امن ، انسانی حرمت و حقوق ، دھشت گردی اور اسلام حصّہ دوم
اللہ تعالٰی نے انسان کو ”بہترین مخلوق“ کےاعزاز سے نوازا ، فضیلت و بزرگی اور علم و شرف کےقابلِ فخر تمغے عطا فرماکر اسے مسجودِ ملائکہ بنایا ۔ حُسنِ صوری و معنوی عطا فرما کر ”احسنِ تقویم“ کا تاج پہنایا اور اپنی عظیم کتاب میں اس کی جان کی حُرمت کا اعلان فرمایا ۔ (سورہ بنی اسرائیل:33)
اسلام نے کئی جہتوں سے اللہ تعالٰی کی بہترین تخلیق ”انسان“ کی حفاظت کا ذہن دیا ہے ۔ ”انسانی جان“ کے تحفظ میں اسلام کی روشن تعلیمات کے چند گوشے ملاحظہ کیجیے : ⬇
تمام انسانیت کا قتل : ”انسانی جان“ کو جو رِفعت و بلندی اسلام نے عطا کی ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ اسلام نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے مُتَرادِف قرار دیا ہے اور جس نے ایک جان کو جِلا بخشی : (فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-) ترجمۂ کنزُ الایمان : اس نے گویا سب لوگوں کو جِلا لیا ۔ (سورہ المائدۃ :32)
اس طرح کہ قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے وغیرہ اسباب ہلاکت سے بچایا ۔(خزائن العرفان)
یہ آیتِ مُبارَکہ اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اَہمیت ہے ۔ بارگاہِ الٰہی میں انسانی جان کی اَہمیت نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا کسی شخص کے ناحق قتل ہو جانے سے زیادہ ہلکا ہے ۔ (موسوعہ ابن ابی الدنیا جلد 6 صفحہ 234 حدیث نمبر231)
جان اپنی ہو یا پرائی اسلام کو دونوں کی حفاظت مطلوب ہے ، یہاں تک کہ ہر وہ چیز جو اپنے لئے خطرے اور ہلاکت کا باعث ہو اس سے باز رہنے کا حکم ہے ۔ (خزائن العرفان صفحہ 65)
اسی لیے اسلام میں خودکشی (Suicide) حرام ہے ۔ دوسروں کی ناحق جان لینے کوبھی اسلام نے نہ صرف کبیرہ گناہ قرار دیاہے بلکہ ایسا کرنے والے کےلیے سخت ترین سزا بھی مُتَعَیَّن فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحے سے محض اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایاہے ۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 434 حدیث نمبر 7072،چشتی)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں قتلِ انسانی کی مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا ، کسی جان کو قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں ۔ (بخاری جلد 4 صفحہ 357 حدیث نمبر6871)
اس حدیثِ مُبارَکہ سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں شرک کے بعد سرِ فہرست کسی کی جان لینا ہے ۔ بروزِ محشر حقوقُ العباد کے باب میں سب سے پہلے قتلِ ناحق کے بارے میں پُرسِش ہوگی ۔ چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم صفحہ 711 حدیث نمبر4381،چشتی)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمان کی جان کی حُرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 4 صفحہ 319 حدیث نمبر 3932)
انسانی جان کے تحفظ کی یہ بہترین ، مؤثّر اور روشن تعلیمات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو صدقِ دل سے اپنی زندگیوں میں بسائیں اور ان حُقوق کی پاسداری کریں ۔ اپنے گھناٶنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کےلیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے ۔ (ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395)(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، رقم: 3987،چشتی)(ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، 2: 874، رقم: 2619)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَتْلُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے ۔ (نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990)(طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594)(بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647) ۔امام طبرانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔
ایک روایت میں کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ہے : عَنِ الْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اللهِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ ۔
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے ۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183)(ابن أبي عاصم، الديات: 2، رقم: 2)(بيهقي، شعب الإيمان، 4: 345، رقم: 5344)
اِن روایات سے متحقق ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق تلف کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حُرمت پر حملہ کیا ہے ، اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے ۔
عقائد میں اہل سنت کے اِمام ابو منصور ماتریدی علیہ الرّحمہ آیت مبارکہ - مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ - کے ذیل میں انسانی قتل کو کفر قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں : من استحل قتل نفس حَرَّمَ اللہ قتلها بغير حق، فکأنّما استحل قتل الناس جميعًا، لأنه يکفر باستحلاله قتل نفس محرم قتلها، فکان کاستحلال قتل الناس جميعًا، لأن من کفر بآية من کتاب اللہ يصير کافرًا بالکل. ... وتحتمل الآية وجها آخر، وهو ما قيل : إنه يجب عليه من القتل مثل ما أنه لو قتل الناس جميعًا. ووجه آخر: أنه يلزم الناس جميعا دفع ذلک عن نفسه ومعونته له، فإذا قتلها أو سعی عليها بالفساد، فکأنما سعی بذلک علی الناس کافة ... وهذا يدل أن الآية نزلت بالحکم في أهل الکفر وأهل الإسلام جميعاً، إذا سعوا في الأرض بالفساد ۔
ترجمہ : جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے ، تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے ... یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے ... اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لئے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لئے سرگرداں ہو ۔ (تأويلات أهل السنة ، 3: 501)
علامہ ابوحفص الحنبلی علیہ الرّحمہ اپنی تفسیر اللباب في علوم الکتاب میں اللہ تعالیٰ کے فرمان فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا کی تفسیر میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قال مُجَاهِد: من قتل نَفْساً محرَّمة يَصْلَي النَّار بقتلها، کما يصلاها لو قتل النَّاس جميعاً ، وقال قتادة : أعْظَم اللہ أجرَها وعظَّم وزرَها ، معناه : من استَحَلَّ قتل مُسْلِمٍ بغير حَقّه، فکأنّما قتل النَّاس جميعاً ، وقال الحسن: {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا}، يعني: أنّه يَجِبُ عليه من القِصَاص بِقَتْلِهِا، مثل الذي يجب عليه لو قتل النَّاسَ جَمِيعًا ۔ قوله تعالی : إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُواْ عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔ (سورہ المائدة، 5: 33، 34) ۔ وقوله : {يُحَارِبُونَ اللهَ}، أي: يُحَارِبُون أولِيَاء هکذا قدَّرَه الجمهور.وقال الزَّمَخْشَريُّ: ’’يُحَارِبُون رسول اللہ، ومحاربة المُسْلِمِين في حکم مُحَارَبَتِه.‘‘نزلت هذه الآية في قطَّاع الطَّريق من المُسْلِمين (وهذا قول) أکثر الفقهاء (بغوی، معالم التنزيل، 2: 33)(رازي، التفسير الکبير، 11: 169)
أنَّ قوله تعالی: {الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا} يتناول کل من يُوصَف بهذه سوائً کان مُسْلِمًا أو کافراً، ولا يُقالَ: الآية نزلت في الکُفَّار، لأن العبرة بعُمُوم اللفْظ لا خُصوص السَّبَب، فإن قيل: المُحَارِبُون هم الذين يَجْتَمِعُون ولهم مَنَعَةٌ، ويَقصدون المُسْلِمِين في أرواحهم ودِمَائهم، واتَّفَقُوا علی أنّ هذه الصِّفَة إذا حصلت في الصَّحراء کانوا قُطَّاع الطَّريق، وأما إن حصلت في الأمصار، فقال الأوزَاعِيُّ ومالِکٌ والليْثُ بن سَعْد والشَّافِعِيُّ: هم أيضاً قُطُّاع الطَّريق، هذا الحدُّ عليهم، قالوا: وإنّهم في المُدُن يکونون أعظَم ذَنْباً فلا أقَلّ من المساواة، واحتجوا بالآية وعمومها، ولأنّ هذا حدّ فلا يختلف کسائر الحدود ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد نے فرمایا : جس شخص نے ایک جان کو بھی نا حق قتل کیا تو وہ اس قتل کے سبب دوزخ میں جائے گا، جیسا کہ وہ تب دوزخ میں جاتا اگر وہ ساری انسانیت کو قتل کر دیتا (یعنی اس کا عذابِ دوزخ ایسا ہو گا جیسے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ہو)۔(أبو حفص الحنبلي، اللباب في علوم الکتاب، 7: 301)
حضرت قتادہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا بڑھا دی ہے اور اس کا بوجھ عظیم کردیا ہے یعنی جو شخص ناحق کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتا ہے گویا وہ تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا} کی تفسیر میں فرمایا کہ (جس نے ناحق ایک جان کو قتل کیا) اس پر اس کے قتل کا قصاص واجب ہوگا، اس شخص کی مثل جس پر تمام انسانیت کو قتل کرنے کا قصاص واجب ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: {بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کےلیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے ۔ مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی سو جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔ ’’اللہ تعالیٰ کے فرمان {يُحَارِبُونَ اللهَ} سے مراد ہے: یحاربون اولیاء ہ (وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں)۔ یہی معنی جمہور نے بیان کیا ہے۔ اور علامہ زمخشری نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں؛ اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ساتھ جنگ کے حکم میں ہے ۔ ’’یہ آیت - {اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ} مسلمان راہزنوں کے بارے میں اتری ہے، اور یہ اکثر فقہاء کا قول ہے ۔ ’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہر وہ شخص شامل ہے جو ان صفات سے متصف ہو خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوگا نہ سبب کے خاص ہونے کا۔ اور اگر کہا جائے کہ محاربون وہ ہیں جو مجتمع ہوتے ہیں اور ان کے پاس طاقت و قوت بھی ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی جانوں کا قصد کرتے ہیں تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر یہ وصف صحراء میں پایا جائے تو ایسے لوگ راہزن کہلائیں گے، اور اگر دہشت گردی و قتل و غارت گری کا یہ عمل شہروں میں پایا جائے تو امام اوزاعی، مالک، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے کہ وہ (قاتل ہونے کے علاوہ) راہزن اور ڈاکو بھی ہیں، ان پر بھی یہی حد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ شہروں میں ہوں تو ان کا گناہ بہت ہی زیادہ ہو جائے گا۔‘‘کسی ایک مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کے لیے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ خَالِدًا، غَضِبَ، لَعَنَہ اورعَذَابًا عَظِیْمًا فرما کر اس کی شدّت و حدّت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ۔
ترجمہ : اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کےلیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورہ النساء، 4: 93)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اِسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ اسے اصطلاحِ شرع میں ارتداد کہتے ہیں ۔ امام بخاری علیہ الرّحمہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ۔
ترجمہ : تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6: 2594، رقم: 6668)(طبراني، المعجم الأوسط، 4: 269، رقم: 4166)
گویا کلمہ گو مسلمانوں کا آپس میں قتل عام صریح کفریہ عمل ہے جسے ارتداد سے لفظی مماثلت دی گئی ہے ۔
حافظ ابن کثیر (م774ھ) آیت وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا النساء، 4: 93 کی تفسیر میں قتلِ عمد کو گناہِ عظیم اور معصیتِ کبریٰ قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ناحق کسی مسلمان کو قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اسے شرک جیسے ظلمِ عظیم کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : وہذا تہدید شدید ووعید اکید لمن تعاطی ہذا الذنب العظیم، الذی ہو مقرون بالشرک باللہ فی غیر ما آیۃ فی کتاب اللہ، حیث یقول سبحانہ فی سورۃ الفرقان : وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۔ (سورہ الفرقان، 25: 68)
وقال تعالی : {قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا} إلی أن قال: {وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۔ (سور الأنعام، 6: 151)
ترجمہ : اس (قتل عمد جیسے) گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے یہ شدید دھمکی اور موکد وعید ہے کہ قتل عمد کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ شرک جیسے گناہ کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا ہے: {اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیر حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ ہی بدکاری کرتے ہیں۔} اور ارشاد فرمایا: {فرما دیجئے! آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ... اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے بجز حق (شرعی) کے۔ یہی وہ امور ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۔ (ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 535)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی جان ومال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَلَا، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ. قَالَ: اللهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ، فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی)ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے تم تک (اپنے رب کا) پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ (تم میں سے ہر) موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں (اور سنو!) میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام مني، 2: 620، رقم: 1654،چشتی)(بخاري، کتاب العلم، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : رب مبلغ أوعی من سامع، 1: 37، رقم: 67)مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال، 3: 1305، 1306، رقم: 1679)
اس متفق علیہ حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ جو لوگ آپس میں خون خرابہ کریں گے، فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اسلحہ اٹھا ئیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے وہ مسلمان نہیں بلکہ کفر کے مرتکب ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے جبر و تشدد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا فرما کر کفر قرار دے دیا ۔
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللهُ فِي النَّارِ ۔
ترجمہ : اگر تمام آسمانوں و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا ۔ (ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب الحکم في الدماء، 4: 17، رقم: 1398)(ربيع، المسند، 1: 292، رقم: 757،چشتی)(ديلمي، مسند الفردوس، 3: 361، رقم: 5089)
قتل و غارت گری، خون خرابہ، فتنہ و فساد اور نا حق خون بہانا اِتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفرِ کردار تک پہنچائے گا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خونریزی کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : أَوَّلُ مَا يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاء ۔
ترجمہ : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن يقتل مؤمنا متعمدا، 6: 2517، رقم: 6471)(مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب المجازاة بالدماء في الآخرة وأنها أول ما يقضي فيه بين الناس يوم القيامة، 3: 1304، رقم: 1678)(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 83، رقم: 3994)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 442)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہمی خون خرابہ اور لڑائی جھگڑے کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل وغارت گری اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر کوئی فرد یا طبقہ اس میں ایک مرتبہ ملوث ہو جائے تو پھر اسے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ امام بخاری کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں : إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُوْرِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ، فِيْهَا سَفْکَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ ۔
ترجمہ : ہلاک کرنے والے وہ اُمور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو، اِن میں سے ایک بغیر کسی جواز کے حرمت والا خون بہانا بھی ہے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدًا فجزاؤه جهنم، 6: 2517، رقم: 6470،چشتی)(بيهقي، السنن الکبری، 8: 21، رقم: 15637)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابہ اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ العِلْمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُمَا هُوَ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، الْقَتْلُ ۔
ترجمہ : زمانہ قریب ہوتا جائے گا، علم گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل، قتل (یعنی ہرج سے مراد ہے: کثرت سے قتلِ عام) ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6: 2590، الرقم: 6652،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب إذا تواجه المسلمان بسيفيهما،4: 2215، الرقم: 157)
جب ایک مرتبہ پُرامن شہریوں اور سول آبادیوں کو ظلم و ستم، جبرو تشدد اور وحشت و بربریت کا نشانا بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات کی محض فکری و نظریاتی اختلاف کی بنا پر target killing کی جائے تو اس دہشت گردی کا منظقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج افراتفری، نفسا نفسی ، بد امنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ انہی گھمبیر اور خطرناک حالات کی طرف امام ابو داؤد علیہ الرّحمہ سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے : عَنْ عَبْد اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنهما قَالَ: کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ الْفِتَنَ، فَأَکْثَرَ فِي ذِکْرِهَا حَتَّی ذَکَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ. فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ : هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا۔کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ افراتفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے ۔ (أبوداود، السنن،کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن، 4: 94، رقم: 4242)
مسلمانوں کو (بم دھماکوں یا دیگر طریقوں سے) جلانےوالے جہنمی ہیں
سورۃ البروج کی آیت نمبر دس (10) - اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِo (بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کےلیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے) - کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا ہے۔ اس معنی کی رُو سے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے عامۃ الناس کو خاکستر کر دینے والے فتنہ پرور لوگ عذابِ جہنم کے مستحق ہیں۔ مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں : ⬇
وقال ابن عباس ومقاتل: {فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ} حرقوهم بالنار ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس اور مقاتل نے فرمایا: فَتَنُوا الْمُوْمِنِیْنَ کا مطلب ہے: (ان فتنہ پروروں نے) انہیں (یعنی مومنین کو) آگ سے جلا ڈالا ۔ (رازی، التفسير الکبير، 31: 111)
وأخرج عبد بن حميد وابن المنذر عن قتادة {اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} قال: حرقوا ۔
ترجمہ : عبد بن حمید اور ابن منذر حضرت قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ {اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} کا معنی آگ سے جلا کر ہلاک کر دینا ہے ۔ (سيوطي، الدر المنثور، 8: 466)
اسی معنی کو امام قرطبی اور ابو حفص الحنبلي نے بھی روایت کیا ہے ۔ (قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 19: 295))(أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 20: 253)
مسلمان کے قتل کو جائز سمجھنے اور انہیں جلانے والے نص قرآنی کے تحت نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں بلکہ عذابِ حریق کے مستحق بھی ٹھہرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن بسر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومنوں کو اذیت دینے والوں کو اپنی اُمت سے خارج کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَيْسَ مِنِّی ذُوْ حَسَدٍ وَلَا نَمِيْمَة وَلَا کَهَانَة وَلَا أَنَا مِنْهُ. ثُمَّ تَلا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم هَذِهِ الآيَة : وَالَّذِيْن يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ۔ (سورہ الأحزاب، 33: 58)
ترجمہ : حسد کرنے والا، چغلی کھانے والا اور کہانت والا مجھ سے نہیں (یعنی میری امت سے نہیں) اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سر) لے لیا ۔ (منذری، الترغيب والترهيب، 3: 324، رقم: 4275)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 21: 334)
امام فخر الدین رازی علیہ الرّحمہ رقم طراز ہیں : أن کلا العذابين يحصلان فی الآخرة إلا أن عذاب جهنم وهو العذاب الحاصل بسبب کفرهم، وعذاب الحريق هو العذاب الزائد علی عذاب الکفر بسبب أنهم أحرقوا المؤمنين ۔
ترجمہ : بے شک دونوں عذاب (عذابِ جہنم اور عذاب حریق) آخرت میں واقع ہوں گے، مگر فرق یہ ہے کہ عذابِ جہنم ان کے کفر کے سبب ہوگا، اور عذابِ حریق عذابِ کفر پر وہ زائد عذاب ہے جو انہیں مسلمانوں کو جلانے کے سبب ملے گا ۔ (رازی، التفسير الکبير، 31: 111)
اسی مفہوم کو صاحبِ جلالین نے بھی رقم کیا ہے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں : اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۔ بالإحراق ۔ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۔ بکفرهم ۔وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْق۔ أی عذاب إحراقهم المؤمنين فی الآخرة ۔
ترجمہ : وہ لوگ جنہوں نے مومن مرد و زن کو آگ میں جلا کر اذیت میں مبتلا کیا، پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے ان کے کفر کی وجہ سے مومنین کو جلانے کی پاداش میں عذابِ حریق (جلائے جانے کا عذاب) ہوگا ۔ (تفسير الجلالين، 1: 801)
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی قبول نہیں ہوگی ۔ حضرت عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا ۔
ترجمہ : جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے (ناحق) قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا ۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 266، رقم: 1311)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 203، رقم: 3691،چشتی)(عسقلاني، الدراية، 2: 259)(شوکاني، نيل الأوطار، 7: 197)
عبادت و ریاضت اور قتل و غارت گری کو ساتھ ساتھ چلانے والے اور انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اعمال و عبادات کو ذریعہ نجات سمجھنے والے ایسے انتہا پسندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ صرف ان کی عبادت ردّ کر دی جائے گی بلکہ ان کےلیے ،،فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْق،، ۔ (سورہ البروج، 85: 10)
ترجمہ : (تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے) کی دردناک وعید بھی ہے ۔
مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا اور انہیں جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کا شکار کرنا سخت منع ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جہنم اور آگ کی درد ناک سزا دینے کا اعلان فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ِانَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ۔
ترجمہ : بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کےلیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے ۔ (سورہ البروج، 85: 10)
حضرت ہشام بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب دے گا جو اس کی مخلوق کو اذیت دیتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے : إِنَّ اللهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق ،4: 2018 ، رقم: 2613)
جملہ اَئمہ تفسیر نے اس آیت کے تحت یہی موقف اختیار کیا ہے کہ : مسلمانوں کو ظلم وجبر اور فتنہ و فساد کا نشانہ بنانے والوں کی سزا جہنم اور آگ ہے ۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرّحمہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : کل من فعل ذلک وهذا أولی لأن اللفظ عام والحکم عام، فالتخصيص ترک للظاهر من غير دليل ۔
ترجمہ : جو بھی مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیف میں مبتلا کرے (خواہ ایسا کرنے والا خود اصلاً مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے لیے عذاب جہنم ہے) یہ معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ لفظ عام ہے اور اس کا حکم بھی عام ہے اور اگر خاص کیا جائے تو یہ بغیر دلیل کے عام حکم کو خاص کرنا ہو گا ۔ (رازی، التفسير الکبير، 31: 111) ۔ اس لحاظ سے حکم الآیت کا اِطلاق زمانہ قدیم کے اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد (1) وغیرہ کی طرح کلمہ گو دہشت گردوں پر بھی یکساں ہوگا ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)