Wednesday 16 March 2016

علمی اختلاف میں ہمارے اسلاف علیہم الرّحمہ کا عمل مبارک

0 comments
دشمنی اور بغض و عناد پر مبنی مخالفت و گروہ بندی اور بات ہے جبکہ علمی اختلاف رائے بالکل ہی الگ چیز ہے۔ علم و تحقیق میں رائے کا مختلف ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ شریعت کے منافی بھی نہیں۔ اسلام میں اس کی گنجائش ہے کیونکہ علمی اختلاف رائے سے ہی علم کے افق وسیع ہوتے اور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک طرف فقہی دنیا میں علمی اختلاف رائے کی بنا پر شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی وغیرہ فقہی مکاتب فکر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تصوف کی دنیا میں چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی اور اویسی سلاسلِ طریقت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ تھا کہ ان کے مابین علمی و فکری اختلاف فتنہ و فساد برپا کرنے یا امت کا شیرازہ منتشر کرنے کا باعث ہوا ہو۔

ان مختلف علمی مکاتب فکر کے باوجود امت کا شیرازہ بکھرنے سے محفوظ رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو صرف اولیٰ قرار دیا تھا، اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں بنایا تھا۔ ہمیں تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی ایک خانقاہ نے اٹھ کر دوسری خانقاہ کو جلا دیا ہو یا کسی حنفی نے کسی شافعی کے مدرسے پر حملہ کرکے اس کے علمی ذخیرے کو نذر آتش کر دیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے مابین مروت، رواداری، تحمل و برداشت اور دیگر اخلاقی قدریں اخلاص کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے، علمی استفادہ کرتے دوسرے مکتب فکر کے شیوخ کو بھی اپنے شیخ کی طرح جانتے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی فرق نہ کرتے۔

٭ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں، ان کی مسجد میں نماز ادا کرنے لگتے ہیں تو رفع یدین نہیں کرتے۔ کسی نے استفسار کیا کہ حضرت آپ کے نزدیک رفع یدین ضروری ہے لیکن آج آپ نے خود اپنی تحقیق پر عمل نہیں کیا، کیا آپ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے، فرمایا : نہیں بلکہ مجھے اتنے بڑے امام کی بارگاہ میں آکر ان کے مسلک کے خلاف عمل کرتے شرم آتی ہے۔(الخیرات الحسان)

٭ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں علم و فضل فقہی بصیرت اور زہد و اتقاء میں بلند مقام رکھتے تھے، بہت سے مسائل میں ان کے مابین شدید علمی اختلاف بھی ہوا لیکن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی فوت ہوئے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لئے ان کے ہاں چلے گئے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ لاکر اپنی مسند پر بٹھایا اور خود بڑے ادب کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام صاحب کے جانے کے بعد کسی نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : حضرت آپ نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتنا اکرام کیوں کیا؟(الخیرات الحسان)

فرمایا : یہ شخص علم کے بڑے بلند درجے پر فائز ہے، پھر سائل کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فرمایا : چلو اگر میں ان کے علم کی وجہ سے ان کی عزت نہ کرتا تو کیا ان کی عمر کا بھی لحاظ نہ کرتا کہ وہ مجھ سے بڑے ہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کر لیتا تو ان کے ورع و تقوی کا لحاظ بھی نہ کرتا کہ پرہیزگاری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

سبحان اللہ کیا للہیت ہے کہ نفسانیت کا شائبہ تک نہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا شدید علمی و فقہی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، مروت، رواداری میں کمی نہیں آتی تھی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔