زبان کا بے ہودہ،غلط اور ناجائز استعمال خواہ کسی بھی شکل میں ہو”گالی کہلاتا“ہے
زبان کا بے ہودہ،غلط اور ناجائز استعمال خواہ کسی بھی شکل میں ہو”گالی کہلاتا“ہے۔فیروزاللغات کے مطابق گالی بدزبانی اور فحش گوئی کا نام ہے۔مذہب اسلام نے گالی کو سنگین جرم اور بد ترین گناہ قرار دیا ہے۔مگر افسوس!آج ہمارے معاشرے میں گالی گلوچ کا چلن دن بہ دن عام ہوتا جارہا ہے ۔بعض افراد ایسے بھی ہے جو غصّے کی حالت میںآپے سے باہر ہوکر گالیاں بکتے ہیں مگربہت سارے بات بات میں مزاحاً گالی بک دیتے ہیں گویا کہ ان افراد کا تکیہ کلام ہی گالی ہے۔
گالی گلوچ منافق کی نشانی:
بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں نبی اکرم ﷺ نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:منافق کی چار نشانیاں ہیں۔جب بولے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،امین بنایا جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے توگالی گلوچ پر اتر آئے۔مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کریں تو گناہ ابتدا کرنے والے پر ہی ہوگا،جب تک کے مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ایک طرف تو نبی اکرم ﷺ نے گالی گلوچ سے منع کیا اورفرمایا کہ گالی گلوچ کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگااور دوسری طرف اخلاقی طور پر یہ بھی ہدایت کی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے،اس لیے کہ اس طرح کرنے سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
مسلمانوں کو گالی دینا فسق ہے:
کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا یہ بہت سخت گناہ ہے اور گالی کے ذریعے انسان کو شدید تکلیف ہوتی ہے کوئی اس تکلیف کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔ مذہب اسلام نے صرف مسلموں کو نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔اور اگر کوئی اہل ایمان کو گالی دے توکس قدر سخت گناہ ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔صحیح بخاری کی حدیث ہے،پیغمبر اسلامﷺنے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے“۔کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا:بڑے گناہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے؟فرمایا:ہاں!کوئی آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے توجواب میں وہ اس کے والدین کو گالی دیتا ہے۔(مسلم شریف )گویا کہ کسی کے والدین کو گالی دینا درحقیقت حقیقی والدین کو گالی دینے کے برابر ہے۔اللہ اکبر!مگر ہائے افسوس!آج کل تو ایسے کم نصیب لوگ بھی معاشرے میں موجود ہے جو براہ راست اپنے والدین کو گالیاں دے کر جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔
ملازم کو گالی دینے کی ممانعت:
آج کل مالکان ملازمین پراپنی دولت وثروت اور سیٹھائی کا رعب جمانے کے لیے ملازمین کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے،ہاں بعض لوگ ملازمین کی خطاﺅں پر انھیں گالیاں دیتے ہیں جبکہ غلطی کی اصلاح کے لیے دوسراطریقہ کار بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ہادی عالم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔آپ ﷺ کی دس سال تک خدمت کرنے والے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”میں نے دس سال نبی کریم ﷺ کی خدمت کی اور اللہ کی قسم!آپ نے نہ مجھے کبھی گالی دی اور نہ مجھے کبھی اُف تک کہا“۔حضور رحمت عالم ﷺ نے تو مُر دوں کو بھی گالی دینے اور برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
غصے اور گالی گلوچ سے بچنے کا طریقہ:
حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے گالی گلوچ کی،تو ان میں سے ایک شخص کی آنکھیں غصے کے مارے لال پیلی ہوگئیں اور اس کی باچھیں پھولنے لگیں،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک میں ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہے تو اس کا غصہ جاتا رہے اور وہ کلمہ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم“ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو ہر طرح کی برائی سے محفوظ رکھے۔آمین(استفادہ خصوصی:ماہ نامہ نورالحبیب ،بصیر پور،دسمبر2011ئ،از:حافظ محمد زاہد،ص46)
No comments:
Post a Comment