Tuesday 17 March 2020

دجال کا تعارف احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
دجال کا تعارف احادیث مبارکہ کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہو گا ، دونوں پاؤں ٹیڑھے ہو نگے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی ، رنگ سرخ یا گندمی ہو گا سر کے بال حبشیوں کی طرح ہونگے ، ناک چونچ کی طرح ہو گی ، بائیں آنکھ سے کانا ہو گا دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا ۔ اس کے ماتھے پر ک ، ا ، ف ، ر لکھا ہوگا ، جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا ، آیئے اب احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دجال کے متعلق پڑھتے ہیں :

حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال : سمعت انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من نبي إلا وقد انذر امته الاعور الكذاب الا إنه اعور، وإن ربكم ليس باعور ومكتوب بين عينيه ك ف ر ۔
‏‏‏‏ ترجمہ : حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے سے نہ ڈرایا ہو ۔ خبردار رہو! وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ک ف ر لکھا ہے ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7363)

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، ومحمد بن بشر ، قالا: حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر . ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر الدجال بين ظهراني الناس فقال: " إن الله تعالى ليس باعور، الا وإن المسيح الدجال اعور العين اليمنى كان عينه عنبة طافئة ۔
‏‏‏‏ ترجمہ : حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دجال کا ذکر کیا لوگوں میں اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور خبردار رہو دجال مسیح کی داہنی آنکھ کانی ہے گویا اس کی آنکھ انگور ہے پھولا ہوا ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7361،چشتی)

حدثنا ابن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، حدثنا انس بن مالك ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: " الدجال مكتوب بين عينيه ك ف ر اي كافر ۔
‏‏‏‏ترجمہ : حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا ک ف ر یعنی کافر ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7364)

وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، عن شعيب بن الحبحاب ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الدجال ممسوح العين مكتوب بين عينيه كافر، ثم تهجاها ك ف ر يقرؤه كل مسلم .
‏‏‏‏ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے (اسی واسطے اس کو مسیح کہتے ہیں) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی ک، ف اور ر ہر مسلمان اس کو پڑھ لے گا ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7365،چشتی)

حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، ومحمد بن العلاء ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن حذيفة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدجال اعور العين اليسرى، جفال الشعر معه جنة ونار، فناره جنة وجنته نار ۔
‏‏‏‏ترجمہ : حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا (اوپر ابن عمر کی حدیث میں گزرا کہ داہنی آنکھ کا کانا ہو گا اور دونوں میں سے ایک روایت میں سہو ہے ۔ غرض ایک آنکھ اس کی کانی ہو گی) گھنے بالوں والا ۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی ۔ سو اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے ۔ (علماء نے کہا : یہ بھی ایک آزمائش ہے اللہ پاک کی اپنے بندوں کے لیے تاکہ حق کو حق کرے اور جھوٹ کو جھوٹ ، پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے) ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7366)

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لانا اعلم بما مع الدجال منه معه نهران يجريان، احدهما راي العين ماء ابيض، والآخر راي العين نار تاجج، فإما ادركن احد فليات النهر الذي يراه نارا وليغمض، ثم ليطاطئ راسه، فيشرب منه، فإنه ماء بارد، وإن الدجال ممسوح العين عليها ظفرة غليظة مكتوب بين عينيه كافر، يقرؤه كل مؤمن كاتب وغير كاتب ۔
ترجمہ :‏‏‏‏ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں خوب جانتا ہوں دجال کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی بہتی ہوئیں ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی، پھر جو کوئی یہ موقع پائے وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہو اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئیے وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی۔ اس پر ایک پھلی ہو گی موٹی اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مؤمن پڑھ لے گا خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7367،چشتی)

حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة . ح وحدثنا محمد بن المثنى واللفظ له، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال في الدجال: " إن معه ماء ونارا، فناره ماء بارد، وماؤه نار فلا تهلكوا ۔
‏‏‏‏ترجمہ : حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں : دجال کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی ۔ لیکن آگ کیا ہے ٹھنڈا پانی اور پانی آگ ہے ، تو مت ہلاک کرنا اپنے تیئں ۔ (اس کے پانی میں گھس کر) ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7368)

حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الدجال، قال : " إن الدجال يخرج وإن معه ماء ونارا، فاما الذي يراه الناس ماء، فنار تحرق، واما الذي يراه الناس نارا، فماء بارد عذب، فمن ادرك ذلك منكم، فليقع في الذي يراه نارا، فإنه ماء عذب طيب "، فقال عقبة : وانا قد سمعته تصديقا لحذيفة ۔
ترجمہ : ‏‏‏‏ ربعی بن حراش نے کہا : میں عقبہ بن عمرو ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔ عقبہ نے کہا : سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے : تم مجھ سے بیان کرو جو تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دجال کے بارے میں سنا ہو ، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دجال نکلے گا اس کے ساتھ پانی ہو گا اور آگ ہو گی ۔ تو جس کو لوگ پانی دیکھیں گے وہ آگ ہو گی جلانے والی اور جس کو لوگ آگ دیکھیں گے وہ پانی ہو گا سرد اور شیریں۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ موقع پائے اس کو چاہیے کہ جو آگ معلوم ہو اس میں گر پڑے ۔ اس لیے کہ وہ شیریں پاکیزہ پانی ہے ۔ عقبہ نے کہا : سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سچ کرنے کے لیے کہ میں نے بھی یہ حدیث سنی ہے ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7370)

حدثني محمد بن رافع ، حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن يحيى ، عن ابي سلمة ، قال: سمعت ابا هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبركم عن الدجال حديثا ما حدثه نبي قومه، إنه اعور، وإنه يجيء معه مثل الجنة والنار، فالتي يقول إنها الجنة هي النار، وإني انذرتكم به كما انذر به نوح قومه ۔
ترجمہ :‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”کیا میں تم سے دجال کی ایک بات ایسی نہ کہوں جو کسی نبی نے اپنی امت سے نہ کہی ؟ وہ کانا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت اور دوزخ کی طرح دو چیزیں ہوں گی ، پر جس کو وہ جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہو گی اور میں نے تم کو دجال سے ڈرایا جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7372)

حدثنا ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني يحيى بن جابر الطائي قاضي حمص، حدثني عبد الرحمن بن جبير ، عن ابيه جبير بن نفير الحضرمي ، انه سمع النواس بن سمعان الكلابي . ح وحدثني محمد بن مهران الرازي واللفظ له، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، عن يحيى بن جابر الطائي ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه جبير بن نفير ، عن النواس بن سمعان ، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة، فخفض فيه ورفع حتى ظنناه في طائفة النخل، فلما رحنا إليه عرف ذلك فينا، فقال: " ما شانكم؟ "، قلنا: يا رسول الله، ذكرت الدجال غداة، فخفضت فيه ورفعت حتى ظنناه في طائفة النخل، فقال: " غير الدجال اخوفني عليكم إن يخرج، وانا فيكم فانا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولست فيكم، فامرؤ حجيج نفسه والله خليفتي على كل مسلم إنه شاب قطط عينه طافئة كاني اشبهه بعبد العزى بن قطن، فمن ادركه منكم، فليقرا عليه فواتح سورة الكهف إنه خارج خلة بين الشام والعراق، فعاث يمينا وعاث شمالا، يا عباد الله فاثبتوا " قلنا: يا رسول الله، وما لبثه في الارض؟، قال: " اربعون يوما يوم كسنة، ويوم كشهر، ويوم كجمعة وسائر ايامه كايامكم "، قلنا: يا رسول الله، فذلك اليوم الذي كسنة اتكفينا فيه صلاة يوم؟، قال: لا اقدروا له قدره "، قلنا: يا رسول الله، وما إسراعه في الارض؟، قال: " كالغيث استدبرته الريح، فياتي على القوم، فيدعوهم فيؤمنون به ويستجيبون له، فيامر السماء فتمطر، والارض فتنبت، فتروح عليهم سارحتهم اطول ما كانت ذرا واسبغه ضروعا، وامده خواصر ثم ياتي القوم، فيدعوهم فيردون عليه قوله فينصرف عنهم، فيصبحون ممحلين ليس بايديهم شيء من اموالهم ويمر بالخربة، فيقول: لها اخرجي كنوزك، فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل ثم يدعو رجلا ممتلئا شبابا، فيضربه بالسيف فيقطعه جزلتين رمية الغرض ثم يدعوه، فيقبل ويتهلل وجهه يضحك فبينما هو كذلك إذ بعث الله المسيح ابن مريم، فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهرودتين، واضعا كفيه على اجنحة ملكين إذا طاطا راسه قطر، وإذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ، فلا يحل لكافر يجد ريح نفسه إلا مات ونفسه ينتهي حيث ينتهي طرفه، فيطلبه حتى يدركه بباب لد، فيقتله ثم ياتي عيسى ابن مريم قوم قد عصمهم الله منه، فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم في الجنة، فبينما هو كذلك إذ اوحى الله إلى عيسى إني قد اخرجت عبادا لي لا يدان لاحد بقتالهم، فحرز عبادي إلى الطور، ويبعث الله ياجوج وماجوج وهم من كل حدب ينسلون، فيمر اوائلهم على بحيرة طبرية، فيشربون ما فيها ويمر آخرهم، فيقولون: لقد كان بهذه مرة ماء، ويحصر نبي الله عيسى، واصحابه حتى يكون راس الثور لاحدهم خيرا من مائة دينار لاحدكم اليوم فيرغب نبي الله عيسى واصحابه فيرسل الله عليهم النغف في رقابهم، فيصبحون فرسى كموت نفس واحدة، ثم يهبط نبي الله عيسى واصحابه إلى الارض، فلا يجدون في الارض موضع شبر إلا ملاه زهمهم ونتنهم، فيرغب نبي الله عيسى واصحابه إلى الله، فيرسل الله طيرا كاعناق البخت، فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله ثم يرسل الله مطرا لا يكن منه بيت مدر، ولا وبر فيغسل الارض حتى يتركها كالزلفة، ثم يقال للارض: انبتي ثمرتك وردي بركتك، فيومئذ تاكل العصابة من الرمانة ويستظلون بقحفها، ويبارك في الرسل حتى ان اللقحة من الإبل لتكفي الفئام من الناس، واللقحة من البقر لتكفي القبيلة من الناس، واللقحة من الغنم لتكفي الفخذ من الناس، فبينما هم كذلك إذ بعث الله ريحا طيبة، فتاخذهم تحت آباطهم، فتقبض روح كل مؤمن وكل مسلم ويبقى شرار الناس يتهارجون فيها تهارج الحمر، فعليهم تقوم الساعة ۔(چشتی)
ترجمہ : حضرت‏‏‏‏ سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آ گیا۔ جب ہم پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس شام کو آ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”تمہارا کیا حال ہے ؟“ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہو گیا کہ دجال ان درختوں میں کھجور کے جھنڈ میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”مجھ کو دجال کے سوا اور باتوں کا خوف تم پر زیادہ ہے (فتنوں کا، آپس میں لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کو الزام دوں گا اور تم کو اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد مسلمان اپنی طرف سے اس کو الزام دے گا اور حق تعالیٰ میرا خلیفہ اور نگہبان ہے ہر مسلمان پر ۔ البتہ دجال تو جوان گھونگریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ میں ٹینٹ ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت دیتا ہوں عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ (عبدالعزیٰ ایک کافر تھا) ۔ سو جو شخص تم میں سے دجال کو پائے اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کے شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ مقرر وہ نکلے گا شام اور عراق کی راہ سے تو خرابی ڈالے گا داہنے اور فساد اٹھائے گا بائیں۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔“ اصحاب بولے: یا رسول اللہ ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔“ (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا) ۔ اصحاب نے عرض کیا : یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”نہیں تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا .“ (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمہ اللہ کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا ہی کافی ہوتیں کیونکہ ہر دن رات میں خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے ۔ (تسعین میں جو خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے پس اگر بالفر‌ض انسان وہاں پہنچ جائے اور جئیے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی ، چشتی) اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس کی چال زمین میں کیونکر ہو گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”جیسے وہ مینہ جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے سو وہ ایک قوم کے پاس آئے گا تو ان کو کفر کی طرف بلائے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے تو آسمان کو حکم کرے گا وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا وہ ان کی گھاس اور اناج اگائے گی ۔ تو شام کو گورو (جانور) آئیں گے پہلے سے زیادہ ان کے کوہان لمبے ہوں گے تھن کشادہ ہوں گے کوکھیں تنی ہوئیں (یعنی خوب موٹی ہو کر) پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی کفر کی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا: اے زمین! اپنے خزانے نکال۔ تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مارے گا اور دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا: سو وہ جوان سامنے آئے گا۔ چہرہ دمکتا ہوا اور ہنستا ہوا دجال اسی حال میں ہو گا کہ ناگاہ حق تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر (لد شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے) سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچایا۔ سو شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو خبر کریں گے ان درجوں کی جو بہشت میں ان کے رکھے ہیں ۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے۔ ان میں کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی لیں گے۔ پھر ان میں کے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے البتہ ہم زمین والوں کو قتل کر چکے۔ آؤ اب آسمان والوں کو بھی قتل کریں۔ تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ (یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے، اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے۔) اور اللہ کے پیغمبر عیسٰی علیہ السلام اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہو گا سو اشرفی سے آج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی) پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے توزمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ تعالیٰ کے رسول عیسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور ان کو پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ کوئی گھر مٹی کا اور بالوں کا اس پانی سے باقی نہ رہے گا سو اللہ تعالیٰ زمین کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین کو مثل حوض یا باغ یا صاف عورت کے کر دے گا پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بناکر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی یہاں تک کہ دو دھار اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دو دھار گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دو دھار بکری ایک جدی لوگوں کو کفایت کرے گی۔ سو اسی حالت میں لوگ ہوں گے کہ یکایک حق تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا کہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی۔ تو ہر مؤمن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے۔ آپس میں بھڑیں گے گدھوں کی طرح ان پر قیامت قائم ہو گی ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7373)

حدثنا علي بن حجر السعدي ، حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، والوليد بن مسلم ، قال ابن حجر: دخل حديث احدهما في حديث الآخر، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر بهذا الإسناد، نحو ما ذكرنا وزاد بعد قوله لقد كان بهذه مرة ماء، ثم يسيرون حتى ينتهوا إلى جبل الخمر، وهو جبل بيت المقدس، فيقولون: لقد قتلنا من في الارض هلم، فلنقتل من في السماء، فيرمون بنشابهم إلى السماء، فيرد الله عليهم نشابهم مخضوبة دما، وفي رواية ابن حجر، فإني قد انزلت عباد إلي لا يدي لاحد بقتالهم ۔
ترجمہ حضرت‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث اسی سند سے مروی ہے، اس میں اس جملہ کے بعد کہ ”اس جگہ کسی موقعہ پر پانی تھا ۔“ یہ اضافہ ہے کہ پھر وہ خمر کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے اور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو وہ کہیں گے : تحقیق! ہم نے زمین والے سب کو قتل کر دیا۔ آؤ ہم آسمان والوں کو قتل کریں پھر وہ اپنے تیروں کو پھینکیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ ان پر ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹائے گا ۔“ اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو نازل کیا ہے ، جنہیں قتل کرنے پر کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ حدیث نمبر 7374)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔