غزوہ بدر الکبریٰ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اپنے لشکر کی بے سروسامانی کو دیکھ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ وزاری کی : اللھم انھم حفاۃ فاحملھم وعراۃ فاکسھم وجیاع فاشبعھم وعالۃ فاغنھم من فضلک“ ۔ (سنن ابی داؤد ۹۴۷۲۔سبل الھدی والرشاد ج۴ ص۳۲۔مغازی الواقدی ج۱ص۶۲۔السیرۃ الحلبیہ فی سیرۃ الامین ج۲ص۲۸۳،۷۸۳۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ص۳۵) ۔ الٰہی یہ پیادہ ہیں انہیں سواری عطا فرما ، یہ ننگے ہیں انہیں کپڑے دے ، یہ بھوکے ہیں انہیں کھانا کھلا ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ بدر کے روز نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ قبہ میں تشریف فرماتھے اور دعا مانگ رہے تھے : اللھم انی انشدک عہدک ووعدک اللھم ان شئت لم تعبدبعد الیوم ۔
اے اللہ ! میں تجھے اس عہداوروعدہ کا واسطہ دیتاہوں جو تونے میرے ساتھ کیا ہے ۔
ائے اللہ : اگر تو اسے پورا نہیں کرے گا تو پھر تاابد تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ حضرت صدیق اکبر نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ہاتھوں سے پکڑا اور عرض کی یارسول اللہ ! یہ کافی ہے ۔ آپ نے اپنے رب پر اصرار کی حد کردی ہے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس وقت زرہ پہن رکھی تھی آپ اس حالت میں نکلے کہ یہ آیت پڑھ رہے تھے ، سیھزم الجمع ویولّون الدبر بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھیٰ وامر ، عنقریب پسپاہوگئی یہ جماعت اورپیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ ان کے وعدے کا وقت روز قیامت ہے اور قیامت بڑی خوفناک اور تلخ ہے ۔ (الصحیح البخاری ۵۱۹۲،۳۵۹۳،۵۷۸۴۔الرحیق المختوم ج۱ص۹۷۱۔ الرسالۃ المحمدیۃ ج۱ص۷۷۱۔الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ج۷۱ ص۶۶۔السیرۃ الحلبیہ فی سیرۃ الامین ج۲ص۵۰۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۷۲)
دو 2 ہجری، 17رمضان المبارک جمعہ کا بابرکت دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا، قرآنِ مجید میں اسے ”یوم الفرقان“فرمایا گیا ۔ (در منثور ،4/72،پ 10،الانفال تحت الآیہ:41) اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس صرف 2 گھوڑے،70 اونٹ، 6 زرہیں(لوہے کا جنگی لباس) اور 8 تلواریں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس 100گھوڑے، 700 اونٹ اور کثیر آلاتِ حرب تھے ۔ (زرقانی علی المواھب، 2/260،چشتی)(معجم کبیر، 11/133، حدیث 11377)(مدارج النبوۃ،2/81)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نےاپنے چند جانثاروں کے ساتھ بدر کے میدان کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرماتے : یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ راوی فرماتے ہیں: ویسا ہی ہواجیسا فرمایا تھا اور ان میں سے کسی نےاس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا ۔ (مسلم ص759، حدیث: 4621)
کیا شان ہے ہمارے نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی ، کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے ایک دن پہلے ہی یہ بتادیا کہ کون کب اور کس جگہ مرے گا ۔
اس رات اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ جاتی رہی اور اگلی صبح بارش بھی نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم گئی اور پانی کی کمی دور ہو گئی ۔ ( الزرقانی علی المواہب ،2/271)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے تمام رات اپنے ربّ عَزَّ وَ جَلَّ کے حضور عجزو نیاز میں گزاری ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،3/49) ۔ اور صبح مسلمانوں کو نمازِ فجر کےلیے بیدار فرمایا، نماز کے بعدایک خطبہ ارشاد فرمایا جس سے مسلمان شوق ِ شہادت سے سرشار ہوگئے ۔ (سیرت حلبیہ، 2/212)
حضور رحمتِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے پہلے مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار کی طرف دیکھا اور دعا کی کہ یا رب ! اپنا وعدہ سچ فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے ، اگرمسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 750، حدیث:4588)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ، اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہو گئی ۔ (پ 9،الانفال:9۔ پ4،اٰل عمران 124،125)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ و اٰلہٖ وسَلَّم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی ۔ (درمنثور ،4/40،پ 9،الانفال الآیہ:17)
جانثار مسلمان اس دلیری سے لڑے کہ لشکرِ کفار کو عبرتناک شکست ہوئی، 70 کفار واصلِ جہنم اور اسی قدر (یعنی70) گرفتار ہوئے ۔ (مسلم ، ص750، حدیث:4588) جبکہ 14مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ (عمدۃ القاری 10/122،چشتی)
غزوۂ بدر میں مسلمان بظاہر بے سروسامان اور تعداد میں کم تھے مگر ایمان و اخلاص کی دولت سے مالامال تھے ، ان کے دل پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عشق و محبت اور جذبہ ٔاطاعت سے لبریز تھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مدد اور پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی دعائیں ان کے شاملِ حال تھیں۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے اس معرکے کو یاد گار اور قیامت تک کے مسلمانوں کےلیے مشعلِ راہ بنادیا ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا کفارکی قتل گاہوں کی خبر دینا
جنگ سے ایک دن پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے میدان جنگ کا معائنہ کیا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ جب گزرتے تو فرماتے : ھذامصرع فلان غدا ان شاء اللہ ، یہ کل فلاں کی جائے قتل ہوگا اگر اللہ نے چاہا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے کفار کے نام لے لے کر بتایا ، جنگ کے اختتام پر ان مرداروں کی لاشیں اسی جگہ پرہی تھیں جہاں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان لگایاتھا ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ، فوالذی بعثہ باحق مااخطأواالحدود التی حدھا ۔ (الصحیح المسلم ۲۰۴۷۔مسند ابی یعلی ۰۴۱۔ نسائی ۴۷۰۲۔مسند احمد ۲۸۱۔صحیح ابن حبان ۲۲۷۴۔مصنف ابن ابی شیبہ۰۸۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۹۸)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا وہ ان حدود سے کچھ بھی آگے پیچھے نہ تھے جن کی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان دہی فرمائی تھی ۔
شہداء بدر کے اسماء
اس عظیم معرکے میں کتنے خوش نصیبوں کو خلعت شہادت سے سرفراز کیا گیا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اسحاق کا قول یہ ہے کہ ان کی تعداد گیرارہ تھی لیکن واقدی نے مغازی میں ذکرکیاہے کہ عبداللہ بن جعفر نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ میں نے زھری سے سوال کیاکہ کتنے مسلمان بدرمیں شھید ہوئے ۔ آپ نے کہا چودہ ۔ جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے ۔ پھر انہیں شمار کیا ۔ (مغازی للواقدی ۱/۴۴۱،۵۴۱)
جمہور علماء مغازی اور سیر اور محدثین نے اسی قول کوترجیح دی ہے ۔ اور وہ چودہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام درج ذیل ہیں : ⬇
(1) عبیدہ بن الحارث (2) عمیر بن ابی وقاص(3) عمیربن حمام (4) سعد بن خیثمہ (5) ذوالشمامین بن عمربن نضلہ خزاعی (6) مبشربن عبدالمنذر (7) ماقل بن بکیر اللیشی (8) مہجع (حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام)(9) صفوان بن بیضاء الفہری (10) یزیدبن حارث خزرجی (11) رافع بن معلی (12) حارث بن سراقہ (13) عوف بن عفراء (14) معوذبن عفراء ۔ (رضی اللہ عنہم) ، الروض الانف فی شرح غریب السیرمیں بھی ان شھدائے بدر کے نام اور کس صحابی کو کس کافر نے شھید کیا مفصلا ذکر فرمائے ہیں ۔ (الروض الانف فی غریب السیر ج۳ ص۴۶۱) ، شھدائے بدرکی تعداد کو ایک اور جگہ پر یوں ذکر کیا گیا ہے ، اماالمسلمون فاستشھدمنھم یوم بدراربعۃ عشر ۔ (مع المصطفیٰ ج۱ص۳۴۲) ، بہرحال مسلمان توان میں سے بدر کے دن چودہ شہید کردئے گئے تھے ۔
شرکاءِ بدر کی فضیلت
غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کو اللہ تعالی نے عظیم نے مرتبہ عطافرمایااور بدری باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، اسی لیے خلفائے راشدین بدری صحابہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ رفاعہ بن رافع زرقی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں (ان کے والد اھل بدر میں سے ہیں) کہ جبرئیل امین نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے عرض کی : ماتعدّون اھل بدرفیکم قال من افضل المسلمین او کلمۃ نحوھا قال وکذلک من شھد بدرا من الملائکۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم۲۹۶۳،چشتی) ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابہ میں اہل بدر کا کیا مرتبہ ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مسلمانوں میں افضل یا اس کی مثل کوئی کلمہ ۔ جبریل نے کہا یونہی فرشتوں میں سے بدر کے میدان میں حاضر ہونے والے فرشتے باقی ملائکہ سے افضل ہیں ۔
حضرت حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ میدان بدر میں شھید ہو گئے توان کی والدہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں۔اگر حارثہ جنت میں ہے تومیں صبرکروں گی اور اگر جنت میں نہیں توآپ بتائیں میں کیا کروں ؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تیرے لئے ہلاکت ہو ، انہ فی جنۃ الفردوس ۔ (الصحیح البخاری رقم۳۸۶۳) ۔ بیشک وہ جنت الفردوس میں ہے ۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے طویل واقعے میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لعل اللہ اطلع علی اھل بدرفقال اعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم ۴۸۶۳) ، اہل بدر کی فضیلت کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی معیت میں اسلام کی سربلندی وسرفرازی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور ان صحابہ کی اس وقت کی کاوشوں سے دین کی جڑیں مضبوط سے مضبوط ترہوگئیں اور کفر کے دل میں ہمیشہ کےلیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کارعب ڈال دیا ۔
جنگ بدر تاریخ اسلام کا پہلا اور عظیم الشان معرکہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی ایک قلیل جماعت کو ان کی بے سروسامانی کے باوجود مشرکین کے ایک بڑے اور ہر طرح کے جنگی آلات سے لیس گروہ پر ایک روشن فتح عطا فرمائی تھی جسے مورخین نے ”غزوہ بدر الکبری“ اور غزوہ ب سے موسوم کیا ہے مگر قرآن کریم میں اسے یوم الفرقان (یعنی حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان حد فاصل کھینچنے والے دن) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
غزوہ بدر وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ تھی جس نے امت اسلامیہ کی تفسیر اور دعوت اسلام کے مستقبل کا فیصلہ ہوا اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی بھی فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں وہ سب اسی ”فتح مبین“ کی مرہون منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی ۔
معرکہ بدر کے اسباب
مکہ مکرمہ میں اسلام کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا کفار و مشرکین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہوگئے پھر جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھتا گیا ان ریشہ دوانیاں بھی بڑھتی رہیں۔ دامن اسلام سے وابستہ ہونے والوں پر نت نئے مظالم ڈھائے گئے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو اپنا گھر بار،قیمتی مال و متاع چھوڑ کر پہلے حبشہ پھر مدینہ کی جانب ہجرت کرنا پڑا ، ہجرت کے بعد بھی ظلم وزیادتی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اور زور پکڑ گیا، کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو زیارتِ کعبہ سے روکا، املا کِ مومنین ضبط کیں، مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی تیاری کی، اسلام کے خلاف ماحول سازی کی، رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، اہلِ ایماں پر ستم ڈھائے کہ وہ دین سے باز آجائیں … اِسی کے نتیجے میں اسلام کی پہلی جنگ ”بدر“ کے میدان میں ہوئی۔ماہِ رمضان کے شروع میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہلِ قریش کا تجارتی مال و اسباب سے بھرا ہوا قافلہ شام سے مکہ آرہا ہے اس کے ساتھ تیس یا چالیس آدمی خاص اہلِ قریش کے ہیں جن کا سردار ابو سفیان ہے اور اس کے ہمراہیوں میں عمرو بن العاصی و محزمۃ بن نوفل ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانانِ مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے اس قافلے کی طرف پیش قدمی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (ابن خلدون /اول/۷۱)
اتفاق سے یہ خبر رفتہ رفتہ ابو سفیان تک پہنچ گئی اس نے مسلمانوں سے ڈر کر ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ تمہارا قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور انکے تابعین کی وجہ سے معرض زوال میں ہے، دوڑو اوراپنے قافلے کو بچاؤ۔ چنانچہ اہلِ مکہ یہ سنتے ہی سب کے سب نکل کھڑے ہوئے سوائے چند افراد کے جن میں ابو لہب بھی تھا۔ ابو سفیان اپنے قافلے کو ساحل کے ساتھ ساتھ لے کر مکہ کی جانب چلا تو راستے میں اہلِ مکہ بھی مل گئے اس نے خوش ہو کر کہا چلو واپس چلو ہمارا قافلہ صحیح و سالم بچ آیا مگر ابو جہل نے ابو سفیان کے مشورے کو رد کر دیا اور فوج کو بدر تک جانے پر اصرار کیا۔ اس نے بڑے تکبر اور غضب سے کہا، خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے ہم بدر تک جائیں گے اور تین دن وہاں ٹھہریں گے اور اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں گے کھلائیں گے اور شراب نوشی کریں گے اور گلوکارائیں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور عرب ہمارے متعلق اور ہماری پیش قدمی سے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔(سبل الہدی و الرشاد، ۴:۲۹) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment