Saturday 26 March 2016

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

0 comments
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ صلح نامہ لکھا جو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار کے درمیان حدیبیہ کے دن ہوا تھا۔ اس عہد نامہ کی عبارت میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاط لکھوانے پر مشرکوں نے کہا کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ نہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کی رسالت کو تسلیم کرتے تو پھر لڑائی کیا تھی۔ اس پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ اس لفظ کو کاٹ دو۔ ادب اور تعظیم کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جو اس لفظ کو کاٹے۔ لہذا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانے کا حکم دیا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معذرت کا اظہار کردیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ

وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.

’’اور جو کچھ رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘۔ (الحشر: 7)

سورۃ احزاب میں ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَامُوْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَمْرًا اَنْ يَکُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ط وَمَنْ يَعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِيْنًا.

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرمادیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘۔ (الاحزاب: 36)

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حکم عدولی کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصحاب تو وہ تھے جو ایک اشارہ پر جان تک قربان کردیتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنفس نفیس خود حکم فرمانے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کو نہیں مان رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عدولی نہیں، اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زجرو توبیخ فرمادیتے یا کوئی آیت نازل ہوجاتی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے دل سے ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بجا لاتے تھے۔ اس ادب کے مقابلے میں اس طرح کی حکم عدولی جس کا مطمع نظر ادب و تعظیم مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہو، کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں وقعت و عظمت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل طور پر موجود تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں پر ادب کا اس قدر تسلط تھا کہ محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کاکرنا اُن کی اپنی نظر میں انہیں محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے ادب بنادے تو وہ ادب کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے حکم کی اطاعت پر معذرت کا اظہار کردیتے ہیں۔ گویا نص قطعی کے مقابلہ میں بھی ادب ہی کو ترجیح ہے۔ اس تمام واقعہ سے اس امر کی صراحتاً وضاحت ہوگئی کہ دین سارا ادب ہی کا نام ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عمداً نماز عصر کو ترک کردینا، محض اس خیال سے کہ اگر میں نے اپنا زانو ہلایا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو میری گود میں سر رکھے آرام فرمارہے ہیں بیدار ہوجائیں گے اور آپ کے آرام میں خلل آجائے گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل و دماغ میں موجود ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہ نے محض حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے زانو کونہ ہلایا۔ حتی کہ آفتاب غروب ہوگیا اور نماز عصر کا وقت جاتا رہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نماز کے فوت ہوجانے کا حال عرض کیا گیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! علی تیری اور میری اطاعت میں تھا، پس آفتاب کو طلوع کردے۔ پس اسی وقت ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت تسکین کے ساتھ نماز عصر ادا کی پھر آفتاب حسب معمول غروب ہوگیا۔

نماز کا وقت پر پڑھنا اطاعت الہٰی میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کمال ادب کو دیکھتے ہوئے ان کے اس عمل کو نہ صرف اپنی اطاعت بلکہ اطاعت الہٰی میں شمار فرمایا اور پھر اس ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر بھی انہیں سورج واپس پلٹاتے ہوئے عصر کی نماز قضا کے بجائے وقت پر پڑھوا کر عطا کردیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔