Saturday 12 March 2016

آئیے ہم اپنے اخلاق و عادات میں اچھی تبدیلی لائیں

0 comments
عادات واطوار میں تبدیلی کی ضرورت کا خود میں احساس پیدا کریں

سب سے پہلے ہمارے اندر یہ اعتراف موجود ہو کہ واقعی ہمارے چند عادات و اطوار قابل اصلاح ہیں، جس کے ہم پر یا ہم سے متعلقہ لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جب تک ہمارے اندر یہ اعتراف پیدا نہ ہوگا تب تک کسی بھی صورت میں اصلاح کی شکل ممکن نہیں۔ اسی طرح ان اسباب اور محرکات کا بھی احساس ہونا چاہیے جو اس بری عادت کا موجب ہیں۔

ان عادات کو نوٹ کرلیں جن میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں:

اس عادت کو محض زبان سے بولنا تبدیلی کے لیے کافی نہیں بلکہ قلمبند کرلینا ضروری ہے کیونکہ یہ طریقہ دماغ میں تبدیلی کا تصور پیدا کرنے میں خاصا محرک ثابت ہوتا ہے۔ برے عادات سے چھٹکارا پانے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے کہ جو غیر مناسب عادات واطوار آپ کے اندرپائے جاتے ہیں اُن کی ایک فہرست بنالیں، اور اہمیت کے اعتبار سے انہیں ترتیب دیں پھر اُن میں سب سے پہلی عادت کو کسی کارڈ پر لکھ لیں مثلا اگر آپ زودغضب ہیں تو لکھیں، غصہ مت کرو، اور اسے اپنے آفس کے ٹیبل پر یا گھر میں کسی خاص جگہ یا اپنے پرس کے اوپری خانے میں رکھ لیں، جہاں بار بار آپ کی نگاہ جاتی ہو، ایسا کرنے سے خود بخود آپ کے اندر بردباری کی صفت پیدا ہو جائے گی، اور آپ کے لیے غصہ پر قابو پانا آسان ہو جائے گا اور بالکل ایسا ہی دوسرے عادات سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی کریں۔

ریاضت و مجاہدہ کے لیے پورے طور پر تیار رہیں:

عملی تربیت اور ریاضت و مجاہدہ کے لیے بھی ہم پورے طور پر تیار ہوں۔ اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے پختہ عزیمت اور پامردی پائی جائے۔ اور جب ہم اس بری عادت کے نقصانات اور اچھی عادت کے فوائد پر غور کریں گے تو بآسانی عزیمت پیدا ہوسکتی ہے۔

دعا کا اہتمام کریں:

ہم رب کریم سے دعا کریں کہ بارالہا تو ہمیں با ادب وبااخلاق بنا اور بے ادبی وبد اخلاقی سے دور رکھ اور ہمارے لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اُسوہ ہے جو اللہ تعالی سے اچھے اخلاق کی ہدایت طلب کرتے اور برے برے اخلاق سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے چنانچہ آپ کی دعاؤں میں سے یہ دعا بھی ہے کہ

واهدِني  لأحسنِ الأخلاقِ  لا يهدي لأحسنِها إلا أنت  واصرِفْ عني سيِّئَها  لا يصرفُ عني سيِّئَها إلا أنت (صحيح مسلم: 771)

 اے اللہ! تو ہمیں اچھے اخلاق کی ہدایت دے، تیرے علاوہ کونہیں جو اچھے کی ہدایت دے سکے، اور ہمارے اندر بُرے اخلاق کو دور کردے، تیرے علاوہ کوئی نہیں جو ہمارے اندر سے بُرے اخلاق کو دور کرسکے۔

یہ سب سے بہتر علاج ہے، اللہ سے مدد طلب کریں تو اللہ ضرور مدد کرے گا، وہ ہمیں جانتا ہے اور ہماری جان سے بھی زیادہ ہم رحیم وشفیق ہے، اس سے مانگنے میں سستی نہ کریں۔

دعا کریں کہ اے اللہ ہمارے اندر غصہ کی شکایت ہے، غصہ پر قابو پانے کی قدرت عطا فرما اور ہمارے اندر بردباری کی صفت پیدا کردے، اے اللہ ہماری زبان بہت تیز ہے، ہماری بات سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جاتی ہے، اس پر قابو پانے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ ہمیں خیر وخوبی کا سرچشمہ بنادے، اور شرو بُرائی سے دور رکھ۔ ۔

بری صحبت سے دوری اختیار کریں:

ایسے لوگوں کی صحبت سے بالکل دوری اختیار کریں جو آپ کے سامنے بُرائی کو خوشنما بنا کر پیش کرتے ہوں، واقعہ یہ ہے کہ صحبت کا ایک انسان کی زندگی پرنہایت گہرا اثر پڑتا ہے، انسان اکثر نقل کرنے کا عادی ہوتا ہے لہذا باادب اور پاکیزہ طبیعت لوگوں کی صحبت اختیار کریں لا محالہ اُن کی خوبیاں آپ کے اندر بھی سیرایت کر جائیں گی،جس نے بردباری کی صحبت اختیار کی اُس کے اندر تحمل وبردباری کی صفت پیدا ہوگی، جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی صحبت اختیار کی اُس کے اندر سخاوت وفیاضی کی صفت پیدا ہوگی،اور جس نے ظالموں کی صحبت اختیار کی اس کے لیے دوسروں پر ظلم کرنا نہایت آسان ہو جائے گا۔

قابل اصلاح عادات پر شریعت کی روشنی میں غور کریں :

آپ کے اندر جو عادات قابل اصلاح ہیں، اُن پر شریعت کی روشنی میں غور کریں اور دیکھیں کہ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں، مثلا اگر آپ کے اندر زیادہ بولنے کی بیماری ہے، یا آپ بہت جلد غصہ ہو جاتے ہیں، آپ خود ستائی اور عُجب کے مرض میں مبتلا ہیں تو اس کے تعلق سے اسلامی تعلیم کو سامنے رکھیں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا نمونہ بنائیں، سیرت کی کتابوں اور اللہ والوں کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کریں، خود بخود آپ کے اندر سے مذموم عادات دور ہوتے جائیں گے ۔
اچھے اخلاق اپنانے پر اپنے آپ کو آمادہ کریں اگر چہ بتکلف ہی کیوں نہ ہو:

یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہی اخلاق آپ کا شیوہ بن جائے مثال کے طور پر ایسا شخص جو ہمیشہ بکواس کرتا رہتا ہے بتکلف چپ رہنے کی کوشش کرے اور بات کرنے کے بعد اپنی بات پر غور کرے کہ آخر اُس سے کیا فائدہ ہوا؟ یہاں تک کہ اچھی بات کرنے کی اس کی عادت بن جائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بابت آتا ہے کہ وہ اپنے منہ میں کنکریاں رکھ لیا کرتے تھے تاکہ بولنے میں دشواری ہو۔

ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میں کب بات کروں؟ آپ نے فرمایا: جب خاموش رہنے کی طبیعت کرے، اُس نے پوچھا کب چپ رہوں؟ تو آپ نے فرمایا: جب بات کرنے کا دل چاہے، یعنی جب بات کرنے کا دل چاہے تو خاموش رہو اور جب خاموش رہنے کا دل چاہے تو بات کرو۔

یہ ذاتی تربیت کا ایک اندازہے، اس سلسلے میں امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ایسے اعمال پر اپنے آپ کو آمادہ کرنا جس کا مطلوبہ اخلاق تقاضا کررہا ہو مثلا اگر کوئی شخص اپنے اندر سخاوت کی صفت پیدا کرنا چاہتا ہےتو اُس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو دبا کر مال خرچ کرنے کی کوشش کرے اگرچہ وقتی طور پر تکلف کا مظاہرہ کرنا پڑے یہاں تک کہ مال خرچ کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے اور وہ سخی بن جائے اُسی طرح اگر کوئی اپنے اندر تواضع کی صفت پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ خاکساروں کے اخلاق پر ایک مدت تک نظر رکھے، اس بیچ اپنے نفس کو دبائے اور ریاضت ومجاہدہ کرے یہاں تک کہ تواضع اُس کی عادت بن جائے، اس طریقہ سے ہر قابل رشک اخلاق و آداب اپنائے جا سکتے ہیں۔

بے ادبوں اور بداخلاقوں کے حالات کا جائزہ لیں:

اپنے عیب کو دور کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ بے ادبوں اور بداخلاقوں کے حالات کا جائزہ لیں آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے ایسے اعمال وتصرفات اُن سے صادر ہورہے ہیں جو اخلاق کے میزان میں نہایت گھٹیاں ہیں، اس طرح آپ اُن سے اپنے آپ کو بچالیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے کہا گیا کہ آپ کو کس نے ادب سکھایا؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے جاہل کی جہالت کو عیب سمجھا اور اس سے اپنے آپ کو بچالیا۔

لقمان حکیم سے بھی کسی نے پوچھا کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا؟ انہوں نے جواب دیا جاہلوں سے، مفہوم یہ تھا کہ میں نے جاہلوں کی کوتاہیاں اور بے ڈھنگیاں دیکھیں اور اُن سے اپنے آپ کو دور رکھتا گیا، اس طرح ہمارے اندر سے بُرے اخلاق دور ہوتے گئے۔
باادب وبا اخلاق لوگوں کے اخروی انجام پر غور کریں:

 آخری اور سب سے بنیادی وسیلہ یہ ہے کہ ہم باادب وبا اخلاق لوگوں کے اخروی انجام اور ان کے لیے جنت میں جو نعمتیں تیار کی گئی ہیں، ان پر غور کریں اور بے ادب وبد اخلاق لوگوں کے لیے جو سزائیں رکھی گئی ہیں اُن کو بھی سامنے رکھیں۔

سورہ آل عمران کی اس آیت پر غور کیجئے کہ کس طرح اللہ تعالی حسن اخلاق کی بدولت جنت کا وعدہ کرتا ہے، فرمان الہی ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ( سورہ آل عمران 133)

“دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی”۔

اُن پرہیزگاروں کی صفت کیا ہے۔

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( سورہ آل عمران 134)

” جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں”۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔