نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہیں تھا ظل اور فئی کی تحقیق ۔ آج اس پرفتن اور پر آشوب دور میں نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے مسئلے اور عقیدے گڑھنے شروع کر دئیے ہیں ، جس کا تعلق در حقیقت کسی دور سے نہیں ہوتا ہے ۔ چنانچہ جسم پاک مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق عہد صحابہ کرام سے لیکر آخر تک مضبوط، مربوط اور مسلسل شہادتیں موجود ہیں جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اسلاف کرام کے عقائد اس سلسلے میں کیا تھے۔ لٰہذا ہم سب کو بھی چاہئیے کہ ذہن و فکر کی اس جدید پیداوار کی طرف نہ جائیں اور اپنے اسلاف کی اصابتِ روائے پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہماری ، آپ سب کی کامیابی ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند احادیث اس دعوے کے ثبوت کےلیے کہ سرکار کے جسم پاک کا سایہ نہ ہونے کا عقیدہ محض بےبنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں روایات و احادیث کی تہہ میں موجود ہیں ، جن پر شروع سے صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے ۔
تُو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
الفاظ و معانی : سایہ : عکس ، روشنی کے سامنے کسی شے کے حائل ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تاریکی ۔ عُضْو : بدن کا کوئی حصّہ یا جُز ۔ ٹکڑا :حصّہ ۔
شرح : شعر کے پہلےمِصرعے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اَقدس کی دوجہتوں (Dimensions) کا ذکر فرمایا ہے کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !ایک جانب تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ساری مخلوق پر نورِالٰہی و رحمتِ خُداوندی کا سایہ ہیں اور دوسری طرف آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےجسمِ اَقدس کا ہر ہر عُضْو نورکاٹکڑا ہے ۔ پھر دوسرے مِصرعے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی شاندار منطقی (Logical) انداز میں دوعقلی دلیلوں کے ذریعےاس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےجسمِ منوَّر کا سایہ نہ تھا ۔
جب کوئی مجسَّم (Solid) شے روشنی کے سامنے آتی ہے تو روشنی کے مقابِل اُس شے کا سایہ و عکس بنتا ہے لیکن اُس سائے کا مزید آگے سایہ نہیں بنتا۔بِلاتشبیہ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے نُور کا سایہ ہیں تو پھر اِس سایۂ نورِ خُدا (یعنی بدنِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا سایہ کیسے بن سکتا ہے ۔
نور (Light) کی وجہ سے اِس کے سامنے آنے والی مُجسَّم (Solid) شے کا سایہ تو بنتا ہے مگر نُور اور روشنی کی اپنی ذات کا سایہ نہیں ہوتا کیونکہ روشنی اور سایہ (تاریکی) ایک دوسرے کی ضد (یعنی اُلٹ) ہونے کی وجہ سے باہم جمع نہیں ہوسکتے۔ بِلاتمثیل حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نورِ الٰہی کا ایسا چمکتا دَمکتا سورج ہیں کہ جس کی روشنی سے تمام جہاں ہے لیکن اس نورِ الٰہی کے سورج کا اپنا سایہ نہیں ہے ۔
چنانچہ امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا ذَکْوان رضی اللہ عنہ کی روایت نَقْل فرماتے ہیں کہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم لَمْ یَکُنْ یُریٰ لَہٗ ظِلٌّ فِیْ شَمْسٍ وَ لَا قَمَرٍ یعنی سُورج اور چاند کی روشنی میں سرکارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 1 صفحہ 116،چشتی)
نیز سایہ نہ ہونے کے متعلّق نقل فرماتے ہیں کہ قَالَ ابنُ سبع: مِنْ خَصَائِصِہٖ اَنَّ ظِلَّہُ کَانَ لَا یَقَعُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَنَّہُ کَانَ نُوْراً فَکَانَ اِذَا مَشیٰ فِی الشَمْسِ اَوِ الْقَمَرِ لَا یُنْظَرُ لَہُ ظِلٌّ یعنی ابنِ سبع رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نُور ہیں، آپ علیہ السَّلام جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو سایہ دِکھائی نہ دیتا تھا ۔ (الخصائص الکبری جلد 1، صفحہ 116)
اسی طرح امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : مِنْ اَنَّہُ کَانَ لَاظِلَّ لِشَخْصِہٖ فِیْ شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ لِاَنَّہُ کَانَ نُوْراً یعنی حضور پُرنُور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہ دُھوپ میں ہوتا اور نہ چاندنی میں،اس لئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نُور ہیں ۔ (الشفاء،ج1،ص368)
وہی نورِحق وہی ظِلِّ ربّ، ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں، کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
حضرت سیدنا عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں :لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم لقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ۔
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج1، صفحہ68 از نفی الظل، علامہ کاظمی زرقانی علی المواہب ج4 صفحہ 220، جمع الوسائل للقاری ج1 صفحہ 176)
امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں۔ (المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیہ صفحہ30 مطبع مصر،چشتی)
امام نسفی تفسیر مدارک شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ خدا عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔ (مدارک شریف ج2 صفحہ 103)
حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خصائص کبرٰی شریف میں ابن سبع سے یہ روایت نقل فرمائی:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لا یقع علی الارض لانہ کان نورا اذا مشی فی الشمس اولقمر لا ینظرلہ ظل قال بعضھم ویشھدلہ حدیث قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ودعائہ فاجعلنی نورا ۔
ابن سبع نے کہا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ سرکار کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ نور تھے، آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں جب چلتے تھے تو سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر حضور کی وہ حدیث شاہد ہے جس میں حضور کی یہ دعاء منقول ہے کہ پروردگار مجھے نور بنا دے۔ ( خصائص کبرٰی ج1 صفحہ68،چشتی)
اس مسئلہ کا ثبوت اسلاف کے اقوال سے
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “لم یقع ظلہ علی الارض ولا یری لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا قال زرین فغلبہ انوارہ۔“حضور کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں سایہ نظر آتا تھا، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، زریں نے کہا کہ حضور کا نور سب پر غالب تھا۔ (النموذج اللبیب)
وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “وما ذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمر لانہ کان نورا وان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ۔“ یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے ۔ (شفا شریف لقاضی عیاض جلد 1 صفحہ 342۔ 343،چشتی)
امام علامہ احمد قسطلانی ارشاد فرماتے ہیں: “قال لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ ظل۔“ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، اسی لیے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (موالب اللدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 180)(زرقانی جلد 4 صفحہ 220،چشتی)
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : “ومما یوید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صار نورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لا یظھر لہ ظل لانہ لا یظھر الا لکشیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم قد خلصہ اللہ تعالٰی من سائر الکشافات الجسمانیہ وصیرہ نورا صرفا لا یظھر لہ ظل اصلا۔“ اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور پاک کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا، نہ چاندنی میں، اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے، اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انہیں “نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔ (افضل القرٰی صفحہ72،چشتی)
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: نبود مرآں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں ۔ (مدراج النبوۃ ج1، صفحہ21)
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترازدے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد۔“ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے، اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ کوئی لطیف چیز ہے ہی نہیں، پھر حضور کا سایہ کیونکر پڑتا۔ (مکتوبات امام ربانی ج3 صفحہ147 مطبوعہ نو لکشور لکھنئو۔)
امام راغب اصفہانی (م450) ارشاد فرماتے ہیں: “روی ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل۔“ مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ (المعروف الراغب)
امام العارفین مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں
چوں فناش از فقر پیرایہ شود
او محمد وار بے سایہ شود
جب فقر کی منزل میں درویش فنا کا لباس پہن لیتا ہے، تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کا بھی سایہ زائل ہو جاتا ہے ۔ (مثنوی معنوی دفتر پنجم)
امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “از خصوصیاتے کہ آن حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رادر بدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برز میں نہ می افتاد۔“ جو خصوصیتیں نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔
اب ان تمام دلائل کی روشنی میں آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے فیصلہ کیجئے کہ جسم کے سایہ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہونا چاہئیے ؟ مذید اگر اس سے تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو اعلٰی حضرت اہلسنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث فرمائی ہے۔ “جو قمر التمام فی نفی الفی والظل عن سیدالانام“ اور “نفی انفی عمن بتورہ اناء کل شئی۔“ کے نام سے رسالے کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطالعہ کیجئے جس میں انھوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حضور کے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ عوام کا اختراع نہیں ہے بلکہ حدیث اور سلف صالحین سے ثابت ہے ۔
قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ .
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(المائده، 5 : 15)
يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا آرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِيْراً وَّ دَاعِيًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِيْراً ۔
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔(الاحزاب، 33 : 46)
ان دو آیتوں میں اللہ تعاليٰ نے واضح طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور چمکا دینے والا آفتاب قرار دیا ہے۔
نور و ظلمت : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و آفتا ب ہوئے۔ روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ سے تعلق نہ رہا کہ وہ روشنی کی ضد ہے۔ فرمان باری تعاليٰ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ ۔ ترجمہ : سب تعریفیں اللہ تعاليٰ کے لئے جس نے
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ. ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ.
ترجمہ : آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر کافر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔(الانعام، 6 : 1)
کیا نور و ظلمت برابر ہیں ؟
قُلْ هَلْ يَسْتَوِيْ الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِيْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ.
ترجمہ : تم فرماؤ! کیا اندھا اور انکھیارا برابر ہیں؟ یا کیا برابر ہیں اندھیریاں اور نور۔
(الرعد،13 : 16)
اللہ کا حکم، انبیاء کا منصب : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰيٰتِنَا آنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
ترجمہ : اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔(ابراهیم، 14 : 15)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
الٰر. کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۔
ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائو۔ ان کے رب کے حکم سے۔(ابراهيم، 14 : 1)
اللہ کا کام اور شیطان کا کام : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا! يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اُوْلِيٰئُهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ ۔
ترجمہ : اللہ والی ہے مسلمانوں کا، انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرة، 2 : 57)
هُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِه اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔
ترجمہ : وہی ہے کہ اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے۔(الحديد، 57 : 9)
ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہوسکتا۔ نہ دونوں جمع ہوں، نہ اٹھ سکیں۔ اللہ پاک رسول پاک قرآن ایمان اسلام نور ہیں اندھیرے نہیں۔ نیکی نور ہے اندھیرا نہیں۔ اللہ تعاليٰ اپنے مسلمان بندوں کے لئے نور پسند فرماتا ہے۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ شیطان کے دوست کافر اور کافروں کا دوست شیطان شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے کھینچ کھینچ کر اندھیروں میں جھونکتا ہے۔ ان کا فکر و عقیدہ اندھیرا۔ان کا عمل و کردار اندھیرا۔ جبکہ مسلمان کا عقیدہ بھی نور اس کا عمل بھی نور۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِرَاج مُنِيْر، روشن آفتاب ہیں۔ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا۔
حدیث پاک کی روشنی میں : حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔انی عندالله مکتوب خاتم النبيين وان ادم لمنجدل فی طينته وساخبرکم باول امری، دعوة ابراهيم وبشارة عيسٰی ورؤيا امی التی رأت حين وضعتنی وقد خرج لها نور اضاء لها منه قصور الشام ۔
ترجمہ : میں اللہ کے ہاں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے بن رہا تھا۔ اب میں تم کو اپنی پہلی بات بتائوں گا۔ کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کا وہ منظر ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے دیکھا۔ کہ ان کے جسم اقدس سے عظیم نور نکلا جس سے شام کے محلات ان پر روشن ہوگئے۔(مشکوة ص 513،چشتی)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا۔ وجهه مثل السيف. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ روشن تلوار کی طرح چمکتا تھا ؟ انہوں نے کہا لا نہیں ۔ بل کان مثل الشمس والقمر بلکہ سورج اور چاند کی طرح۔ مسلم ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ لم ارقبله ولا بعده مثله صلی الله عليه وسلم
میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
ترمذی شریف میں آیا ہے کہ محمد عمار بن یاسر کے بیٹے ابو عبیدہ کہتے ہیں میں نے ربیع بنت معاذ بن عفراء سے عرض کی صفی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کریں۔بولیں، بیٹا! اگر تم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ۔
رَاَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. دیکھتے کہ سورج طلوع ہورہا ہے۔ دارمی۔
جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیکھتا اور چاند کو بھی۔ آپ کے جسم اقدس پر سرخ رنگ کا حلہ تھا،
فاذا هو احسن عندی من القمر.
تو آپ میری نظر میں چاند سے زیادہ حسین تھے۔ ترمذی، دارمی
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
مارأيت شيئا احسن من رسول الله صلی الله عليه وسلم.
میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھی۔
کأنّ الشمس تجری فی وجهه.
گویا سورج آپ کے چہرہ اقدس میں پیر رہا ہے۔ ترمذی
ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے۔
کالنور يخرج من بين ثناياه.
گویا سامنے کے دو دانتوں سے نور نکل رہا ہے۔ دارمی
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ اقدس یوں چمک اٹھتا جیسے قطعۃ قمر چاند کا ٹکڑا ۔ متفق علیہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے۔اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا وَّ فِيْ بَصْرِيْ نُوْراً وَّفِی سَمِعْی نُوْراً وَّعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْراً وَّعَنْ يَسَارِيْ نُوْراً فَوْقِيْ نُوْراً وَّ تَحْتِيْ نُوْراً وَّاَمَا مِيْ نُوْراً ۔ اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما۔ اور میری آنکھ (نظر) میں نور پیدا فرما۔ میرے کان (شنوائی) میںنور پیدا فرما۔میرے دائیں نور۔ اور میرے بائیں نور، میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور 10 میرے لئے نور وَّخَلْفِيْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِيْ نُوْراً. ۔۔۔۔۔۔عصبی، لحمی۔ دمی، شعری، بشری کردے۔۔۔ دوسری روایت میں ہے میرا پٹھہ، گوشت، خون، میرے بال، میرا چمڑا۔(صحيح بخاری ص 935 ج 2 طبع کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہوگئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لئے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لئے کہ جو ہے اس میں برکت ہو۔ اضافہ ہو۔ دوام ہو۔ ہم فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا۔
اس کا یہی مفہوم ہے۔
تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے، نہ سایہ نور کا
اہل لعنت : النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب.
اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی۔
لسان العرب لابن منظور افريقی ص 322 ج 14 طبع بيروت
ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے۔
الظاهر فی نفسه المظهر لغيره.
جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ایضاً
فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا۔
النهاية لابن الاثير الخدری ص 125 ج 5 طبع ايران
امام قاضی ایاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی۔
الشفاء بتعريف حقوق المصطفی ص 243 ج 1 طبع مصر
ان النبی صلی الله عليه وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا۔
مفردات راغب ص 315 طبع کراچی
ظل اور فئی
ظلالهم اشخاصهم.
ان کے ظلال یعنی ذاتیں۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے ’’کافر غیراللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے اور اس کا ظل یعنی جسم جس کا ظل ہے، اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے‘‘۔ ظل الشئی۔ کنہ کسی چیز کا حفاظتی پردہ۔ ظل کل شئی شخصہ۔ ہر چیز کا ظل، اس کی ذات ۔
لسان العرب لابن منظور ص 261 ج 8 طبع بيروت.النهاية لابن الاثير ص 161 ج 3 طبع ايران
تیرے اور سورج کے درمیان جب کوئی شے حائل ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا سایہ ظل اور فئی ہے۔ سورج ڈھلتے وقت تک ظل اور س کے بعد فئی کہلاتا ہے۔
نهاية ص 159 ج 3
کبھی ظل بول کر عزت، طاقت اور خوشحالی مراد ہوتی ہے۔ اظلنی فلان۔ حرسنی۔ فلاں نے میری حفاظت کی۔
مفردات ص 314.
ذات کو ظل کہا جاتا ہے جیسے شاعر کہتا ہے۔
لما نزلنا رفعنا ظل اخبية
جب ہم اترے تو خیموں کو نصب کیا۔ یہاں ظل سے مراد خیمے ہیں۔ کہ انہی کو نصب کیا جاتا ہے نہ کہ سائے کو۔
مفردات راغب ص 315 طبع کراچی
الظل من کل شئی شخصه.
ہر چیز کا ظل اس کی ذات۔
تاج العروس سيد مرتضيٰ الزبيدی. ص 426 ج 7 طبع بيروت
جسم کثیف پر جب روشنی پڑتی ہے تو اس کا جسم کا سایہ پیدا ہوتا ہے جو دیوار، درخت یا زمین وغیرہ پر نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا ہے لہذا آپ کی نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا۔ علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر عالم نے آپ کی نورانیت کا انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ نور کا انکار کرنے سے اس کی ضد کا اثبات لازم آئے گا۔ اور نور کی ضد ظلمت و اندھیرا ہے۔ کس مسلمان کی ہمت ہے کہ اپنے نبی کی نورانیت کا انکار کرکے اس کی ضد یعنی آپ کو اندھیرا و ظلمت و تاریکی کا نام دے؟ یاد رہے کہ نور کے مقابلہ میں بشر نہیں، اندھیرا ہے۔ نورو بشر میں کوئی تضاد نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں۔ بشر بھی۔ ہاں نور و ظلمت میں تضاد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر گز ہر گز ظلمت و اندھیرا نہیں مانتے۔ نور مانتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن وحدیث و عربی لغت کے حوالوں سے یہ حقیقت ہم واضح کرچکے ہیں۔ یونہی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر مانتے ہیں۔ جو بشریت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں۔ کہ قرآن و حدیث و حقائق کا منکر ہے۔
سایہ کی روایات اور ان کی حقیقت ومفہوم
سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا فرماتی ہیں کہ دوران سفر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فالتو اونٹ تھا۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے اگر تم اسے اپنا اونٹ دے دو تو بہتر ہو، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بولیں، میں اس یہودیہ کو دوں؟ اس پر رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ذولحجہ اور محرم دو مہینے، یا تین مہینے صفر بھی چھوڑے رکھا۔ ان کے پاس تشریف نہ لاتے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، یہاں تک میں آپ سے مایوس ہوگئی۔ (نہ جانے ملیں نہ ملیں) اور میں نے اپنی چارپائی بستر اٹھالیا۔
فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله صلی الله عليه وسلم مقبل.
اسی اثناء میں ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا۔(مسند احمد ص 132 ج 6 طبع بيروت،چشتی)
جن حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت سے کد ہے اور بہر صورت آپ کی ذات ستودہ صفات کے لئے تاریک سایہ ثابت کرنے کے درپے ہیں پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اپنا مدعا ثابت کردیا۔ حدیث پیش کردی۔ حالانکہ ظل کا مطلب ہم نے لغت عرب کی معتبر و مستند کتب سے باحوالہ نقل کردیا ہے کہ جس طرح اس کا مطلب تاریک سایہ ہے اسی طرح ذات بھی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن و حدیث میں نور فرمایا گیا تو آپ کا تاریک سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نور کی تو نورانی شعاعیں ہوتی ہیں۔ کرنیں ہوتی ہیں۔اس حدیث پاک میں بھی ظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اللہ کا ظل : ہم نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا، کہ ظل کا مطلب جیسے مادی کثیف چیزوں کا تاریک سایہ ہے اسی طرح اس کا مفہوم ذات اور شخص ہے۔ لہذا دلائل شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر ہی اس کا مفہوم متعین کیا جائے گا مگر بعض کم عقل و بدفہم لوگ اسی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ظل کا مطلب تاریک و کثیف سایہ ہے جیسے ہمارا، تمہارا اور ہر مادی چیز کا۔ وہ اس حدیث پاک پر بار بار غور کریں شاید اللہ پاک شفاء دیدے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟۔
اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ . آج میں ان کو اپنے سایہ میں، زیر سایہ رکھوں گا۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة ص 425 بحواله مسلم)
ظل کا لفظ دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تاریک کثیف سایہ ثابت کرنے والے ایمان و عقل کو سامنے رکھ کر بتائیں اللہ کا سایہ اسی طرح ثابت کرو گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثابت کرتے ہو ؟
اس تمام تحقیق و گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق نور بھی ہیں۔ بشر بھی، نورانیت کی وجہ سے آپ کا تاریک سایہ نہیں تھا۔ آیت و روایت میں جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ظل کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاریک سایہ نہیں بلکہ آپ کی ذات اور شخصیت مراد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق سلف و خلف، تمام علماء، محدثین، مفسرین، اہل سیر متفق ہیں۔ مثلاً چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ۔ (حکيم ترمذی عن ذکوان. نور دراالاصول فی معرفة الرسول) (امام عبدالباقی زرقانی. زرقانی شرح مواهب اللدنيه ص 220 ج 4 طبع مصر) (امام راغب اصفهانی. مفردات ص 317 طبع مصر) (امام قاضی عياض. کتاب الشفاء 3.242 ص ج 1 طبع مصر. ) (شهاب الدين خفاجی. نسيم الرياض ص 391 ج 3 مصری) (سيرة حليه ص 422 ج 3 طبع مصر) (تفسيه مدارک ص 102 ج 2 طبع مصر) (تفسير عزيزی. شاه عبدالعزيز. دهلوی30 ص 219) (شيخ عبدالحق محدث دهلوی. مدارج النبوت ص 161 ج 2) (امام ابن حجر مکی. افضل القريٰ) (مجدد الف ثانی. مکتوبات شريف ص 187 . 337 ج 3 طبع نور کشور لکهنو) (مولوی رشيد احمد گنگوهی ديوبندی) (خصائص کبريٰ. سيوطی) (عزيز الفتاويٰ، مفتی عزيز الرحمن ديو بندی وغيره وغيره) ۔ (مزید حصہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)