ایمان چھ طرح کا ہے۔
اللہ پر یقین،2۔ فرشتوں پر یقین،3۔ اللہ کی پہلی تمام کتابوں پر یقین، 4۔تمام انبیاء پر یقین،5۔ آخرت پر یقین، 6۔قسمت پر یقی
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک حضرت محمد معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰة ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔بخاری شریف-8
یعنی ایمان کے ارکان پانچ ہیں۔
1۔ ایمان اللہ اور رسولﷺ پر 2۔ نماز پڑھنا 3۔زکوۃ دینا 4۔ حج کرنا 5۔ روزہ رکھنا
اس کے علاوہ ایمان دل کے ساتھ ماننیں، زبان سے اظہار اور اعضا کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے، ایمان تین امور پر مشتمل ہے۔
1. اقرار بالقلب ’’دل کے ساتھ اعتراف۔
2 نطق باللسان ’’زبان سے شہادت‘‘
3.عمل بالجوارح ’’اعضاء کے ساتھ عمل۔‘‘
دل کے اقرار، طمانیت اور سکون کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے انسان خود بھی محسوس کرتا ہے، مثلاً: جب وہ کسی محفل ذکر میں ہویامحفل میں وعظ ونصیحت اور جہنم و جنت کا ذکر خیرہو تو بندے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا جہنم و جنت کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے پھر جب وہ اس مجلس سے اٹھ جائے اور اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اوردل کے اس یقین میں کمزوری آجاتی ہے جو مجلس میں حاضری کے وقت تھی۔
احادیث مبارکہ:
1.عمرو بن خالد نے ہم سے حدیث بیان کی ، ان کو لیث نے یہ حدیث بیان، وہ یزید سے یہ روایت کرتے ہیں، وہ ابوالخیر سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ والہ وصحبه وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ ، اور جس کو پہچانو اُس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اُس کو بھی ، الغرض سب کو سلام کرو ۔(بخاری شریف)
2.ابوالیمان نے ہم سے حدیث بیان کی ، ان کو شعیب نے خبر دی ، ان کو ابوالزناد نے اعرج سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بیشک رسول کریم معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم نے فرمایا ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں ۔(بخاری شریف-14)
3.عبداللہ بن محمد جعفی نے ہم سے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سےابوعامر عقدی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے ابوصالح سے روایت کیا ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ، انہوں نے جناب نبی کریم معلم و مقصود کائنات ﷺ سے نقل کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں ۔ اور حیاء ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔(بخاری شریف-16)
4 ۔ اس حدیث کو ابوالیمان نے ہم سے بیان کیا ، ان کو شعیب نے خبر دی ، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں ، انہیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو اور کسی بھی اچھی بات میں ( اللہ تعالیٰ کی ) نافرمانی نہ کرو ۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور الله تعالیٰ اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ تعالیٰ کےحوالے ہے ، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے ۔ ( عبادہ کہتے ہیں کہ ) پھر ہم سب نے ان ( سب باتوں ) پر آپ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم سے بیعت کر لی (بخاری شریف-18)
No comments:
Post a Comment