فضائل و مناقب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نسبت “جبیر بن مطعم ” کے بیٹے سے ہوئی تھی مگر جبیر نے اپنی ماں کے ایماء پر یہ نسبت اس لئے فسخ کردی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اہل مسلمان ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم کی تحریک پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ و سلم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے عقد مبارک مکہ مکر مہ ماہ شوال المکرم میں ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل بروایت دیگر تین سال قبل 621 عیسوی میں انتہائی سادہ و سادگی سے ہوا ۔ امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود نکاح پڑھایا, پانچ سو درہم حق مہر مقررہوا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے تین سال بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے گئے ۔ مدینہ منور پہنچ کر سرور کائنات نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ , حضرت ابورافع ‘ اور حضرت عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہم کو اپنے اہل وعیال کولانے کےلیے مکہ مکرمہ بھیجا ۔ واپسی پر حضرت زید بن حارثہ کے ہمراہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ‘حضرت ام کلثوم ‘ حضرت سودہ بنت زمعہ ‘حضرت ام ایمن اور حضرت اسامہ بن زید تھے ۔ اور حضرت عبداللہ بن اریقط کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر’ حضرت ام رومان’ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم اجمعین تھیں ۔ (مدارج نبوۃ جلد دوم ‘ازواج مطہرات)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نگاہ میں آپ کا مقام و مرتبہ اور آپ سے جو محبت تھی وہ نا قابلِ بیان ہے : حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب غزوۂ سلاسِل سے واپس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے پوچھا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا *عائشہ*، انہوں نے عرض کی مردوں میں ؟ فرمایا ان کے والد (حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) ۔ {بخاری شریف}
ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن میں آپ کا درجہ فقہ وحدیث علم وفضل میں بہت ہی بلند ترین اور ممتاز ہے ۔ خود آقائے کائنات صل اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :” اپنے دین کا نصف علم اس حُمیرا یعنی بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سیکھو“ ۔ اور حضرت امام زہری کے یہ پیارے الفاظ آپ کے علم و ہنر میں مہارت تامہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں فرماتے ہیں: اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علم کے مقابلے میں تمام امّھات المؤمنین ، بلکہ تمام عورتوں کے علوم کو رکھا جائے تو حضرتِ عائشہ صدیقہ کے علم کا پلہ بھاری ہوگا - ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ‘ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم کے دور میں آپ فتوی دیاکرتی تھیں ‘اکابر صحابہ ‘صحابیہ آپ کے علم وفضل کے معترف تھے اورمسائل میں آپ سے استفسار کیا کرتے تھے آپ سے دوہزار دوسو دس (2210) حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ایک سوچوہتر (174)حدیثوں پر بخاری و مسلم نے اتفاق کیاہے ۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی آپ سے منقول ہے. تفسیر ‘ حدیث ‘ اسرار شریعت ‘خطاب, ادب اور انساب میں آپ کو بہت کمال حاصل تھا ۔ (زرقانی جلد دوم’ جلد سوم فضائل اہلیت ‘شان صحابہ)
اوصاف وکمالاتِ ‘علم و فضل ‘فہم و فراست ‘ تبلیغِ دین ‘ زہد وتقوی اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے لحاظ سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو کافی فوقیت حاصل تھی ۔
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ خود فرماتی ہیں : دس خوبیوں (اوصاف) سے مجھے دیگر ازواجِ مطہرات پر فوقیت حاصل ہے ۔
(1) حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میرے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ۔
(2) میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مُہاجر ہوں ۔
(3) اللہ تعالٰی نے میری پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا ۔
(4) نکاح سے قبل حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں مجھے خواب میں دیکھتے رہے ۔
(5) میں اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے کر غسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا ۔
(6) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نمازِ تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی ہوئی رہتی تھی امہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی ۔
(7) میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ اعزازِ خداوندی ہے جو میرے سوا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی کسی زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں ہوا ۔
(8) وفاتِ اقدس کے وقت میں حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو اپنی گود میں لیے ہوئی تھی اور آپ کا سرِ انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا وصال ہوا ۔
(9) حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میری باری کے دن وصال فرمایا ۔
(10) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک خاص میرے گھر (حجرۂ عائشہ) میں بنی ۔ (سیرت المصطفی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خدمت دین کے باب میں کردار اور مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین پر استقامت اور ریاضت و مجاہدہ میں آپ کو کتنا تمکن حاصل تھا ۔ خدمت دین اس وقت تک مقبول اور مبارک نہیں ہوتی جب تک دین کی خدمت کرنے والے خود اپنی زندگی سیرت و کردار کو اور اپنے شب و روز کو عملی نمونہ نہ بنالیں ۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مقبول ترین زوجہ مطہرہ تو تھیں مگر خود وہ اپنی عملی زندگی میں دین کا عظیم الشان نمونہ تھیں ۔ یہاں آپ کی حیات مبارکہ چند گوشے اختصار کے ساتھ بیان کیے جارہے ہیں جس کی روشنی میں آپ کے کردار کے مبارک پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔
آپ رضی اللہ عنہا کا ذوق عبادت اور ریاضت و مجاہدہ اس قدر بلند مرتبے کا تھا کہ نماز میں طویل قیام فرماتیں۔ جس کو احمد بن حنبل نے اپنی المسند میں نقل کیا ہے ۔ اس طرح نفلی نمازیں ادا کرتیں تو قرات کے دوران جب آیت وعید کا ذکر آتا آپ پر گریہ و زاری طاری ہوجاتی ، آپ ان کا تکرار کرتیں ۔ نماز کے بعد دیر تک آپ پر گریہ کی کیفیت طاری رہتی ۔ فرض نمازوں کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر و بیشتر نماز پنجگانہ با جماعت اداکرتیں ۔ وہ یوں کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک متصل تھا ۔ امام کی آواز آتی تھی سو مسجد نبوی کے امام کی اقتداء میں متصل اپنے حجرہ مبارک میں نماز ادا کرتی تھیں ۔ جب خواتین زیادہ جمع ہوجاتیں تو الگ سے اہتمام کرتیں اور خود صف کے وسط میں قیام فرماکر انہیں نماز پڑھاتیں ۔ آپ صائم الدھر تھیں اکثر و بیشتر روزے کا اہتمام فرماتیں ۔ سخت گرمیوں میں بھی نفلی روزہ ترک نہ کرتیں ۔ امام احمد بن حنبل نے المسند ، امام ابن سعد طبقات میں آپ کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ایک مرتبہ گھر پر تھیں ، حج پر نہیں گئی تھیں نویں ذوالحج تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کے مطابق روزہ رکھا تھا کیونکہ سخت گرمی تھی ۔ آپ اپنے اوپر پانی گرارہی تھیں ۔ آپ سے افطار کرلینے کا کہا گیا فرمایا : میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے ۔ جو لوگ حج پر نہ گئے ہوں ان کے لیے یوم عرفہ کا روزہ پچھلے پورے سال کےلیے کفارہ بن جاتا ہے ۔
عبادت میں کوئی ایک فضیلت کا امر اپنی حیات میں ترک نہ کرتی تھیں ۔ حتی کہ سفر میں بھی روزہ ترک نہ کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے سوال کیا کہ آپ نے جہاد کو افضل ترین اعمال قرار دیا ہے ۔ کیا ہم جہاد نہ کیا کریں ؟ یعنی شوق جہاد پیدا ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : سب سے افضل عبادت حج مبرور ہے دوسری روایت میں ہے ۔ حج و عمرہ افضل عبادت ہے آپ اس پر اکتفاء کریں ۔ اسی طرح آپ کی حیات طیبہ میں اور عادت مبارک میں جود و سخا کمال درجے کا تھا ۔ تھوڑا زیادہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دست مبارک تک پہنچ جاتا یا آپ کی ملکیت میں آجاتا اسی وقت خیرات کر دیتیں ۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کو اکثر بیان فرماتیں ۔ ’’دوزخ کی آگ سے بچائو اختیار کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے ذریعے سے ہو ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بہت فتوحات ہوئیں ۔ اموال کثرت سے آنے لگے جو مال آپ رضی اللہ عنہا کے حصے میں آئے آپ اس مال کو اسی لمحے خرچ کر دیتیں ۔
امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان فرمایا ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم آپ کے حصہ میں آئے۔ آپ نے سورج غروب ہونے سے پہلے پورا ایک درہم خیرات کردیا۔ ایک روز آپ کی خادمہ نے عرض کیا : اگر آپ ایک درہم بچا کر رکھ لیتی اس سے ہمارے لیے کچھ گوشت آجاتا ۔ فرمایا : بیٹے ! اگر مجھے پہلے بتادیتیں تو میں بچا لیتی ۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زہد و ورع بھی کمال درجے کا تھا آپ نے پوری حیات مبارکہ میں فرائض و واجبات اور سنن کا پوری صحت سے اہتمام کیا اور شبہات سے بچیں ۔ ایک روز ایک نابینا شخص سوال کرنے کے لیے آیا تو آپ نے اس سے پردہ کرلیا جس پر آپ سے کہا گیا کہ وہ تو دیکھتا نہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تو دیکھتی ہوں ۔
آپ کے حجرہ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک تھا ۔ بعد ازاں حضرت صدیق اکبر بھی وہاں مدفون ہوئے جب سیدنا فاروق اعظم تو آپ پردے کا زیادہ اہتمام کرتیں کیونکہ وہ آپ کےلیے نامحرم تھے اس سے آپ کے اعتقاد کا اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب مزار حاضر ہونے والے کو دیکھتا ہے ۔
اس طرح دعوت و تبلیغ میں آپ کا کردار بڑا نمایاں تھا ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا اہتمام کرتیں ، جب کسی کے عمل میں کوئی کمی بیشی آپ مشاہدہ فرماتیں اسی وقت اس کو حکمت و بصیرت اور محبت سے اصلاح اور تربیت کرتیں ۔ آپ کا علم دین اتنا وسیع تھا کہ جس قرآن کے علم، علم التفسیر ، علم الحدیث ، علم فقہ میں گہرائی و گیرائی ، عربی ادب، شعر و نثر ، علم میراث ، علم تاریخ ، علم انساب، علم طب پر کمال درجے کی مہارت رکھتیں ۔ علم میں آپ کا درجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن میں بلند تھا ۔ ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں ۔
جسے امام ترمذی نے روایت کیا جب بھی صحابہ کرام کو علمی مسائل میں اشکال ہوتا اور کسی سے کوئی حل نہ ہورہا ہوتا تو آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلہ کو حل فرما دیتیں ۔ آپ کے دروازے پر علم کا کوئی طلبگار بھی آتا مشکل حل کروائے بغیر واپس نہ جاتا ۔ جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آکر سوال کرتے تھے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم آپ سے اخذ فیض ، استفادہ اور مسائل دریافت کرتے ۔ اس وجہ سے 100 سے زائد صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم نے آپ سے علم اور احادیث نبوی روایت کی ہیں ۔ آپ کا درجہ صحابہ اور صحابیات میں استاذ کا تھا ۔
امام زہری فرماتے ہیں آپ کے علم کو جملہ خواتین علماء کے علم کے ساتھ سے موازنہ کیا جائے بلکہ سب کے علم کو جمع کرلیا جائے تو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب سے وسیع تر ہے ۔ امام بدرالدین زرکشی نے الاجابہ کے نام سے کتاب لکھی جس میں آپ کی دقت علم کو بیان کیا ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے عین الصحابہ کے نام سے ایک رسالہ رقم فرمایا ہے آپ کے علم کی گہرائی ، گیرائی ، فقہ اجتہاد علم کا بیان کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کا ہی حجرہ مبارک محبط وحی تھا اکثر و بیشتر نزول وحی آپ کے ہی حجرہ مبارکہ میں ہوتا ۔ اسی وجہ سے آپ صحابہ کرام تابعین عظام کےلیے معلمہ تھیں ۔ آپ مفسرہ ، محدثہ ، مجتہدہ ، فقیہہ ، زاہدہ ، عابدہ ، طیبہ طاہرہ تھیں ۔ پوری امت مسلمہ کی ماں ہیں ۔ آپ کا شمار کبار حفاظ حدیث و سنت میں ہوتا ہے ۔ آپ پردہ کے پیچھے سے تعلیم دیتی تفسیر پڑھاتیں ، حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حدیث روایت کرتیں ۔ سنت نبوی کے احکام سمجھاتیں ، استنباط اور اجتہاد کے ذریعے پوری امت کی رہنمائی فرماتیں ۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد کم و بیش 50 برس تک حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سنت کو امت تک پہنچایا ، حدیث نبوی کی تعلیم دی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات 2210 ہیں یہ مسند عائشہ ہیں ۔ اس میں متفق علیہ 174 ہیں جو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت ہوئی ہیں۔ بقیہ میں سے صحیح بخاری میں 54 اور صحیح مسلم میں 69 بیان ہوئی ہیں ۔ بقیہ حدیث دیگر کتب احادیث ہیں ۔
اگر آپ کی مرویات نہ ہوتیں تو سنت نبوی کا بہت بڑا حصہ امت کو معلوم نہ ہوسکتا۔ خاص کر سنت فعلیہ کا حصہ، آپ کا حجرہ مبارک اس امت کا سب سے بڑا مدرسہ، حدیث و سنت تھا۔ جہاں علم، فقہ، علم، حدیث، علم قرآن، علم تفسیر کے چشمے بہتے تھے۔ صحابہ کرام تابعین عظام مختلف شہروں سے اطراف عالم سے سفر کرکے آپ سے اکتساب فیض کرتے۔ آپؓ کا فیض آج بھی امت کو جاری ہے۔ آج بھی عالم رئویا میں ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا حدیث کی اجازت فرماتیں ہیں حدیث کی سند حدیث کا سبق دیتی اور حدیث کا سبق سنتی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی کتب کی اجازت اور سند خود دیتی ہیں ۔ آج بھی آپ کا فیض امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم میں جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ طریق جاری رہے گا ۔
آپ نے حدیث میں روایت بالمعنی کا طریق اختیار نہیں اپنایا بلکہ روایت بالفظ پر تمسک کیا۔ ضبط الفاظ حدیث کا بڑی اہتمام کیا۔ امت کی سب بڑی فقیہ تھیں۔ کبار مجتہدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ صحابہ کرام کی طرف سے آپ سے فتویٰ طلب کیا جاتا احکام میں اجتہاد اور استنباط کرتیں، آپ نے بہت سے شاگرد چھوڑے جن میں عروہ بن زبیر ہیں جنہیں عالم المدینہ کا لقب دیا جاتا تھا یہ آپ کے بھانجے اور حضرت اسما بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں ۔ انہوں نے طویل عمر آپ کی صحبت میں رہ کر اخذ علم اور اکتساب فیض کیا اور مدینہ طیبہ کے سب سے بڑے عالم بنے۔ اس طرح آپ کے تلامذہ میں حضرت قاسم بن ابی بکر آپ کے بھتیجے ہیں جو اتنے بڑے زاہد اور اتنے بڑے صوفی زہد و ورع کے پیکر تھے کہ دور دراز سے تابعین چل کر آپ سے اکتساب فیض کے لیے تشریف لاتے ۔
آپ کے معمولات کو دیکھ کر دین سیکھتے ۔ یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر وہ ہستی آپ کے درس کے دوران جن کی مسجد نبوی میں مسند حدیث تھی اور مسجد نبوی بھری رہتی تھی ۔ طلبہ ان سے حدیث کا درس لیتے یہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فیض کے قاسم ہیں ۔ بعد ازاں ان کی مسند پر عبدالرحمن بن قاسم بن محمدبن ابی بکر بیٹھے ۔ انہوں نے علم حدیث کے چشمے بنائے ۔ یہی وہ نشست ہے جس پر بعد ازاں امام مالک بیٹھے ۔ آپ کے تلامذہ میں ان تابعین کے علاوہ سعید بن مسیب جیسی جلیل القدر ہستیاں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عامر حضرت مسروق بن اجداء بھی ہیں ۔ آپ سے حضرت عکرمہ نے بھی براہ راست اخذ علم اور اکتساب فیض کیا ۔
اسی طرح خواتین میں بھی بہت سی مفسرہ، محدثہ اور فقیہہ ہوئیں جن کے ذریعے آپ نے امت میں علم کے چشمے اور دریا بہائے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں میں امت میں کسی ایسی عالمہ،محدثہ، فقیہا، مفسرہ سے واقف نہیں ہوں جن کا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جتنا ہو ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے علم کا بہت سا حصہ یاد کرلیا اور 50 برس تک اس نبوی علم کی امانت امت کو پہنچاتی رہیں اور کثیر تعداد میں خلق نے آپ سے اخذ علم کیا اور استفادہ کیا ۔ اور دین کے احکام و اداب سیکھے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں شریعت کے کم و بیش ایک چوتھائی احکام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔ آپ سے استفادہ کرنے والے جلیل القدر تلامذہ کا عدد 88 ہے ۔ جیسے خلق کثیر کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ کہتی ہیں کہ آپ مرجع خاص و عام تھیں ہر شہر سے طالبان علم سفر کرکے آپ کی بارگاہ میں آتے ۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں کہاں ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چشمہ علم محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم تھیں ۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے علم کے دریا بہادیے ۔ کتب حدیث آپ کی مرویات سے معمور ہیں۔ نسلاً بعد نسل امت کے علماء، محدثین ، مجتہدین، فقہاء بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ سے فیض لیتے رہے۔ دین میں آپ کی خدمات کا یہ عالم ہے کہ آپ ام المومنین تو ہیں ہی مگر محسنہ المومنین بھی ہیں۔ علم کے باب میں پوری امت کی سرپرستی فرمانے والی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ سے اکتساب فیض کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے علم سے حاصل ہونے والے نور سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
عبادت و ریاضت میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بہت ہی اَرفع و اعلیٰ ہے ۔ آپ بکثرتِ فرائض کے علاوہ نوافل پڑھتیں اور اکثر روزہ دار رہتیں، ہر سال حج کرتیں ۔ آپ کے بھتیجے حضرتِ قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ بی بی عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بلا ناغہ تہجد کی نماز پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتیں ۔
(ازواج مطہرات)
خوفِ خداوندی اور خشیتِ ربانی کا یہ عالم کہ ایک بار دوزخ کی یاد آگئی تو رونا شروع کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا کہ مجھے دوزخ کا خیال آگیا اس لیے رو رہی ہوں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو شعروشاعری میں بھی بہت مہارت حاصل تھی - جب کوئی ضرورت درپیش ہوتی تو فی البدیہ اشعار میں گفتگو کرتی تھیں ۔
ام المومنین رضی اللہ عنہا کے یہ دو شعر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مدح میں مروی ہیں : ⬇
لوسمعوافی مصر اوصاف خدہ
لمابذلو فی سوم یوسف من نقد
لواحی زلیخالوراین حبیبۂ
لاثرن بالقطع القلوب علی الایدی
(زرقانی جلد سوم)
ماہ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ 57 یا 58 ہجری مطابق 13 جولائی 678 عیسوی چھیاسٹھ (66) سال کی عمر میں آپ کا وصال مدینہ منوّرہ میں ہوا طانا للہ و انا الیہ راجعون ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8،چشتی)
حضرت سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیّت کے مطابق رات میں آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں تدفین ہوئی ۔
ام المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ مبارکہ حُسن علم و ادب فضل وکمال ‘ ریاضت و روحانیت’ پیکرِ شرم و حیا ‘ مجسمۂ عفّت و عصمت ‘ سیرت و خصلت ‘ ذہانت و فطانت ‘ علم و ہنر کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا مجموعہ کمالات تھیں آپ کی ذاتِ مبارکہ خواتین کے لئے حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کا ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے جن کی زندگی کے آئینہ میں دنیا اور دین دونوں سنوارے جا سکتے ہیں ۔ حضرت ام المؤمنین کی سیرتِ مبارکہ سے ہماری ماں بہنوں کو اپنی زندگی سنوارنی چاہیے اور ہم سب کو زیادہ سے خراج عقیدت پیش کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ اقدس کا قرب حاصل کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment