Tuesday 31 March 2020

اذان ہوتی ہے تو شیطان وہاں سے پادتا ہوا بھاگ جاتا ہے

0 comments
اذان ہوتی ہے تو شیطان وہاں سے پادتا ہوا بھاگ جاتا ہے
محترم قارئینِ کرام : وباء کے زمانے میں اذان دینا مستحب عمل ہے ۔ آج کل جب کہ ایک وباء پھیلی ہوئی ہے اہلِ اسلام اذانیں و تکبیرات پڑھ رہے ہیں مگر اپنی نجدی فطرت سے مجبور غیر مقلد وہابی حضرات اپنا من مانا اور من چاہا مفہوم نکال کر بڑی شد و مد سے اس کا رد کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل ہم نے اس موضوع سے متعلق اس عنوان (مصیبت کے وقت اذان پڑھنا) سے پوسٹ کی جسے اہلِ علم و عوام النّاس نے خوب سراہا اور پسند کیا اس مضمون کا لنک یہ ہے : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/03/blog-post_25.html

دوسرے مضمون (غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے معترضین کو جواب) کا لنک یہ ہے : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/03/blog-post_26.html

اب آیئے اسی موضوع سے متعلق کچھ صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ترجمہ غیرمقلد وہابیوں کے محدث کی طرف سے پیشِ خدمت ہیں آیئے پڑھتے ہیں :


حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، قَالَ : أَرْسَلَنِي أَبِي إِلَى بَنِي حَارِثَةَ ، قَالَ : وَمَعِي غُلَامٌ لَنَا ، أَوْ صَاحِبٌ لَنَا ، فَنَادَاهُ مُنَادٍ مِنْ حَائِطٍ بِاسْمِهِ قَالَ: وَأَشْرَفَ الَّذِي مَعِي عَلَى الْحَائِطِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي فَقَالَ : لَوْ شَعَرْتُ أَنَّكَ تَلْقَ هَذَا لَمْ أُرْسِلْكَ، وَلَكِنْ إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاةِ فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ وَلَّى وَلَهُ حُصَاصٌ ۔
غیرمقلد وہابیوں کا محدث نواب وحید الزماں حیدر آبادی اس روایت کا یوں ترجمہ کرتا ہے کہ : سہیل کا بیان ہے کہ مجھے میرے والد نے بنو حارثہ کے پاس روانہ کیا ، جاتے وقت میرے ساتھ ایک لڑکا یا ایک آدمی بھی تھا ، چنانچہ بہ دورانِ مسافت ایک باغ کے احاطہ میں سے کسی نے اس کا نام لیکر اِسے آواز دی اور میرے ساتھی نے دیکھا کہ باغ میں کوئی نہ تھا ، اس واقعہ کی میں نے اپنے والد کو اطلاع دی تو انہوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم اس واقعہ سے دوچار ہو گے تو میں تم کو ہرگز نہ بھیجتا ، اب آئیندہ کیلئے یاد رکھو کہ اگر تم اس قِسم کی کوئی آواز سنو (اور آواز دینے والا تم کو دکھائی نہ دے) تو یقین کر لینا وہ شیطان ہے اور اس وقت اسی طرح اذان دینا جس طرح نماز کیلئے اذان دی جاتی ہے کیونکہ ابو ہریرہ نے کہا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب نماز کی اذان ہوتی ہے تو شیطان وہاں سے پادتا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم شریف مترجم وحید الزماں غیرمقلدوہابی جلد دوم صفحہ نمبر 425 کتاب نماز کے مسائل حدیث نمبر 858 مطبوعہ الکتاب انٹر نیشنل نئی دھلی،چشتی)

یہ الفاظ قابلِ غور ہیں کہ آئندہ تم آواز سنو تو اسی طرح اذان دو جس طرح نماز کیلئے اذان دی جاتی ہے ۔
ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اذان نماز کیلئے نہیں تھی بلکہ نماز کے علاوہ تھی۔

پتہ چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اذان کے بارے میں فرمان کا یہی مطلب سمجھتے تھے کہ نماز کیلئے اذان دی جائے تو بھی شیطان گوز مارتا ہوا (یعنی ریح خارج کرتا ہوا) بھاگتا ہے ۔ اور اگر نماز کے علاوہ مصیبت کے وقت اذان دی جائے تو بھی شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ شیطان بعض اوقات مسلمانوں میں خوف و ہراس بھی پھیلا دیتا ہے ۔ جو اذان دینے سے دور ہو جاتا ہے جیسا کہ صحابہ کا عقیدہ اور تعلیمات تھی ۔ اور اذان سے آفت بھی ٹَلتی ہے ۔ لہٰذا نماز کے علاوہ اذان دینا مسلم شریف کی صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا ۔

محترم قارئینِ کرام : یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جاہل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا ۔
ترجمہ : حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
سلیمان نے کہا : میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے مقامِ روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یہ مدینہ منورہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان ... إلخ حدیث نمبر 854 مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ،چشتی)

لہٰذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاہل و بدعتی کہہ کر اپنا رشتہ شیطان سے ظاہر کرنا چاہیے ۔ ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں ۔

لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے ۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاء اللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے ۔ اور اللہ عز و جل امان نصیب فرمائے گا ۔ اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا ، وبا اور آفت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔