Thursday 31 March 2016

موجودہ حالات اسلام اور پاکستان

0 comments
عرب کے جو علاقے اس وقت ظالم اور غاصب اسرائیل کے قبضے میں ہیں ‘ اُن میں سے ایک مشہور بندرگاہ’’ ایلہ‘‘ بھی ہے ۔ اُمت مسلمہ کی عمومی غفلت اور عربوں کی خصوصی کوتاہیوں نے یہ دن دکھایا ہے کہ فلسطین کے باشندے خود اپنی ہی سرزمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ’’ ایلہ‘‘ بحیرئہ قلزم کی شاخ ’‘’ خلیج عقبہ ‘‘ کے کنارے پر واقع ہے اور اس سر زمین سے ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ منسوب ہے ‘ جس کی طرف قرآنِ مجید نے سورئہ بقرہ کی آیت ۶۵ اور ۶۶ میں اور سورئہ اعراف کی آیت ۱۶۲تا ۱۶۴میں اشارہ کیا ہے ۔ قرآن مجید کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کتابِ ہدایت ہے ‘ اس کی ایک ایک آیت میں ہمارے لیے بے شمار اَسباق پنہاں ہیں ‘ پھر خاص طور پر یہ واقعہ ہمارے موجودہ حالات سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے ہفتے بھر میں جمعہ کا دن ہی محترم چلا آرہا تھا ۔ یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اصرار کیا کہ ان کیلئے ہفتے ( سبت) کا دن عبادت و برکت کیلئے مقرر کیا جائے ۔ وحیٔ الٰہی کی روشنی میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہفتے کا دن ان کیلئے مقرر فرما دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ اس دن کی حرمت و عظمت کو قائم رکھیں ۔ اس دن میں ان کیلئے خریدو فروخت ، زراعت و تجارت اور شکار جیسی تمام معاشی سرگرمیاں ممنوع قرار پائیں ۔

ساحلِ سمندر پر واقع بستی میں رہنے والے یہودیوں نے حیلہ سازی سے اس حکم کو مذاق بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ ڈھیل دی کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں بکثرت نظر آتیں اور دوسرے دنوں میں اتنی مچھلیاں نظر نہ آتیں ۔ پہلے پہل تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم توڑنے کیلئے حیلے بہانوں کا سہارا لیا ۔ کبھی ہفتے والے دن مچھلیاں آجاتیں تو یہ راستے میں رکاوٹ بنا کر اُن کی واپسی کا راستہ بند کر دیتے اور اتوار کے دن خوب شکار کرتے ۔ کبھی ایسا کرتے کہ ہفتے کے دن کسی بڑی مچھلی کی دُم میں رسی اٹکا کر اسے زمین کی کسی چیز سے باندھ دیا اور اتوار کے دن اُسے پکر کر پکا لیا ۔ پھر جب ان حیلوں بہانوں سے اُن کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک کوئی عذاب نہیں آیا تو وہ کھلم کھلا شکار کرنے لگے اور احکامِ الٰہی کو پامال کرنے لگے ۔

رفتہ رفتہ ’’ ایلہ‘‘ کے رہنے والے تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک گروہ تو وہ تھا جو مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھے اور احکامِ الٰہی کھلم کھلا توڑ رہا تھا ۔ دوسرا گروہ اُن لوگوں کا تھا جو شروع میں ان نافرمانوں کو سمجھاتے رہے ‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکتے رہے لیکن جب وہ نہ مانے تو یہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھانا ‘ نصیحت کرنا اور گناہوں کے برے انجام سے ڈرانا چھوڑ دیا ۔ تیسرا گروہ اُن باہمت لوگوں کا تھا جنہوں نے ایسے حالات میں بھی ہار نہیں مانی اور وہ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کو نصیحت اور فہمائش کرتے رہتے ۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر مایوس نہ ہوتے بلکہ ہر صبح ایک نئے حوصلے‘ نئے ولولے اور بلند ہمت سے اپنا یہ فریضہ سرا نجام دیتے ۔ ان میں سے پہلے گروہ کو سزا کے طور پر شکلیں مسخ کر کے بندر بنا دیا گیا ۔ دوسرے گروہ کے لوگ چونکہ خاموش رہے ‘ اس لیے قرآن کریم بھی ان کے بارے میں خاموش ہے اور تیسرے گروہ کے لوگوں کی قرآن میں تعریف کی گئی ‘قرآن مجید بتاتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان لوگوں میں سے دوسرے گروہ کے لوگ جو حوصلے ہار چکے تھے ‘ تیسرے گروہ کے اولو العزم لوگوں سے کہتے کہ تمہیں ان ہٹ دھرم اور ضدی لوگوں کو سمجھانے سے کیا ملتا ہے ؟ دیکھتے نہیں ہو کہ یہ مسلسل نا فرمانیوں پر کمر بستہ ہیں ‘ جن کا نتیجہ سوائے عذابِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ جیسے ہم گھروں میں چپ ہو کر بیٹھ چکے ہیں ‘ تم بھی ایسا ہی کیوں نہیں کر لیتے ۔ تیسرے گروہ کے جواں ہمت لوگوں نے مایوسی میں لپٹی ان باتوں کا جو زبردست چشم کشا اور بصیرت افروز جواب دیا ‘ جسے بتانے کیلئے یہاں یہ پورا واقعہ لکھا گیا ‘ قرآن مجید کے الفاظ میں وہ جواب یہ ہے :’’ قالو ا معذرۃ ً الی ربکم و لعلھم یتقون (الاعراف ۶۴)

اس قرآنی جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں نے جواب میں یہ کہا کہ: یہ روک ٹوک اور نصیحت ہم اس لیے کر تے ہیں کہ ہم تمہارے رب کے سامنے بری الذمہ ہو جائیں کہ ہم نے ہر طرح کے حالات میں اپنا فرض ادا کیا تھا اور شاید ان میں سے کچھ لوگ ہی راہِ راست پر آکر پرہیز گاری اختیار کر لیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اُن عظیم لوگوں کا یہ عارفانہ اور حکیمانہ جواب نقل فرما کر حقیقت میں ہر صاحبِ ایمان کو متنبہّ فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں برائی کا دور دورہ ہو جائے ، احکامِ الٰہی کھلم کھلا پامال ہونے لگیں ‘ اسلامی فرائض کا انکار بلکہ استہزاء عام ہو جائے تو ایک مسلمان کا فرض یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بچالے ‘صرف اپنی ذات کی حد تک نیک ہو جائے اور پھر اپنے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائے بلکہ نافرمانوں کو اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرانا ، انہیں حوصلہ ، ہمت اور خیر خواہی سے نصیحت کرتے رہنا اور اپنی یہ کوششیں مسلسل جاری رکھنا بھی اُس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ اسی طرح یہاں یہ بھی پتہ چل گیا کہ حق کے داعی کو کبھی بھی حالات سے دل گرفتہ ہو کر اور لوگوں کے رویے سے مایوس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس امید کے ساتھ اپنا پیغام پوری قوت کے ساتھ پہنچاتے رہنا چاہیے کہ شاید کوئی ایک اللہ کا بندہ ہی بات سمجھ لے ۔ بے شک مایوس وہ ہو ‘ جس کا رب نہ ہو ۔

موجودہ حالات میں ہم میں سے ہر شخص اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح دینی احکام پامال ہو رہے ہیں ‘ مسلمان کہلانے والے شعائر اسلامی داڑھی ‘ پردہ اور دیگر فرائض کا مذاق اڑا رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ حق کی طرف بلانے والے ‘ سچائی کا پیغام سنانے والے ‘ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنانے والے بھی حالات کی تیز و تند ہوائوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں تو یہ وقت حوصلے ہارنے اور ہمتیں پست کرنے کا نہیں ۔ یہ تو وقت ہے ایک نئے حوصلے ‘ نئے عزم اور نئے جذبے سے کام لینے کا ۔ مخالفت کی آندھیاں ‘ وساوس کے طوفان اور شیطانی خیالات کے پہاڑ ‘ یہ کبھی بھی اہل ِ ایمان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے اور وہ یہ کہتے ہوئے ان سے گزر گئے کہ ’’ یہ تو چلتی ہیں ‘ تجھے اونچا اڑانے کیلئے ‘‘ ۔

ارض ِ وطن پر آج کل اہلِ حق کے لیے آزمائشوں کا موسم آیا ہوا ہے اور مذہبی طبقے کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو ہی (نعوذ باللہ) ساری خرابی کی بنیاد باور کروایا جا رہا ہے۔حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے‘ ہماری تمام مصیبتوں کی بنیاد اسلام سے بے وفائی ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو اور جذبوں سے سینچنے والی نسل کے افراد یکے بعد دیگرے بڑی تیزی سے اُٹھتے جارہے ہیں لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی نوعمری میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس مملکت کو وجود میں آتے دیکھا۔ وہ آج بھی بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جس نعرے نے جذبات کو مہمیز بخشی، بے بس اور کمزور لوگوں کو ہندوئوں اور انگریزوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا، وہ یہ ایمان افروز الفاظ تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘

آپ پاکستان کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد کی تاریخ کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیں، آپ کو ہر قدم پر اسلام اور مسلمانوں کا حوالہ ملے گا۔ خواہ وہ اقبال مرحوم کا خطبہ الہ آباد ہو یا شیر بنگال کی قرار دادِ پاکستان، وہ بانیٔ پاکستان کی تقریریں ہوں یا ہجرت کرنے والے خاندانوں کی لہو رنگ داستانیں، آپ کو کہیں کسی موقع پر بھی سیکولرازم نامی چڑیا کا پَر بھی نظر نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی بات الگ ہے اور سیکولرازم الگ۔ اسلام تو اپنے دیس میں بسنے والے پر امن غیر مسلموں(ذمّیوں) کے حقوق کا بھی سب سے بڑا محافظ اور داعی ہے لیکن سیکولرازم تو اسلام کے خلاف ایک نظریہ اور تحریک کا نام ہے۔ اس لئے امن و امان کے مسئلہ کو بہانہ بنا کر سیکولرازم کو ثابت کرنا، بدیہی حقائق کا منہ چڑانا ہے۔

زکی کیفیؔ مرحوم نے انہی واقعات کو کیا خوبصورت تعبیر بخشی تھی:

اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے

اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقاء ہے

بنیاد پہ قائم نہ رہے گا تو فنا ہے

دنیا کی نگاہوں سے نہیں بات یہ مستور

ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور

یہاں یہ بات ذکر کر دینا بھی مناسب ہوگا کہ کسی ملک میں جو بھی قانون بنتے ہیں، اُن سب کی بنیاد اُس مملکت کا دستور ہوتا ہے۔ دستور میں اُس ملک کے نصب العین کی پوری تفصیل اور وضاحت درج ہوتی ہے، دستور کے خلاف قانون سازی اُس مملکت کی اساس سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دستور کا ابتدائی حصہ ایک قرار داد پر مشتمل ہے جس کو ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس کو عام طورپر ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے صرف دو مختصر اقتباسات نذر قارئین ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں ’’اسلامی مملکت‘‘ تھا یا بعض لوگوں کے زعم کے مطابق ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘۔ اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:

’’اس کائنات کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہے اور اس نے پاکستان کے باشندوں کی وساطت سے مملکت پاکستان کو جو اختیارات دئیے ہیں وہ ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’آزاد و خود مختار مملکتِ پاکستان کے دستور میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘

 قربان جائیں رب کی قدرت اور اُس کی رحمت پر! جس نے دینِ اسلام میں ایسی لچک رکھی ہے کہ اس کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں بی بی سی سن رہا تھا، جس میں ترکی کے معروف شہر انقرہ سے ایک صحافی وہاں کی موجودہ صورتحال پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’آج بھی ترکی کے اَسّی فیصد عوام پکے مسلمان ہیں اور وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، صرف بیس فیصد شہری علاقوں میں بسنے والے لوگ ایسے ہیں جو ترکی کو سیکولراسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں ترک فوج کی حمایت حاصل ہے‘‘

اللہ اکبر! کمال اتاترک کی سرزمین، جہاں صدیوں سے رائج اسلامی قانون کو منسوخ کرکے سوئٹز رلینڈ کے کفریہ قوانین مسلط کئے گئے، انگریزی ہیٹ عوام کے سروں پر مسلط کرنے کیلئے سینکڑوں بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، اذان پر پابندی عائد کردی گئی، مدارس اور تمام دینی ادارے ختم کردئیے گئے، ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر رومن کردیا گیا، ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس مرحوم کو فوج نے صرف اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا کہ وہ پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کی ’’سازش‘‘ کر رہے تھے۔ مگر پون صدی گزرنے کے باوجود کسی مُلّا کے مطابق نہیں، بی بی سی کے کہنے کے موافق،آج بھی اسلام وہاں کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہاہے۔

ترکی کے عوام جب اتنے طویل عرصے تک سیکولرازم کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو پاکستان کی زمین اتنی بانجھ تو نہیں ہوئی کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں یہاں اسلام کے نام لیوا ختم ہو جائیں۔ یہاں کی مائوں نے بچوں کے کانوں میں اذان اور قرآن کی لوری دینی تو نہیں چھوڑدیں کہ کوئی بزور طاقت انہیں بے دین اور ملحد بناتا رہے۔ یہاں ابھی دینی ادارے، تنظیمیں اور شخصیات تو ختم نہیں ہوئیں کہ اس ملک کا حلیہ ہی تبدیل کردیا جائے اور کوئی بولنے والا بول نہ سکے۔

اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو ہدایت اور راہِ حق پر چلنے والوں کو استقامت عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔