بعد ازاں جب مسالک معرض وجود میں آگئے اور ان کے مابین اخلاص پر مبنی علمی اختلاف کی بجائے نفسانیت پر مبنی مخالفت آگئی اور یہ مخالفت مخاصمت اور عداوت میں بدل گئی، ہوتے ہوتے باہمی منافرت اس حد تک بڑھی کہ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کرنے لگے۔ بقول ابن انشا ایک وقت تھا کہ دائرہ اسلام میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا اب صرف خارج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آج مختلف مسالک کے مابین منافرت سازی، تکفیر بازی اور بدعت و شرک اندازی کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دوسرے سے سلام کے بھی روادار نہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان نے مجھے اپنا واقعہ سنایا ذرا آپ بھی پڑھیئے ، ہمارے پڑوس میں ایک دینی گھرانہ تھا۔ باشرع اور ماتھوں پر محراب رکھنے والے یہ لوگ بظاہر بڑے اچھے لگے لیکن پہلے تعارف کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ نہ تو سلام میں پہل کرتے ہیں اور نہ ہی زبان سے سلام کا جواب دیتے۔ بس سرکو ہلکی سی جنبش دیتے گذر جاتے۔ آخر ایک دن ان کی بے اعتنائی کا راز کھل ہی گیا۔ محلے کی ایک خاتون ان کے ساتھ والے گھر میں ختم کا تبرک تقسیم کرنے جارہی تھی۔ اس مذہبی گھرانے کا ایک بچہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے سمجھا شاید رومال سے ڈھکا تبرک ان کے گھر لارہی ہے، قریب پہنچی تو بچہ پکار اٹھا : ہمارے گھر نہ لانا ہم ختموں کا تبرک نہیں کھاتے، ہم مسلمان ہیں۔
مسلک گزیدہ لوگوں کی یہی وہ سوچ ہے جس نے اخوت اسلامی کو تباہ اور وحدت امت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ہماری وہ صلاحیتیں اوروسائل جو غیروں کو دعوت دین کے لئے استعمال ہوتے وہ اپنوں کو غیر مسلم اور کافر ثابت کرنے میں صرف ہونے لگے۔ چنانچہ ہر مسلک کے کتب خانوں میں ایسی فکر پر مبنی کتابوں کے انبار لگنے لگے جس میں مخالف کو مشرک، بدعتی اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا جاتا ہے۔ اسی سے نفرت کی آندھیاں اور طوفان اٹھتے ہیں اور ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر غارت گری پر اتر آتے ہیں۔
سقوط بغداد تو ماضی بعید کی بات ہے جس کے پس پردہ مسلکی بغض و عناد اور منافرت کا گھناؤنا کردار بھی کار فرما تھا، لیکن سقوط ڈھاکہ تو کل کی بات ہے۔ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مشہور عالم دین اور صاحب علم و فضل مولانا متین ہاشمی سقوط ڈھاکہ سے کچھ ہی عرصہ قبل مسلکی مخالفت اور منافرت کی بناء پر رونما ہونے والے بعض واقعات بیان کرتے ہیں۔ جن میں سے دو زیر بحث موضوع کی وضاحت کے لئے درج کئے جاتے ہیں۔
٭ سلہٹ میں ایک مرتبہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے اور ولاالضالین کے تلفظ پر مناظرہ بازی کے بعد ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا دیئے گئے جس کے نتیجے میں چاقو چھریوں کا ایسا آزادانہ استعمال ہوا کہ سات آدمی مارے گئے۔ مارنے والوں کا یقین تھا کہ ہم نے جہاد کیا اور مقتولین کے ہمنواؤں نے سمجھا کہ ہمارے ساتھیوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔
٭ دوسرا واقعہ چاٹ گام کے علاقے میں مشہور علمی مقام پٹیا میں ہوا جہاں دو مختلف مسلکوں کے مدارس ہیں۔ دونوں میں مناظرہ ہوا ہر جماعت نے دوسری جماعت کے مدرسے کو آگ لگا دی، تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کی تفسیر و حدیث اور فقہ کی کتابیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ مولانا ہاشمی بڑے دکھ سے لکھتے ہیں کہ یہ کتابیں چنگیز خان یا ہلاکو خان نے نہیں جلائی تھیں نہ کسی ہندو یا سکھ نے بلکہ ان قرآن اور احادیث کے نسخوں کو جلانے والے ایک طرف نعرہ تکبیر اور دوسری طرف نعرہ رسالت بلند کر رہے تھے۔
مولانا متین ہاشمی جو سقوط ڈھاکہ سے پہلے کہ یہ دل دوز منظر دیکھ کر آئے تھے بڑے دکھ سے کہتے ہیں کہاں ہیں وہ مدرسے جہاں سے اسلام کی محبت کے متوالے برچھیاں اور بھالے لے کر نکلتے تھے اور ولاالضالین میں ضاد کو ’’دال‘‘ سے مشابہ کر کے پڑھنے والوں پر جہاد کیا کرتے تھے؟ نگاہ عبرت اور گوش نصیحت رکھنے والوں کو مولانا ہاشمی بتاتے ہیں کہ ان دینی مراکز اورمدرسوں میں مکتی باہنی کے دفاتر بن گئے اور اس علاقے میں ہزاروں ایسے علماء کو قتل کر دیا گیا جن کو نہ کفن میسر آیا نہ ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ان کی لاشوں کے ساتھ کیا ہوا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
بقول غالب :
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
No comments:
Post a Comment