Thursday 26 March 2020

آفات ، مصائب اور وبائیں کیوں آتی ہیں اور اُن سے بچنے کی دعائیں

0 comments
آفات ، مصائب اور وبائیں کیوں آتی ہیں اور اُن سے بچنے کی دعائیں
محترم قارئینِ کرام : قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی کرکے اُمت مسلمہ بے پناہ مشکلات اور مصائب کا شکار ہے ، انسانوں کے بنائے نظام کامیابی کے ضامن نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے نظام (اسلام) میں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہیں ، اللہ عزّ و جل کی جانب سے نازل شدہ مقدس کتاب قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت مبارکہ دنیا میں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے ۔ اس سے روگردانی کرنے کی وجہ سے کیا کیا مصائب و آلام آتے ہیں آیئے اس کے متعلق پڑھتے ہیں :

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ ۔ (سورہ شوریٰ آیت نمبر 30)
ترجمہ : اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے ۔

اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ، اُن تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے ۔

مصیبتیں آنے کا ایک سبب

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے ، اگر یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا (اے لوگو) تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ’’اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ، دن میں ان پر سورج کو طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز تک نہ سناؤں گا ۔ ( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ، ۳/۲۸۱، الحدیث: ۸۷۱۶)

نیز انہیں چاہئے کہ ان پر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے جو مصیبتیں آ تی ہیں ان میں بے صبری اور شکوہ شکایت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں ، ترغیب کے لئے یہاں گناہوں کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں سے متعلق اور ان مصیبتوں کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے بارے میں اَحادیث مبارکہ :

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوری۔۔۔ الخ، ۵/۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳،چشتی)

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : نیک کاموں سے عمر بڑھتی ہے ، دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴/۳۶۹، الحدیث: ۴۰۲۲)

حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : لکڑی کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ ا س سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الصبر علی البلایا مطلقاً، ۲/۳۰۴، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۶۶۶)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا ا س کی ایک خطا مٹادیتا ہے ۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲))

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے ۔ (شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع و الامراض ۔۔۔ الخ ، ۷ / ۱۵۸ ، الحدیث: ۹۸۳۵،چشتی)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،مشکلات اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ گناہوں سے پاک ہیں اور چھوٹے بچے جو کہ مُکَلَّف نہیں ہیں ، ان سے اس آیت میں خطاب نہیں کیا گیا ، اوربعض گمراہ فرقے جو تناسُخ یعنی روح کے ایک بدن سے دوسرے بدن میں جانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے اِستدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہو اور ابھی تک چونکہ اُن سے کوئی گناہ ہوا نہیں تو لازم آیا کہ اس زندگی سے پہلے کوئی اور زندگی ہو گی جس میں گناہ ہوئے ہوں گے۔ ان کا اس آیت سے اپنے باطل مذہب پر اِستدلال باطل ہے کیونکہ بچے اس کلام کے مُخاطَب ہی نہیں جیسا کہ عام طور پر تمام خطابات عقلمند اور بالغ حضرات کو ہی ہوتے ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان ، الشوریٰ ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۸۹۵)

نیز بالفرض اگر ان لوگوں کی بات کو ایک لمحے کے لئے تسلیم کرلیں تو ان سے سوال ہے کہ بچوں کو تکالیف تو یقینی طور پر آتی ہی ہیں خواہ وہ ان لوگوں کے عقیدے کے مطابق ساتواں جنم ہو یا پہلا ، تو سوال یہ ہے کہ بچوں کے پہلے جنم میں جو تکلیفیں آتی ہیں وہ کون سے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ؟ کیونکہ اس سے پہلے تو کوئی جنم ان کے عقیدے کے مطابق بھی نہیں گزرا ہوتا ۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (سورہ روم آیت نمبر41)
ترجمہ : چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا مزہ چکھائے کہیں وہ باز آئیں ۔

یعنی شرک اور گناہوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد جیسے قحط سالی ، بارش کا رک جانا، پیداوار کی قلت ، کھیتیوں کی خرابی ، تجارتوں کے نقصان ، آدمیوں اور جانوروں میں موت ، آتش زدگی کی کثرت ، غرق اور ہر شے میں بے برکتی ، طرح طرح کی بیماریاں ، بے سکونی، وغیرہ ظاہر ہو گئی اور ان پریشانیوں میں مبتلا ہونا اس لئے ہے تاکہ الله تعالیٰ انہیں آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ان کے بعض برے کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ کفر اور گناہوں سے باز آجائیں اوران سے توبہ کر لیں ۔ (تفسیر مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۹۱۰) (تفسیر جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۳۴۴،چشتی)

پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے کا سبب

اس آیت سے معلوم ہو اکہ گناہوں کی وجہ سے لوگ ہزاروں قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور صحیح اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ کسی قوم میں اِعلانیہ بے حیائی پھیل جانے کی وجہ سے ان میں طاعون اور مختلف اَمراض عام ہو جاتے ہیں ۔ناپ تول میں کمی کرنے کی وجہ سے قحط آتا اور ظالم حاکم مقرر ہوتے ہیں ۔زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے بارش رکتی ہے۔ الله تعالیٰ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے کی وجہ سے دشمن مُسَلَّط ہو جاتا ہے ۔ لوگوں کے مالوں پر جَبری قبضہ کرنے کی وجہ سے اور الله تعالیٰ کی کتاب کے مطابق حکمرانوں کے فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان قتل و غارت گری ہوتی ہے اور سود خوری کی وجہ سے زلزلے آتے اور شکلیں بگڑ جاتی ہیں ۔ (تفسیر روح البیان ، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷/۴۶-۴۷)

آیت اور اَحادیث کے خلاصے کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ موجودہ صورتِ حال پر غور کر لے کہ فی زمانہ بے حیائی عام ہونا ، ناپ تول میں کمی کرنا ، لوگوں کے اَموال پر جبری قبضے کرنا ، زکوٰۃ نہ دینا،جوا اورسود خوری وغیرہ ، الغرض وہ کونسا گناہ ہے جو ہم میں عام نہیں اور شائد انہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ آج کل لوگ ایڈز ، کینسر اور دیگر جان لیوا اَمراض میں مبتلا ہیں ،ظالم حکمران ان پرمقرر ہیں ،بارش رک جانے یا حد سے زیادہ آنے کی آفت کا یہ شکار ہیں ، دشمن ان پر مُسَلَّط ہوتے جارہے ہیں ، قتل و غارت گری ان میں عام ہو چکی ہے ، زلزلوں ،طوفانوں اور سیلاب کی مصیبتوں میں یہ پھنسے ہوئے ہیں ، تجارتی خسارے اور ہر چیز میں بے برکتی کا رونا یہ رو رہے ہیں ۔ الله تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا کرے اور اپنی بگڑی عملی حالت سدھارنے کی توفیق عطافرمائے ۔

یہاں بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کافروں کے ممالک جہاں کفر و شرک اور زنا و گناہ سب کچھ عام ہے وہاں فساد کیوں نہیں ہے تو اس کے دو جواب ہیں ، اول یہ کہ کفار کو دنیا میں کئی اعتبار سے مہلت ملی ہوئی ہے لہٰذا وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ فساد اور بربادی صرف مال کے اعتبار سے نہیں ہوتی بلکہ بیماریوں اور ذہنی پریشانیوں بلکہ اور بھی ہزاروں اعتبار سے بھی ہوتی ہے ، اب ذرا کفارکے ممالک میں جنم لینے والی اور پھیلنے والی نئی نئی بیماریوں کی معلومات جمع کرلیں یونہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پاگل خانے ، ذہنی مریض ، دماغی سکون کی دواؤں کا استعمال ، دماغی اَمراض کے مُعا لِجین ، ذہنی مریضوں کے ادارے اور نفسیاتی ہسپتال بھی انہی کفار کے ممالک میں ہیں اور اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ طلاقیں ، ناجائز اولادیں ، بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں پھینک کر بھول جانے کے واقعات ، یونہی دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی انہی ممالک میں ہیں ، جو ظاہرا ًتو بڑے خوشحال نظر آتے ہیں لیکن اندر سے گل سڑ رہے ہیں ۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئْ الْأَسْقَامِ ۔ (سنن ابوداؤد جلد اول)
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں برص کی بیماری سے، پاگل پن سے، کوڑھ کی بیماری سے، اور تمام نقائص سے اور تمام بیماریوں سے ۔

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۔ ( صحیح مسلم : ۷۰۵۳، ۷۰۵۴، ۷۰۵۵، صحیح ابوداؤد:۳۸۹۸، صحیح ترمذی:۳۴۳۷، صحیح ابن ماجہ:۳۵۱۸،۳۵۴۷، صحیح نسائی:۵۴۳۳)
ترجمہ : میں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ۔

روزانہ صبح و شام تین بار پڑھیں

بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْ ءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآ ءِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (صحیح ابن ماجہ: 332/2)
ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین اور آسماں میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا جاننے والا ہے ۔

روزانہ صبح و شام تین بار پڑھیں

اَلّٰہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَ لَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ ۔
ترجمہ : اے اللہ نہ مار ہمں اپنے غصے کے ساتھ اور نہ ہلاک کر ہمیں اپنے عذاب کے ساتھ اور ہمارے سابقہ گناہ معاف فرما ۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَ فُجَآءَۃِ نِقْمَتِکَ وَ جَمِیْعِ سَخَطِکَ ۔ (مشکوٰۃ باب الاستعاذہ) ، (صحیح مسلم :۷۱۲۰)
ترجمہ : اے اللہ میں تیری پنا ہ میں آتا ہوں تیری دی ہوئی نعمت کے زائل ہونے سے اور تیری عافیت کے پھیرنے سے اور تیری اچانک پکڑ سے اور تیرے ہر قسم کے غصے سے ۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْۤ اَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوْبَتِكَ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ لَا اُحْصِيْ ثَنَآءً عَلَيْكَ اَنْتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں، میں تیری پوری تعریف کی طاقت نہیں رکھتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔ (ابو داؤد: 1427، مسند احمد: 96/1، صحیح الترمذی: 180/3، صحیح ابن ماجہ: 194/1، ارواء الغلیل: 175/2،چشتی)

بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے طاعون کے خوف سے اپنے گھروں کو چھوڑا تو وہ سب کے سب مر گئے ۔ قراٰنِ کریم میں ارشادِخدا وندی ہے : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۪- فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا۫- ثُمَّ اَحْیَاهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ۔ (سورۃُ البقرۃ آیت نمبر 243)
ترجمہ : اے محبوب (صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیابیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں ۔

بنی اسرائیل کی ایک جماعت تھی جس کے علاقے میں طاعون پھیل گیا تو وہ موت کے ڈر سے اپنی بستیاں چھوڑ کر بھاگ نکلے اور جنگل میں جا پڑے ۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے ، حکمِ الٰہی سے سب وہیں مر گئے ، کچھ عرصہ کے بعد حضرت حِزقیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا اور وہ مدتوں زندہ رہے ۔ (تفسیر در منثور سورۃُ البقرۃ تحت الآیۃ ۲۴۳،۱/۷۴۱)

موت کے ڈر سے بھاگ کر جان نہیں بچائی جا سکتی : اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر جان نہیں بچاسکتا تو بھاگنا بے کار ہے ، جو موت مقدر ہے وہ ضرور پہنچے گی۔ آدمی کو چاہیے کہ رضائے الٰہی پر راضی رہے ، یونہی مجاہدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جہاد سے بیٹھ رہنا موت کو دفع نہیں کرسکتا لہٰذا دل مضبوط رکھنا چاہیے ۔ سورۂ آلِ عمران آیت نمبر 168 اور سورہ احزاب آیت نمبر 16میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے ۔

اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ : بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ۔ ارشا دفرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ، کچھ لوگوں پر تو کوئی خصوصی فضل ہوتا ہے جیسے مذکورہ بالا لوگوں کو دوبارہ زندگی عطا فرمادی جبکہ اللہ تعالیٰ کا عمومی فضل و کرم تو پوری کائنات کے ایک ایک فرد پرہے ۔ ہر انسان دن رات اپنے ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کے کروڑہا کروڑ احسانات لئے چل رہا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر اس کی شکر گزار نہیں ہے ۔

اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں

(1) نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بَنُورِ نَبُوَّت عالَم کے سارے اگلے پچھلے واقعات ملاحظہ فرمائے کیونکہ اتنے پرانے واقعہ کو’’ اَلَمْ تَرَ‘‘ اِسْتِفْہَامِ اِنْکارِیسے بیان فرمایا گیا کہ کیا آپ نے نہ دیکھا تھا یعنی ضرور دیکھا تھا۔ اِلٰی سے معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت بمعنی نظر چشم ہے ۔ ایسے ہی حضور نے آئندہ واقعات کو دیکھ کر خبر دی جن کے بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں ۔

اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْن خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ سے اشارۃً دوباتیں معلوم ہوئیں (1) طاعون کے زمانہ میں گھر چھوڑدینا منع ہے خواہ شہر بھی چھوڑدیا جائے یا صرف محلہ تبدیل کیا جائے جب کہ وَبا سے بھاگنا مقصود ہو ۔ (2) نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نظر اس عالَم میں رہ کر ہر چیز کو دیکھتی بھی تھی اور پہچانتی بھی تھی ہماری آنکھیں بیک وقت بڑے مجمع کو دیکھ کر ہر ایک کو پہچان نہیں سکتیں ہماری ناک بہت سی خوشبوئیں صحیح محسوس نہیں کرسکتی ، ہمارے کان بیک وقت بہت سی آوازیں سن نہیں سکتے مگر نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حواس ان کمزوریوں سے محفوظ ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آج لاکھوں کا سلام بیک وقت سن کر سب کو علیحدہ جواب دیتے ہیں قیامت میں بیک وقت ساری امتوں میں سے اپنی امت کو پہچان لیں گے پھر ہر امتی کے ہر حال کو جانیں گے ورنہ شفاعت ناممکن ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نعمتِ اِلٰہیہ کے قاسم ہیں اور قاسم ہر حصہ اور ہر حصہ دار کو پہچانتا ہے ۔

حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا تھا : وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ - فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ ۔ (سورہ اٰل عمران آیت نمبر 49)
ترجمہ : اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو ۔ معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہر دانہ اور اس کے کھانے والے سے خبر دار ہیں ۔ جب حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اتنا علم ہے تو پھر نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علمِ غیب کا عالَم کیا ہوگا ؟

(2) انبیائے کرام عَلَیْھِمُ السَّلَام کی بارگاہ ِالٰہی میں وہ عزت ہے کہ اگر وہ کسی بات پر بطریقہ ناز ضد کر جائیں یا قسم کھالیں تو ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ پوری فرمادیتا ہے ۔ دیکھو حضرت حِزْقِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کی عَرض معروض پر ان سب کو دوبارہ زندہ کیا گیا ۔

(3) اللہ والوں کی پھونک یا آواز صورِ اسرافیل کا اثر رکھتی ہے کہ حضرت حِزْقِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کی پکار سے نَفْخِ صُوْر (صورِ اسرافیل) کی طرح اتنی بڑی جماعت زندہ ہوگئی ۔

(4) کوئی بھی تدبیر سے تقدیر نہیں بدل سکتا اور نہ آنے والی موت کو ٹال سکتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! جہاد نہ چھوڑو جب اپنے وقت پر موت آئے گی تو بہتر ہے کہ راہِ خدا میں آئے ۔

(5) طاعون سے بھاگنا منع ہے ، دیکھو یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل) طاعون سے بھاگے تھے عتابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے ۔ (تفسیرِ نعیمی پ۲، البقرہ، تحت الایۃ: ۲۴۳،۲/۴۸۳،مکتبہ اسلامیہ لاہور)

انسان کو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی ، بُرے لوگوں کی صُحْبَت ، بُرے مشوروں اور تمام گناہوں سے بچنا چاہیے ۔بسا اوقات دنیا میں بھی گناہوں کی سزا ملتی ہے ،جس میں لوگوں کے لئے عبرت کا سامان ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص بدکاری کا مرتکب ہو ا تو پوری جماعت کو طاعون میں مبتلا کر کے ہلاک کیا گیا ۔

گناہوں کی وجہ سے طاعون

منقول ہے کہ بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء اپنے دور کا بہت بڑا عالم ،عابد و زاہد اوراسمِ اعظم جاننے والا تھا۔ اس کی روحانیت کا یہ عالَم تھا کہ زمین سے عرشِ اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ بہت ہی مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھا( یعنی اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں ) اس کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، اس کی درسگاہ میں طالب علموں کی دواتیں بارہ ہزار تھیں ۔ جب حضرتِ سَیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ’’قَوْمِ جَبَّارِیْن‘‘ سے جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوئے تو بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَائکی قوم اس کے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا : موسیٰ (عَلَیْہِ السَّلَام) بہت ہی بڑا اور نہایت ہی طاقتور لشکر لے کر حملہ آور ہونے والے ہیں ۔ وہ ہم اری زمینیں اپنی قوم بنی اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں ۔ تم اُن کے لئے ایسی بددعا کر و کہ وہ شکست کھا کر واپس چلے جائیں ، تم چونکہ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہو( تمہاری ہر دعا مقبول ہے) اس لئے یہ دعا بھی ضرورقبول ہوگی۔ یہ سن کربَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء کانپ اٹھا ۔ اور کہنے لگا : تمہارا بُرا ہو، خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے میں ان پرکیسے بددعا کرسکتا ہوں ؟ لیکن اس کی قوم رَو رَو کر اسی طرح اصرارکرتی رہی ۔چنانچہ، اس نے کہا کہ اِسْتِخَارَہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو بددعا کردوں گا۔جب اِسْتِخَارَہ کیا تو اسے بددُعا کی اجازت نہ ملی۔ چنانچہ، اس نے صاف اِنکار کرتے ہوئے کہا : اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔ یہ سن کر اس کی قوم نے بہت سے گِراں قدر (مہنگے) ہَدایا اور تحائف اسے دیئے یہاں تک کہ بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء پر حِرْص اور لالچ کا بھوت سوار ہو گیا، وہ مال کے جال میں پھنس کر اپنی گدھی پر سوار ہو ا اوربددعا کے لئے چل پڑا ۔ راستہ میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کرواپس بھاگتی مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بولنے کی طاقت عطا فرمائی۔ تووہ بول پڑی :’’ تجھ پر افسوس !اے بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء !تو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ!میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بَلْعَمْ ! تیرا بُرا ہو ،کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی اور مؤمنین کی جماعت پر بددعا کرے گا ؟ گدھی کی یہ گفتگو سن کر بھی بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء واپس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ’’حُسْبَان‘‘ نامی پہاڑ پر چڑھ کرحضرتِ موسیَٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکروں کو بغور دیکھا اور مال و دولت کے لالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے بددعا کرتا تھا مگر اس کی زبان پر اس کی قوم کے لئے بددعا جاری ہوجاتی تھی۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے ٹوکا کہ اے بَلْعَمْ! تجھے کیا ہوا کہ الٹی بددعا کررہا ہے ؟ اس نے کہا :اے میری قوم!میں کیا کروں ؟ میں بولتا کچھ ہوں اور میری زبان سے کچھ اور ہی نکلتا ہے ۔ پھر اچانک اس پر یہ عذابِ الٰہی نازل ہوا کہ اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی۔ اس وقت بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء نے اپنی قوم سے کہا :افسوس میری دنیا و آخرت برباد و غارت ہوگئیں ۔ میرا ایمان جاتا رہا اور میں قَہْرِ قَہَّار و غَضَبِ جَبَّارعَزَّوَجَلَّمیں گرفتار ہو گیا ۔ اب میری کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی مگر میں تم لوگوں کو ایک چال بتاتا ہوں تم لوگ ایسا کرو گے تو شاید حضرت موسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ و السَّلَام) کے لشکروں کو شکست ہوجائے گی ۔ تم لوگ ہزاروں خوبصورت لڑکیوں کو بہترین لباس و زیورات پہنا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیج دو۔ اگر ان کا ایک آد می بھی بدکاری میں مبتلا ہوگیا تو پورے لشکر کو شکست ہوجائے گی۔ چنانچہ، بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء کی قوم نے اس کے بتائے ہوئے مکر کا جال بچھایا، بہت سی خوبصورت دوشیزاؤں کو بناؤ سنگھار کے ساتھ بنی اسرائیل کے لشکرمیں بھیج دیا۔ بنی اسرائیل کا ایک رئیس ایک لڑکی کے فتنے میں مبتلا ہوگیا اس نے لڑکی کو اپنے ساتھ لیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آکر پوچھا : اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی! کیا یہ لڑکی میرے لئے حلال ہے ؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : خبردار !یہ تیرے لئے حرام ہے۔ فوراً اس کو اپنے سے الگ کردے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر ۔ مگر اس رئیس پر شہوت کاغلبہ تھا اس نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی بات نہ مانی اور اس لڑکی سے بد کاری میں مبتلا ہوگیا ۔ اس گناہ کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ بنی اسرائیل کے لشکر میں اچانک طاعون کی وَبا پھیل گئی اور گھنٹے بھر میں ستر ہزار آدمی مر گئے ۔ سارا لشکرمنتشر ہو کر ناکام واپس چلا آیا ۔ بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء بارگاہِ الٰہی سے دُھتکاردیا گیا ۔ آخری دم تک اس کی زبان اس کے سینے پر لٹکتی رہی اور وہ بے ایمان ہو کر مرا ۔ (تفسیر صاوی، پ۹، الاعراف، تحت الایۃ:۱۷۵،۲/۷۲۷،چشتی)

دین کے ہر حکم میں حکمت ہوتی ہے

دینِ اسلام ایسا پاکیزہ و ستھرا دین ہے کہ اس کا ہر ہر حکم حکمت بھرا ہے ،اسلام کے احکامات کو ماننے والا ہم یشہ فائدے میں رہتا ہے۔ اگرچہ بسا اوقات بعض احکام بظاہر بہت گِراں محسوس ہوتے ہیں لیکن ان میں دین ودنیا کی بے شمار بھلائیاں پِنہاں ہوتی ہیں ۔ اسی حکم کو لے لیجئے کہ طاعون زَدَہ علاقے سے بھاگنا ناجائز و گناہ ہے ، بظاہر یہ حکم نَفس پر بہت گراں ہے لیکن اس میں بے شمار دِینی ودُنیوی فوائدو حکمتیں ہیں ۔ چنانچہ، اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے اِمَام اَحْمَد رَضا خَان قادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : جن حکمتوں کی بناپر حکیم کریم ، رء وف رحیم عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم نے طاعون سے فرار (بھاگنا) حرام فرمایا ان میں ایک حکمت یہ ہے کہ اگرتندرست بھاگ جائیں گے بیمار ضائع رہ جائیں گے ان کا کوئی تیماردار ہوگا نہ خبرگیراں ، پھر جو مریں گے ان کی تجہیز وتکفین کون کرے گا ، جس طرح خود آج کل ہمارے شہر اور گرد و نواح کے ہنود میں مشہور ہورہاہے کہ اولاد کو ماں باپ، ماں باپ کو اولاد نے چھوڑ کر اپناراستہ لیا بڑوں بڑوں کی لاشیں مزدوروں نے ٹھیلے پر ڈال کر جہنم پہنچائیں ، اگر شرعِ مُطہّر مسلمانوں کو بھی بھاگنے کاحکم دیتی تو مَعَاذَﷲ یہی بے بسی بیکسی ان کے مریضوں مَیِّتوں کو بھی گھیرتی جسے شرع قطعاً حرام فرماتی ہے ۔ اِرْشَادُ السَّارِی شرح صحیح البخاری میں ہے (لَا تُخْرِجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ) فَاِنَّہُ فِرَارٌمِّنَ الْقَدْرِ وَلِئَلَّا تَضِیْعُ الْمَرْضٰی لِعَدْمِ مَنْ یَّتَعَھَّدُھُمْ وَالْمَوْتٰی مِمَّنْ یُّجَھِّزُھُمْ ۔ ترجمہ : (مقام طاعون سے بھاگ کر کہیں باہر نہ جاؤ کیونکہ یہ تقدیرِالٰہی سے بھاگنے کے مُترادِف ہے اور تاکہ بیمار ضائع نہ ہونے پائیں اس لئے کہ اس افراتفری کے باعث مریضوں کی نگہبانی اور حفاظت کے لئے کوئی نہیں ہوگا اور مرنے والوں کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے لئے بھی کوئی نہ ہوگا) ۔ (فتاوی رضویہ ، ۲۴/۳۰۳-۳۰۴)

(1) طاعون ایک عذاب تھا لیکن اِس اُمت کے لئے اِسے رحمت بنا دیا گیا ۔

(2) جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ بچانا چاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ تقدیر سے کوئی نہیں بھاگ سکتا جو انسان کے مُقَدَّر میں لکھ دیا گیا وہ اسے ضرور پہنچے گا ۔

(3) انبیائے کِرام عَلَیْھِمُ السَّلَام کا گستاخ دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوتا ہے ۔

(4) جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگنا حرام اور اس علاقے میں جانا بھی منع ہے ۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیا و آخرت میں عافیت عطا فرمائے ، جو مصائب ہمارے مُقَدَّر میں ہیں ان پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔