کوئی بھی انسان اس دنیا میں مکمل نہیں ہوسکتا، کمیاں اور کوتاہیاں ہر شخص کے اندر ہوتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کمیوں کی تلافی ہوسکتی ہے اور کیا اخلاق و کردار میں تبدیلی ممکن ہے؟ کیا بے ادب آدمی اپنی ذاتی کوشش سے باادب بن سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل ایک شخص اپنی ذاتی کوشش اور تربیت کے ذریعہ با ادب وبا اخلاق بن سکتا ہے، چوں کہ انسانی فطرت میں خیر وشر کے بیچ امتیاز کرنے کی صلاحیت ودیعت کردی گئی ہے، ہر شخص اپنی اس فطری صلاحیت کی بنیاد پر سمجھ سکتا ہے کہ کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی چیز بہتر نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من مولودٍ إلايولَدُ على الفَطرَةِ، فأبواه يُهَوِّدانِه أو يُنَصِّرانِه أو يُمَجِّسانِه، ترجمہ : ۔ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔(صحيح البخاری: 1358 صحيح مسلم: 2658)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی قابلیت موجود ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالی نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا : ترجمہ : ۔ “یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (9) اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا “۔(سورہ الشمس 9-10 )
اور نفس کا تز کیہ ہی در اصل ادب ہے جس کے حصول کی کوشش کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ انبیاء ورسل کی تاریخ گواہ ہےکہ جو لوگ بھی اُن پر ایمان لائے انہوں نے اپنے ایمان سے پہلے کے عادات واطوار میں تبدیلی لائی اور اسلامی آداب واخلاق کو اپنایا لہذا جو شخص بھی اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ادب واخلاق کے حصول کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کرتا ہے وہ بلا شبہ ادب کی دولت سے مالا مال ہوگا اور اسکے اخلاق و کردار میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ اگر اخلاق و کردار میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی تو انبیاء و رسل کو بھیجنا اور ان پر کتابیں اور شریعتیں اتارنا سب لاحاصل تھا۔
جب بے زبان جانوروں کو ٹریننگ دے کر اُن سے مختلف کام لیا جا سکتا ہے تو پھر انسان کو با ادب کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ تجربہ بتاتا ہے کہ کتے کو ٹریننگ دیکر اس سے شکار کیا جاتاہے، شیر کو مانوس کرکے انسان ان کے ساتھ رہنے لگتا ہے، بندروں کو ٹریننگ دے کر عجیب وغریب کام لیے جاتے ہیں، تو جب حیوانات کے کردار اور مزاج میں تبدیلی ممکن ہے تو انسان کے کردار اور مزاج میں تبدیلی تو بدرجہ اولی ممکن ہونی چاہیے۔ اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جبل گردد، جبلی نہ گردد “پہاڑ کا ٹلنا ممکن ہے، عادت کا بدلنا ممکن نہیں ” والی کہاوت غلط ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment