Monday, 9 March 2020

شاہ مرداں شیرِ یزداں قوتِ پروردگار حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

شاہ مرداں شیرِ یزداں قوتِ پروردگار حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی مرتضیٰ کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کی وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے کہ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰ بھی ،حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی ،حضرت فاطمہ زاہرہ سلام اللہ علیہا کے شوہر نامدار بھی اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد بزرگو ار بھی ،صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی ،عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی ، علم والے بھی اور حلم والے بھی ، فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی ، غرضیکہ آپ بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانۂ روزگار ہیں اسی لئے دنیا آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اس طرح یاد کرتی رہے گی :

مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعین
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام
شیر شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پر تو دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

نام و نسب

آپ کا نام نامی ’’علی بن ابی طالب‘‘ اور کنیت ’’ابوالحسنین و ابو تراب ہے :طالب کے صاحبزادے ہیں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچازاد بھائی ہیں ۔ آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشمی ہے اور یہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء ص113)

آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے : علی بن ابو طالب، بن عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف۔ آپ 30 ؁ عام الفیل میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت سے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پرورش میں آئے کہ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابو طالب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو لے لیا تھا ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سائے میں آپ نے پرورش پائی اور انہی کی گود میں ہوش سنبھالا،آنکھ کھو لتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جمال جہاں آرا دیکھا ،انہی کی باتیں سنیں اور انہی کی عادتیں سیکھیں ۔اس لئے بتوں کی نجاست سے آپکا دامن کبھی آلو دہ نہ ہوا ۔یعنی آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی اور اسی لئے کرم ﷲ وجہہ الکریم آپ کا لقب ہوا ۔ (الریاض النضرہ و تنزیہ المکانۃ الحیدریہ،چشتی)

آپ کا حلیہ مبارک

حضرت علی رضی ﷲ عنہ جسم کے فربہ تھے ۔ اکثر خود استعمال کرنے کی وجہ سے سر کے بال اڑے ہوئے تھے ۔ آپ نہایت قوی اور میانہ قد مائل بہ پستی تھے ۔آپ کا پیٹ دیگر اعضا کے اعتبار سے کسی قدر بھاری تھا ۔ مونڈھوں کے درمیان کا گوشت بھرا ہوا تھا۔پیٹ سے نیچے کا جسم بھاری تھا ۔رنگ گندمی تھا ۔تمام جسم پر لمبے لمبے بال، آپ کی ریش مبارک گھنی اور دراز تھی۔مشہور ہے کہ ایک یہودی کی داڑھی بہت مختصر تھی ٹھوڑی پر صرف چند گنتی کے بال تھے اور وہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہنے لگا اے علی ! تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن میں سارے علوم ہیں اور تم باب مدینۃ العلم ہو تو بتاؤ قرآن میں تمہاری گھنی داڑھی اور میری مختصر داڑھی کا بھی ذکر ہے ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا سورۂ اعراف میں ہے ۔ وَالْبَلَدُ الْطَّیِّبْ یَخْرُجُ نَبِاتُہٗ بِاِذْنِ رَبَّہٖ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا ۔ یعنی جو اچھی زمین ہے اس کی ہر یالی ﷲ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس میں سے نہیں نکلتی مگر تھوڑی بمشکل ۔ (پارہ 8ع14) تو اے یہودی وہ اچھی زمین ہماری ٹھوڑی ہے اور خراب زمین تیری ٹھوڑی ۔

معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا علم بہت وسیع تھا کہ اپنی گھنی داڑھی اور یہودی کی مختصر داڑھی کا ذکر آپ نے قرآن مجید میں سے ثابت کر دکھایا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ قرآن سارے علوم کا خزانہ ہے مگر لوگوں کی عقلیں اس کے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

جنگ خیبر میں جب گھمسان کی جنگ ہونے لگی تو حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈھال کٹ کر گرپڑی تو آپ نے جوش جہاد میں آگے بڑھ کر قلعہ خیبر کا پھاٹک اکھاڑ ڈالا اوراس کے ایک کواڑکو ڈھال بنا کراس پر دشمنوں کی تلواروں کو روکتے تھے ۔ یہ کواڑ اتنا بھاری اوروزنی تھا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد چالیس آدمی ملکر بھی اس کو نہ اٹھا سکے ۔ (زرقانی جلد ۲، صفحہ ۲۳۰،چشتی)

کیا فاتح خیبرکے اس کارنامہ کو انسانی طاقت کی کار گزاری کہا جاسکتا ہے ؟ ہرگز ہرگز نہیں ۔ یہ انسانی طاقت کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ روحانی طاقت کا ایک شاہکار ہے جو فقط اللہ والوں ہی کا حصہ ہے جس کو عرف عام میں کرامت کہا جاتاہے ۔

آپ کی شجاعت

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی شجاعت اور بہادری شہرۂ آفاق ہے ،عرب و عجم میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے رعب و دبدبہ سے آج بھی بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں ۔جنگ تبوک کے موقع پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرمادیا تھا اس لئے اس میں حاضر نہ ہو سکے باقی تمام غزوات و جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتاردیا ۔

جنگ بدر میں جب حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ نے اسود بن عبد الاسد مخزومی کو کاٹ کر جہنم میں پہنچا یا تو اس کے بعد کافروں کے لشکر کا سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر میدان میں نکلا اور چلاّ کر کہا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ، اشراف قریش میں سے ہمار ے جوڑ کے آدمی بھیجئے ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا ۔اے بنی ہاشم !اُٹھو اور حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰ نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت حمزہ ،حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ رضی ﷲ عنہم دشمن کی طرف بڑھے ۔لشکر کے سردار عتبہ حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ کے مقابل ہوا اور ذلت کے ساتھ مارا گیا،ولید جسے اپنی بہادری پر بہت بڑا ناز تھا وہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا آگے بڑھا اور ڈینگیں مارتا ہوا آپ پر حملہ کیا مگر شیر خدا علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیر میں اسے مار گرایا اور ذوالفقار حیدری نے اس کے گھمنڈ کو خاک و خون میں ملا دیا۔اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کو زخمی کر دیا ہے تو آپ نے جھوٹ کر اس پر حملہ کیا اور اسے بھی جہنم پہنچا دیا۔(چشتی)

جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانو! تمہارے نبی قتل کر دئیے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہانتک کہ اِدھر اُدھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے ۔حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آسمان پر اُٹھالیا ۔اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاؤں یہانتک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں ۔فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حفاظت فرمائی ۔میں دوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کیلئے آنے لگے۔آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دئیے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا ۔اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا ۔اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا انہ منی وانا منہ۔یعنی’’ بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا وانا منکما ۔یعنی’’میں تم دونوں سے ہوں۔‘‘سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاکر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا شہید ہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہا گھس جانا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرنا آپ کی بے مثال بہادری اور انتہائی دلیری کی خبر دیتا ہے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ کے عشق اور سچی محبت کا بھی پتہ دیتا ہے ۔

حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ وُد (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے ۔جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے ﷲ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں۔اس نے کہاہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ﷲ و رسول (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچادیا ۔

محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمرو عبدِ وُد میدان میں اس طرح پر نکلا کہ لوہے کے زر ہیں پہنے ہوئے تھا اور اس نے بلند آواز سے کہا ۔ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ۔اس آواز کو سن کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور مقابلہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ یہ عَمرو بن عبدِ وُد ہے ۔دوسری بار عَمرو نے پھر آواز دی کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرنی شروع کی ۔کہنے لگا تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہوکہ جو بھی تم میں سے مارا جاتا ہے وہ سیدھے اس میں داخل ہو جاتا ہے ۔میرے مقابلہ کیلئے کسی کو کیوں نہیں کھڑا کرتے ہو ۔دوبارہ پھر حضرت علی نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی مگر آپ نے پھر وہی فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تیسری بارعَمرو نے پھر وہی آواز دی اور کچھ اشعار بھی پڑھے ۔ راوی کا بیان ہے کہ تیسری بار حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم !میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلوں گا۔آپ نے فرمایا کہ یہ عَمرو ہے ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا چاہے عَمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تیسری بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو اجازت دیدی ۔حضرت علی چل کر اس کے پاس پہنچے اور چند اشعار پڑھے ۔

عَمرو نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی ہوں۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ہو؟آپ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں۔اس نے کہاں اے میرے بھائی کے بیٹے !تیرے چچاؤں میں سے ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے زیادہ ہیں میں تیرا خون بہانے کو برا سمجھتا ہوں ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا مگر خدا کی قسم میں تیرا خون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔یہ سن کر وہ غصہ سے تلملا اُٹھا ۔گھوڑے سے اتر کر آگ کے شعلہ جیسی سونت لی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف لپکااور ایسا زبر دست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی یہانتک کہ آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نعرۂ تکبیر سناجس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اسے جہنم میں پہنچادیا ۔شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال سے پکار اُٹھا ۔

ابنِ کثیر اور صاحبِ کشف الباری یوں لکھتے ہیں : اس کا نام عمرو بن عبدود تھا یہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا۔ مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھا۔ کٹر یہودی تھا جنگ بدر میں زخمی ہوکر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا۔ جی بھر کے کھانا نہیں کھاؤنگا۔ جنگ خندق میں یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا تین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیر خدا نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ” میں ” حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے روکا کہ اے علی ! یہ عمرو بن عبدود ہے۔ حضرت علی شیر خدا نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے ۔۔ لیکن میں اس سے لڑوں گا۔ یہ سن کر تاجدار نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرار کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھا اور یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ ! عزوجل تو علی کی مدد فرما۔ حضرت اسد ﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : اے عمرو بن عبدود ! تو مسلمان ہوجا بہتر یہ ہی ہے تیرے لیے ! عمرو بن عبدود : یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہو سکتا !
حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : لڑائی سے واپس چلا جا ! عمرو بن عبدود : یہ مجھے منظور نہیں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : تو پھر مجھ سے جنگ کر! عمرو بن عبدود : ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا ۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔ عمرو بن عبدود : آخر تو ہے کون کس کا بچہ ہے اور تمہارا نام کیا ہے؟ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : علی بن ابی طالب عمرو بن عبدود : اوہ اے بھتیجے! تم ابھی بہت ہی کم عمر ہو میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ : لیکن میں تمہارا خون بہانے کو بے حد پسند کرتا ہوں۔چناچہ عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا ۔۔ حضرت شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھا اس پر جو غیرت سوار ہوئی تو گھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اور حضرت شیر خدا پر تلوار کا بھر پور وار کیا ۔۔۔ حضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا ۔۔ یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگا مگر پھر بھی زندگی بھریہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیا حضرت علی شیر خدا رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو ! سنبھل جا اب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد ﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچاتلا ہاتھ اور اتنا زبردست وار مارا کیا تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی مگر اسے احساس تک نہ ہوا کہ یہ ہوا کیا ہے ۔۔ اور بولا اور کوشش کرو یہ کہتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہٹا۔۔ تو دو ٹکڑے ہوئے اور وہ تلملا کر زمین پر گرا اور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیا ۔۔ اور میدان کار زار زبان حال سے پکار اٹھا کہ :

شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پروردگار
لَا فَتٰي اِلَّا عَلِي لَا سَيْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار

یعنی حضرت علی بہادروں کے باد شاہ، خدا کے شیر اور قوت پِروردگار ہیں ۔انکے سوا کوئی جوان نہیں اورذوالفقا ر کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ۔

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا اور منہ پھیر کر چل دیئے حضرت عمررضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی ! آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا ۔ (ابن کثیر بحوالہ البدایہ والنھایہ ج ٤ صفحہ ١٠٦،چشتی)،(کشف الباری ج ٨صفحہ ٢٧٩)

اسی طرح جنگ خیبر کے موقع پر بھی حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے شجاعت اور بہادری کے وہ جو ہر دکھائے ہیں جس کاذکر ہمیشہ باقی رہے گا اور لوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ پیدا کرتارہے گا۔ خیبرکاوہ قلعہ جو ’مرَحَّب کاپایہ تخت تھااس کافتح کرناآسان نہ تھا۔ اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ر ضی ﷲ تعالی عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا اوردوسرے دن حضرت عمر رضی ﷲ تعالی عنہ کو عطا فرمایا لیکن فاتح خیبر ہو نا تو کسی اور کے لیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے ان حضرات سے وہ فتح نہ ہوا جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن سرکار مدنیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر ﷲ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص ﷲ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور ﷲ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں ۔ (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس خوشخبری کو سن کر صحابۂ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی اس لئے کہ ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کل صبح ہمیں جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم ﷲ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور ﷲ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے ۔اس لئے کہ وہ صحابی تھے ان کا یہ عقیدہ ہر گز نہیں تھا کہ کل کیا ہوے والا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کی کیا خبر؟ بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ﷲ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا۔جب صبح ہوئی تو تمام صحابۂ کرام رضوا ن ﷲ علیہم اجمعین امید یں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آج کس کو سرفراز فرماتے ہیں ۔ سب کی ارمان بھری نگاہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا:این علی بن ابی طالب۔یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلالائے ۔جب حضرت علی رضی ﷲ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔فبصق رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی عینیہ فبرأ۔اور ان کی آنکھیں اس طرح اچھی ہو گئیں گویا دکھتی ہی نہ تھیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تم اُن کو اسلام کی طرف بلاؤ اور پھر بتلاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں ۔خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا۔(بخاری ،مسلم)

اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مقابلہ کرنے کیلئے مُرَحُّبْ یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کلا ۔ مُرَحُّبْ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا۔حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھالیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا ۔اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا ۔جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اُٹھا نہ سکے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 114،چشتی)

ابن عساکر نے ابو رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جنگ خیبر میں قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لے کر اس کو ڈھال بنالیا وہ پھاٹک ان کے ہاتھ میں برابر رہا اور وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا۔اسکے بعد پھاٹک کو آپ نے پھینک دیا۔لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کئی آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر وہ نہیں پلٹا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر 114)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...