Tuesday 24 March 2020

شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات

0 comments
شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات
محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے۔ نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لئے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے ۔ (ماثبت من السنۃ ص 141 ،فضائل الایام والشہور ص 404، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)

شعبان المعظّم میں مندرجہ ذیل مشہور واقعات ہوئے

(1) اس مہینہ کی پانچ تاریخ کو سیدنا حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کی ولادت مبارک ہوئی ۔

(2) اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو شب برأت یعنی لیلۂ مبارک ہے جس میں اُمّت مسلمہ کے بہت افراد کی مغفرت ہوتی ہے ۔

(3) اسی مبارک مہینہ میں مسجد ضرار کونذرِآتش کیاگیا ۔

(4) اسی مبارک مہینہ میں جھوٹامدعی نبوت مسیلمہ کذاب واصلِ جہنم ہوا ۔

(5) اسی مبارک مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ۔

(6) اسی مبارک مہینہ میں قرآنِ مجید کے نزول کا فیصلہ ہوا ۔

(7) اسی ماہ کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا ۔ ابتداء اسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا اور پھر ﷲ تعالیٰ نے سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مرضی کے مطابق کعبۂ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا ۔ اس وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبۃ ﷲ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے ۔ (عجائب المخلوقات صفحہ نمبر 47،چشتی)(فضائل الایام والشہور ، صفحہ نمبر 405، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد، پنجاب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان المبارک ﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ (لجامع الصغیر حدیث 4889، ص 301)

شب برأت کی فضیلت و اہمیت

ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔ شب کے معنی ’’رات‘‘ اور برأت کے معنی نجات کے ہیں۔ یعنی اس رات کو ’’نجات کی رات‘‘ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے اس رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ہے ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ۔ (سورۃ الدخان 2/4)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کی یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ فرمایئے ۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں ۔ وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں ، وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھا لئے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ شریف، جلد اول، ص 277،چشتی)

مغرب کے بعد چھ نوافل

مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت خصوصی نوافل ادا کرنا معمولاتِ اولیائے کرام رحمہم ﷲ تعالیٰ سے ہے ۔ مغرب کے فرض و سُنّت وغیرہ ادا کرکے چھ رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیجئے ۔ پہلی دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل یہ عرض کیجئے : ﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے درازیٔ عمر بالخیر عطا فرما ۔ دوسری دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل عرض کیجئے ۔ ﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے بلائوں سے میری حفاظت فرما ۔ تیسری دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل اس طرح عرض کیجئے ۔ ﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے صرف اپنا محتاج رکھ اور غیروں کی محتاجی سے بچا۔ ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہوا ﷲ یا ایک بار سوۂ یاسین پڑھئے بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک اسلامی بھائی یاسین شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں ، اس میں یہ خیال رکھئے کہ دوسر ااس دوران زبان سے یاسین شریف نہ پڑھے ۔ ان شاء ﷲ عزوجل رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یاسین شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھئے ۔

نصف شعبان المعظم یعنی شبِ برات کی دعا

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ : اَللّٰہُمَّ یَا ذَ الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط یَا ذَاالطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ فلَاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَہْرُ اللَّاجِئِیْنَ ط وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ ط وَاَمَانُ الْخََآئِفِیْنَ ط اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِۤی اُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقَتَّرًاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِ ط فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَا وَتِیْ وَحِرْ مَا نِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَرِزْقِیْ ط وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیۤ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا امَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرَاتِ ط فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ ط عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ ط یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہ، اُمُّ الْکِتٰبِ o اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّیِّ الْاَعْظَمِ ط فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ ط اَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرَمُ ط اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَ آءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَمُ ط وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ ۔
ترجمہ : ﷲ عزوجل کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا ۔ اے اﷲ عزوجل اے احسان کرنے والے کہ جس پر احسان نہیں کیا جاتا۔ اے بڑی شان و شوکت والے ! اے فضل و انعام والے ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تو پریشان حالوں کا مددگار ، پناہ مانگنے والوں کو پناہ اور خوفزدوں کو امان دینے والا ہے ۔ اے ﷲ عزوجل! اگر تو اپنے یہاں ام الکتاب (لوح محفوظ) میں مجھے شقی (بدبخت) ، محروم ، دھتکارا ہوا اور رزق میں تنگی دیا ہوا لکھ چکا ہو تو اے ﷲ عزوجل ! اپنے فضل سے میری بدبختی ، محرومی ، ذلت اور رزق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے پاس ام الکتاب میں مجھے خوش بخت ، رزق دیا ہوا اور بھلائیوںکی توثیق دیا ہوا ثبت (تحریر) فرمادے۔ کہ تونے ہی فرمایا اور تیرا (یہ) فرمانا حق ہے کہ : ﷲ عزوجل جو چاہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا (لکھتا) ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے ۔ (سورہ الرعد ۳۹،چشتی) ، یا ﷲ عزوجل ! تجلی اعظم کے وسیلے سے جو نصف شعبان المکرم کی رات میں ہے کہ جس میں بانٹ دیا جاتا ہے جو حکمت والا کام اور اٹل کردیا جاتا ہے (یاﷲ) مصیبتوں اور رنجشوں کو ہم سے دور رفرما کہ جنہیں ہم جانتے اور نہیں بھی جانتے جبکہ تو انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آل و اصحاب رضی ﷲ عنہم پر درود و سلام بھیجے ۔ سب خوبیاں سب جہانوں کے پالنے والے ﷲ عزوجل کے لئے ہے ۔

قبرستان جانا سنت ہے

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی ۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ ﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے ۔ میں نے عرض کی یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ بے شک ﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔(سنن ابن ماجہ، جلد اول، حدیث 1447، ص 398، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

اس حدیث پاک سے شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس شب میں قبرستان جانا سُنّت ثابت ہوا ۔ اسی لئے اہل اسلام اور خوش عقیدہ مسلمان اس رات کو عبادت اور دن کو روزوں میں گزارتے ہیں اور خاص طور پر قبرستان میں اپنے عزیزو رشتہ دار کی قبروں پر جاتے ہیں اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے ہیں ۔

قبرستان کے آداب

قبر پر بیٹھنا ، سونا ، چلنا ، پاخانہ اور پیشاب کرنا حرام ہے ۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا ، اس سے گزرنا ناجائز ہے ۔ خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو ۔

اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے تو وہاں تک جانا منع ہے ۔ دور ہی سے فاتحہ پڑھ لے ۔ قبرستان میں جوتیاں پہن کر نہ جائے (اگر راستے میں کنکر وغیرہ ہوں تو جوتیاں پہن سکتا ہے) کسی قبر پر پائوں نہ رکھے اور نہ ہی قبر پر بیٹھ کر تلاوت کرے ۔ (عالمگیری در مختار،چشتی)

زیارت قبور کا طریقہ

(1) زیارت قبور کا طریقہ یہ ہے کہ پائینتی کی جانب سے جاکر میت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو ۔ سرہانے سے نہ آئے کہ میت کے لئے باعث تکلیف ہے اور کہے اَلْسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَااَہْلَ اْلقُبُوْرِ یَغْفِرُ ﷲُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِاْلاََثر ۔

(3) قبرستان میں جائے تو الحمد شریف اور الم سے مفلحون تک اور آیۃ الکرسی اور آمن الرسول آخر تک اور سورۂ یسٰین، سورۂ ملک اور سورۂ تکاثر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص بارہ مرتبہ ، گیارہ سات یا تین مرتبہ پڑھے ۔ ان سب کا ثواب مرحومین کو ایصال کرے ۔ حدیث پاک میں ہے جو گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو پہنچائے تو مرنے والوں کی گنتی کے برابر ثواب ملے گا ۔ (در مختار، ردالمحتار)

(3) نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ہر قسم کی عبادت اور عمل نیک فرض و نفل کا ثواب مرحومین کو پہنچا سکتا ہے ۔ ان سب کو پہنچے گا اور پڑھنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ (ردالمحتار)

آتش بازی سے بچیں

کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہیں جو شعبان کے مہینے میں خصوصا شب برأت میں خوب آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شعبان کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی گلی کوچوں میں پٹاخوں کی آوازیں گونجنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ لوگوں کی جہالت و نادانی کا یہ عالم ہے کہ وہ آتش بازی کو شب برأت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یاد رکھئے ! آتش بازی حرام ہے اور ان مبارک ایام میں تو بہت سخت گناہ ہے ۔
آتش بازی کرنے والے ذرا سوچیں کہ ہمارے اس کام سے مال کا ضیاع ، وقت کا ضیاع اور ضعیف اور مریضوں کو سخت تکلیف کا سامنا ہوتا ہے ، شب بیداری کرنے والے مسلمانوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نیک توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

شب بیداری کا اہتمام

شب برأت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان عالی شان اوپر مذکور ہوا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو‘‘ اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماء اور مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں ۔

گیارہویں صدی کے مجدد شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلا حضرت خالد بن معدان ، حضرت مکحول ، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحق بن راہویہ رضی ﷲ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے ۔ (ماثبت من السنۃ، ص 202)

شب برأت کے نوافل

اس رات کو سو رکعت نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ اس نماز کو صلوٰۃ الخیر کہتے ہیں ۔ جو شخص یہ نماز پڑھے گا تو ﷲ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نگاہ رحمت فرمائے گا اور ہر نگاہ میں اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔ ادنیٰ حاجت اس کی بخشش ہے ۔ (غنیۃ الطالبین، جلد اول، ص 192)(فضائل الایام والشہور ص 413 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو میرا نیاز مند اُمّتی شب برأت میں دس رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اس کی عمر میں برکت ہوگی ۔ (نزہۃ المجالس، جلد اول، ص 192)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔