مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سات ماہ تک معروف صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مہمانی کا عظیم شرف بخشا۔ ظاہر ہے اس عرصے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اور اپنے اہل عیال کے کھانے پینے اور دیگر گھریلو اخراجات کے لئے کسی کام اور محنت کی ضرورت نہ تھی۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی سعادت اور خوش نصیبی تھی کہ دیگر جاں نثار اور وفا شعار انصار کی زبردست خواہش اور حد درجہ تمنا کے باوجود اللہ کریم نے انہیں نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’مہمان نوازی‘‘ کے لئے منتخب فرمالیا تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تواضع اور مہمانداری کرکے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل نہ کرتے۔ وہ اگرچہ کوئی امیر کبیر آدمی نہ تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک رات پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو پانی کے نیچے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمرے میں ٹپکنے کے اندیشے کے باعث انہیں اپنے ہی لحاف کے ذریعے اس پانی کو جذب کرنا پڑا تھا۔ گھر میں اتنا کپڑا (تولیہ وغیرہ) نہ تھا کہ اس سے پانی کو جذب کرسکتے۔
(سهيلی الروض الانف، 2: 239)
اس کے باوجود ام ایوب رضی اللہ عنہ روزانہ بڑی عقیدت اور چاہت سے کھانا تیار کرکے اور پہلے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتیں اور جو کھانا بچ رہتا، اسے میاں بیوی بطور تبرک بڑے شوق سے کھاتے اور برتن کی اسی جگہ سے کھاتے جہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کے نشان لگے ہوتے تھے۔
(ابن اثير الجزری، اسدالغابة، 2: 81)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ تو مہمان نوازی کے طور پر ’’ماحضر‘‘ بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتے ہی تھے، اس دوران کئی دوسرے انصار صحابہ بھی روزانہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھانا اور دیگر تحائف پیش کرنے میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہیں تھے۔ چنانچہ سمہودی نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب کے گھر جلوہ افروز ہوگئے تو سب سے پہلا آدمی جو ہدیہ لے کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائش گاہ میں داخل ہوا وہ میں تھا۔ گندم کی روٹی سے تیار کی گئی ثرید کا پیالہ کچھ گھی اور دودھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھتے ہوئے میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ پیالہ (کھانا) میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر مجھے ’’بارک اللہ فیہا‘‘ کے الفاظ سے برکت کی دعا دی اور اپنے تمام ساتھیوں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر تناول فرمایا۔ میں (زید بن ثابت) ابھی دروازے سے نہیں ہٹا تھا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (رئیس الانصار) کا غلام ایک ڈھکا ہوا پیالہ سر پر رکھے ہوئے آگیا۔ میں نے ابو ایوب کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس پیالہ کا ڈھکنا اٹھا کر دیکھا تو اس میں ثرید تھی جس کے اوپر گوشت کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ غلام نے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر وہ پیالہ پیش کردیا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہ گزری تھی جس رات ہم بنی مالک بن النجار میں سے تین چار آدمی باری باری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش نہ کرتے ہوں حتی کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت کدہ میں منتقل ہوگئے۔
(سمهودی، وفاء الوفاء، 1: 264)، (ابن کثير، سيرة النبی، ج1، ص480-481)
No comments:
Post a Comment