Sunday, 4 April 2021

کون کب اور کہاں مرے گا ؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جانتے ہیں

 کون کب اور کہاں مرے گا ؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جانتے ہیں


حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ:یہ فلاں کافر کے مر نے کی جگہ ہے {یہ کہتے جاتے تھے} اور اپنے ہاتھ مبارک کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے تھے ، پھر کوئی کافر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بتا ئی ہو ئی جگہ سے ذرّا برابر بھی اِدھر اُ دھر نہیں مرا ۔ (صحیح مسلم مترجم جلد دوم صفحہ نمبر 671)،(صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر ،حدیث:۱۷۷۹)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ بھی معلوم تھا کہ کون کب اور کہاں مرے گا۔اور یہ بات غیب کی ہے ۔ لہٰذا اس سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب واضح طر یقے سے ثا بت ہوا ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک سفر سے آئے جب مدینہ شر یف کے قر یب پہونچے تو بڑے زور کی آندھی چلی یہاں تک کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قر یب ہو گیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : یہ آندھی ایک منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ شر یف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب صفات المنا فقین واحکامھم، حدیث نمبر:۲۷۸۲،چشتی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک منافق کے مرنے کی خبر دے دی اور یہ خبر بالکل صحیح ثابت ہو ئی یہی تو علم غیب ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ : حضرت زید،حضرت جعفراور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہم سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو بتا دیا تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے ۔ اب جھنڈا جعفر نے سنبھال لیا ہے ، اوروہ بھی شہید ہو گئے ۔ اب ابنِ رواحہ نے جھنڈا لیا ہے لیکن وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ بیان فر مارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چشمانِ مبارک سے آنسو کے قطرے ٹپک ر ہے تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار{خالد بن ولید} نے سنبھالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے ۔ (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ موتہ من ارض الشام،حدیث:۴۲۶۲)

یہ جنگ ملک شام میں لڑی گئی اور مجا ہدین اسلام سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں رہتے ہوئے وہاں کی ساری باتیں یہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کر دیا ۔ اور کسی صحابی نے اِس پر اعترا ض بھی نہ کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ مدینہ شر یف میں رہتے ہو ئے ملک شام میں ہو نے والے واقعے کے بارے میں کیسے خبر دے رہے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہ مانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہوں کے سامنے کوئی چیز آڑ نہیں بن سکتی اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی نگا ہوں کے سامنے ہو نے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اُسی طر ح دور دراز مقامات پر ہو نے والے واقعات کو بھی بغیر کسی ظا ہری ذریعے کے دیکھتے اور جانتے ہیں یہی تو غیب کا جاننا ہے ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ایک چٹیل میدان سے گزرے تو ایک مرا ہوا سانپ دیکھ کر فرمایا اس کو دفن کرنا مجھ پر لازم ہے پھر سانپ کو اٹھا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر اسے دفن کردیا تو اچانک کسی نے آواز دی اے سرق تم پہ اللہ کی رحمت ہے مگر کوئی نظر نہ آیا تو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ فرمایا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں ایک جن ہوں اور ( جسے دفن کیا ) وہ سرق ( جن ) ہے اور جنوں میں میرے اور اس کے علاوہ کوئی باقی نہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیعت کی ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا کہ اے سرق تم چٹیل میدان میں مروگے اور تمہیں میرا بہترین امتی دفن کریگا ۔ (دلائل النبوت, ج6,ص493, البدایہ والنہایہ ابن کثیر,ج6,ص234)
اس روایت سے معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ جانتے ہیں کہ کون کب اور کہاں مرے گا ۔ اور نبی کریم علیہ السلام یہ بھی جانتے ہیں کہ مرنے والے کو کون دفن کرے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ جانتے ہیں کہ پوری امت میں کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت ہے ۔

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعض ازواج مطہرات نے عرض کی کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ملے گا ( یعنی موت کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہو تو انہوں نے ایک زکل (لکڑی کو ) لیا اور اس کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا تھا تو بعد میں ہمیں پتا چلا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ کرنا ہے اور حضرت زینب رضی ا للہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے ملنے والی تھیں اور انہیں صدقہ کرنے سے بڑی محبت تھی ۔ (بخاری جلد اول صفحہ١٩١،چشتی)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اسی مرض میں بلا یا جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پھر بلایا پھر سرگوشی فرمائی تو وہ ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں میں نے ان سے سرگوشی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اس مرض میں وصال ہوجائے گا میں یہ سنکر روپڑی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے خبر دی کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے آؤں گی پس میں ہنس پڑی۔(بخاری جلد اول صفحہ٥٣٢)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ لرزنے لگا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اثبت احد فانما علیک نبی وصدیق و شھیدان یعنی اے احد ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (بخاری جلد اول صفحہ٥١٩)

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے قید کے ایک ساتھی سے فرمایا تھا تمہیں سولی دی جائے گی (یوسف : ٤١) اس کا معنی یہ ہے کہ آپ نے بتادیا کہ تمہیں پھانسی کے تختہ پر موت آئے گی، اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس کے مرنے کی جگہ کا علم تھا ۔

نیز حضرت عزرائیل (علیہ السلام) انسانوں کی روح قبض کرتے ہیں سو ان کو علم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس شخص کی روح کس جگہ قبض کرنی ہے ۔

علامہ محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں : روایت ہے کہ ملک الموت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے ، ان کی مجلس میں ایک شخص بیٹھے ہوئے تھے وہ ان میں سے ایک شخص کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے ، اس شخص نے حضرت سلیمان سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ ملک الموت ہے ، اس نے کہا لگتا ہے کہ یہ میری روح قبض کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے اڑا کرلے جائے اور ہندوستان کے کسی شہر میں پہنچا دے ، حضرت سلیمان نے ایسا کردیا ، پھر ملک الموت نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہا جو اس شخص کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس پر تعجب تھا کہ مجھے ہندوستان کے ایک شہر میں اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ یہاں آپ کے پاس موجود تھا۔(الکشاف ج ٣ ص ٥١٢‘مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٧ھ) ، علامہ ابو البرکات نسفی متوفی ٧١٠ ھ ، علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اور شیخ قنوجی علیہم الرّحمہ متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے ۔ (مدارک علی ھامش الخازن ج ٣ ص ٤٧٤،چشتی)(روح المعانی جز ٢١ ص ١٧٠‘ فتح البیان ج ٥ ص ٣١٢)

مشہور دیوبندی مولوی عاشق الہٰی میرٹھی لکھتے ہیں : جن دنوں نواب محمود علی خاں صاحب مرحوم رئیس چہتاری جن کےساتھ اخلاص و ارادت کے سبب حضرت کو بھی تعلق تھا علیل ہوئے اور مدہوشی طاری ہوئی سب کو زندگی سے یاس ( بے امیدی ) ہوگئی اس وقت ایک شخص چہتاری سے صرف گنگوہ بھیجے گئے کہ نواب صاحب کےلئے حضرت سے دعا کرائیں چنانچہ وہ آئے اور حضرت سے نواب صاحب کی حالت بیان کر کے دعائے صحت کی درخواست کی آپ نے حاضرین جلسہ سے فرمایا بھائی دعا کرو چونکہ حضرت نے دعا کا وعدہ نہیں فرمایا اس لئے فکر ہوا اور عرض کیا گیا کہ حضرت آپ دعا فرمادیں اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا امر مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کے چند روز باقی ہیں حضرت کے اس ارشاد پر اب کسی عرض معروض کی گنجائش نہ رہی اور نواب صاحب کی حیات سے سب کو ناامیدی ہوگئی تاہم قاصد نے عرض کیا کہ حضرت یوں ہی دعا فرمادیجئے کہ نواب صاحب کو ہوش آجائے اور وصیت و انتظام ریاست کےمتعلق جو کچھ کہنا سننا ہو کہہ سن لیں آپ نے فرمایا خیر اس کا مضائقہ نہیں اس کے بعد دعا فرمائی اور یوں ارشاد فرمایا ان شاء اللہ افاقہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نواب صاحب کو دفعۃ ہوش آگیا اور ایسا افاقہ ہوا کہ عافیت و صحت کی خوش خبری دور دور تک پہنچ گئی کسی کو خیال بھی نہ رہا کہ کیا ہونے والا ہے یکا یک حالت بگڑی اور مخیر دریا دل نیک نفس سخی رئیس نے انتقال بہ آخرت فرمایا ۔ (تذکرۃ الرشید ص 208،209 ج 2 )

حضرت مولانا صادق الیقین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک بار سخت علیل ہوئے واقفین احباب بھی یہ خبر سن کر پریشان ہوگئے اور حضرت سے عرض کیا دعا فرمادیں حضرت خاموش رہے اور بات کو ٹال دیا جب دوبارہ عرض کیا گیا تو آپ نے تسلی دی اور فرمایا میاں وہ ابھی نہیں مریں گے اور اگرمریں گے تو بھی میرے بعد چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس مرض سے صحت حاصل ہوگئی اور حضرت کے وصال کے بعد اسی سال بہ ماہ شوال حج بیت اللہ کےلئے روانہ ہوئے مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے مرض ہی میں عرفات کاسفر کیا یہاں تک کہ شروع محرم میں واصل بحق ہو کر جنت لمعلیٰ میں مدفون ہوئے ۔ ( تذکرۃالرشید ص 209 ج 2،چشتی)

مولوی نظر محمد خاں نے ایک مرتبہ پریشان ہو کر عرض کیا کہ حضرت فلاح شخص جو والد صاحب سےعداوت رکھتا تھا ان کے انتقال کے بعد اب مجھ سے ناحق عداوت رکھتا ہے بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا وہ کب تک رہے گا چند روز گزرے تھے کہ دفعۃ وہ شخص انتقال کرگیا۔(تذکرۃ الرشید ص 214 ج 2)
با ختلاف روایت 8 یا 9 جمادی الثانیہ مطابق 11 اگست 1905 ھ کو بیوم جمعہ بعد اذان یعنی ساڑھے بارہ بجے آپ نے دنیا کو الوداع کہا اور اٹھتر سال سات ماہ تین یوم کی عمر میں رفیق اعلیٰ کی جانب ہنستے اور مسکراتے ہوئے سد ہارے حضرت امام ربانی قد سرہ کو چھ روز پہلے ہی جمعہ کا انتظار تھا بیوم شنبہ دریافت فرمایا تھا کہ آج کیا جمعہ کا دن ہے ؟ خدام نے عرض کیا کہ حضرت آج شنبہ ہے اس کے بعد درمیان میں بھی کئی بار یوم جمعہ کو دریافت کیا حتی کہ جمعہ کا دن جس روز وصال ہوا صبح کے وقت پھر دریافت فرمایا کہ کیا دن ہے اور جب معلوم ہوا کہ جمعہ ہے تو فرمایا انا للہ واناالیہ رجعون ۔ ( تذکرۃ ارشید ص 331 ج 2)

مولوی ریاض احمد فیض آبادی دیوبندی صدر جمیعۃ علمائے میوات مقلد مولوی حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : میں نے کہا کہ حضرت ان شاء اللہ اختتام سال پر حاضر ہوں گا فرمایا کہہ دیا کہ ملاقات نہیں ہوگی اب تو میدان آخرت ہی میں ان شاء اللہ ملوگے مجمع میرے قریب جو تھا احقر کی معیت میں آبدیدہ ہو گیا حضرت نے فرمایا کہ رونےکی کیا بات ہے کیا مجھے موت نہ آئے گی اس پر احقر نے الحاح کےساتھ کچھ علم غیب اور زیادتی عمر پر بات کرنی چاہی مگر فرط غم کے باعث بول نہ سکا ۔ (روزنامہ الجمعیۃ دھلی کا شخ الاسلام نمبر ص 156)

حکیم الامتِ دیوبند مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حضرت مولانا ظفر حسین صاحب مرحوم مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو حضرت حاجی صاحب (دیوبندیوں کے پیر حاجی امداد اللہ) سے عرض استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہوگی یا نہیں ؟ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں کیا جانوں عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجیئے جواب مرحمت فرمائیے حضرت نے مراقب ہو کر فرمایا کہ آپ مدینہ منورہ وفات پائیں گے ۔ (قصص الاکابر ص 106)

تبلیغی نصاب لکھنے والے مشہور دیوبندی مولوی زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں کہ : شیخ ابو یعقوب سنوسی کہتےہیں کہ میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا کہ میں کل کو ظہر کے وقت مر جاؤں گا چنانچہ دوسرے دن ظہر کے وقت مسجد حرام میں آیا طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا ۔ ( فضائل صدقات ص 563)

ابو علی روزباری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک فقیر میرے پاس عید کے دن آیا بہت خستہ حال پرانے کپڑے کہنے لگا کوئی پاک و صاف جگہ ایسی ہے جہاں کوئی غریب فقیر مر جائے میں نے لاپرواہی سے لغو سمجھ کر کہہ دیا کہ اندر آجا اور جہاں چاہے پڑ کے مر جا وہ اندر آیا وضو کیا چند رکعات نماز پڑھی ارو لیٹ کر مر گیا ۔ (فضائل صدقات ص 570)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...