Wednesday 16 March 2016

درخشندہ روایات کی حامل امت مسلمہ کی حالت زار

0 comments
درخشندہ روایات کی حامل امت مسلمہ اس وقت جس زوال، انحطاط اور باطل طاغوتی قوتوں کے جبرو استبداد کا شکار ہے وہ بڑا ہی عبرت انگیز ہے۔ اس وقت 57 سے زائد چھوٹی بڑی مسلمان حکومتوں کا وزن دنیا کے پلڑے میں ایک تنکے سے بھی کم ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ امت مسلمہ کا باہمی انتشار و افتراق ہے۔

حیرت اس بات پرنہیں کہ عالم کفر ان کو ذلیل و رسوا کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہوچکا ہے کیونکہ صادق و مصدوق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پہلے ہی الکفرملة واحدة فرما کر ان کے اتحاد کی خبر دے چکے، حیرت اور دکھ اس بات پر ہے کہ وہ امت جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔

اَلْمُوْمِنُ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُه بَعْضًا وَشَبّک بَيْن اَصَابِعه.

’’مومن ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے (پھر مثال سمجھانے کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال کی طرح بنایا‘‘۔

مطلب یہ تھا کہ جس طرح انگلیاں الگ الگ وجود رکھتی ہیں لیکن ایک ہاتھ کے اجزا ہونے کی وجہ سے آپس میں مل کر ایک قوت ہیں اسی طرح مومن بظاہر الگ الگ وجود رکھتے ہیں لیکن عقیدہ توحید و رسالت کے ذریعے ایک طاقت ہیں اور مل ایک کر مضبوط دیوار کی مانند ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا کہ جس کا ایک عضو بیمار ہوتو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔

امت مسلمہ کے باہمی نزاعات و اختلافات اور تفرقہ بازی نے جو صورت اختیار کرلی ہے اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا تھا :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا

(آل عمران : 103)

’’اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ‘‘۔

دین کی نسبت سے اخوت و محبت کی لڑی میں پروئے جانے کے لمحات تاریخ اسلامی کے درخشندہ ترین لمحات تھے اور ان لمحات کو دوام بخشنے کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO

(آل عمران : 105)

’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہےo‘‘۔

اس وقت عالم کفر کے ہاتھوں دنیائے اسلام کی جو درگت بن رہی ہے اور آئے دن اس کی ذلت و رسوائی کے جو مناظر چشم فلک دیکھ رہی ہے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اسی باہمی تفرقہ و انتشار کی سزا ہم بھگت رہے ہیں جس سے بچنے کی تاکید احکم الحاکمین نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں دے دی تھی اور جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا اور باہم دست و گریباں ہوگئے۔ چنانچہ ہم پر ذلت و رسوائی اور ظلم و جبر کا ایک ایسا عذاب عظیم مسلط ہوگیا ہے جو ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔