدر اول کے یعنی صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجماع پر محمول ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہے تو اس کے وجوب قتل پر اجماع ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخوں کا انجام


ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﺍﺑﯽ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ " ﺣﻀﻮﺭصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺑﺸﺮ ﻣﻨﺎﻓﻖ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہ ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﺍﺭﻭﮦ ( ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ") ﮐﺎﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﮔﻼ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺩﯾﺎ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ " ﺩﻭ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﻣﻌﺎﺫ ﻭ ﻣﻌﻮﺫ رضی اللہ عنہما ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﺍﻣﯿﮧ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ " ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۲ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﺣﺎﺭﺙ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضٰ اللہ عنہم ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۲ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﻋﺼﻤﺎ (ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ") ایک ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﻦ ﻋﺪﯼ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۲ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺍﺑﻮ ﻋﻔﮏ " ﺣﻀﺮﺕ ﺳﺎﻟﻢ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﮐﻌﺐ ﺑﻦ ﺍﺷﺮﻑ " ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﻧﺎﺋﻠﮧ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝؐ "ﺍﺑﻮﺭﺍﻓﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ؓ ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﺍﺑﻮﻋﺰﮦ ﺟﻤﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺻﻢﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻃﻼﻝ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻣﻌﯿﻂ " ﺣﻀﺮﺕﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۲ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺍﺑﻦ ﺧﻄﻞ " ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﺮﺯﮦ رضی اللہ عنہم ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺣﻮﯾﺮﺙ ﻧﻘﯿﺪ"ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﻗﺮﯾﺒﮧ ( ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺑﺎﻧﺪﯼ ") ﻓﺘﺢﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔

ایک ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺷﺨﺺ ( ﻧﺎﻡ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ) ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺭﯾﺠﯽ ﻓﺎﻟﮉ (ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ") ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

" ﯾﻮﻟﻮ ﺟﯿﺌﺲ ﭘﺎﺩﺭﯼ " ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦﺍﻧﺪﻟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺭﺍﺟﭙﺎﻝ " ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﻧﺘﮭﻮﺭﺍﻡ " ﻏﺎﺯﯼ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ "ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺭﺍﻡ ﮔﻮﭘﺎﻝ " ﻏﺎﺯﯼ ﻣﺮﯾﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۶ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﭼﺮﻥ ﺩﺍﺱ " ﻣﯿﺎﮞ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﮩﯿﺪ رحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۷ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﺷﺮﺩﮬﺎ ﻧﻨﺪ " ﻏﺎﺯﯼ ﻗﺎﺿﯽﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۲۶ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﭼﻨﭽﻞ ﺳﻨﮕﮫ " ﺻﻮﻓﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۸ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ " ﻣﯿﺠﺮ ﮨﺮﺩﯾﺎﻝ ﺳﻨﮕﮫ " ﺑﺎﺑﻮﻣﻌﺮﺍﺝ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۲ ﻣﯿﮟﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ، ﺣﺎﺟﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺎﻧﮏ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۶۷ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞہوا-

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ بھوﺷﻦ ﻋﺮﻑ ﺑﮭﻮﺷﻮ ﺑﺎﺑﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻨﺎﻥ رحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۷ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﮐﮭﯿﻢ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﻈﻮﺭﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۱ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﯿﻨﻮ ﻣﮩﺎﺭﺍﺝ  ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺨﺎﻟﻖ قرﯾﺸﯽ رحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۶ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

گستاخ رسول ﻟﯿﮑﮭﺮﺍﻡ ﺁﺭﯾﮧ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ رحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﻭﯾﺮ ﺑﮭﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ مسلمان رحمۃ اللہ علیہ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۵ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ ۔


برصغیر کے مسلمانوں کیلئے وہ وقت بہت سخت تھا جب ایک طرف انگریز اپنی حکمرانی کے نشے میں مست ان پر ہر طرح کے ظلم ڈھارہا تھا تو دوسری طرف ہندو بنیا سیکڑوں برس کی غلامی کا بدلہ چکانے کیلئے تیار بیٹھا تھا ۔ جب ہندوﺅں اور انگریزوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب مسلمان تھک چکا ہے اور اس بے بس و بے کس مخلوق سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تو انہوں نے اپنی خباثت ِباطنی کا آخری مظاہرہ شروع کردیا۔ ہر سمت سے شانِ رسول میں ہر روز نت نئی شکل میں گستاخی کی خبروں نے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ بجھی ہوئی راکھ تلے عشق و وفا کی وہ چنگاریاں ابھی سلگ رہی ہیں جو بھڑکیں گی تو سب گستاخوں کو اپنے ساتھ بھسم کردیں گی ۔


پھر دنیا نے دیکھا کہ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں ان غیور اہلِ ایمان نے نہ تو گھربار کو آڑے آنے دیا نہ ان کی بے بسی ان کا راستہ روک سکی، نہ یہ وقت کی عدالتوں، جیلوں اور ہتھکڑیوں سے گھبرائے۔ ایسے ہی خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اُن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرأت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا : ”اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تےتَرکھاناں دَا مُنڈا بازی لے گیا‘‘ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا ۔،چشتی)


 فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ

 

غازی علم دین رحمۃ اللہ علیہ 8 ذیقعدہ 1366ء بمطابق 4 دسمبر 1908ء کو لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ نجاری (بڑھئی) ان کا پیشہ تھا ۔ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے ۔ وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے۔ بڑا بیٹا محمد دین تو پڑھ لکھ کر سرکاری نوکر ہوگیا لیکن علم دین نے موروثی ہنر ہی سیکھا۔ علم دین نے بچپن ہی میں بعض ایسے واقعات دیکھے جن کے نقوش ان کے دماغ پر ثبت ہوئے اور ان کی کردار سازی میں کام آئے۔ ماموں کی بیٹی سے منگنی تک علم دین کوگھر اورکام سے سروکار تھا۔ باہر جو طوفان برپا تھا اس کی خبر نہ تھی۔ اُس وقت انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ گندی ذہنیت کے شیطان صفت راجپال نامی بدبخت نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ایک دل آزارکتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے ۔ حکومت کو راجپال کے خلاف مقدمہ چلانے کو کہا گیا، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالعزیز اور اللہ بخش کو الجھا کر سزا دی گئی۔ الٹا چور سرخرو ہوا اور کوتوال کے ساتھ مل گیا۔ اخبارات چیختے‘ چلاّتے راجپال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جلسے ہوتے‘ جلوس نکلتے لیکن حکومت اور عدل وانصاف کے کان پر جوں نہ رینگی۔ مسلمان دلبرداشتہ تو ہوئے لیکن سرگرم عمل رہے۔،چشتی،

دلّی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا ۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی۔ علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلّی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راجپال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک اور مقررآئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے۔ یہ علم دین کی اپنی زبان تھی۔ تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے ہمارے پیارے رسول کی شان میں گستاخی کی ہے، وہ واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریرکا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی تائید کی کہ رسول کی ذات پر حملہ کرنے والے بداندیش کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے۔ وہ اپنے دوست شیدے سے ملتے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکرکرتے۔ لیکن پتا نہیں چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے؟ کہاں ہے اُس کی دکان؟ اورکیا ہے اس کا حلیہ؟ شیدے کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے۔ بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمود غوثؒ کے احاطہ میں مسلمانوں کا ایک فقیدالمثال اجتماع ہوا،۔ علم دین اپنے والد کے ہمراہ اس میں موجود تھے۔ اس تقریر نے بھی اُن کے دل پر بہت اثرکیا۔ اُس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ”تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاﺅس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا۔ معلوم ہوا کہ راجپال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔ اتنے میں راجپال کار پر آیا۔ کار سے نکلنے والے کے بارے میں کھوکھے والے نے بتایاکہ یہی راجپال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے ۔


راجپال ہردوار سے واپس آیا تھا، وہ دفتر میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لیے ٹیلی فون کرنے ہی والا تھا کہ علم دین دفترکے اندر داخل ہوئے۔ راجپال نے درمیانے قدکے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔ پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے ۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو ۔ مارگیا مارگیا ۔ غازی علم دین رحمۃ اللہ علیہ کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر 1929ء کو عمل درآمد ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپرد ِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔