غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے معترضین کو جواب
محترم قارئینِ کرام : وباء کے زمانے میں اذان دینا مستحب عمل ہے ۔ آج کل جب کہ ایک وباء پھیلی ہوئی ہے اہلِ اسلام اذانیں و تکبیرات پڑھ رہے ہیں مگر اپنی نجدی فطرت سے مجبور غیر مقلد وہابی حضرات اپنا من مانا اور من چاہا مفہوم نکال کر بڑی شد و مد سے اس کا رد کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل ہم نے اس موضوع سے متعلق اس عنوان (مصیبت کے وقت اذان پڑھنا) سے پوسٹ کی جسے اہلِ علم و عوام النّاس نے خوب سراہا اور پسند کیا اس مضمون کا لنک یہ ہے : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/03/blog-post_25.html
اسی موضوع سے متعلق کچھ اور دلائل و حقائق پیشِ خدمت ہیں آیئے پڑھتے ہیں :
اذان سے بستی کا عذاب ٹل جاتا ہے
عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِذَا اُذِّنَ فِی قَرْیَۃٍ أمِنَہَا اللّٰہُ مِنْ عَذَابِہٖ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے تو وہ جگہ اس دن سے عذاب سے مامون ہو جاتی ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، ۱/۲۳۱)(الترغیب و الترہیب للمنذری ۱/۱۸۲)( تلخیص الحبیر لابن حجر ، ۱/۳۲۸)( کنز العمال للمتقی، ۲۰۸۹۳، ۷/۶۸۱)(مجمع الزوائد للہیثمی، ۱/۳۲۸ )(الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۲۹)
امیرُ المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے : قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں مجھے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا : اے علی میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 310، مطبوعہ دارالکتاب بیروت لبنان،چشتی)،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح مترجم اردو جلد دوم صفحہ 495 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا : فجر بتہ فوجدتہ کذالک ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ ذکرہ ابن حجر کما فی المرقاۃ ۔ (فتاوی رضویہ ۲/ ۶۷۶)
حضرت آدم علیہ السّلام کی وحشت اذان کے ذریعہ دور ہوئی
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فََنَزلَ جِبْرَئِیْلُ عَلیہِ السَّلامُ فَنَادٰی بِالْأذَانِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام جنت سے ہندوستان میں اترے تو انہیں گھبراہٹ ہوئی ۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام، نے اتر کر اذان دی ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ۵/۱۹۷)(کنز العمال للمتقی، ۳۲۱۳۹، ۱۱/۴۵۵)
اذان کی برکت سے آگ بجھ جاتی ہے
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أطْفِئُوْا الْحَرِیْقَ بِا لتَّکْبِیْرِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :آگ کو تکبیر کے ذریعہ بجھاؤ ۔ (مجمع الزوائد للہیثمی، ۳/۱۳۸)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۱۵۰)
عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : اِذَا رَأیْتُمُ الْحَرِیْقَ فَکَبِّرُوْا فَاِنَّہٗ یُطْفِیُٔ النَّارَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرما یا : جب آگ دیکھو اللہ اکبر ، اللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو ۔ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۴۵)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۹۳)(المسند للعقیلی ۲/۲۹۶)(المطالب العالیۃ لابن حجر۳۴۲۴)(میزان الاعتدال لحلبی ۴۵۳۰،چشتی)(الکامل لابن عدی ۴/۱۵۱)(الکنی والاسماء للدولانی ۲/۱۳۷)(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی ۲۸۹)
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : فکبروا ای قولوا اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، و کرر وہ کثیرا ، یعنی اللہ اکبر کی خوب تکرار کرو۔
یہ احادیث ضعیف ہیں کا جواب
معترضین کی طرف سے احادیثِ مبارکہ کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین علیہم الرّحمہ کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے ۔
(1) وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے ۔
(2) جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے ۔ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو ۔
تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا ۔
یہی مؤقف امام اعظم ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری ، امام شافعی ، امام سفیان بن عینیہ ، امام احمد بن حنبل ، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی ، امام حاکم ، امام سیوطی ، ابن صلاح ، امام نووی ، امام سخاوی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے ۔
(3) فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اہل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی ، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری ، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے ۔ بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں ۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے ۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم سمجھا جائے ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں ۔
محترم قارئینِ کرام : چاہئے تو یہ تھا کہ معترضین مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں ۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے ۔ آئیے اب معترضین کے اعتراض کی طرف آتے ہیں ۔ معترضین نے کہا اور لکھا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں ۔
تو جنابِ من عرض ہے کہ جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب مل کر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں ۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی غیرمقلد وہابی حضرات محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے ۔
وہابیہ کے مناظرِ اعظم ، اور محدث جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دہلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا ، گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا ، ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)
غیر مقلد وہابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اس کو بدعت کہنا تشدد ہے ۔ اور خود وہابیہ کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے ۔
اب اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اس کو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے ۔ اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دہلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹھہریں گے ۔ کیونکہ آپ کا مشہور ورد ہے کل ضلالة فی النار ۔
جناب ثناء الله امرتسری غیرمقلد نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ : (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں ۔ وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ، جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)
اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں ۔ تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپ کے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے ۔ یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے ۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے ۔
غیرمقلد وہابی حضرات کے دو محقق (1) حافظ حامد الخضری (2) عبد اللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں : تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے ۔ (خیال رہے ثناء الله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) ۔ (نمازِمصطفیٰ صفحہ نمبر 272 مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاہور،چشتی)
اس روایت کو غیرمقلد وہابی عالم جناب ابراہیم میر صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا ۔ (صلٰوة الرسول، صفحہ نمبر 193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور)
اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے ۔ پھر تو ہر غیرمقلد وہابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ اور سارے غیرمقلد وہابیوں کا اس پر عمل ہے ۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا ۔
ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت ۔ جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے ۔
غیرمقلد وہابیوں کے ایک اور محقق جناب عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ : محدثین کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں (آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء ، محدثین ، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایا کہ : جائز اور مستحب ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو ۔ (احسن الکلام، صفحہ نمبر 43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ،چشتی)
غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے ۔
غیرمقلد وہابی حضرات کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ : فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے ۔ (فتاویٰ اھلحدیث، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 218 مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا)
اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں ۔ ورنہ اس موضوع یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے پر ان کی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔ اور ہم کچھ عرصہ قبل اس پر تفصیل مکمل مضمون پوسٹ کر چکے ہیں غیرمقلد وہابی اور ضعیف احادیث پر عمل مکمل اسکینز کے ساتھ ضرورت پڑی تو دوبارہ پوسٹ کر دینگے ان شاء اللہ ۔
محترم قارئینِ کرام : ان دلائل و حقائق سے ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے ۔ اور اس کو بدعت کہنا جہالت ہے ۔ اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی ۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے نواب صدیق حسن خان بھوپالوی کے تعامل سے ہی غیرمقلد وہابی حضرات کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے ۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وہابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے ۔ مانعین کہتے ہیں کہ فرض نماز کے علاوہ اذان دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں اور بدعت و جہالت ہے۔ آئیے فرض نمازوں کے علاوہ اذان کہنے کا ثبوت ہم انہی کے محدث سے پیش کرتے ہیں ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث ومجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ : زید بن اسلم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بعض معاون پر والی تھے ۔ لوگوں نے کہا یہاں پر جنات بہت ہیں ۔ کثرت سے اذانیں (ایک ہی) وقت پر کہا کرو ، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور پھر کسی جن کو وہاں نہ دیکھا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نماز کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ اکٹھی اذانیں دینے سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں ۔ تو کیا فتویٰ لگے گا آپ کے محدث بھوپالی پر ؟
غیرمقلد وہابیہ کے یہی محدث بھوپالی اپنی کتاب میں ”مشکلات سے نکلنے کیلئے“ کے نام سے عنوان قائم کر کے اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ کو مہموم (پریشان) دیکھ کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کو حکم دے کہ وہ تیرے کان میں اذان کہہ دیں کہ یہ دواءِ ھم (یعنی پریشانی کی دواء) ہے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مجھ سے غم دور ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
مشکلات ٹالنے کیلئے اذان
غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے بھی تسلیم کیا کہ اذان سے غم دور ہوتا ہے ۔ اور مشکلات ٹَلتی ہیں ، تو سوچو جب مسلمانوں کی اذانوں کی آواز اتنے لوگوں کے کانوں میں پڑی تو کتنا سکون ملا ہو گا ۔ اگر نماز کے علاوہ اذان دینا جہالت و بدعت ہے تو کیا حکم لگے گا آپکے محدث بھوپالی صاب پر ؟
مرگی کے علاج کیلئے اذان
وغیرمقلد ہابیہ کے مجدد بھوپالی نے اپنی کتاب میں ”مرگی کا علاج“ کے نام سے عنوان قائم کیا، پھر اسکے تحت لکھتے ہیں کہ : بعض علماء نے مرگی والے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 77، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور،چشتی)
مزید عنوان دیا ”راستہ بھول جانے کا علاج“ اسکے تحت لکھا کہ : بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جائے اور وہ اذان کہے تو اللّٰہ تعالٰی اسکی رہنمائی فرماوے گا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
مزید اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : جس کو شیطان خبطی کر دے یا اس کو آسیب کا سایہ ہو .... تو اسکے کان میں سات بار اذان کہے ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76،105، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
تو ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت و پریشانی کے وقت اذانیں دینے سے مصیبتیں ، وبائیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں ۔ بس اسی جذبے کے تحت مسلمانوں نے "کرونا وائرس" جیسی وباء سے چھٹکارے کے لئے اللّٰہ تعالٰی کے ذکر یعنی اذان کی تدبیر کی تاکہ اللّٰہ عز و جل اپنے ذکر کی برکت سے اس آفت کو ٹال دے اور مسلمانوں کو خوف وہراس سے نکال دے ۔ لیکن کچھ لوگ برا مان گئے نہ صرف برا مانے بلکہ اذانوں کا یہ سلسلہ دیکھ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدعتی بلکہ جاھل کہنا شروع کر دیا ۔ الحمد للہ ہم نے اِتمامِ حجت کے لئے نہ صرف احادیث سے اس کے جواز کے شواہد و براہین پیش کیئے بلکہ ان کے اس محدث کے حوالے بھی پیش کیے ہیں ۔۔۔۔ یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جاہل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
سلیمان نے کہا : میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے مقامِ روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یہ مدینہ منورہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان... إلخ، الحدیث:854، مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ،چشتی)
لہٰذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاہل و بدعتی کہہ کر اپنا رشتہ شیطان سے ظاہر کرنا چاہیے ۔ مذکورہدلائل سے ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں ۔ اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا ! ہاں اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسب سابق اپنے علماء کو "جوتے کی نوک پر " رکھیں تو الگ بات ہے ۔ کیونکہ اس طبقے کا ہر چھوٹا بڑا اپنے تئیں بذات خود بہت بڑا محدث ، مفسر اور محقق ہے ۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے ۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاء اللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے ۔ اور اللہ عز و جل امان نصیب فرمائے گا ۔ اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا ، وبا اور آفت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment