Wednesday, 18 March 2020

رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت

رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت
محترم قارئینِ کرام : کونڈوں کی اصل ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بےشمار دلائل ہیں ۔ یہ ایصالِ ثواب امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاتا ہے جوکہ جائز ہے ۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں ۔ فقہائے اسلام فرماتے ہیں : الاصل فی هذا الاباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او صدقه او غيرها عند اهل السنه والجماعه، لما روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و الاخر عن امته ممن اقربو حدانية الله تعالیٰ . (فتح القدير، ج : 3، ص : 65)
اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے ۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے ۔

ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔ کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں ۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں ، اس جگہ کھائیں ۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے۔ جو چاہے کھائے۔ مسلم، غیر مسلم سب کو دیں، ثواب مل جائے گا۔

بعض لوگ کہتے ہیں اس دن یعنی بائیس (22) رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے اور اہلِ تشیع دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہیں۔ یہ الزام چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے :

اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے ؟ محض الزام لگانا کافی نہیں ۔

دوم کسی کے مرنے پر کوئی مخالف حلوہ پوری پکا کر ختم نہیں دلواتا اور ایصال ثواب نہیں کرتا۔ پھر شیعہ کیا پاگل ہیں کہ اپنے مخالف کا ختم دلاتے اور ایصال ثواب کرتے ہیں ۔

سوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال تک حکومت کر کے ، آسودگی کی زندگی بسر کر کے، اپنے اہل و عیال میں طبعی موت کی صورت میں فوت ہوئے۔ اس میں دشمن کی خوشی کی کیا بات ہو گی؟ اس پر مخالفین کا بغلیں بجانا چہ معنی دارد ؟ کیا کبھی انہوں نے معاذ اللہ نہ مرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وفات پر خوشیاں منائی جائیں ۔

اور یہ کہنا کہ'' 22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا وصال مبارک ہے اوراہلسنّت ان کے وصال کی خوشی میں نیاز کرتے ہیں ۔'' اس کے جواب میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ''جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت ۔''اوریہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انبیاء واولیاء سے غیب کی نفی کرنے والوں کو ہماری پوشیدہ نیت کا پتا چل جاتا ہے ۔ بہرحال کسی بھی مسلمان کی یہ نیت نہیں ہوتی بلکہ صرف اور صرف ایصالِ ثواب کی نیت ہوتی ہے اور ہم اہلسنّت اپنی اس نیت کا بابانگ دہل اعلان بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اس وضاحت وصراحت کے بعد بھی یہ کذب بیانی کرنا شیطانی کام نہیں تو اور کیا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : مناسب ہے کہ اب اس بات کی قلعی بھی کھول دی جائے کہ 22 رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا یومِ وصال ہے ۔ تاریخ طبری میں یہ لکھا ہے کہ '' بعض کے نزدیک یکم رجب اوربعض کے نزدیک 15رجب اور بعض کے نزدیک رجب ختم ہونے میں آٹھ دن باقی تھے (یہ 21رجب بھی ہوسکتی ہے) کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا وصال ہوا ۔ (تاریخ طبری،ج3،ص261) تاریخ طبری کے علاوہ دیگرکتب میں درج ذیل اقوال لکھے ہیں : (1) تاریخ ابن خلدوں،ج2،ص502 مطبوعہ:نفیس اکیڈمی کراچی) :''آپ کا وصال 15رجب کوہوا اوربعض کے نزدیک جمادی الثانی میں ہوا ۔'' (2) طبقات ابن سعد،ج7،ص406 مطبوعہ : بیروت ،لبنان،چشتی) میں لکھا ہے :''وصال مبارک 15رجب کو ہوا۔''(3) البدایۃ والنہایۃ،ج8،ص152 مطبوعہ: بیروت) میں ہے :''ایک گروہِ علماء کے نزدیک آپ کا وصال 15رجب کوہوا ، بعض کے نزدیک4 رجب ،بعض کے نزدیک یکم رجب اور بعض کے نزدیک رجب ختم ہونے میں آٹھ دن باقی تھے ۔''(4) تاریخ ابن عساکر ،ج59،ص60 پر بھی 15 رجب اور22رجب کے اقوال ہیں ۔ نیز(5) اسدالغابہ میں بھی 15رجب لکھاہے اور کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کاوصال22 رجب کو ہوا ۔
محترم قارئینِ کرام : آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی تاریخِ وصال میں اس قدر اختلاف اور کئی اقوال ہونے کے باوجود صرف 22 تاریخ کو خاص کرکے مسلمانانِ اہلسنّت کو دشنام دینا اور انہیں ایصالِ ثواب سے روکنا امت میں فتنہ انگیزی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اور یہ روزِروشن کی طرح واضح ہوگیا کہ یہ لوگ صرف ایصالِ ثواب سے روکنا چاہتے ہیں ورنہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس کا وصال کب ہوا ؟ ۔ اگر یہ واقعی ایصال ثواب سے روکنا نہیں چاہتے بلکہ تاریخ وصال کی غلطی درست کروانا چاہتے ہیں توپھر امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اورحضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ کے لئے ایصالِ ثواب کا اہتما م کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ ہاں ! ہاں ! اگر سچے ہیں تو حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ کے وصال کی جو تاریخ ان کے نزدیک درست ہے اسی کو نیازوفاتحہ کا اہتمام کرلیا کریں ۔ ایصال ثواب کے دشمنوں کی باتوں پر کان مت دھرئیے بلکہ اپنے بزرگوں اور مرحومین کو خوب خوب ایصالِ ثواب کیجئے ۔

آیئے رجب کے کونڈوں کے متعلق مزید جانتے ہیں : مٹی کے برتن میں میٹھی چیز تیار کرکے اس پر فاتحہ کرکے اس کا ثواب حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کو ایصال کرنا کونڈے کی نیاز کہلاتی ہے ۔

عرصہ دراز سے مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ 22 رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے کھیر ، پوری پکاکر اس پر فاتحہ پڑھ کر مسلمانوں کو کھلایا جاتا ہے ۔

اس کی کوئی پابندی نہیں (سونے اور چاندی کے برتن کے علاوہ) کسی بھی برتن میں کھلا سکتے ہیں ۔ مٹی کے برتن کی کوئی قید نہیں ۔

اس نیاز کو گھر سے باہر بھی اپنے عزیزوں ، رشتے داروں ، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں میں بھیج سکتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ گھر سے باہر اس نیاز کو نہیں لے جاسکتے ۔ گھر ہی میں کھلانی چاہئے، غلط فہمی ہے ۔

کونڈوں کی نیاز 22 رجب المرجب کو ہی کرنا ضروری نہیں ۔ یہ ایصال ثواب ہے ۔ کسی بھی ماہ میں کسی بھی تاریخ کو کرسکتے ہیں ۔

نذر و نیاز ایک مستحب عمل ہے ۔ کریں تو ثواب، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ لہذا یہ فرض وواجب نہیں ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں ۔ اسی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے ۔

نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر ﷲ ۔ (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ : درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر ﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو ۔
القرآن : حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر ﷲ بہ ۔ (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ : حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ۔
ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘سے کیا مراد ہے :
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیرﷲ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے ۔

مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا

مسلمان ﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم ﷲ ﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکوا کر ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے ۔

ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا

حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلّم ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ! ہاں کیجئے ، حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ نے دریافت فرمایا ۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلّم نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی ﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے ۔ (سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث 3698 ، ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں : اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی ﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر ﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو ۔ (تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)

حضرت عروہ بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں ۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے ۔ فرمایا کہ اے عائشہ ! چھری تو لاؤ ، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا ۔ ﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔ اے ﷲ تعالیٰ ! اسے قبول فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے اور امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی ۔ (ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)

حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا ، یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے وصیت فرمائی تھی ، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی ۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پیش کررہا ہوں ۔ (ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے ۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر ﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے ؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ ، حضور غوث الثقلین رضی ﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا ۔ (تفسیرات احمدیہ)

تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں ، (تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39) مزید فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے ۔ (فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)

مسلک اہلسنت ، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :

اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے ۔ (انفاس العارفین (اردو) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت ، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث : مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے ۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے ۔ میں نے سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسرور و شادماں ہیں ۔ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40، کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)
شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں ۔ تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں ۔ اسی طرح روز پڑھتے رہیں ۔ (الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی)
شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں۔ یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔ (ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی ﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58،چشتی)
شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں ۔ اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں ، جائز ہگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں ۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے ۔ (زبدۃ النصائح)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں ۔ ہم اہلسنت و جماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔ ععقلی دلیل نمبر 1 : 18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں ۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں ؟ نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے ۔ اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے ۔

عقلی دلیل نمبر 2 : شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں ۔ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں ۔ ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں ؟ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں ؟ نہیں ، ہرگز نہیں چھوڑیں ۔
بعض حضرات کہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ مورخین کے نزدیک 15 رجب المرجب ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ 22 رجب المرجب ہے ؟ اس کا جواب : جس طرح حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح حضرت امیرمعاویہ رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں مختلف اقوال ہیں ۔ کسی کے نزدیک 22 رجب، کسی کے نزدیک 24 رجب اور کسی کے نزدیک 26 رجب ہے ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ 22 رجب المرجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا یوم وصال ہے پھر تو ہمارے لئے اور بھی فیوض و برکات حاصل کرنے کا موقع مل گیا ۔ وہ اس طرح کہ جب ہم 22 رجب المرجب کو نذر و نیاز پر فاتحہ پڑھیں گے تو اس کا ثواب امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بھی ایصال کردیں گے ۔

بعض جگہ یہ رواج ہے کہ گھر کی چند خواتین ایک جگہ جمع ہوکر ’’لکڑ ہارے کی کہانی، داستان عجیب، دس بیبیوں کی کہانی، جناب سیدہ کی کہانی اور شہزادے کا سر نامی من گھڑت قصے اور کہانیاں پڑھ کر سناتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب کہانیاں ہی ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے تو سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کرکے بھی نیاز تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کو واقعی سچے واقعات سنانے ہیں تو علمائے اہلسنت کی کتابوں سے پڑھ کر سنائیں تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچے ۔

آخر میں گزارش ہے کہ ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں جنہیں ہم الگ سے لکھ چکے ہیں یہاں اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں : فَمَنْ ادّعٰی ذلک فعلیہ البیان (والبرھان) ۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق،١/١٠٧،دار المعرفہ بیروت) ، اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جس امر کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہ ہو تو وہ جائز ہوتا ہے پھر جب کونڈوں کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں تو وہ بھی جائز ہوئے وہو المقصود ۔ کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے ۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں ۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں ، اس جگہ کھائیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے ۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور ، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے ۔ جو چاہے کھائے ۔ سب کو دیں ، ثواب مل جائے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...