منافقین کی پہچان حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے ۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ۔
ترجمہ : اور ضرور الله ایمان والوں کوظاہر کردے گا اور ضرور منافقوں کوظاہر کردے گا ۔ (سورہ العنکبوت آیت نمبر 11)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۔ (سورۃ البقرة آیت نمبر 14)
ترجمہ : اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں : یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔
اس آیت میں بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ و ائمہ اور بزرگانِ دین رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر ؟ نیز علماء و صلحاء اور دیندار لوگوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے ۔ نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں ۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو گالی گلوچ نہ کرو ، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، باب قول النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ : لو کنت متخذا خلیلاً، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)
اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء اللہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲،چشتی)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں ۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض یہودی (یعنی منافق) جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اصحاب سے ملاقات کرتے تو کہتے : ہم تمہارے دین پر ہیں ‘ اور جب اپنے اصحاب سے ملتے جو کافروں کے سردار تھے ‘ تو کہتے یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ ہم تو صرف مذاق کرتے ہیں ۔ (جامع البیان ج ١ ص ١٠١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
علامہ خازن اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں : روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ سامنے سے صحابہ کرام (رض) ان کی طرف آرہے ہیں ‘ اس نے اپنی قوم سے کہا : دیکھو میں ان بیوقوفوں کو کس طرح تم سے واپس کرتا ہوں ‘ اس نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو تیم کے سردار ! شیخ الاسلام ‘ غار میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رفیق ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت عمر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو عدی کے سردار ! فاروق ‘ دین میں قومی ‘ اپنی جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے رسول اللہ کے عم زاد ! آپ کے داماد ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سوا تمام بنو ہاشم کے سردار حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے ابی ! اللہ سے ڈر ‘ نفاق نہ کر ‘ منافق اللہ کی بدترین مخلوق ہیں ‘ عبداللہ بن ابی نے کہا : اے ابوالحسن ! ذرا ٹھہرئیے ‘ خدا کی قسم ! میں نے یہ باتیں از راہ نفاق نہیں کہیں ‘ ہمارا ایمان آپ ہی کی طرح ہے ‘ پھر صحابہ کرام (رض) کے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم نے دیکھا میں نے ان کو کیسے بیوقوف بنایا ! (معاذ اللہ) صحابہ کرام (رض) نے واپس آکر یہ واقعہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو سنایا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر خازن ج ١ ص ٣٠۔ ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ‘ پشاور،چشتی)
علامہ خفاجی نے اس روایت پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : اس حدیث کو واحدی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند بیان کر کے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے اور کہا : یہ سلسلۃ الذھب نہیں ہے بلکہ سلسلۃ الکذب ہے (یعنی جھوٹی سند ہے) اور اس حدیث کے موضوع ہونے آثار ظاہر ہیں ‘ کیونکہ محدثین کی تصحیح کے مطابق نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مدینہ آتے ہی شروع میں سورة بقرہ نازل ہوئی تھی اور ہجرت کے دوسرے سال میں حضرت علی (رض) کی حضرت سیدہ فاطمہ (رض) سے شادی ہوئی تھی ‘ اور اس حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت علی (رض) کو رسول اللہ کا داماد کہا : (عنایۃ القاضی جلد ١ صفحہ ٣٣٩‘ مطبوعہ دار صادر بیروت ١٣٨٣ ھ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جب یہ اپنے شیاطین سے خلوت میں ملتے ہیں۔ (البقرہ : ١٤)
علامہ ابو اللیث سمرقندی نے لکھا ہے کہ شیاطین سے مراد یہود کے پانچ قبیلے ہیں : کعب بن اشرف مدینہ میں ‘ ابوبردہ اسلمی بنو اسلم میں ‘ ابوالسوداء شام میں ‘ عبد الدار جہینہ میں سے اور عوف بن مالک بنواسد سے ‘ ابوعبیدہ نے کہا : ہر وہ شخص جو گمراہ اور سرکش ہو وہ شیطان ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ ان کے ساتھ استہزاء فرماتا ہے ۔ (البقرہ : ١٥)
اللہ تعالیٰ کے استہزاء کی توجیہ :
علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ قصدا مذاق کرنے کو استہزاء کہتے ہیں اور استہزاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو تو اس کا معنی استہزاء کی جزا دینا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ایک مدت تک مہلت دیتا ہے ‘ پھر اچانک ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ‘ اس کو استہزاء اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین اس دھوکے میں تھے کہ وہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کئے گئے اور ان سے مواخذہ نہیں کیا گیا لیکن حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے نفاق کا علم تھا اور آخرت میں ان کے ساتھ استہزاء کیا جائے گا ۔
حافظ جلال الدین سیوطی (رح) لکھتے ہیں : امام ابن المنذر (رح) نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا ہے کہ دوزخ میں دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ دوزخ سے نکلو اور دوزخ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ‘ جب وہ درزخ کے کھلے ہوئے دروازے دیکھیں گے تو وہ دوزخ سے نکلنے کے لیے بھاگیں گے اور مومن جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے اور جب کفار دروازوں کے قریب پہنچیں گے تو وہ دروازے بند ہوجائیں گے اور مومن ان پر ہنسیں گے۔ ١ (حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ ‘ درمنثور ج ١ ص ٣١‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران) جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون علی الارآئک ینظرون ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون ۔ (المطففین : ٣٦۔ ٣٤)
ترجمہ : تو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہیں وہ (عالی شان) تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کافروں کو ان کے کیے ہوئے کاموں کا کیا بدلہ ملا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے منافقین کے استہزاء کی جزاء (سزا) کو استہزاء صورۃ فرمایا ہے حقیقت میں یہ استہزاء نہیں ہے ‘ اس کی نظیر یہ آیت ہے : وجزؤا سیءۃ مثلھا ۔ (الشوری : ٤٠)
ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے ۔
حالانکہ برائی کا بدلہ حقیقت میں عدل و انصاف ہوتا ہے برائی نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا بدلہ صورۃ اسی کی مثل ہوتا ہے اس لیے اس کو برائی فرمایا ‘ اسی طرح منافقین کے استہزاء کا بدلہ حقیقۃ استہزاء نہیں صورۃ مماثل ہونے کی وجہ سے اس کو استہزاء فرمایا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ قَالَ : آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ۔ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے گا ۔ وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا اور امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے گا ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 33، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامةچشتی)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 59، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ : أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا : إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ۔
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے ، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے ۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 34)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 58)
قرآن و حدیث میں منافقین کی درج ذیل علامات مذکور ہیں : ⬇
دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا ۔
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا ۔
دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات ۔
یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں ۔
یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں ، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔
قلب و باطن کا بیمار ہونا
جھوٹ بولنا ۔
نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا ۔
دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا ۔
اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا ۔
کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد ۔
اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا ۔
اہل حق کے استہزاء کی نفسیات
مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا ۔
باطل کو حق پر ترجیح دینا
سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا
تنگ نظری ، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان ، حق سن نہ سکیں ، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں ، حق دیکھ نہ سکیں ۔
اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ۔
اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا ۔
مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا ۔
حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment