Tuesday, 24 March 2020

اَشراط السّاعَۃ یعنی قیامت کی نشانیاں


اَشراط السّاعَۃ یعنی قیامت کی نشانیاں
محترم قارئینِ کرام : قیامت اور علاماتِ قیامت کے سلسلے میں آیئے پڑھتے ہیں کہ علاماتِ قیامت کسے کہتے ہیں پھر اس موضوع سے متعلق دیگر مضامین پیش کیئے جائں گے ان شاء اللہ ۔

اَشراط اور ساعۃ کا معنی

اَشراط

اَشراط جمع ہے ”شَرَطٌ“ کی ، علامات کو کہا جاتا ہے ۔”اَشراط السّاعَۃ“ یعنی قیامت کی علامات ۔ (النھایۃ لابن الأثیر:2/460)

علاماتِ قیامت کے لئے قرآن و حدیث کے اندرعموماً تین لفظ استعمال کیے جاتے ہیں : (1) اَشراط ۔ (2) آیات ۔ (3) أمارات ۔ أعلَام ۔

اَشراط : قرآن کریم میں بھی یہ لفظ قیامت کی علامات کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ ۔ پھر ترجمہ : تو کاہے کے انتظار میں ہیں مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آجائے کہ اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں پھر جب وہ آجائے گی تو کہاں وہ اور کہاں ان کا سمجھنا ۔ (سورہ محمد آیت نمبر 18)

اس آیتِ مبارک مٰں ارشاد فرمایا کہ وہ کفار اور منافقین قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان پر اچانک آجائے کیونکہ توحیدو رسالت پر دلائل دئیے جا چکے ، سابقہ امتوں کے احوال ان کے سامنے بیان کر دئیے گئے ، قیامت قائم ہونے اور اس کے ہولناک اُمور کے بارے میں خبریں دے دی گئیں ،اس کے باوجود بھی اگر یہ ایمان نہیں لائے تو اب قیامت کے دن ہی ان کا ایمان لانا متوقَّع ہے ، یہ لوگ قیامت سے غافل ہیں حالانکہ اس کی کئی علامتیں تو آہی چکی ہیں جن میں سے ایک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور دوسری چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے ، پھر جب قیامت آجائے گی تواس وقت ان کا نصیحت ماننا کہاں مفید ہوگا کیونکہ اس وقت توبہ اور ایمان قبول ہی نہ کیا جائے گا ۔ (تفسیرکبیرسورہ محمد ، تحت الآیۃ : ۱۸، ۱۰/۵۱-۵۲،چشتی)(روح البیان سورہ محمد، تحت الآیۃ : ۱۸، ۸/۵۰۹-۵۱۰)

قرآن کریم میں قیامت کی علامات کے لئے یہ لفظ بھی استعمال ہوا ہے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ہَلْ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاۡتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاۡتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ؕ یَوْمَ یَاۡتِیۡ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنۡفَعُ نَفْسًا اِیۡمٰنُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنۡ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیۡۤ اِیۡمٰنِہَا خَیۡرًا ؕ قُلِ انۡتَظِرُوۡۤا اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ ۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 158
ترجمہ : کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہ کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا تمہارے رب کا عذاب آئے یا تمہارے رب کی ایک نشانی آئے جس دن تمہارے رب کی وہ ایک نشانی آئے گی کسی جان کو ایمان لانا کام نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لائی تھی یا اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی تھی تم فرماؤ رستہ دیکھو ہم بھی دیکھتے ہیں ۔ اِس میں ” بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ “ سے مراد قیامت کی علاما ت ہیں ۔ (تفسیر جلالین)

ہَلْ یَنۡظُرُوۡنَ : کس کے انتظار میں ہیں ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رسالت پردلائل قائم کردئیے گئے اور کفریہ اور گمراہ کُن عقائد کا باطل ہونا بھی ظاہر کردیا گیا تو اب ایمان لانے میں کیا انتظار باقی ہے ؟ اب تو یہی ہے کہ وہ کفار اس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے آجائیں یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی قیامت کی خبر دینے والی ایک نشانی آجائے اور یوں مشاہدے کے طور پر ہرچیز ان کیلئے ظاہر ہوجائے، لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جس دن غیب کے معاملات ظاہر ہوجائیں گے یا عذاب آنکھوں کے سامنے آچکا ہوگا تواس دن کافر کو ایمان لانا نفع نہ دے گا ۔ جمہور مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں جو فرمایا گیا کہ’’ جس دن تیرے رب کی ایک نشانی آئے گی‘‘ اس نشانی سے مراد آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب وہ مغرب سے طلوع ہو گا اور اُسے لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اور یہ ایمان نفع نہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا ینفع نفساً ایمانہا۔۔۔ الخ، ۳/۲۲۳، الحدیث: ۴۶۳۵،چشتی)(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان زمن الذی لا یقبل فیہ الایمان، ص۹۲، الحدیث : ۲۴۸(۱۵۷))

اَوْ کَسَبَتْ فِیۡۤ اِیۡمٰنِہَا خَیۡرًا : یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی (نہ) حاصل کی ہوگی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے جس گنہگار مومن نے توبہ نہ کی توا ب اُس کی توبہ مقبول نہیں ۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۵/۴۰۷،چشتی)

امام ضحاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے جو مومن نیک اعمال کرتا تھا نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی اسی طرح اس کے نیک اعمال اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا البتہ جب یہ نشانی ظاہر ہوئی تو ا س وقت نہ کافر کا ایمان مقبول ہے نہ گنہگار کی توبہ کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس نے انہیں ایمان لانے اور گناہوں سے توبہ کرنے پر مجبور کر دیا لہٰذا جس طرح عذابِ الٰہی دیکھ کر کفار کا ایمان لانا بے فائدہ ہے اسی طرح قربِ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر بھی ایمان اور توبہ قبول نہیں ۔ (تفسیر خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲/۷۳)

اس آیت میں ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے ۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے ، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض ، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت (یعنی قیامت ) سے پہلے ۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص۱۵۷۹، الحدیث : ۱۲۸(۲۹۴۷))

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے ، پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے ، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے ۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو ، (اگر تم نے جلد توبہ کر لی) تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے ۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص۳۵-۳۶)

قُلِ انْتَظِرُوْا : تم فرمادو : تم انتظار کرو ۔ یعنی اے کافرو ! تم موت کے فرشتوں کی آمد یا عذاب یا نشانی ، ان میں سے کسی ایک کے آنے کا انتظار کرو اور ہم بھی تم پر عذاب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انتظار درست تھا چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے کافر ہلاک اور مغلوب ہوئے جبکہ مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوا اور قیامت کے دن بھی کفار ہلاک ہوں گے اور مومن کامیاب و کامران ہو کر سُرخرو ہوں گے ۔

امارات

یہ ” أَمَارَةُ “ کی جمع ہے ، اور” أَمَارَةُ “ اور ” الْأَمَارُ “ یعنی تاء کے ساتھ بھی اور بغیر تاء کے بھی دونوں طرح پڑھا جاتا ہے ، اِس کا مطلب بھی علامت کے آتے ہیں ۔ (شرح النووی :7/291)

یہ لفظ قرآن کریم میں تو نہیں ، البتہ احادیث میں بکثرت علاماتِ قیامت کے لئے استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ ”حدیثِ جبریل “ میں ہے ۔ قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 8)

أعلَام

یہ علَم کی جمع ہے ، علامت کو کہتے ہیں ، یہ لفظ بھی قیامت کی علامات کے لئے استعمال ہوا ہے ، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے : إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا ، وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا، أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا ۔ (طبرانی اوسط:4861،چشتی)

الساعۃ

الساعۃ لغت میں اس کے دو معنی آتے ہیں : دن اور رات کے چوبیس اجزاء میں سے ایک جزء (گھنٹہ) جُزءٌ مِنْ أربعةٍ وَعِشْرِينَ جُزءاً هِيَ مجموعُ الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ
دن یا رات کا ایک قلیل سا حصہ یعنی ایک گھڑی ۔ جُزءٌ قَلِيلٌ مِنَ النَّهارِ أَوِ اللَّيْلِ ۔ (النھایۃ لابن الأثیر:2/422)

قرآن کریم میں اِس لفظ کو قیامت کے لئے استعمال کیا گیا ہے یعنی ” الْوَقْتُ الَّذِي تَقُوم فِيهِ الْقِيَامَةُ “وہ وقت جس میں قیامت قائم ہوگی ۔ (النھایۃ لابن الأثیر:2/422)

قرآن کریم میں یہ لفظ ”الساعۃ“ معرّف یعنی الف لام کے ساتھ 38 مرتبہ استعمال ہوا ہے اور سب میں قیامت کا معنی ہے ، اور ”ساعۃ “ غیر معرّف یعنی بغیر الف لام کے 8 مرتبہ استعمال ہوا ہے جس میں قیامت کے معنی نہیں ، بلکہ دن و رات کی ایک گھڑی اور وقت کامعنی ہے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...