مصیبت کے وقت اذان پڑھنا
محترم قارئینِ کرام : محترم قارئینِ کرام آج کل مختلف اسلامی ممالک و دیگر ممالک میں کرونا وائرس کی صورت میں ایک وباء پھیلی ہوئی اس مصیبت کے رفع کےلیئے اہلِ اسلام اذانیں و تکبیرات پڑھ رہے ہیں اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار غیر مقلد وہابی حضرات اس مصیبت کے موقع پر بھی اپنی نفرت انگیز فرقہ ورانہ دی گئی ڈیوٹی کے مطابق حسبِ سابق اہلِ اسلام کے خلاف بول رہے ہیں آیئے ذرا اس بارے میں حقائق و دلائل پڑھتے ہیں :
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے ، مثلاً : نومولود کے کان میں ، پریشان ، مرگی زدہ ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں ، کسی لشکر کے حملے کے وقت ، آگ لگ جانے کے موقع پر ۔ (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵،چشتی)
اِن مواقع میں اذان سنت ہے : فرض نمازکے وقت ، بوقتِ ولادت بچہ کے کان میں ، آگ لگنے کے وقت ، کفار سے جنگ کے وقت، مسافر کو جب شیاطین ظاہر ہوکر ڈرائیں ، غم کے وقت ، غضب کے وقت ، جب مسافر راستہ بھول جائے ، جب کسی آدمی یا جانور کی بد خُلقی ظاہر ہو تو اُس کے کان میں ، اورجب کسی کو مِرگی آئے ۔ ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسنّ الأذان لغیر الصلاۃ کما في أذن المولود والمہموم والمصروع والغضبان ، ومن ساء خُلقہ من إنسان أو بہیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق ۔ (۲/۴۶ ، مطلب في المواضع التي یُندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)(الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲/۳۷۲ ، ۳۷۳)
نماز کے علاوہ بعض دیگر مواقع کے لئے بھی فقہاء نے اذان کا ذکر فرمایا ہے
وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ ، کما في أذن المولود ، والمہموم ، والمصروع ، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب ، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا ۔ وکذا یندب الأذان وقت الحریق ووقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع ۔
خلاصہ عربی عبارت
(1) بچہ کے کان میں اذان دینا ۔
(2) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے ۔
(3) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں ، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے ۔
(4) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔
(5) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔
(6) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو ، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)
(7) آگ پھیل جانے کے وقت بھی اذان دینے کا حکم ہے ۔
(8) سرکش جنات کے شر سے بچنے کے لئے بھی اذان دینا ثابت ہے ۔ (اس بارے میں ایک صحیح حدیث موجود ہے)
(9) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔ (شامي ۲؍۵۰ ، ۱؍۳۸۵ مطبوعہ کراچی)،(منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)،(الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)
خوف ودہشت کے وقت اس عقیدے سے اذان دینا کہ خوف ودہشت دور ہو ، جائز ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : عن سہیل قال أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال ومعي غلام لنا (أو صاحب لنا) فناداہ مناد من حائط باسمہ قال : فأشرف الذي معي علی الحائط فلم یر شیئاً فذکرت لأبي ، فقال : لو شعرتُ أنک تلقی لہٰذا لم أرسلک ولٰکن إذا سمعت صوتا فناد بالصلاۃ فإني سمعت أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلاۃ وليّ ولہ حُصاص ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / فضل الأذان وہرب الشیطان عند سماعہ ۱؍۱۶۷ رقم: ۳۸۹،چشتی)
حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہار شریعت میں ہے : وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 466 صفحہ نمبر 1)،(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 370)
جب حضرت آدم علیہ السّلام جنَّت سے ہندوستان میں اُترے اُنھیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ السّلام نے اُتر کر اذان دی ۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۵ ص ۱۲۳ حدیث ۶۵۶۶)
اے علی رضی اللہ عنہ میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (جامِع الحدیث لِلسُّیُوطی رحمۃ اللہ علیہ ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷) ، یہ روایت نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ جلد5 صَفْحَہ 668 پر فرماتے ہیں : مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فَجَرَّ بْتُہُ فَوَجَدْ تُہُ کَذٰلِکَ ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۲ ص۳۳۱،جامِعُ الحدیث ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷)
جس بستی میں اَذان دی جائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)
مذکورہ بالا دلائل سے مصیبت کے وقت اذان پڑھنے کا ثبوت تو ملتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب بوقت مصیبت اذان پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیا گیا اگر منع کیا گیا ہے تو معترضین ثبوت پیش کریں ؟ اسی لیئے عرض ہے جب جواز موجود ہے اور ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے تو مَنع نہ ہونا خود بخود ’’اِجازت‘‘ بن گیا اور اچھی اچھی باتیں اسلا م میں ایجاد کرنے کی تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نے ترغیب ارشاد فرمائی ہے اور’’مسلم‘‘ کے باب ’’کتابُ العلم‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کا یہ ارشاد مبارک موجود ہے : مَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۴۳۷حدیث۱۰۱۷،چشتی))
ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس ( یعنی جاری کرنے والے) کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی ۔
مطلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّا طریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ مصیبت کے وقت اذان پڑھنے والا بھی ثواب کا مستحق ہے ، قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پرعمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گا اور جاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔
ہوسکتا ہے کسی کے ذِہن میں یہ وسوسہ آئے کہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّاریعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) ، اِس حدیث شریف کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک حق ہے ۔ یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سیِّئَۃ یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعدِ سنّت کے موافِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خِلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)
کل بدعۃ ضلالہ کا صحیح مفہوم غیر مقلد وہابی حضرات کے بڑوں کی زبانی
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)
علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔
ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ ( منهاج السنة، 4 : 224 )
علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔
ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ( کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16،چشتی)
حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (المتوفی 774ھ)
حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔
ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔( تفسیر ابن کثیر 1 : 161،چشتی)
شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی غیر مقلد (المتوفی 1255ھ)
یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔
ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔( نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63،چشتی)
نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1307ھ)
غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117)
نواب وحید الزمان غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1327ھ)
مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔
ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117،چشتی)
عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد اھلحدیث (1353ھ)
عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ ( جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378،چشتی)
الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نجدی وھابیوں کا مفتی اعظم (1421ھ)
عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.
ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.
ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔ ( فتاويٰ اللجنة، 2 : 325 ،چشتی)
ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.
أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.
ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔( فتاويٰ اللجنة،2 : 329)
بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.
ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة، 2 : 321)،(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ماشاء اللہ
ReplyDeleteبہت عمدہ مضمون ہے۔
ایک روایت مصنف عبد الرزاق میں بھی موجود ہے کہ جس بستی میں صبں صبح اذان دی جائے وہ رات تک عذاب سے امن میں رہتی ہے اور شام کو اذان دی جائے تو صبح تک عذاب سے مامون رہتی ہے۔ (مفہوم) اس کے سارے راوی ثقہ ہیں صرف ایک راوی مقبول درجہ کا ہے