حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ہیں حقائق و دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : شیخ الاسلام منھاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہرُ القادری صاحب لکھتے ہیں : کتابتِ وحی کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسب ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں :
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ ابن الربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ارقم الزہری رضی اللہ عنہ، حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے، چنانچہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لکھ لیا جاتا تھا، قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، اور چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ (عسقلانی، فتح الباری، 9 : 18،چشتی) ۔ (سیرۃُ الرّسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی و رِسالتی اہمیت صفحہ 59)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہلِ اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ء الفقہ آپ کے دینی مسائل،چشتی)
کاتب کےمعنی ہیں : لکھنے والااورنبی علیہ السَّلام پر اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو ”وحی“ کہتے ہیں۔ ( عمدۃ القاری،ج 1،ص37) جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر وحی نازل ہوتی (یعنی اترتی) تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو لکھوا دیتے۔ کئی صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان وحی لکھنے پر مامور تھے، جن میں حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو کاتبِ وحی کہا جاتا ہے۔(سیرۃ الحلبیہ،ج 3،ص458،امتاع الاسماع،ج9،ص329،334)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل امین علیہ السّلام کے مشورے سے کاتبِ وحی بنایا جبرائیل امین علیہ السّلام نے عرض کیا معاویہ امانت دار ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں فرمائیں اور فرما یا اے معاویہ میں تم سے ہوں اور تُم مجھ سے ہو تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے ۔ (سیرتِ حلبیہ مترجم اردو جلد نمبر 5 صفحہ 289 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی،چشتی)
حضرت سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں کہ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا : يا نبي الله ثلاث أعطنيهن ، قال نعم قال عندي أحسن العرب وأجمله، أم حبيبة بنت أبي سفيان، أزوجكها، قال: نعم قالومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك، قال نعم قال وتؤمرني حتى أقاتل الكفار، كما كنت أقاتل المسلمين، قال نعم ۔
ترجمہ : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے (یعنی تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرمالیجیے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جوابا ارشاد فرمایا : جی ہاں ۔ (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نےعرض کیا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین وجمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتاہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نے عرض کیاکہ آپ معاویہ کو کاتب وحی بنالیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ پھر (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نے عرض کیاکہ آپ مجھے کسی دستے کا امیر بھی مقرر کردیں تاکہ میں کفار سے لڑائی کروں جس طرح میں (قبول اسلام سے قبل) مسلمانوں سے لڑائی کرتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی سفیان برقم۶۴۰۹)
اس صحیح حدیث سے ثابت ہواکہ امیرمعاویہ کو کاتب وحی اور خال المؤمنین ہونے کاشرف حاصل ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا گیا کہ : ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك ؟ ۔
ترجمہ : کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمائیں گے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ )صحيح مسلم : 304/2، ح : 2501)
ایک روایت میں ہے : وكان يكتب الوحي ۔
ترجمہ : معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے ۔ (دلائل النبوة للبيهقي : 243/6، وسنده صحيح)
تبع تابعی ، شیخ الاسلام ، معافی بن عمران رحمۃ اللہ علیہ (م : 186/185 ھ) فرماتے ہیں : معاوية ، صاحبه ، وصهره ، وكاتبه ، وأمينه علٰي وحي الله ۔
ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ، آپ کے سالے ، آپ کے کاتب اور اللہ کی وحی کے سلسلے میں آپ کے امین تھے ۔ (تاريخ بغداد للخطيب : 209/1،چشتی)(تاريخ ابن عساكر : 208/59، البداية والنهاية لابن كثير : 148/8، وسنده صحيح)
امام حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ (571-499 ھ) فرماتے ہیں : وأصح فى فضل معاوية حديث أبي جمرة عن ابن عباس، أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم منذ أسلم ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اصح حدیث ابوجمرہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جب سے اسلام لائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب تھے ۔ (البداية والنهاية لابن كثير : 128/8)
امام ابومنصور معمر بن احمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ (م : 428 ھ) اہلسنت کا اجماعی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وأن معاوية بن أبي سفيان كاتب وحي الله وأمينه، ورديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخال المؤمنين رضي الله عنه .
ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی الٰہی کے کاتب و امین ہونے ، نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ایک سواری پر سوار ہونے اور مؤمنوں کے ماموں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ (الحجة فى بيان المحجة للإمام قوام السنة أبي القاسم إسماعيل بن محمد الأصبهاني : 248/1، وسنده صحيح)
امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (م : 620 ھ) مسلمانوں کا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں : ومعاوية خال المؤمنين، وكاتب وحي الله، وأحد خلفاء المسلمين ۔
ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے ماموں ، کاتب وحی الٰہی اور مسلمانوں کے ایک خلیفہ تھے ۔ (لمعة الاعتقاد، ص : 33)
شیعہ مذہب کی ان معتبر کتب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی تسلیم کیا گی اہے ۔ (معاني الاخبار ص۳۴۶،طبع دارالمعرفہ)(معانی الاخبار اردو مترجم ج۲ص۳۹۳۔۳۹۴،طبع کراچی)(الإحتجاج للطبرسی ج۱ص۲۳۹،ط انتشارات الشریف الرضی)(شرح نهج البلاغة لابن ابي الحديد ج۱ص۲۳۸،چشتی)
حافظ ابوبکرمحمد بن حسین آجری بغدادی (متوفی 360ھ ) فرماتے ہیں : معاویۃ رحمہ اللہ کاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب سیدنا امیر معاویہ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی الہی؛ قرآن پاک لکھا کرتے تھے ، (الشریعہ کتابت فضائل معاویۃ ج 5 ص 2431)
حافظ الکبیر امام ابو بکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی (متوفی 458ھ) فرماتے ہیں،
و کان یکتب الوحی ، سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے ، (دلائل النبوۃ ج6ص243 )
امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن سرخسی حنفی (متوفی 483 ھ) فرماتے ہیں : و کان کاتب الوحی ۔ (المبسوط کتاب الاکراہ ج 24 ص 47)
امام قاضی ابو الحسین محمد بن محمد حنبلی(ابن ابی یعلی) (متوفی 526ھ) فرماتے ہیں : (معاویۃ) کاتب وحی رب العلمین ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے ۔ (الاعتقاد۔ الاعتقاد فی الصحابۃ ص43)
امام حافظ ابو قاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنۃ) (متوفی 535)
فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب الوحی ۔ (الحجۃ فی بیان المحجۃ ج2 ص570 رقم 566)
علامہ ابو الحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی(متوفی 542ھ) فرماتے ہیں
معاویۃ بن ابی سفیان کاتب الوحی ۔ (الذخیرۃ فی محاسن اہل الجزیرۃ ج1ص110)
حافظ ابو عبداللہ حسین بن ابراھیم جوزقانی(متوفی 543ھ) فرماتے ہیں،(معاویۃ) کاتب الوحی ۔ (الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر باب فی فضائل معاویۃ ص116رقم 191)
علامہ ابو الفتوح محمد بن محمد طائی ہمذانی (متوفی 555ھ) فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب وحی رسول رب العلمین و معدن الحلم والحکم ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول رب العلمین کے کاتب وحی اور حلم و دانائی کے کان تھے،
(کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین ص174 )
امام حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی (ابن عساکر)(متوفی 571) فرماتے ہیں،(معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ) خال المؤمنین وکاتب وحی رب العلمین
حضرت امیر معاویہ تمام مؤمنوں کے خالو ہیں اور تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب ہیں ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ذکر من اسمہ معاویۃ ، معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر ج59 ص55 رقم 7510،چشتی)
امام حافظ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی( متوفی 497ھ) نے کشف المشکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 12 کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے
جن میں حضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔(کشف المشکل ج2ص96)
ابو جعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی(ابن الطقطقی) (متوفی 709ھ)
نے لکھا ہے،و اسلم معاویۃ و کتب الوحی فی جملۃ من کتبہ بین یدی الرسول
اور حضرت سیدنا امیر معاویہ اسلام لائے اور ان سب میں رہکر کتابت کی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کتابت کرتے تھے۔(الفخری فی الآداب السلطانیۃ من سیرۃ معاویۃ ص 109)
حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی شافعی (متوفی 774) لکھتے ہیں،ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر (سیدنا امیر معاویہ) ان میں سے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وحی لکھتے تھے ۔ (جامع المسانید والسنن الھادی ج8 ص 31 رقم 1760)
حافظ ابراھیم بن موسی مالکی شاطبی(متوفی 790ھ) نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتاب وحی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر فرمایا
(الاعتصام ص239)
حافظ ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(متوفی 807ھ) نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کُتّابِ وحی کے باب میں سیدنا امیر معاویہ کا تذکرہ کیا ہے۔(مجمع الزوائد باب فی کُتّاب الوحی ج 1 ص 53 رقم 686)
علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی(متوفی 845ھ) فرماتے ہیں،
و کان یکتب الوحی ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کاتب وحی تھے ۔ (امتاع الاسماع اجابۃ اللہ دعوۃ الرسول ج12 ص 113،چشتی)
امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی (متوفی 852ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ بن ابی سفیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخلیفۃ صحابی اسلم قبل الفتح و کتب الوحی سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہما خلیفہ ہیں صحابی ہیں آپ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اور وحی کی کتابت فرمائی ۔ (تقریب التھذیب حرف المیم ص 470 رقم 6758)
امام حافظ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی 855) لکھتے ہیں،
معاویۃ بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین ج 2ص73 رقم 71)
علامہ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی(متوفی 923) لکھتے ہیں،و ھو مشھور بکتابۃ الوحی ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مشہور کاتب وحی ہیں ۔ (المواھب اللدنیۃ الفصل السادس ج1 ص533،چشتی)
علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری میں بھی لکھا ہے کہ : معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذا المناقب الجمعۃ ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ ج1ص170 رقم 71)
امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد(ابن حجر) ہیتمی مکی شافعی(متوفی 974ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ بن ابی سفیان اخی ام حبیبۃ زوجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاتب الوحی ، حضرت سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول رضی اللہ تعالی عنھا و صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (الصواعق المحرقہ ص 355)
علامہ عبد الملک بن حسین بن عبد الملک عاصمی مکی (متوفی 1111ھ) نے لکھا ہے : معاویۃ و کان یکتب الوحی ، (سمط النجوم العوالی ج3ص 55)
علامہ اسماعیل بن مصطفیٰ حقی حنفی (متوفی 1127ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ کاتب الوحی ۔ (تفسیر روح البیان جزء 1 تحت سورۃ بقرۃ ایت 90 ج 1 ص 180)
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1340ھ) فرماتے ہیں ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوتی عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے (تھے) حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل: امیر المؤمنین عثمان غنی و حضرت زید بن ثابت و ::::امیر معاویہ:: وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم اسے لکھتے؛ ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے ، اللہ تعالی اعلم ۔ (العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ج26 ص 492/493)
شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضی ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خدمت نبوی سے جدا نہ ہوئے ہما وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے ۔ (شان صحابہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وسلم کا احترام صفحہ نمبر 32)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment