اسراء اور معراج
محترم قارئینِ کرام : حضور نبی اکرم نورِ مجسم سید عالم ﷺ کے اخصِ خصائص اور اشرفِ فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو فضیلت اسراء اور معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہاں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا۔ کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شرف نہیں بخشا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔
ترجمہ: ’’پاک ہے جو لے گیا اپنے (خاص) بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے طرف مسجد اقصیٰ کے جس کے آس پاس ہم نے (بہت) برکت نازل فرمائی۔ تاکہ ہم (اپنے) اس (بندئہ خاص) کو اپنی قدرت کی (ـخاص) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے ۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۱)
اسراء اور معراج میں فرق
اگرچہ عام استعمالات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس تمام مبارک سیر عروج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں اور لامکان تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے۔ لیکن محدثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور ﷺ کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کو لفظ اسراء سے تعبیر فرمایا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے لئے معراج اور عروج کے الفاظ احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں۔
اسراء، معراج اور اعراج
حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی رضی اللہ عنہ فارسی میں فرماتے ہیں۔ جس کا اردو خلاصہ یہ ہے کہ ـمسجد حرام سے بیت المقدس تک اسراء ہے اور وہاں سے آسمانوں تک معراج ہے اور آسمانوں سے مقامِ قاب قوسین تک اعراج ہے۔ (فوائد الفواد : ۳۰۸)
آیت اسراء
اللہ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ سبحان سے شروع فرمایا جس کا مفاد اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعاتِ معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف سے جس قدر اعتراضات ہو سکتے تھے ان سب کا جواب ہو جائے۔ مثلاً حضور نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لئے بھی ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کمزوری ہو گی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں۔ اسی حکمت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اَسْرٰی فرمایا جس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے۔ حضور ﷺ کو جانے والا نہیں فرمایا بلکہ اپنی ذات مقدسہ کو لے جانے والا فرمایا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ سبحان اور اَسْرٰی فرما کر معراج جسمانی پر ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اپنے محبوب ﷺ کی ذاتِ مقدسہ کو اعتراضات سے بچایا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ اے منکرو! خبردار، واقعہ معراج میں میرے حبیب (ﷺ) پر اعتراض کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ اس لئے کہ اس نے معراج کرنے اور مسجد اقصیٰ یا آسمانوں پر خود جانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایسی صورت میں تمہیں اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ یہ دعویٰ تو میرا ہے کہ میں اپنے حبیب ﷺ کو لے گیا۔ اب اگر میرے لے جانے پر اعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ کیسے لے گیا؟ یہ لے جانا اور ذرا سی دیر میں آسمانوں کی سیر کرا کے واپس لے آنا تو ممکن نہیں۔ تو یاد رکھو کہ میں سبحان ہوں۔ جو چیز مخلوق کے لئے عادتاً ناممکن اور محال ہے، اگر میرے لئے بھی اسی طرح محال اور ناممکن ہو تو میں عاجز اور ناتواں ٹھہروں گا اور عاجزی و ناتوانی عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں۔ معلوم ہوا کہ آیت اَسْرٰی کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔ وللّٰہ الحمد!(چشتی)
نکتہ: اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں نہ اپنا نام لیا اور نہ اپنے حبیب ﷺ کا اپنی ذات پاک کو اَلَّذِیْ اور اپنے حبیب ﷺ کو عَبْدِہٖ سے تعبیر فرمایا۔ اَلَّذِیْ اسم موصول ہے، جس کے معنی ہیں ’’وہ ذات‘‘ یہ ایسا لفظ ہے کہ ہر چیز پر اس کا اطلاق کر سکتے ہیں اور ہر چیز کو اَلَّذِیْ کہہ سکتے ہیں اور لفظ عبد بھی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے عبد ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے حبیب، دونوں کے لئے ایسا لفظ ارشاد فرمایا جو تمام ممکنات کو حاوی ہے۔ ہر شے اَلَّذِیْ ہے اور ہر چیز عبد ہے۔ گویا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اَلَّذِیْ تو ہر چیز ہے لیکن جس کو کامل اَلَّذِیْ کہا جا سکے وہ وہی ہے جو اَسْرٰی کا فاعل ہے۔ کیونکہ اَلَّذِیْ کے معنی ہیں ’’وہ ذات‘‘ اور ظاہر ہے کہ کمال ذات، وجوب ذاتی، الوہیت اور قدرتِ کاملہ کے بغیر متصور نہیں۔ واجب ممکن کو اور اِلٰہ و معبود ہر عبد و مملوک کو اور قادرِ مطلق ہر مقدور کو محیط ہے اور اس میں شک نہیں کہ واجب بالذات، معبود برحق اور قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ لہٰذا کامل اَلَّذِیْ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کمال کی دلیل اَسْرٰی ہے کیونکہ معراج کو لے جانا قدرتِ کاملہ کے بغیر محال ہے اور قدرتِ کاملہ جس کے لئے ہو گی معبودِ برحق وہی ہو گا اور معبودِ برحق کے لئے وجوب ذاتی لازم ہے اور وجوبِ ذاتی ہی اَلَّذِیْ کا کمال ہے۔ لفظ اَلَّذِیْ دال ہے اور ذاتِ کاملہ اس کا مدلول۔ دال کا تمام کائنات کو حاوی ہونا اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ مدلول ہر ذرہ کائنات کو بالذات محیط ہے۔
وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٌ
علیٰ ہٰذا القیاس ’’عبد‘‘ بھی ہر چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کی عبد ہے لیکن جس کو تمام عباد کاملین میں سے سب سے زیادہ کامل اور عبد اکمل کہا جا سکے وہ وہی ہے جو اَسْرٰی کا مفعول بِہٖ ہے اور جسے آیت اسراء میں عبدہٖ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی دلیل بھی یہی لفظ اَسْرٰی ہے جس کا مفعول بِہٖ یہی عبدِ مقدس ہے کیونکہ عبدہ کے معنی ہیں ’’اللہ کا بندہ‘‘ اور اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا کمال اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی ہے۔ اسراء اور معراج میں اس عبدِ مقدس ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب نصیب ہوا اور مرتبہ قاب قوسین کی جو نزدیکی حاصل ہوئی وہ اولین و اٰخرین میں سے آج تک نہ تو کسی کو حاصل ہوئی ہے نہ ہو گی اور نہ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے جملہ عباد میں عبد کامل صرف ’’عبدہ‘‘ہے اور بس!
حاصل کلام یہ کہ جس طرح اَلَّذِیْ سب ہیں مگر کامل اَلَّذِیْ (واجب الوجود) صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی طرح ’’عبد‘‘ سب ہیں مگر کامل عبد صرف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ لفظ عبد دال ہے اور کامل فی العبودیت (حضرت محمد رسول اللہ ﷺ) مدلول۔ دال کا تمام عالم کو حاوی ہونا اشارہ ہے۔ اس امر کی طرف کہ مدلول تمام موجوداتِ عالم کو (بالعطاء) محیط ہے (وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ)
اَلَّذِیْ اور عبد کا تمام ممکنات اور موجودات کو محیط ہونا اس امر کی طرف بھی مشیر ہے کہ تمام عالم اَلَّذِیْ اور ’’عبدہ‘‘ کے حسن و جمال کا آئینہ دار ہے۔ جس طرح ہر تعین میں وجود حقیقی کامل اَلَّذِیْ (رب العالمین) کا جلوہ ہے، ایسے ہی ہر مخلوق میں حقیقت نور عبد کامل رحمۃ للعالمین کا ظہور ہے جَلَّ جَلَالُـہٗ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ اَلَّذِیْ اور عبدہ دونوں میں ابہام ہے اور اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا حسن ذات تمام کائنات سے ابہام میں ہے اسی طرح ذاتِ محمدی ﷺ کا حسن بھی نگاہِ عالم سے مبہم اور پوشیدہ ہے۔ پھر اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں چونکہ ضمیر ہُوَ کا مرجع اَلَّذِیْ اور عبد دونوں ہو سکتے ہیں (روح المعانی پ ۱۵ ص ۱۳، روح البیان پ ۵ ص ۱۰۶) اس لئے یہ احتمال اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ شب معراج اَلَّذِیْ عبدہ کا سمیع و بصیر ہوا اور عبدہ اَلَّذِیْ کا۔(چشتی)
مقام عبدیت
قربِ الٰہی کا وہ بلند ترین مقام ہے جہاں بندہ اپنے تعینات کو معدوم پا کر جلوہ معبود میں محو ہو جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر رَسُوْلِہٖ وَ نَبِیِّہٖ نہیں فرمایا بلکہ بعبدہٖ فرمایا۔
عبدہٖ: معراج کے بیان میں عبدہٖ فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ باوجود اس قربِ عظیم کے جو شب معراج میں میرے حبیب ﷺ کو حاصل ہوا وہ میرے عبد ہی ہیں معبود نہیں۔
عبد کی اقسام
عبد کی کئی قسمیں ہیں لیکن ایک اعتبار خاص سے اس کی تین قسمیں ہیں۔ عبد رقیق، عبد اٰبق، عبد ماذون۔
عبد رقیق سے مراد وہ مملوک غلام ہے جو پوری طرح اپنے مالک کے قبضہ اور اس کی ملک میں ہو۔
عبد اٰبق اپنے مالک سے بھاگے ہوئے غلام کو کہتے ہیں (جو مالک مجازی کے قبضہ سے باہر ہوتا ہے)اور عبد ماذون وہ غلام ہے جو مالک کی ملک اور اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی قابلیت صلاحیت استعداد اور خوبی کی وجہ سے اس کے مالک نے اپنے کاروبار کا اسے مختار و ماذون بنا دیا ہو اور اسے اس بات کا اذن دے دیا ہو کہ وہ مالک کے کاروبار میں جائز اور ممکن تصرف کرے۔ اس غلام کا بیچنا، خریدنا، لینا، دینا سب کچھ اس کے مالک کا بیچنا، خریدنا، لینا، دینا متصور ہو گا۔ عام مومنین خواہ عاصی ہوں یا مطیع سب اللہ تعالیٰ کے بمنزلہ عبد رقیق کے ہیں اور کفار مشرکین منافقین بمنزلہ عبد اٰبق (بھاگے ہوئے غلام) کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے محبوبین بمنزلہ عبد ماذون کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے قرب کے مطابق ماذونیت کا شرف عطا فرماتا ہے۔ ساری کائنات میں رسول اللہ ﷺ کے برابر کوئی اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں۔ اس لئے حضور ﷺ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے عبدِ ماذون ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo‘‘ (النجم: ۳، ۴) ’’وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیo‘‘ (الانفال: ۱۷) ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔‘‘ (النساء: ۸۰) پھر فرمایا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ‘‘ (الفتح: ۱۰) اور حضور ﷺ نے فرمایا ’’اَللّٰہُ یُعْطِیْ وَاَنَا قَاسِمٌ‘‘
مختصر یہ کہ حضور ﷺ کے عبدِ ماذون ہونے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بولنا اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فعل مبارک اللہ تعالیٰ کا فعل مبارک ہے۔ حضور ﷺ کا بیچنا اللہ تعالیٰ کا بیچنا ہے اور حضور ﷺ کا خریدنا اللہ تعالیٰ کا خریدنا ہے۔ حضور ﷺ کا دینا اللہ تعالیٰ کا دینا اور حضور ﷺ کا لینا اللہ تعالیٰ کا لینا ہے۔
عبدہ معراج جسمانی کی دلیل ہے
اللہ تعالیٰ نے عبدہ فرما کر اس حقیقت کو روشن سے روشن تر فرما دیا کہ معراج صرف روح کو نہیں ہوئی بلکہ روح مع الجسد کو ہوئی ہے کیونکہ قرآن و حدیث یا کلام عرب میں ایسا کوئی استعمال موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ کسی کی دنیاوی زندگی میں اسے عبد کہا گیا ہو اور لفظ عبد سے صرف روح مراد ہو بلکہ اس کے برعکس آپ قرآن و حدیث اور محاورات عرب میں یہی پائیں گے کہ جب بھی کسی کو اس کی حیاتِ ظاہری میں لفظ عبد سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس لفظ سے روح مع الجسد مراد لیا گیا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا ’’فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً ‘‘ (پ ۲۵ سورئہ دخان) اے موسیٰ! میرے بندوں کو رات میں لے جا۔ یہاں بھی لفظ عبد سے روح مع الجسد اور اسراء سے اسرایٔ جسمانی مراد ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔‘‘ (العلق: ۹، ۱۰) کیا تو نے اسے دیکھا جو روکتا ہے عبد (مقدس محمد مصطفی ﷺ) کو جب وہ نماز پڑھے۔ دیکھئے یہاں بھی عبد سے جسم و روح کا مجموعہ مراد ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ‘‘ (الجن: ۱۹) جب کھڑا ہو اللہ کا عبد (مقدس حضرت محمد مصطفی ﷺ) اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا یعنی اس کی عبادت کرتا تھا۔ اس آیت میں بھی لفظ عبد سے جسم و روح دونوں مراد ہیں ۔ وللّٰہ الحمد ۔(چشتی)
عبدہ کی اضافت
اللہ تعالیٰ نے ’’اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ‘‘ فرمایا اور عبد کو ضمیر مجرور کی طرف مضاف کیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ میرے محبوب ﷺ عام عباد کی طرح عبد نہیں بلکہ وہ عبد خاص ہیں بلکہ عبد نہیں عبدہ ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے
عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
او سراپا انتظار ایں منتظر
لَیْلاً اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ اس کے باوجود لفظ اسریٰ کے بعد لَیْلاً فرمایا تاکہ ظاہر ہو جائے کہ معراج تمام رات نہیں ہوئی بلکہ رات کے بہت تھوڑے حصہ میں ہوئی ہے۔
مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
مسجد حرام مکہ مکرمہ کی وہ مبارک مسجد ہے جس کے وسط میں بیت اللہ شریف واقع ہے۔
مسجد اقصیٰ:
مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی وہ مشہور مسجد ہے جو انبیاء سابقین علیہم السلام کا مرکز رہی ہے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام و محبوبین باری تعالیٰ کی ذواتِ قدسیہ سے جو برکتیں اس خطۂ پاک کو حاصل ہوئیں اللہ تعالیٰ نے بَارَکْنَا حَوْلَہٗ فرما کر ان ہی کا اظہار فرمایا ہے۔
نکتہ: اللہ تعالیٰ نے بَارَکْنَا حَوْلَہٗ فرمایا اس لئے کہ ارد گرد برکتیں ہیں۔ اس کے اندر تو یقینا عظیم و جلیل برکتیں ہوں گی۔
خلاصہ یہ کہ فیہ فرمانے سے اندر کی برکتیں ثابت ہو جاتیں لیکن ارد گرد ان کا ثبوت نہ ہوتا اور حَوْلَہٗ فرمانے سے اس کے اندر اور باہر سب جگہ برکتیں ثابت ہو گئیں۔(چشتی)
لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا : ان آیات سے آسمانی آیات مراد ہیں اور معنی یہ ہیں تاکہ ہم انہیں آسمانوں پر لے جا کر وہاں کی عجیب و غریب نشانیاں دکھائیں۔ روح المعانی میں اسی آیت کے تحت ارقام فرماتے ہیں ’’ای لنرفعہ الی السماء حتّٰی یرٰی ما یرٰی من العجائب العظیمۃ‘‘ یعنی تاکہ ہم انہیں آسمانوں کی طرف اٹھائیں یہاں تک کہ وہ دیکھنے کے قابل عجیب و غریب نشانیاں دیکھیں۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ میں اسراء اور معراج دونوں کا بیان ہے۔
لفظ مِنْ کی تشریح
لفظ مِنْ سے یہ سمجھنا کہ جب رسول اللہ ﷺ کو بعض آیتیں دکھائی گئیں اور بعض نہیں دکھائی گئیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام آیات کا علم نہ ہوا کسی طرح صحیح نہیں۔ اس لئے کہ آیات مختلف قسم کی تھیں۔ بعض کا تعلق دیکھنے سے تھا اور بعض ایسی تھیں جن کا تعلق سننے، سمجھنے اور چکھنے سے تھا۔ جیسے صریف اقلام کا سننا اور دودھ کا چکھنا وغیرہ۔ اگر من تبعیضیہ ہو تو اس کی وجہ سے کل آیات کا بعض مراد ہوں گی اور ظاہر ہے کہ جو آیتیں دیکھنے کے قابل ہیں وہ کل آیات کا بعض ہی ہیں۔ اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ کل آیات میں سے جو آیتیں دیکھنے کے قابل تھیں وہ سب ہم نے اپنے حبیب ﷺ کو دکھانے کے لئے آسمانوں پر بلند فرمایا۔ اس صورت میں بعض آیات سے حضور ﷺ کی لاعلمی ثابت نہ ہوئی۔
اِنَّـہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ : بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ بعض مفسرین نے اِنَّہٗ کی ضمیر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی اور بعض نے صرف رسول اللہ ﷺ کی طرف اس کو راجع کیا۔ جیسا کہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرمایا۔ (زرقانی شریف جلد ۳ صفحہ ۱۲۴) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ضمیر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو تب بھی جائز ہے اور اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف اس کو راجع کیا جائے تب بھی درست ہے۔ (دیکھئے روح المعانی پ ۱۵ ص ۱۳،چشتی)
معراج جسمانی کے متعلق اختلافِ اقوال
بعض کا قول ہے کہ معراج روحانی طور پر خواب میں ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ معراج کئی دفعہ ہوئی۔ ایک دفعہ بیداری میں ہوئی اور دیگر اوقات میں بحالت خواب۔ بعض کہتے ہیں کہ معراج مکہ مکرمہ میں ہوئی اور بعض کے نزدیک مدینہ میں بعض کہتے ہیں کہ اسراء جسمانی ہے اور معراج روحانی۔ لیکن جمہور علماء، صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور ان کے بعد محدثین و فقہا اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالت بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے اور عارفین کا قول ہے کہ اسراء اور معراج بہت مرتبہ حضور ﷺ کو کرائی گئیں۔ بعض نے چونتیس کا عدد بھی لکھا ہے مگر وہ سب خواب میں روحانی طور پر واقع ہوئیں۔ بجز ایک مرتبہ کے جیسا کہ جمہور امت کا مذہب ہے۔
ایک سوال کا جواب
اگر سوال کیا جائے کہ جب اسراء اور معراج دونوں جسمانی ہیں اور بحالت بیداری ان کا تحقق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضور ﷺ کے مکہ شریف سے مسجد اقصیٰ تک لے جانے کے ذکر پر کیوں اکتفا فرمایا۔ اسراء کے ساتھ آسمانی معراج کا بیان نہ کرنے میں کیا حکمت ہے؟ تو جواباً عرض کیا جائے گا کہ آیت کریمہ میں مسجد اقصیٰ کے ذکر کی تخصیص اس لئے ہے کہ کفار قریش نے مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی اور انہیں اس کے متعلق معلومات حاصل تھیں۔ اس لئے انہوں نے واقعہ معراج کا انکار کرتے ہوئے حضور ﷺ سے اس کی علامات وغیرہ دریافت کیں اور بڑی شدت کے ساتھ جھگڑا اور اختلاف کیا لیکن حضور ﷺ نے ان کو مسکت جوابات دئیے اور مسجد اقصیٰ کی تمام علامتیں اور نشانیاں بتائیں جو کفار قریش نے دریافت کی تھیں بلا کم و کاست بیان فرما دیں اور نہایت خوبی کے ساتھ ان پر حجت قائم فرما دی۔ جس کے بعد ان کے لئے مجال انکار باقی نہ رہی اور اس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسراء اور معراج کی صداقت پر ایک عظیم الشان دلیل قائم کی گئی۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا۔ اگر ادنیٰ تامل سے کام لیا جائے تو قرآن کریم میں واقعہ معراج کی صداقت پر لا جواب دلیل قائم کی گئی ہے۔ وہ مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو مشرکین مکہ کے ذہن میں مسجد اقصیٰ کی تمام علامتیں محفوظ تھیں اور دوسری طرف انہیں اس بات کا یقین تھا کہ حضرت محمد عربی ﷺ نے مسجداقصیٰ کبھی نہیں دیکھی۔ جب انہوں نے سنا کہ حضور ﷺ مسجد اقصیٰ جانے اور معراج فرمانے کا حال بیان فرما رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اس سے بہتر حضور ﷺ کی تکذیب کا موقع ہاتھ نہیں آ سکتا۔ آسمان وغیرہ تو ہمارے دیکھے ہوئے نہیں جن کی علامتیں اور نشانیاں ہم ان سے دریافت کریں۔ لیکن مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو ہمارے ذہن میں محفوظ ہے۔(چشتی)
چلو اسی کی بابت ان سے سوالات کریں۔ جب ہماری دریافت کی ہوئی نشانیاں وہ نہ بتا سکیں گے تو (معاذ اللہ) ان کا دعویٰ خود بخود جھوٹا ہو جائے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ کفارِ قریش نے مسجد اقصیٰ کی جو نشانیاں پوچھیں حضور ﷺ نے ٹھیک ٹھیک بیان فرما دیں۔ جس کو سن کر اپنے دل میں انہیں قائل ہونا پڑا کہ واقعی یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ مسجد اقصیٰ تک جانے میں جب حضور ﷺ کا سچا ہونا ثابت ہو گیا تو آسمانوں کی معراج بھی سچی ثابت ہو گئی۔ اس لئے کہ جس طرح آسمانوں پر جانا محال ہے بالکل اسی طرح رات کے تھوڑے سے حصہ میں مکہ سے مسجد اقصیٰ جا کر واپس آ جانا بھی محال ہے۔ جب یہ جانا اور آنا محال نہ رہا تو آسمان پر جا کر واپس آنا ان کے لئے کیونکر محال رہ سکتا تھا؟
اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ مسجد اقصیٰ کا ذکر صداقت معراج کی دلیل اس لئے بن گیا کہ منکرین نے مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی۔ اب اگر مسجد اقصیٰ کی طرح آسمانوں کا ذکر بھی تفصیل سے کر دیا جاتا تو وہ اس عظیم الشان خارق عادت واقعہ معراج کی سچائی کے لئے دلیل نہیں بن سکتا تھا۔ کیونکہ منکرین نے کبھی آسمان نہیں دیکھے تھے نہ ان کے ذہن میں وہاں کی کسی چیز کا کوئی تصور تھا۔ اس لئے وہ اگر آسمانوں کی بابت کوئی نشانی دریافت کرتے اور حضور ﷺ انہیں بتا دیتے تو ان کے خالی الذہن ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ کا بتانا ان کے حق میں بے فائدہ رہتا اور واقعہ معراج کی تصدیق کے لئے کوئی دلیل قائم نہ ہوتی۔
اس حکمت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی معراج کا ذکر تفصیل کے ساتھ نہیں فرمایا بلکہ ’’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ میں اجمال کے ساتھ اسے بیان فرما دیا تاکہ مسجد اقصیٰ کی طرف حضور کا لے جانا ان کو آسمانوں پر لے جا کر وہاں کی آیات دکھانے پر دلیل قائم ہو جائے۔ خلاصۃ الکلام یہ کہ آیۂ کریمہ میں اسراء کا بیان مفصل ہے اور معراج کا ذکر مجمل۔ اور مفصل مجمل کی دلیل ہے۔ آیۂ کریمہ میں حضور ﷺ کے اس تمام سفر مبارک کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس کے تین مرحلے الگ الگ نظر آتے ہیں۔
پہلا مرحلہ مسجد حرام سے شروع ہو کر مسجد اقصیٰ پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے کا بیان ’’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ میںوارد ہے اور تیسرے مرحلہ کا بیان ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں موجود ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ مسجد حرام سے چل کر مسجد اقصیٰ پہنچے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر جلوہ گر ہوتے ہوئے عرشِ الٰہی تک تشریف لے گئے۔ پھر عرشِ الٰہی سے ’’اِلٰی حَیْثُ شَائَ اللّٰہُ‘‘ (جہاں تک اللہ نے چاہا) جلوہ فگن ہوئے اور زمان و مکان بلکہ عالم امکان کی قیود سے بالا تر ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب خاص سے مشرف ہوئے اور اپنے رب کا جمال اپنے سر اقدس کی آنکھوں سے بے حجاب دیکھا۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سے لے کر اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ تک اسریٰ کا تفصیلی بیان ہے اور لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا میں تمام آسمانی سفر کا اجمالی ذکر ہے اور اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں اللہ تعالیٰ کے قرب خاص میں اس کا کلام سننے اور جمال دیکھنے کا بیان ہے۔
مراحل ثلاثہ میں باریک اور لطیف فرق
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک دنیائے جسمانیات اور عالم شہادت ہے اور مسجد اقصیٰ سے اوپر آسمانوں اور عرش کا عالم روحانی، نورانی اور مجرد لطیف کائنات ہے۔ اس کے بعد فوق العرش اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس ہے۔ جس میں کسی کائن و مخلوق کا شائبہ تک متصور نہیں بلکہ زمان و مکان سے بالا تر، اللہ تعالیٰ کے جلوہ ہائے عظمت و جلال کے ظہور کا وہ عالم ہے جسے عالم کہنا بھی صرف مجاز ہے۔ حقیقت میں وہ عالم و عالمیات سے کہیں اعلیٰ اور برتر ہے کیونکہ زمان و مکان کی حدود میں جمال الوہیت کا ظہور اتم مقید نہیں ہو سکتا۔
رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کا تینوں مرحلوں سے تعلق
ان تینوں مرحلوں سے حضور نبی کریم کی ذات گرامی کا ربط اور تعلق یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تین شانیں ہیں
(۱) بشریت: جس کو عالم جسمانیت سے ربط ہے۔
(۲) ملکیت اور روحانیت: جسے عالم انوار اور حقائق مجردات قدسیہ سے تعلق ہے۔
(۳) محمدیت: یعنی حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور حسن و جمال کا مظہر اتم ہونا، جسے بارگاہِ قدس اور حضرت جمال الوہیت سے گہرا تعلق ہے۔
سفر معراج کے تینوں مرحلوں اور حضور نبی کریم ﷺ کی تینوں شانوں کا تعلق اور باہمی مناسبت کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آیت کریمہ کی روشنی میں فلسفۂ معراج نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا مقصد حضور سید عالم ﷺ کا اپنی شایانِ شان بلند اور اونچے مراتب تک پہنچنا ہے۔ چونکہ حضور ﷺ کی یہ مذکورہ شانیں ایسی ہیں کہ تمام کمالاتِ محمدی ان ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہر کمالِ مصطفوی کا سرچشمہ یہی تین شانیں ہیں۔ لہٰذا ان میں سے ہر ایک کا اپنے عروج پر پہنچنا تکمیل معراج کے لئے ضروری ہوا۔ حضور ﷺ کی بشریت، نورانیت و مظہریت سب کا عروج ضروری ہوا۔ یہ امر واضح رہے کہ ہر چیز کا عروج اسی عالم میں متصور ہے جس سے اس چیز کا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس لئے بشریت کا معراج عالم بشریت میں ہو گااور نورانیت اور روحانیت کا معراج عالم ارواح و عالم انوار میں اور اسی طرح حقیقت محمدیہ یعنی مظہریت حق کا معراج بارگاہِ حق تعالیٰ میں ہو گا۔
آیت کریمہ کے مضمون میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی معراج مبارک بالکل اسی شان سے واقع ہوئی۔ دیکھئے حضور ﷺ مسجد حرام سے چل کر مسجد اقصیٰ پہنچے جہاں تمام انبیاء علیہم السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقتداء کی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب کے امام بنے۔ مسجد اقصیٰ عالم اجسام میں ہے اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت مطہرہ کو یہ عروج حاصل ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت مقدسہ کے پیچھے اقتدا کی۔ بشریت مصطفویہ کا مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کا مقتدا ہونا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت کا معراج ہے۔ اس حیثیت سے کہ عالم بشریت میں انسانیت اور بشریت کا کمال رکھنے والے یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام پیچھے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت آگے ہے۔ اس کے بعد جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ تو وہ مقام ہے کہ جہاں سے اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فرشتے بھی آگے نہیں جا سکتے۔ آسمان اول سے لے کر سدرہ تک تمام روحانی اور نورانی افراد یعنی ملائکہ کرام پیچھے رہ گئے۔ حتیٰ کہ جبریل علیہ السلام بھی وہاں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ لیکن حضور ﷺ سب کو پیچھے چھوڑ کر سدرۃ المنتہیٰ سے آگے تشریف لے گئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سدرہ سے آگے تشریف لے جانا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت ملکیہ اور آپ کی نورانیت و روحانیت کا چمکتا ہوا معراج تھا۔ اس حیثیت سے کہ عالم ملائکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نورانیت و روحانیت درحقیقت ملکیت کی معراج ہے۔
پھر آقائے نامدار ﷺ کا بلند زمان و مکان کی قیود سے بالا ہو کر فوق العرش پہنچ کر بارگاہِ حق تعالیٰ جل مجدہٗ میں حاضر ہونا اور ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی کے مراتب عالیہ پر فائز ہونا اور سر اقدس کی آنکھوں سے بے حجاب اللہ تعالیٰ کو دیکھنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کی معراج ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ عرشِ عظیم جو تجلیات حسن حقیقی کی بلند ترین جلوہ گاہ ہے اسی طرح پیچھے رہ گیا جس طرح مسجد اقصیٰ میں کمال انسانیت رکھنے والے انبیاء علیہم السلام پیچھے رہ گئے اور سدرۃ المنتہیٰ پر کمال ملکیت و نورانیت رکھنے والے ملائکہ مقربین پیچھے رہ گئے تھے اور حضور ﷺ ان سے آگے تشریف لے گئے تھے۔ بالکل اسی طرح حسن الوہیت کی بلند ترین جلوہ گاہ عرشِ عظیم بھی پیچھے رہ گیا اور حضور ﷺ زمان و مکان اور تحت و فوق کو پیچھے چھوڑ کر ایسے عالم میں جسے عالم کہنا درحقیقت مجاز ہے اپنی حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کے ساتھ اس عرشِ عظیم کی بلندی سے بلند ہو کر اس ذات والاصفات کے ساتھ واصل ہوئے جس کے حسن ذات و صفات کا مظہر اتم تھے۔ اس کا کلام سنا اور اس کا جمال دیکھا نہ ان کی بات سننے اور انہیں دیکھنے والا رب کے سوا کوئی اور تھا نہ رب کا کلام سننے اور اسے دیکھنے والا ان کے سوا کوئی دوسرا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رب کے سمیع و بصیر تھے اور رب کریم حضور ﷺ کا سمیع و بصیر تھا۔(چشتی)
فوائد الفواد ملفوظات حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک حوالہ تو اس سے قبل عرض کر چکا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک اسراء ہے اور وہاں سے آسمانوں تک معراج اور آسمانوں سے قاب قوسین تک اعراج ہے۔ یہ ملفوظ مبارک بھی فقیرکے بیان سابق پر بلا تاویل واضح اور روشن دلالت کر رہا ہے۔ دوسرے حوالہ کی فارسی عبارت کا اردو خلاصہ حسب ذیل ہے ۔ کسی خادم نے عرض کیا، حضور! لوگ کہتے ہیں کہ قلب کو بھی معراج ہوئی ہو گی اور قالب کو بھی اور روح کو بھی۔ ہر ایک کو کس طرح معراج ہوئی ہو گی؟ حضور خواجہ غریب نواز نے جواب میں یہ مصرع پڑھا ’’تظن خیرا ولا تسئل عن الخیر‘‘یعنی ’’گمان خیر رکھ اور خیر کی بابت تحقیق نہ کر۔‘‘ (فوائد الفواد جلد ۴ صفحہ ۲۰۸)
مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ اور رسول کے مابین راز ہے جس کو مان لو اور اس کی ماہیت و کیفیت کے پیچھے نہ پڑو۔ اس مضمون سے بھی فقیر کے بیان پر اس طرح روشنی پڑتی ہے کہ قالب بشریت ہے روح ملکیت اور قلب مظہریت حق۔ تینوں کو معراج ہوئی۔ یہ اجمال ہے۔ اس کی تفصیل وہ تھی جو فقیر وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہے۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی بشریت ملکیت اور مظہریت تینوں کو معراج کرائی۔
بشریت اس عالم کی چیز ہے اس کی معراج یہاں یعنی مسجد اقصیٰ میں ہوئی۔ ملکیت و نورانیت عالم سمٰوٰت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی معراج آسمانوں پر ہوئی۔ مظہریت حقیہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق ہے۔ اس لئے اس کی معراج فوق العرش لامکان میں ہوئی۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا۔ بشریت کی معراج اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی میں تفصیلاً مذکور ہے اور آسمانی معراج لِنُرِیَہٗ میں اجمالا مذکور ہے اور معراج فوق العرش قرب ایزدی و دیدار الٰہی کا ذکر اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں ہے۔
معلوم ہوا کہ سفر معراج کے تین حصے صرف اس لئے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی تین صفتیں ہیں۔ ہر صفت کی معراج کا مستقل ذکر ہے۔ ہمارے اس بیان سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت کو جب معراج ہوئی تھی تو اس وقت روح مبارک نہ تھی یا جس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت ملکیہ کی معراج آسمانوں پر ہوئی تو اس وقت جسمانیت مطہرہ ساتھ نہ تھی۔ اسی طرح جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مظہریت مطہرہ کو معراج ہوئی تھی تو روح اقدس یا جسم مبارک اس وقت موجود نہ تھا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ ان تمام مراحل میں جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ جب مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے تو جسم اقدس کے ساتھ روح مبارک بھی تھی اور جب مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لے گئے تو اس وقت بھی روح مبارک بدن اقدس میں جلوہ گر تھی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس عالم ناسوت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت مطہرہ بالفعل تھی اور ملکیت مقدسہ بالقوۃ۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جسم و روح اقدس کے ساتھ عالم ملائکہ میں پہنچے تو اس وقت حضور ﷺ کی بشریت بالقوۃ اور ملکیت بالفعل ہو گئی تھی اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مقام ’’دَنٰی فَتَدَلّٰی‘‘ پر جلوہ گر ہوئے تو بشریت و ملکیت دونوں بالقوۃ ہو گئیں اور کمال مظہریت قوت سے فعل کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آدمی جب کسی پر غضب ناک ہوتا ہے تو اس میں رحم کی صفت موجود ہوتی ہے۔ بولنے کے وقت خاموش ہونے کی اور خاموشی کے وقت بولنے کی طاقت انسان میں موجود ہوتی ہے۔ حرکت کے وقت سکون کی اور سکون کے وقت حرکت کی قوت انسان میں پائی جاتی ہے۔
اسی طرح بشریت کے معراج کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملکیت و مظہریت موجود تھی اور حقیقت ملکیہ کے وقت بشریت اور مظہریت دونوں صفتیں بحال تھیں۔ پھر حقیقت مظہریت کی معراج ہوئی تو بشریت اور ملکیت دونوں بدستور تھیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کی معراج کے وقت اسی حقیقت کا غلبہ تھا۔ مسجد اقصیٰ میں بشریت اور آسمانوں میں ملکیت و روحانیت اور عرش پر حقیقت مظہریت کو اللہ تعالیٰ نے غالب فرما دیا تھا۔(مقالات کاظمی جلد اوّل).(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment