جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَ اَنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ ۔ (سورہ نور آیت نمبر 19)
ترجمہ : وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللّٰہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میںدردناک عذاب ہے ۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے ، چنانچہ عبد اللّٰہ بن اُبی ، حضرت حَسّان اور حضرت مِسْطَحْ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمَا کو حد لگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے ۔ مزید فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (تفسیر مدارک النور تحت الآیۃ ۱۹، صفحہ نمبر ۷۷۴)
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡ: کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ۔
اشاعت ِفاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت
اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اَقوال اور اَفعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زِنا ہے ۔ (تفسیر روح البیان، النور تحت الآیۃ : ۱۹، ۶/۱۳۰)
البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :
(1) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا ۔
(2) کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا ۔
(3) علمائے اہلسنّت سے بتقدیر ِالٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا ۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا ۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں ۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں ۔
(7) فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا ۔
(8) ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذِبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عُریانِیَّت کا سہارا لیا گیا ہو ۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا ۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا ۔
(11) زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ ۔
ان تمام کاموں میں مبتلا مرد و خواتین کو چاہئے کہ خدارا ! اپنے طرزِ عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطورِ خاص ان مرد و خواتین کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی ، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور درج ذیل تین احادیث پر بھی غورو فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کر نے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
حضرت جریر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میںبھی کوئی کمی نہ ہوگی ۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روم کے شہنشاہ ہرقل کو جو مکتوب بھجوایا ا س میں تحریر تھا کہ (اے ہرقل!) میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں،تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور اللّٰہ تعالیٰ تمہیں دُگنا اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رِعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا ۔ (بخاری، کتاب بدء الوحی، ۶باب، ۱/۱۰، الحدیث: ۷،چشتی)
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے پہلے ظلماً قتل کرناایجاد کیا ۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم صلوات اللّٰہ علیہ وذرّیتہ، ۲/۴۱۳، الحدیث: ۳۳۳۵)
محترم قارئینِ کرام : دُکھ ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شَرْم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہِ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے ۔ اگر لب و لہجے ، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت کھو دیتے ہیں ۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے ۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی لئے ارشاد فرمایا : جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484)
معلوم ہوا کہ کسی بھی بُرے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے ۔ شرم و حیا کیا ہے ؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو ”شرم وحیا“ کہتے ہیں ۔ شرم و حیا اور اسلام اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے ۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔ (مستدرک للحاکم،ج 1،ص176، حدیث:66،چشتی)
اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں ۔ ڈراموں ، فلموں ، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں ۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے : بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے ۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص460، حدیث: 4181)
صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فَروغ دیتا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات فطرتِ انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو اُبھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شرم و حیا حضرت سیّدُنا عمران بن حُصَین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کنواری ، پردَہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے ۔ (معجمِ کبیر،ج 18،ص206،حدیث:508)
حیا نہیں کھوئی اسی حیا پَروَر ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا ۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا : اس وقت بھی باپردہ ہیں ! کہنے لگیں : میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے ، حیا نہیں کھوئی ۔ (ابوداؤد، ج3،ص9، حدیث:2488)
شرم و حیا بڑھائیے نورِ ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حیا ایمان سے ہے ۔ (مسند ابی یعلیٰ،ج 6،ص291، حدیث: 7463،چشتی)
وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو) ، مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس ، روشن خیالی اور مادر پِدَر آزادی کو جِدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فَروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نورِ ایمان کتنا کم ہوگیا ہے ؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے ۔ اسی لئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)
شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن ، اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بُجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔ افسوس ! وہ شرم و حیا جسے اسلام مَرد و زَن کا جُھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کَلَنک کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے ۔ مَحْرم و نامَحرم کا تصوّر اور شعور دے کر اسلام نے مَرد و زَن کے اِختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں ۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خبردار کوئی شخص کسی (اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر اُن کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ (ترمذی،ج 4،ص67، حدیث: 2172)
میڈیا کی مہربانیاں
میڈیا جس تَواتُر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ قابلِ غور ہے کہ جو نسلِ نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مَناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسلِ نَو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے ۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فَروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی ”تیزترین“ ہے ۔ یاد رکھئے ! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے ۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنے تَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment