اسلام دین رحمت ہے:۔مسلمان سراپا رحمت ہوتے ہیں وہ امن کے لئے خطرہ اور فسادی نہیں ہوتے ،بلکہ امن کے علمبردار اور رحم وکرم کے پیکر ہوتے ہیں،ساری انسانیت کے لئے نفع بخش اور راحت رساں ہوتے ہیں،اسی لئے شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہ سکتے ہیں۔
عرب سے عجم تک ، مشرق سے مغرب تک مسلمان جہاں بھی گئے امن و سلامتی ،عدل و انصاف ، صلہ رحمی و احسان کا پیغام لے کر گئے۔ خوف و دہشت کے ماحول کو امن میں تبدیل کردیا، ، فتنہ و فسادسے زہر آلود معاشرہ کو انہوں نے امن و سلامتی کا مرکز بنادیا ۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی ، معاملات کی صفائی، رواداری و بھائی چارگی، اتحاد و محبت ، الفت و اخوت، رحمت و مودت کی بدولت ظلم و عداوت کے تاریک بادل چھٹ گئے اور عدل و انصاف کے مہکتے پھول کھل گئے۔
اسلام نے غیر مسلموں سے معاشرتی تعلقات، کاروباری معاملات ، تجارت، خرید و فروخت وغیرہ امور کی اجازت دی ہے اور تمام معاملات و تعلقات میں سچائی وصداقت پر پابندی کی تاکید کی اور جھوٹ، مکر و فریب اوردھوکہ و خیانت سے اجتناب کاحکم فرمایا ہے۔غرور و تکبر کی جگہ تواضع و انکساری کے معاملہ کا قانون دیا ہے ۔ سخت مزاجی اور شدت کے بالمقابل نرمی اور آسانی کو پسند کیا ہے۔ عجلت پسندی اور غصہ پر قابو پانے اور تحمل و برداشت کا رویہ اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انتقام میں حد سے آگے نہ بڑھنے اور عفو و درگزر سے کام لینے کا حکم دیاہے، برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی ترغیب دی ہے ۔فتنہ و فساد سے گریز کرنے اور ہر حال میں عدل و انصاف پر جمے رہنے کی تعلیم دی ہے ، ان احکام میں اسلام نے مسلم و غیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا۔
غیر مسلموں کیساتھ اخلاقی و معاشرتی تعلقات :۔ مسلمانوں کا ربط و تعلق کسی بھی مذہب و ملت کے افراد سے ہو ،انہیں ہر صورت میں یہ ملحوظ رکھنا ہے کہ ہم تو مسلمان ہیں،ہماری زبان وبیان سے ہرگز کسی کو تکلیف نہ پہنچنے پائے،کیونکہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی اور اخلاقی تعلقات کی تاکید کی ہے۔
ارشاد خداوندی ہے :لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا ،کہ تم ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کا برتاؤ کرو؛ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بیشک اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے ۔ (سورۃالممتحنۃ 8)
اس آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں سے بھی عدل و انصاف کا معاملہ، اچھا برتاؤ اورحسن سلوک کرنا چاہئے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان خواہ وہ اسلامی مملکت میں ہو یا جمہوری مملکت میں وہ ہر مقام پر محبت کے پیام کو عام کرنے والا ہوتا ہے،الفت کے پھول بکھیرنے والا ہوتاہے،وہ گفتار وکردار ہر لحاظ سے امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے،اسے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے ہی وجود بخشا گیاہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔
ترجمہ:تم بہترین امت ہو،جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے لائی گئی ہو-(سورۂ آل عمران 110)
ایک مسلمان جس طرح دوسرے مسلمان کے حق میں سلامتی کا پیکر ہوتاہے اسی طرح وہ غیر مسلم افراد کے حق میں بھی سلامتی کا پیکر ہوتاہے،تیر وتلوار،نیزہ وہتھیار تو کجا وہ اپنی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔
ترجمہ:لوگوں سے اچھی بات کہا کرو!۔ (سورۃالبقرۃ 83)
اخلاق کیساتھ پیش آنے اور نیک برتاؤکرنے کیلئے رنگ و نسل مذہب و عقیدہ کی تخصیص نہیں بلکہ یہ حکم سب کے حق میں عام ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ بھی اچھی گفتگو کرنا اور خندہ پیشانی سے پیش آناچاہئے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔تمام لوگوں سے عمدہ اخلاق کے ساتھ برتاؤ کرو۔
(جامع ترمذی ج 2ص 19 باب ماجاء فی معاشرۃ الناس،حدیث نمبر2115)
اہل اسلام کی امن پسندی: قریش مکہ کی جانب سے حج و عمرہ کے لئے کسی پر بھی پابندی اور روک نہیں تھی، حتیٰ کہ جانی دشمن کے لئے بھی نہیں لیکن جب مسلمان عمرہ کے ارادہ سے نکلے، راستہ میں روک دئیے گئے ، عمرہ کی اجازت نہیں دی گئی، مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور انہیں غیر معمولی صدمہ پہنچا، فطری طور پر آتش انتقام شعلہ زن ہوسکتی تھی، مسلمان جوابی کارروائی کرسکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کے حق میں بھی حسن سلوک کا حکم فرمایا اور ظلم و زیادتی پر روک لگادی،ارشادفرمایا:وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۔
ترجمہ:کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کر بیٹھو۔اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا۔(سورۃالمائدۃ2)
وہ مذہب دہشت گردی سکھانے والا کیسے ہوسکتا ہے جو ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے والے،جانی دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کرتاہے؟۔
عدل و انصاف کے معاملہ میں اسلام میں دوست و دشمن ،مسلم و غیر مسلم کا فرق درست نہیں،اسلام ،دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کو لازمی قرار دیتا ہے تاکہ اس کی بنیاد پر ایک خوش گوار معاشرہ تشکیل پائے۔ ارشادحق تعالی ہے :
وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَی اَلَّا تَعْدِلُوْا اعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔
ترجمہ:کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر ہرگز نہ اکسائے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑدو ، عدل کرو، عدل تقویٰ سے بہت قریب ہے۔(سورۃالمائدۃ8)
اسلام ’’چلو تم اُدھر کوہوا ہو جدھر کی ‘‘والی بات نہیں کرتا، اسلام ہر حال میں عدل و انصاف کے ایسے قوانین نافذ کرتا ہے جو ہوا کے رُخ کو موڑدیں۔
غیر مسلموں کے لئے مالی امداد جاری کرنا: غیر اسلامی ملک کے غیر مسلم افراد پر خرچ کرنا اور مصیبت و آفت میں ان کے ساتھ ہمدردی و تعاون کرنا تو مسلمانوں کا وصف خاص ہے ،اس وصف خاص سے متصف فرمانے کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل مبارک سے مسلمانوں کو جو نمونۂ عمل عنایت فرمایا اس کی ایک مثال یہ حدیث پاک ہے:
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَمْسَمِائَۃِ دِینَارٍ إلَی مَکَّۃَ حِینَ قَحَطُوْا وَاَمَرَ بِدَفْعِہَا إلَی اَبِیْ سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ اُمَیَّۃَ لِیُفَرِّقَا عَلَی فُقَرَاءِ اَہْلِ مَکَّۃَ۔
ترجمہ: ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو دینار روانہ کئے تاکہ وہ مکہ مکرمہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کریں ۔
(رد المحتار،ج2،کتاب الزکوۃ ،باب مصرف الزکوۃ والعشر،ص92)
اتحاد واخوت اور انسانی رواداری کی اس سے عظیم مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان غیر مسلم افراد کی بھی اعانت وفریادرسی فرمائی جنہوں نے اہل اسلام پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے،مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف پہنچائیں یہاں تک کہ حضور کے جانثاروں نے اپنا گھر،مال ودولت سب کچھ قربان کرکے وطن عزیز مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ سکونت اختیار کی۔
اسلامی دیانتداری سے زمین و آسماں کا قیام‘ یہود کا اقرار: دین اسلام کی حقانیت اور اہل اسلام کے عدل وانصاف اور امانت داری کے اغیار بھی قائل ہیں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح ہونے کے بعدیہود کو اپنی زمین بٹائی پردی ، اس طرح کہ وہ زراعت کریں گے اور پیداوار کا آدھا حصہ وہ لیں گے اورآدھا حصہ آپ کو اداکریں گے۔ جب بٹائی کا وقت آتا توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیداوار کا اندازہ کرنے کے لئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرماتے۔عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَبْعَثُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فَیَخْرُصُ النَّخْلَ.
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے فرماتے :جس حصہ کو چاہو لے لو! یہود اس عدل و انصاف کو دیکھ کر یہ کہتے ایسے ہی عدل و انصاف سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔(سنن ابوداودکتاب البیوع،باب فی الخرص ،حدیث نمبر3415)
حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ان سے فرماتے : اے گروہ یہود! تمام مخلوق میں تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہوکیونکہ تم نے اللہ کے نبیوں کو شہید کیا اور تم نے اللہ پر جھوٹ باندھا لیکن تمہاری دشمنی مجھ کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تم پر کسی قسم کا ظلم کروں ۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : أَفَاءَ اللہُ خَیْبَرَ ... فَبَعَثَ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ ثُمَّ قَالَ یَا مَعْشرَ الْیَہُوْدِ أَنْتُمْ أَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَیَّ قَتَلْتُمْ أَنْبِیَاءَ اللہِ وَکَذبْتُمْ عَلَی اللہِ وَلَیْسَ یَحْمِلُنِیْ بُغْضِیْ إِیَّاکُمْ أَنْ أَحِیْفَ عَلَیْکُمْ
(شرح معانی الاثار ج1 ص316،کتاب الزکوۃ،باب الخرص،حدیث نمبر:2856)
اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کتنے پاکیزہ طریقہ پر معاملات کرتے آئے ہیں کہ ظلم و زیادتی اور حق تلفی ودھوکہ دہی کا کوئی شائبہ تک نہیں ۔
ابو رافع کو قریش نے قاصد بناکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا وہ کہتے ہیں ،جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل کی تو میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا ،میں عرض گزار ہوا ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کبھی بھی ان کی طرف نہیں لوٹونگا،حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور نہ قاصد کو روکے رکھوں گا،تم واپس چلے جاؤ، اب جو چیز تمہارے دل میں ہے اگر یہ برقرار ہے توتم اب لوٹ جاؤ۔
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی رَافِعٍ أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَہُ قَالَ بَعَثَتْنِی قُرَیْشٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم أُلْقِیَ فِی قَلْبِیَ الإِسْلاَمُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی وَاللَّہِ لاَ أَرْجِعُ إِلَیْہِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّی لاَ أَخِیسُ بِالْعَہْدِ وَلاَ أَحْبِسُ الْبُرُدَ وَلَکِنِ ارْجِعْ فَإِنْ کَانَ فِی نَفْسِکَ الَّذِی فِی نَفْسِکَ الآنَ فَارْجِعْ۔
(سنن ابو داؤد،کتاب الجہاد ،باب فی الامام یستجن بہ فی العہود، حدیث نمبر:2760)
غیر مسلم قیدیوں سے اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک: مسلمانوں نے قیدی افراد کے ساتھ بھی غیرمعمولی ،اعلیٰ درجہ کے حسن سلوک کی ایک سنہری تاریخ مرتب کی ہے ، حالانکہ قیدی افراد جنگی مجرم سمجھے جاتے ہیں، ان کے ساتھ نہایت وحشت ناک ،بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے لیکن اسلام نے ان کے ساتھ اخلاقی برتاؤ کا انتہائی اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
جنگ بدر کے قیدی جنہوں نے مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں مختلف صحابۂ کرام پر تقسیم فرمادیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم فرمایا چنانچہ ابوعزیز بن عمیرجو مشرکین کے علم بردار تھے کہتے ہیں: مجھے ایک انصاری صحابی کے حوالہ کیا گیا، ان کا حال یہ تھا کہ صبح وشام مجھ کو روٹی کھلاتے اور خود کھجور پر اکتفاء کرتے اگر ان کے اہل خانہ سے کسی کو روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ملتا تو وہ مجھ کو دے دیتے اور خود اس کو ہاتھ بھی نہ لگاتے اس قدر حسن سلوک پر مجھے حیا آتی تھی۔
قال ابوعزیز۔ ۔ ۔ فکانوااذاقدمواغذائہم وعشائہم خصونی بالخبزواکلواالتمرلوصیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم بنا،ماتقع فی یدرجل منہم کسرۃ خبزالانفحنی بہا۔
(سبل الہدی والرشاد،ج4،ص66،جماع ابواب المغازی،الباب السابع فی بیان غزوۃ بدرالکبری)
مسلمان غیر اسلامی ملک کے لئے مفاد کا ضامن : کسی بھی غیر اسلامی ملک میں مسلمان کا وجود اس ملک کے مفاد میں ہوتا ہے، وہاں کے باشندگان کو مسلمانوں سے کوئی ضرر و نقصان بالکل نہیں پہنچتا، مسلمان غیر مسلم ملک میں بھی فساد و بگاڑ کی کوئی صورت ہونے نہیں دیتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ مسلمان کا وجود ہی انسانیت کی صلاح و فلاح کے لئے ہے: اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(ترجمہ:تم لوگوں کے فائدہ کے لئے لائے گئے ہو)اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں بلکہ آیت کریمہ کے کلمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کے حوالہ سے مسلمانوں سے غیر مسلم افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنا چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو تلوار سے نہیں پھیلایابلکہ صرف اور صرف اخلاق و کردار سے پھیلا یاہے اور جب کبھی تلوار چلائی گئی وہ صرف اور صرف اسلام کے دفاع ، فساد کو مٹانے، امن قائم کرنے اور عہد کو پورا کرنے اور بربریت وجارحیت کا خاتمہ کرنے کیلئے ہی چلائی گئی ۔
اسلامی مملکت ہو یاجمہوری ملک‘اس میں کسی غیرمسلم کا خون بہانا،اور انہیں ناحق قتل کرنا تو کجا اسلام نے ان پر معمولی درجہ کے ظلم سے بھی روکا ہے، نبی رحمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کئے ہوئے غیرمسلم کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ کرنے پر کس قدر شدید وعید بیان فرمائی ہے اس کااندازہ سنن ابو داؤدکی اس مبارک حدیث شریف سے ہوتا ہے ،ارشادفرمایا:
اَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاہدًا اَوِ انْتَقَصَہُ اَوْ کَلَّفَہُ فَوْقَ طَاقَتِہِ اَوْ اَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ فَاَنَا حَجِیجُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
سنو! جس نے کسی اہل معاہدہ پر ظلم کیا یا اس کے حق میں کمی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس پر بوجھ ڈالا یا اس کے رضا و رغبت کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مقدمہ لڑوں گا۔
(سنن ابوداؤد،کتاب الخراج ،باب فی تعشیر اہل الذمۃ إذا اختلفوا بالتجارات، حدیث نمبر3054)
مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:وَالْمُؤْمِنُ مَنْ آمَنَہُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ .
ترجمہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اورمومن وہ ہے جس سے تمام لوگوں کے خون اور مال محفوظ ہوں۔ (مسند امام احمد، مسند أبی ہریرۃ،حدیث نمبر 9166)
مذکورہ آیات شریفہ و احادیث کریمہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے بھی جان و مال کو تحفظ دیا ہے اور انہیں باوقار زندگی مرحمت کی ہے اور کامل مومن کی علامت و شناخت بھی یہی رکھی کہ اس سے دوسرے لوگ خواہ مسلم ہوں کہ غیر مسلم مامون و محفوظ رہیں۔
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہوجا
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
اللہ تعالیٰ ہمیں امن وسلامتی اور عافیت عطافرمائے ، ملک ووطن کے بشمول ساری دنیا کے لئے پیغام امن کا سفیر بنائے!آمین
No comments:
Post a Comment