Tuesday 13 April 2021

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیئے

0 comments

 اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیئے

محترم قارئینِ کرام : بہتر یہی ہے کہ افطار کرنے سے پہلے دعا پڑھی جائے ؛ کیوں کہ یہ دعا ہی افطار کے کھانے کے لئے بسم ﷲ کے حکم میں ہے اور ہر کھانے کی ابتدا بسم ﷲ سے کرنا مسنون ہے ، بریں بنا دعا پڑھ کر افطار کرنے کو خلافِ سنت نہیں کہہ سکتے ، باقی اگر کوئی شخص افطار کر کے مذکورہ دعا پڑھے تب بھی دعاء افطار کی سنت ادا ہوجائے گی ۔ اس کے متعلق دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں لہٰذا اس پر بحث مباحثہ نہ کیا جائے اگر کوئی پہلے پڑھے یا بعد میں سن ادا ہو جائے گی فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے یہ مختصر سا مضمون کچھ احباب کے بار بار اصرار پر لکھ دیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے افطار کے وقت پڑھی جانے والی تین دعائیں احادیث کی کتابوں میں وارد ہیں :

(1) اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ۔ ( ابوداود2358)

(2) ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ۔ ( ابوداود2357)

(3) أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ ۔ ( ابو داود 3854 وابن ماجہ 1747،چشتی)


عن معاذ بن زُهْرة، أنه بلغه أن النبيَّ صلَّى الله عليه وسلم كان إذا أفطر،قال : "اللَهُمَّ لك صُمْتُ،وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ"۔ ( ابوداود2358،چشتی) ۔ دارقطنی نے "سنن" 3/ 156 میں، اورحافظ ابن حجر نے"التلخيص الحبير" 2/ 202،میں سند کی تحسین کی ہے ۔ اور اس روایت میں راوی کے مشہور الفاظ اسی طرح ہیں (كان إذا أفطر) البتہ بعض کتب حدیث میں (إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ) کے الفاظ سے مروی ہے ، جیسے:محمد بن فضیل کی (کتاب الدعا 66) اورابن المبارک کی (کتاب الزہد1411) میں اس طرح ہے : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» ۔ دعا کے بھی مذکورہ بالاالفاظ ہی زیادہ مشہور ومعروف ہیں ، لیکن ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ 479،چشتی) میں قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر کئے ہیں : عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْتُ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْتُ» ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» ۔(الدعاء للطبرانی 918) ۔ ابن الشجری نے (الامالی 1213،چشتی) میں شروع میں بعض الفاظ کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت اس طرح ذکر کی ہے : عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، تَقَبَّلْهُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (سنن الدارقطنی 2280 ،ابن السني 481)۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (المعجم الکبیر للطبرانی 12720)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 9744،چشتی)

عن معاذ بن زہرۃ أنہ بلغہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰہم لک صمت وعلی رزقک أفطرت۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۲۱)۔ ومن السنۃ أن یقول عند الإفطار: اللّٰہم لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک أفطرت ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۰۰،چشتی)

(اذا افطر) سے مراد: اذا اراد الافطارہے، جیساکہ اس طرح کی روایات میں تاویل کی جاتی ہے ، ماضی کی اصل دلالت مراد نہیں ہوتی ہے۔

روزہ دار کی دعا کی قبولیت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے، روایتیں اس سلسلہ میں تین طرح کی ہیں : روزہ دار کی مطلقا دعا قبول ہوتی ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه قَالَ: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ( ثلاث دعوات مستجابات: دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر ). رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الدعاء(رقم1313)، وَالبَيْهَقِيُّ فِي الشعب (7463)

روزہ دار کی دعا افطار تک قبول ہوتی ہے: عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لا ترد دعوتهم: الصائم حتى يفطر، والإمام العادل، ودعوة المظلوم؛ يرفعها الله فوق الغمام، ويفتح لها أبواب السماء، ويقول الرب: وعزتي لأنصرنك ولو بعد حين) الترمذي في سننه (رقم 3598)، وابن ماجه (رقم 1752،چشتی)

روزہ دار کی عین افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے : عن عبدالله بن عمرو بن العاص يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( إن للصائم عند فطره لدعوة ما ترد ).قال ابن أبي مليكة: سمعت عبدالله بن عمرو يقول إذا أفطر : " اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي" .رَوَاهُ ابن مَاجَهْ(1753)، وابن السني فِي عمل اليوم والليلة(481). مالکیہ کی بعض کتابوں میں ہے کہ: قبولیت کی یہ گھڑی لقمہ منھ کی طرف اٹھانے اور منھ میں ڈالنے کے درمیان ہے، انظر الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (1/ 305،چشتی) ۔ تعامل بھی اسی پر ہے، اور افطار کے ہنگامہ میں دعا بھول جانا بھی بہت ممکن ہے، اس لئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے پڑھ لی جائے ۔

عبداللہ بن عَمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رِوایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا : اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدِ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃً مَّا تُرَدُّ ۔
ترجمہ : بے شک روزہ دار کے لئے اِفْطَار کے وَقْت ایک ایسی دُعاء ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی ۔ (الترغیب و الترہیب، ج٢، ص٥٣،حدیث٢٩،چشتی)

حضرت ابُوہرَیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا : تین شخصوں کی دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی ۔
(1) ایک روزہ دار کی بَوَقتِ اِفْطَار
(2) دُوسرے بادشاہِ عادِل کی اور
(3) تیسرے مظلُوم کی۔اِن تینوں کی دُعاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اُس کیلئے کُھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے ، مجھے میری عِزّت کی قَسَم!میں تیری ضَرور مَدَد فرماؤں گااگرچِہ کچھ دیر بعد ہو ۔

محترم قارئین : اِفْطَار کے وَقْت جو کچھ دُعاء مانگیں گے وہ دَرَجہ قَبولِیَّت تک پَہُنچ کررہے گی ۔ مگر افسوس کہ آج کل ہماری حالت کچھ ایسی عجیب ہوچُکی ہے کہ نہ پُوچھو بات ! اِفطَار کے وَقت ہمارا نَفس بڑی سَخت آزمائش میں پڑجاتا ہے ۔ کیونکہ عُمُوماً اِفطَار کے وَقت ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے پَھلوں ، کباب، سَمَوسَوں ، پکوڑوں کے ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شَربت کے جام بھی مَوجود ہوتے ہیں ۔ بُھوک اور پیاس کی شِدَّت کے سَبَب ہم نِڈھال تو ہوہی چکے ہوتے ہیں۔ بس جیسے ہی سُورج غُروب ہوا، کھانوں او رشربت پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعاء یادہی نہیں رہتی! دُعاء تَو دُعاء ہمارے بے شُمار اِسلامی بھائی اِفطَار کے دَوران کھانے پینے میں اس قَدَر مُنْہَمِک ہوجاتے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پُوری جَماعت تک نہیں مِلتی۔بلکہ مَعَاذَ اللّٰہ بَعْض تَو اِس قَدَرْ سُستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں اِفطَار کرکے وَہیں پر بِغیر جَماعت نَماز پڑ ھ لیتے ہیں ۔ تَوبہ ، تَوبہ ۔

جنّت کے طلبگارو : اتنی بھی غفلت مت کرو نَمازِ باجَماعت کی شَریعت میں نِہایت ہی سَخت تاکید آئی ہے ۔اور ہمیشہ یا د رکھو!بِلا کسی صحےح شَرعی مجبوری کے مسجِد کی پنج وَقْتہ نَماز کی جَماعت تَرک کردینا گُناہ ہے ۔

افطار کی احتیاطیں : بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ کھجور سے اِفطار کر کے فوراً اچّھی طرح مُنہ صاف کر لے اور نَمازِ باجماعت میں شریک ہوجائے ۔ آج کل مسجِد میں لوگ پھل پکوڑے وغیرہ کھانے کے بعد مُنہ کو اچّھی طرح صاف نہیں کرتے فوراًجماعت میں شریک ہو جاتے ہیں حالانکہ غِذا کا معمولی ذرّہ یا ذائِقہ بھی مُنہ میں نہیں ہونا چاہئے کہ ایک فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بھی ہے: کِراماً کاتِبِین ( یعنی اعمال لکھنے والے دونوں بُزُرگ فِرِشتوں) پر اس سے زےادہ کوئی بات شدید نہیں کہ وہ جس شخص پر مقرَّر ہیں اُسے اِس حال میں نَماز پڑھتا دیکھیں کہ اسکے دانتوں کے درمِیان کوئی چیز ہو ۔ (طبَرانی کبیر ،ج ٤، ص ١٧٧، حدیث٤٠٦١،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مُتَعَدَّد احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جب بندہ نَماز کو کھڑا ہوتا ہے فِرِشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے منہ سے نکل کر فِرِشتے کے منہ میں جاتا ہے اُس وَقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں میں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سَخت اِیذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے ،کہ مِسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نَماز میں قرا ء ت(قِرَا۔ءَ ت) کرتا ہے تو فِرِشتہ اپنا منہ اِس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتہ کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے ۔ (کنزُ العُمّال ،ج ٩، ص ٣١٩ ) ۔ اور طَبرانی نے کَبِیر میں حضرت ِ سیِّدُناابو ایُّوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ دونوں فِرِشتوں پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگِراں نہیں کہ وُہ اپنے ساتھی کو نَماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ ،ج ١، ص ٦٢٤تا ٦٢٥،چشتی)

مسجد میں افطار کرنے والوں کو اکثر مُنہ کی صفائی دشوار ہوتی ہے کہ اچّھی طرح صفائی کرنے بیٹھیں تو جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ صرف ایک آدھ کھجور کھا کرپانی پی لیں ۔ پانی کو مُنہ کے اندر خوبجُنبِش دیں یعنی ہلائیں تا کہ کھجور کی مٹھاس اور اس کے اجزا چھوٹ کر پانی کے ساتھ پیٹ میں چلے جائیں ضَرورتاً دانتوں میں خِلال بھی کریں۔ اگر مُنہ صاف کرنے کا موقع نہ ملتا ہو تو آسانی اسی میں ہے کہ صِرف پانی سے افطار کر لیجئے۔ مجھے اُن روزہ داروں پر بڑا پیار آتا ہے جو طرح طرح کی نعمتوں کے تھالوں سے بے نیاز ہو کر غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کی پہلی صف میں کھجور ، پانی لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اِس طرح افطار سے جلدی فراغت بھی ملے، منہ کو صاف کرنا بھی آسان رہے اور پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نَماز بھی نصیب ہو ۔

افطار کی دعاء : ایک آدھ کَھجور وغیرہ سے روزہ اِفطَار کرلیں اور پھر دُعاء ضَرور مانگ لیا کریں۔کم ازکم کوئی ایک دُعائے ماثُورَہ (قراٰن وحدیث میں جو دعائیں وارد ہو ئی ہیں انہیں دعائے ماثورہ کہتے ہیں ۔) ہی پڑھ لیں ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے جو مختلف اَوْقات پر جُدا جُدا دُعائیں مانگی ہیں اُن میں سے کم ازکم کوئی ایک دُعاء تَو یاد کرہی لینی چائیے ۔ اِسی کو پڑھ لینا چائے ۔ اِفطَار کے بعد کی ایک مشہُور دُعاء اوپر گُزر چُکی ہے ۔ اِس ضمن میں ایک اور رِوایَت مُلاحَظہ فرمائیے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم بَوَقتِ اِفطَار یہ دُعاء پڑھتے : اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ترجَمہ : اے اللہ عزوجل میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِز:ق سے اِفْطَار کیا ۔ (سنن ابوداو،د،ج٢،ص٤٤٧،حدیث٢٣٥٨،چشتی)

احادیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ : اِفطَار کے وَقت دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی ۔ بعض اَوقات قَبُولِیَّتِ دُعاء کے اظہار میں تاخِیر ہوجاتی ہے تَو ذِہن میں یہ بات آتی ہے کہ دُعاء آخِر قَبول کیوں نہیں ہوئی ، جبکہ حدیثِ مُبارَک میں تَو قَبولِ دُعاء کی بِشَارت آئی ہے ۔ بظاہِر تاخِیر سے نہ گھبرائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ گِرامی حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیِن علامہ نَقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اَحسَنُ الْوِعاءِ لِاٰدَابِ الدُّعائِ، ص ٧) پر نَقْل کرتے ہیں : دعاء کے تین فوائد ۔نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم فرماتے ہیں : دُعاء بندے کی ، تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی : (2) یا اُس کا گُناہ بخشا جاتا ہے ۔ یا (2) اُسے فائِدہ حاصِل ہوتا ہے ۔ یا (3) اُس کے لئے آخِرت میں بَھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخِرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گاجو دُنیا میں مُسْتَجاب (یعنی مَقبول ) نہ ہوئی تھیں تمنّا کرے گا ، کاش دُنیا میں میری کوئی دُعاء قَبول نہ ہوتی اورسب یہیں(یعنی آخِرت ) کے واسِطے جمع ہوجاتیں ۔ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْھِیْب ،ج٢،ص٣١٥)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔