اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوٰحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ۔
ترجمہ : اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی ۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 151)
قرآن حکیم میں شرم و حیا ء کو اپنانے کی واضح تلقین کی گئی ہے سورۃ الانعام کی آ یت نمبر151میں ارشاد ربانی ہے کہ ترجمہ ’’ اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی ‘‘ قرآ ن حکیم میں سورۃ النور کی آ یت نمبر31 میں ارشادربانی ہے کہ ترجمہ ’’ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرما یا کہ ہر مذہب کے ما ننے والوں کی کچھ خا ص صفا ت و عادات ہو تیں ہیں (جو ان کی پہچان ہو تی ہیں) تو اسلا م کی خا ص صفت و عادت (جو مسلمانوں کی امتیا زی شان ہو نی چاہیے) وہ شرم حیا کی عادت ہے ۔ (سنن ابن ما جہ 308)
اس آیت میں ظاہری وباطنی بے حیائیوں کے پاس جانے سے منع کیا گیا کیونکہ انسان جب کھلے اور ظاہری گناہوں سے بچے اور پوشیدہ گناہوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کا ظاہری گناہوں سے بچنا بھی لِلّٰہیت سے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے اور ان کی بدگوئی سے بچنے کے لئے ہے جبکہ گناہوں سے بچنے کا اصل سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا ڈر ہونا چاہیے نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و ثواب کا مستحق ہوتا بھی وہی ہے جو اس کے خوف سے گناہ ترک کرے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بلکہ ریا کاری ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف دامن گیر ہو۔ لوگوں کے سامنے نیک اعمال کرتے نظر آنے والوں اور تنہائی میں گناہوں پر بیباک ہونے والوں کا حشر میں بہت برا حال ہو گا، چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے (اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے، تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا ۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴/۱۳۵، الحدیث: ۵۴۷۸،چشتی)
حضر ت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلد اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے بہتر ہو ۔ (جامع الاحادیث، ۹/۴۳، الحدیث: ۲۷۰۵۲)
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا ۔ (معجم الکبیر، بشر بن نمیر عن القاسم، ۸/۲۴۰، الحدیث: ۷۹۳۵)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے’’ جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اورا س کی رضا حاصل کرنے کی خاطر گناہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا ۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲/۶۳، الحدیث: ۵۹۱۱، الجزء الثالث)
ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا
حدیث پاک میں ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ایک بہترین دعا تعلیم فرمائی گئی ہے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس دعا کو اپنے معمولات میں شامل کر لے اور بکثرت یہ دعا مانگا کرے ،چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ دعا سکھائی ، ارشا فرمایا: ’’ کہو ’’اللہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِنْ عَلَانِیَتِیْ، وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اللہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ، وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘اے اللہ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے، اے اللہ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال،اچھا گھر بار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گر ہو ۔ (ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵/۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷،چشتی)
قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ ؕ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ ۔ ﴿سورہ نور آیت نمبر 30﴾
ترجمہ : مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بیشک اللّٰہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے ۔
اس آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اس پر نظر نہ ڈالیں ۔ (تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳/۳۴۸)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ’’تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، راستوں میں بیٹھے بغیر ہمارا گزارہ نہیں، ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : ’’اگر راستوں میں بیٹھے بغیر تمہیں کوئی چارہ نہیں تو راستے کا حق ادا کرو۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : راستے کا حق کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’نظر نیچی رکھنا۔ تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ۔ سلام کا جواب دینا۔ نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنا ۔ (بخاری،کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدوروالجلوس فیہا والجلوس علی الصعدات،۲/۱۳۲، الحدیث :۲۴۶۵)
حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ’’ ایک مرد دوسرے مرد کے سَتْر کی جگہ نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کی جگہ دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں بَرَہْنَہ سوئے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے ۔ (مسلم، کتاب الحیض، باب تحریم النظر الی العورات، ص۱۸۶، الحدیث: ۷۴(۳۳۸))
حضرت بریدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے فرمایا کہ ’’ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ کرو (یعنی اگر اچانک بِلاقصد کسی عورت پر نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹالے اور دوبارہ نظر نہ کرے) کہ پہلی نظر جائز ہے اور دوسری نظر جائز نہیں ۔ (ابو داؤد، کتاب النکاح، باب ما یؤمر بہ من غض البصر، ۲/۳۵۸، الحدیث: ۲۱۴۹)
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشادفرمایا: ’’جو مسلمان کسی عورت کے حُسن وجمال کی طرف (بِلا ارادہ) پہلی بار نظر کرے، پھر اپنی آنکھ جُھکا لے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کرنے کی توفیق دے گا جس کا وہ مزہ پائے گا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار رضی اللّٰہ عنہم، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸/۲۹۹، الحدیث: ۲۲۳۴۱،چشتی)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کرے اور جن چیزوں کو دیکھنا حرام ہے انہیں دیکھنے سے بچے۔مزید ترغیب کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں :نظر نیچی رکھنا دل کو بہت زیادہ پاک کرتا ہے اور نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نظر نیچی نہ رکھو بلکہ اسے آزادانہ ہر چیز پر ڈالو تو بسا اوقات تم بے فائدہ اور فضول بھی اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دو گے اور رفتہ رفتہ تمہاری نظر حرام پر بھی پڑنا شروع ہو جائے گی، اب اگر جان بوجھ کر حرام پر نظر ڈالو گے تو یہ بہت بڑ اگناہ ہے اور عین ممکن ہے کہ تمہارا دل حرام چیز پر فریفتہ ہو جائے اور تم تباہی کا شکار ہو جاؤ، اور اگر اس طرف دیکھنا حرام نہ ہو بلکہ مباح ہو، تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل (اس میں) مشغول ہو جائے اور اس کی وجہ سے تمہارے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنا شروع ہو جائیں اور ان وسوسوں کا شکار ہو کر نیکیوں سے رہ جاؤ،لیکن اگر تم نے (حرام اور مباح) کسی طرف دیکھا ہی نہیں تو ہر فتنے اور وسوسے سے محفوظ رہو گے اور اپنے اندر راحت و نَشاط محسوس کرو گے ۔ (منہاج العابدین، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الاول: العین، ص۷۲-۷۳)
وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصٰرِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوٰنِہِنَّ اَوْ بَنِیۡۤ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیۡۤ اَخَوَاتِہنَّ اَوْ نِسَآئِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیۡنَ لَمْ یَظْہَرُوۡا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔ ﴿سورہ نور آیت نمبر 31﴾
ترجمۂکنزالایمان : اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللّٰہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ ۔
آیت کے ا س حصے میں مسلمان عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں ۔ حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر تھیں ، اسی وقت حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں پردہ کا حکم فرمایا تومیں نے عرض کی : وہ تو نابینا ہیں، ہمیں دیکھ اور پہچان نہیں سکتے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں ۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، ۴/۳۵۶، الحدیث: ۲۷۸۷،چشتی)(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ عزّ وجلّ: وقل للمؤمنات یغضضن۔۔۔ الخ، ۴/۸۷، الحدیث: ۴۱۱۲)
عورت کا اجنبی مرد کو دیکھنے کا شرعی حکم
یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ عورت کا اجنبی مردکی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے ، جو مرد کا مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی طرف نظر کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے ۔
وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ: اور اپنی زینت نہ دکھائیں ۔ ابو البرکات عبد اللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیوراورسرمہ وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے اس لئے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں جہاں زینت کرتی ہیں جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے اس لئے ان اعضا کو ظاہر کرنے میں حرج نہیں۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔ (تفسیر مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۷)
اِس آیتِ مبارکہ کے بارے میں ملا جیون رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں مذکور حکم نماز کے بارے میں ہے (یعنی عورت نماز پڑھتے وقت چہرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے علاوہ پورا بدن چھپائے ۔ یہ حکم عورت کو) دیکھنے کے بارے میں نہیں کیونکہ عورت کا تمام بدن عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے ۔ شوہر اور مَحرم کے سوا کسی اور کے لئے اس کے کسی حصہ کو بے ضرورت دیکھنا جائز نہیں اور علاج وغیرہ کی ضرورت سے بقدرِ ضرورت جائز ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۲)
وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ : اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ۔ یعنی مسلمان عورتیں اپنے دوپٹوں کے ذریعے اپنے بالوں، گردن،پہنے ہوئے زیور اور سینے وغیرہ کو ڈھانپ کر رکھیں ۔ (خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳/۳۴۸)
اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں صحابیات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا جذبہ
جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تواس حکم پر عمل کرنے میں صحابیات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا جذبہ قابل دید ہے ، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : اللّٰہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کی تھی کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ’’اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں‘‘ تو انہوں نے اپنی اونی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لیا تھا ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النور، باب ولیضربن بخمرہنّ علی جیوبہنّ، ۳/۲۹۰، الحدیث: ۴۷۵۸)
یہاں پردے سے متعلق تین عظیم واقعات ملاحظہ ہوں
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ پردے کی آیات نازل ہونے کے بعد (میرے رَضاعی چچا) افلح نے مجھ سے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا : میں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتی جب تک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت نہ لے لوں کیونکہ ابو القعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ ابو القعیس کی بیوی نے دودھ پلایاہے ۔ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ان سے صورتِ حال عرض کی تو ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، افلح کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الاحزاب، باب قولہ: ان تبدوا شیءاً او تخفوہ۔۔۔ الخ، ۳/۳۰۶، الحدیث: ۴۷۹۶،چشتی)
خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو یہ تشو یش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں وفات کے بعد میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں کی نظر نہ پڑ جائے!ایک موقع پر حضرت اسماء بنتِ عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی:میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر اور ایک ڈولی کی سی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈالدیتے ہیں۔ پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑااور اس پر کپڑا تان کر خاتونِ جنّت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو دکھایا۔اسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ بس آپ کی یہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد دیکھی گئی ۔ (جذب القلوب، باب دوازدہم در ذکر مقبرۂ شریفۂ بقیع۔۔۔ الخ، ص۱۵۹)
حضرت اُمِّ خلاد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو ئیں، اس پر کسی نے حیرت سے کہا :اس وقت بھی آپ نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے!آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جواب دیا: میں نے بیٹاضرور کھویا ہے لیکن حیا ہر گز نہیں کھوئی ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم، ۳/۹، الحدیث: ۲۴۸۸،چشتی)
مذکورہ بالا حدیثِ پاک اور ان تین واقعات میں ان عورتوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کرنے کی بجائے دنیا کے ناجائزفیشن اور رسم و رواج کو اپنانے میں بڑی کوشش کرتی ہیں اور پردے سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور شرعی احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ : اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں ۔ اس آیت سے ان مردوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کے سامنے عورت اپنی پوشیدہ زینت کے اعضا مثلاً سر ، کان ، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں وغیرہ ظاہر کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہ مرد حضرات درج ذیل ہیں ،
(1) شوہر۔
(2) باپ ۔ اس کے حکم میں دادا پَر دادا وغیرہ تمام اصول شامل ہیں ۔
(3) شوہروں کے باپ یعنی سُسرکہ وہ بھی مَحرم ہوجاتے ہیں ۔
(4) اپنے بیٹے۔ اِنہیں کے حکم میں اِن کی اولاد بھی داخل ہے ۔
(5) شوہروں کے بیٹے کہ وہ بھی مَحرم ہوگئے ۔
(6،7) سگے بھائی۔ سگے بھتیجے ۔
(8) سگے بھانجے ۔ اِنہیں کے حکم میں چچا ماموں وغیرہ تمام مَحارِم داخل ہیں ۔
(9) مسلمان عورتوں کے سامنے۔ غیر مسلم عورتوں کے سامنے کھولنا منع ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو خط لکھا تھا کہ کُفَّار اہلِ کتاب کی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں داخل ہونے سے منع کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کو کافرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں ۔
مسئلہ : عورت اپنے غلام سے بھی اجنبی مرد کی طرح پردہ کرے ۔
(10) اپنی ملکیت میں موجود کنیزوں کے سامنے ۔ ان پر اپنا سنگار ظاہر کرنا ممنوع نہیں اور غلام اِن کے حکم میں نہیں، اس کو اپنی مالکہ کی زینت کی جگہوں کو دیکھنا جائز نہیں ۔
(11) مردوں میں سے وہ نوکرجوشہوت والے نہ ہوں مثلاً ایسے بوڑھے ہوں جنہیں اصلاً شہوت باقی نہیں رہی ہو اوروہ نیک ہوں ۔
یاد رہے کہ ائمہ حنفیہ کے نزدیک خصی اور عنین نظر کی حرمت کے معاملے میں اجنبی کا حکم رکھتے ہیں۔ اس طرح بُرے اَفعال کرنے والے ہیجڑوں سے بھی پردہ کیا جائے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے ثابت ہے ۔
(12) وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں ، وہ ابھی ناسمجھ نابالغ ہیں ۔ (تفسیر مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۸)(تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳/۳۴۹)(تفسیر خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶)
یاد رہے کہ شوہر کے علاوہ دیگر مَحارِم کے سامنے بھی عورت اپنے بناؤ سنگار کے اعضاء اس وقت ظاہر کر سکتی ہے جب ان میں سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو، اگر شہوت کا اندیشہ ہو تو ظاہر کرنا ناجائزہے ۔
وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ : اور زمین پر اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں ۔ یعنی عورتیں چلنے پھرنے میں پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے ۔‘‘ اسی لئے چاہیے کہ عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس قوم کی دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں ۔ اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ جب زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کیسی اللّٰہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے (اللّٰہ کی پناہ) ۔ (تفسیر احمدی، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۵)(تفسیر خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶)
پردے کے دینی اور دُنیوی فوائد
یہاں پردہ کرنے کے چند دینی اور دُنیوی فوائد ملاحظہ ہوں، چنانچہ اس کے4 دینی فوائد یہ ہیں :
(1) پردہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔
(2) پردہ ایمان کی علامت، اسلام کا شعار اور مسلمان خواتین کی پہچان ہے ۔
(3) پردہ شرم و حیا کی علامت ہے اور حیا اللّٰہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ۔
(4) پردہ عورت کو شیطان کے شر سے محفوظ بنا دیتا ہے ۔
پردے کے 4 دُنیوی فوائد یہ ہیں
(1) باحیا اور پردہ دارعورت کو اسلامی معاشرے میں بہت عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
(2) پردہ عورت کو بُری نظر اور فتنے سے محفوظ رکھتا اور بُرائی کے راستے کو روکتا ہے ۔
(3) عورت کے پردے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا اور معاشرے میں امن و سکون رہتاہے ۔
(4) پردہ عورت کے وقار میں اضافہ کرتا اور اس کی خوبصورتی کی حفاظت کرتا ہے ۔
پردے کی ضرورت واہمیت سے متعلق ایک مثال
یہاں پردے کی ضرورت اور اہمیت کو آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لئے ایک مثال ملاحظہ ہو،چنانچہ وہ مثال یہ ہے کہ اگر ایک پلیٹ میں مٹھائی رکھ دی جائے اور اسے کسی چیز سے ڈھانپ دیاجائے تو وہ مکھیوں کے بیٹھنے سے محفوظ ہو جاتی ہے اور اگر اسے ڈھانپا نہ جائے، پھر اس پر مکھیاں بیٹھ جائیں تو یہ شکایت کرنا کہ اس پر مکھیاں کیوں بیٹھ گئیں بہت بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ مٹھائی ایسی چیز ہے جسے مکھیوں کے تَصَرُّف سے بچانے کے لئے اسے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے ورنہ انہیں مٹھائی پر بیٹھنے سے روکنا بڑ امشکل ہے، اسی طرح اگرعورت جو کہ چھپانے کی چیز ہے، اسے پردے میں رکھا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل سے بچ سکتی ہے اور عزت و ناموس کے لٹیروں سے اپنی حفاظت کر سکتی ہے اور جب اسے پردے کے بغیر رکھا جائے تو اس کے بعد یہ شکایت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ لوگ عورت کو تانک جھانک کرتے ہیں، اسے چھیڑتے ہیں اوراس کے ساتھ دست درازی کرتے ہیں کیونکہ جب اسے بے پردہ کر دیاتو غیر مردوں کی فتنہ باز نظریں ا س کی طرف ضرور اُٹھیں گی، ان کے لئے عورت کے جسم سے لطف اندوز ہونا اور اس میں تَصَرُّف کرنا آسان ہو گا اور شریر لوگوں سے اپنے جسم کو بچانا عورت کے لئے انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ فطری طور پر مردوں میں عورتوں کے لئے رغبت رکھی گئی ہے اور جب وہ بے پردہ عورت کا جسم دیکھتا ہے تو وہ اپنی شہوت و رغبت کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف لپکتا ہے ۔
پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے
موجودہ دور میں میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے لوگوں کا یہ ذہن بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ عورت بھی ایک انسان ہے اور آزادی اس کا بھی حق ہے اور اسے پردہ کروانااس کی آزادی اور روشن خیالی کے برخلاف ہے اور یہ ایک طرح کی جبری قید ہے حالانکہ پردہ تو عورت کی آزادی کا ضامن ہے،پردہ اس کی عزت و ناموس کا محافظ ہے، اسی میں عورت کی عزت اور ا س کاو قار ہے۔آج ہر عقلمند انسان انصاف کی نظر سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ جن ممالک میں عورت کے پردے کو اس کے انسانی حق اور آزادی کے خلاف قرار دے کر اس کی بے پردگی کو رواج دیا گیا، ایسے ذرائع اور حالات پیدا کئے گئے جن سے عورتوں اور مردوں کا باہم اِختلاط رہے اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوتا رہے اور قانونی طور پر عورت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جب اور جس مرد کے ساتھ چاہے اپنا وقت گزارے اور اپنی فطری خواہشات کو پورا کرے تو وہاں کا حال کیسا عبرت ناک ہے کہ ان کا معاشرہ بگڑ گیا اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا، شادیوں کی ناکامی، طلاقوں کی تعداد اور حرامی بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوگیا اور یہ سب تباہی عورت کو بے پردہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے ۔
وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ جَمِیۡعًا : تم سب اللّٰہ کی طرف توبہ کرو ۔ یعنی اے مسلمانو ! جن باتوں کا تمہیں حکم دیا گیا اور جن سے منع کیا گیا ، اگر ان میں بشری تقاضے کی بنا پر تم سے کوئی تقصیر واقع ہوجائے تو تم اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا س امید پر توبہ کر لو کہ تم فلاح پا جاؤ ۔ (تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳/۳۵۰،چشتی)
اور توبہ سے متعلق حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہونے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے ۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴/۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)
قرآ ن و حدیث کی تعلیما ت کی روشنی میں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حیاء کو متا ثر کرنے والے ان عوامل یعنی فحش لٹریچر ، غیر میعا ری ادب ، اختلا مردو زن یعنی آ زادنہ میل جول مخلوط تعلیمی ادارے ستر حجا ب بے نیا زی ، نام نہا د تفریحی پرو گرام ،صحبت بد اور غیر وں کی نقال سے دور رہا جا ئے بقو ل شاعر
حیاء نہیں ہے زما نے کی آ نکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
اسلام میں شرم و حیا ء پرقا ئم رہنا اسلا می شرائط میں سے لا زمی شرط قرار دی گئی ہے جہاں ہر قسم کی بے شرمی سے دور رہنے کی ضروری تلقین کی گئی ہے وہاں عورتوں کو با لخصو ص با پردہ رہنے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ شرم و حیا ہی مسلما نوں کی امتیا زی شان ہے حیاء جہنم سے دوری اور جنت میں جا نے کا سبب ہے ۔ سرتا پاؤں خیر ہی خیر ہے مسلما ن کی زینت اور جزو ایمان ہے۔الغرض حیا ء و ایمان با ہم لا زم و ملزوم ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment