Sunday 17 April 2022

فضائل و مناقب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

0 comments
فضائل و مناقب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : تین (3) ہجری میں پندرہ (15) رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی ، آپ رضی اللہ عنہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پہلی اولاد ہیں ۔ قُرب ولادت کے وقت نبی کریم عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام ایمن اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو سیدہ عالم کی دیکھ بھال کےلیے مامور کیا ۔ انہوں نے آیت الکرسی اور تینوں معوذ پڑھ کر ان کو دم کیا ، بچے کی ولادت ہوئی تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتویں دن نومولود کے عقیقے کے موقع پردو دُنبے ذبح کئے اور اپنی پیاری بیٹی سے فرمایا کہ بچے کے سر کے بال اتروائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں ۔ جب آپ کا سر منڈا کر بالوں کا وزن کیا گیا تو یہ وزن ایک درہم کے برابر تھا۔ اتنی چاندی خیرات کی گئی ۔ دایہ کو دنبے کی ران اور ایک دینار دیا گیا ۔ سرمنڈانے کے بعد نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نومولود کے سر پر خوشبو ملی اور اسی دن آپ کا نام رکھا گیا اور ختنہ کیا گیا ۔ علاوہ ازیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی آپ کے کان میں اذان کہی تھی ۔ (ضیاء النبی ، مدارج النبوۃ ، سیرت حلبیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام سینہ سے سرتک نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں ۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3779،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں تھے اور وہ اپنی انگلیاں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک میں ڈال رہے تھے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں ڈالتے اور فرماتے : اللهم انی احبه فاحبه ۔
ترجمہ : اے اللہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر467)

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ بیٹے سے مراد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3773)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادۂ عالیہ کے ہر فرد کو اللہ تعالی نے فضائل وکمالات کا جامع بنایا اور بے شمار خصائص وکرامات سے بہرہ مند فرمایا ۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات اقدس سے خصوصی تعلق ہے،انہیں اہل بیت نبوت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور وہ صحابیت کے شرف سے بھی مشرف ہیں،اسی وابستگی وتعلق کے سبب اللہ تعالی نے انہیں حق وصداقت کا پیکر بنایا،وہ گفتار وکردار کے پاکیزہ ہیں اور ان کا ہر طریقۂ کار بے مثل وبے مثال اور امت کےلیے عمدہ نمونہ ہے،ان کی تابناک زندگی امت کے لئے مشعل راہ ہے۔

جنتی جوانوں کے سردار،امام المتقین ، سبط رسول،امام عالی مقام  سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا نام مبارک "حسن " اور کنیت شریفہ "ابو محمد" رضی اللہ تعالی عنہ ہے ۔

معجم کبیر طبرانی میں روایت ہے : عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , أَنَّهُ  سَمَّى ابْنَهُ الأَكْبَرَ حَمْزَةَ ، وَسَمَّى حُسَيْنًا جَعْفَرًا بِاسْمِ عَمِّهِ ، فَسَمَّاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے شہزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کانام مبارک حمزہ اور سید نا حسین رضی اللہ عنہ کا نام  مبارک ان کے چچا حضرت جعفر کے نام پر رکھا،پھر حضو راکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ان کا نام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا ۔ (معجم کبیر طبرانی ، حد یث نمبر:2713)

حسن اور حسین رضی اللہ عنہما یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء سے ہیں اور قبل اسلام عرب نے یہ دونوں نام نہ رکھے ۔

علامہ ابن حجر مکی ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق المحرقۃ صفحہ 115 ، میں روایت درج کی ہے : أخرج ابن سعد عن عمران بن سليمان قال : " الحسن والحسين " اسمان من أسماء أهل الجنة ، ما سمت العرب بهما في الجاهلية ۔ (الصواعق المحرقہ، ص:115- تاریخ الخلفاء،ج:1 ص:76)

 جب آپ  کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان کہی جیساکہ روایت ہے : عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ حِينَ وُلِدَا ۔ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر: 2515)

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ فرمایا : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ كَبْشًا كَبْشًا ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا ۔ (سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فى العقيقة ، ص:392، حدیث نمبر:2843،چشتی)(سنن نسائی کتاب العقيقة ، حدیث نمبر: 4230)(سنن بیہقی، حدیث نمبر:1900)

صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ  سے بڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں تھا -
وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى أَنَسٌ قَالَ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِىٍّ ۔ (صحیح بخاری شریف، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب الحسن والحسين رضى الله عنهما، حدیث نمبر:3752)

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما رشد و ہدایت کے علمبردار ہیں ، ان کا وجود باجود حقانیت کی واضح دلیل ہے ۔ نجران کے عیسائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے ان کا عقیدہ تھا کہ (نعوذ باللہ) حضرت عیسی علیہ السلام خدا اور خدا کے بیٹے ہیں ، انہوں نے بطور دلیل یہ بات پیش کی کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر والد کے پیدا ہوئے ہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت عیسی کا بغیر والد کے پیدا ہونا یہ قدرت الہی کی دلیل ہے ، اورحضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا ہے ۔ جس طرح آپ کا بغیر ماں باپ کے پیدا ہونا قدرت الہی کی دلیل ہے اسی طرح حضرت عیسی کا بغیر والد کے پیدا ہونا بھی قدرت الہی کی دلیل ہے۔آپ کے سمجھانے کے باوجود وہ بحث کرنے لگے تو آپ نے انہیں بحکم خدا مباہلہ کی دعوت دی ، ارشاد الہی ہے : فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ۔
ترجمہ : اے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! صحیح علم آنے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق) آپ سے بحث کریں تو آپ ان سے فرمادیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو ، اور ہم خود بھی آتے ہیں اور تم خود بھی آؤ،پھر ہم سب گڑگڑا کر دعائیں کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں ۔ (سورۃ آل عمران:61)

مباہلہ کےلیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میدان میں اس شان سے تشریف لائے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں ہیں اور امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی انگشت مبارک تھامے ہوئے ہیں،سیدۂ کائنات آپ کے پیچھے اور حضرت مولائے کائنات ان کے پیچھے ہیں،جب عیسائیوں کے پادری نے ان برگزیدہ حضرات کے چہروں کی نورانیت کو دیکھا تو پکار اٹھا:اے لوگو!میں ایسے نورانی چہروں کو دیکھ رہا ہوں،اگر یہ اللہ کے دربار میں معروضہ کریں کہ پہاڑ کو اس کے مقام سے ہٹادے تو اللہ تعالی ان کی دعا کے سبب ضرور پہاڑ کو اس کے مقام سے ہٹادے گا،ان سے مباہلہ نہ کرو!ورنہ تم سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے،اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں رہیگا،چنانچہ وہ مصالحت کرکے واپس ہوگئے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!اہل نجران پر عذاب بالکل قریب آچکا تھا،اگر وہ مقابلہ کرتے تو ان کے چہروں کو مسخ کردیا جاتا،وہ بندر اور بدجانور بنادئے جاتے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی سراپا معجزہ ہے،اسلام کی حقانیت کو پیش کرنے کے لئے صرف آپ کی ذات گرامی ہی کافی تھی لیکن آپ نے حضرات حسنین کریمین کو بحکم خدا اپنے ساتھ میدان میں اس لئے لایا تاکہ امت کو معلوم ہوجائے کہ یہ حق وصداقت کے پیکر ہیں اور ان کا وجود باجود حقانیت اسلام کی واضح دلیل ہے۔

مقام غور ہے کہ بچپن میں شہزادوں کا میدان میں تشریف لانا حق وصداقت کی دلیل ہے تو جب وہ داعئ حق اور مصلح امت کی حیثیت سے تحفظ اسلام اور پاسدارء شریعت کی خاطر میدان میں آئیں تو ان کے  اقدام کو کس طرح دنیوی اقدام کہا جا سکتا ہے ؟

معجم کبیر طبرانی ، جامع الاحادیث اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے : عَنْ فَاطِمَةَ بنتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذَانِ ابْنَاكَ فَوَرِّثْهُمَا شَيْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَهُ هَيْبَتِي وَسُؤْدُدِي، وَأَمَّا حُسَيْنٌ فَلَهُ جُرْأَتِي وَجُودِي ۔
ترجمہ : خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت  حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں ! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نےارشاد فرمایا : حسن' میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین' میری جرات و سخاوت کا ۔ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر:18474،چشتی)(جامع الاحادیث للسیوطی، مسانيد النساء، مسند فاطمة رضی اللہ تعالی عنہا  حدیث نمبر: 43493)(کنز العمال،باب فضل الحسنين رضي الله عنهما، حدیث نمبر:  37712)

صحیح بخاری شریف اور جامع ترمذی شریف وغیرہ میں حدیث مبارک ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر شریف پر رونق افروز ہوئے،آپ کے پہلو مبارک میں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ تھے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کبھی لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اور کبھی آپ کی طرف متوجہ ہوتے ، آپ نے ارشاد فرمایا:میرا یہ بیٹا سردار ہے،یقینا اللہ تعالی اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا ۔(صحیح بخاری شریف ،کتاب الصلح، حدیث نمبر:2704)(جامع ترمذی شریف ،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ تعالی عنہما ، حدیث نمبر: 4142)(سنن ابوداود،کتاب السنة،  باب ما يدل على ترك الكلام فى الفتنة. حدیث نمبر: 4664)(سنن نسائي کتاب الجمعة، باب مخاطبة الإمام رعيته وهو على المنبر. حدیث نمبر: 1421)

فَقَالَ الْحَسَنُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ إِلَى جَنْبِهِ ، وَهْوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ  إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ۔

انسان سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد احکام شریعت کا مکلف ہوتا ہے اور اس پر فرائض اسلام عائد ہوتے ہیں،پھر اعمال صالحہ کی قبولیت کے بعد جنت کا وعدہ ہے لیکن حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو یہ شرف واعزاز حاصل ہے کہ بچپن ہی میں انہیں نہ صرف جنت بلکہ جنت میں سرداری کی بشارت عطا کردی گئی ۔

امام طبرانی کی معجم اوسط اورکنزالعمال میں روایت ہے : لما استقر أهل الجنة قالت الجنة: يا رب أليس وعدتني أن تزينني بركنين من أركانك؟ قال: ألم أزينك بالحسن والحسين؟ فماست  الجنة ميسا كما يميس العروس ۔
ترجمہ : جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہونگے تو جنت معروضہ کرے گی پروردگار ! ازراہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو، دو ارکان سے مجھے آراستہ فرمائیگا ؟ تو رب العزت ارشاد فرمائیگا: کیا میں نے تجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہماسے مزین نہیں کیا؟ یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔(معجم اوسط طبرانی،حدیث نمبر:343،چشتی)(جامع الاحادیث للسیوطی، حدیث نمبر:1331)(الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر:1342)(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث نمبر:15096)(کنزالعمال، ج13ص:106،حدیث نمبر: 34290)

مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول الله صلى الله عليه وسلم : أن أول من يدخل الجنة أنا وفاطمة والحسن والحسين - قلت : يا رسول الله ، فمحبونا ؟ قال : من ورائكم - صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه ۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے بتایا کہ (آپ کے ساتھ) سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہم  ہوں گے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے ؟  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے پیچھے ہوں گے ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین،حدیث نمبر: 4706)

سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِى وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِى ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  سےروایت  ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما  سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا ۔ (سنن ابن ماجہ شریف، باب فضل الحسن والحسين ابنى على بن أبى طالب رضى الله عنهم. حدیث نمبر: 148،چشتی)

ایک مرتبہ حضرت امام حسن‘ امام حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم مدینہ شریف سے حج کے لئے مکہ شریف جارہے تھے اور راستہ میں ایک بڑھیا کا گھر تھا‘ یہ حضرات اس کے گھر گئے اور اُس سے فرمائے کہ کچھ پلاؤ‘ پھر وہ بڑھیا اُن سب حضرات کو بکری کا دودھ پلائی‘ اُن حضرات نے فرمایا‘ کیا کھانے کے لئے کچھ ہے؟ اُس بڑھیا نے عرض کیا: میرے پاس اس بکری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے‘ اس کو ذبح کیجئے اور تناول فرمائے‘ چنانچہ اس بکری کو ذبح کرکے پکایا گیا اور سبھوں نے کھایا‘ اس کے بعد اُن حضرات نے اس بڑھیا سے فرمایا: ہم قریش سے ہیں‘ تم مدینہ منورہ آنا ہم کچھ دیں گے۔ یہ حضرات تو چلے گئے‘ اس بڑھیا کا خاوند آیا اور کہا کہ تو نے بکری ایسے اجنبیوں کو دے دی‘ نہیں معلوم وہ کون تھے ؟
ایک زمانہ کے بعد وہ بڑھیا اور اُس کا خاوند محتاج ہوکر مدینہ منورہ آئے اور محنت و مزدوری سے گزر کرنے لگے‘ اتفاقاً اس بڑھیا کا گزر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گھر پر سے ہوا‘ اس بڑھیا نے نہیں پہچانا ‘ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اُس کو پہچان کر فرمایا: اے بڑھیا ! کیا تو مجھے جانتی ہے؟ اُس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تیرا فلاں مہمان ہوں کہ جس کو تو نے دودھ اور بکری کے گوشت سے ضیافت کی تھی‘ پھر آپ نے اُس کو ایک ہزار بکری اور ایک ہزار اشرفی دے کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی ایک ہزار بکری اور ایک ہزار اشرفی دے کر حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، انہوں نے بھی دو ہزار اشرفیاں اور دو ہزار بکریاں اُس بڑھیا کو دئے‘ بڑھیا چار ہزار بکریاں اور چار ہزار اشرفیاں لے کر دولت مند ہوکر خاوند کے پاس آئی ۔ (شہادت نامہ حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ صفحہ 19)

ایک بچہ کو دیکھا گیا کہ وہ مکہ معظمہ کے حرم میں ریت پر سر ملتے اور روتے جاتے تھے‘  شوقِ الٰہی میں بے سُدھ تھے‘ نزدیک آکر جب لوگوں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہیں‘ انہوں نے کہا : تمہارے نانا شافع محشر‘ تمہارے والد عالی مقام‘ تمہاری ماں فاطمہ‘ تم کو کیا ڈر ہے ؟

آپ نے فرمایا : یہ دربار ماں باپ کی بزرگی پر ناز کرنے کی جگہ نہیں ہے‘ یہاں تو فضل کا امیدوار رہنا چاہیے ۔ (شہادت نامہ حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ صفحہ 91)

چھٹی صدی ہجری کے مشہور محدث امام ابوالقاسم علی بن حسن معروف بہ ابن عساکررحمۃ اللہ علیہ (متوفی 571ھ؁) نے جلیل القدر تابعی حضرت اعمش رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی : عن الا عمش قال خری رجل علی قبر الحسن فجن فجعل ینبح کما تنبح الکلاب قال فمات فسمع من قبرہ یعوی ویصیح ۔
ترجمہ : حضرت اعمش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ آپ نے فرمایا کہ ایک بدبخت شخص نے سید نا امام حسن رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر بدبختی سے بول وبراز کیا تو وہ اسی وقت پاگل اور مجنون ہوگیا اور مرتے دم تک کتوں کی طرح بھونکتا رہا ، پھر مرنے کے بعداس کی قبرسے بھیانک آواز سے کُتا بھونکنے کی آواز سنائی دیتی ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ،ج 13، صفحہ 305 الحسن بن علی،چشتی)(جامع کرامات الاولیاء ،ج1،ص 131)

اس کرامت کو حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1350؁ھ) جو ملک شام کے بلند پایہ عالم گزرے ہیں،نے اپنی کتاب ’’جامع کرامات الاولیاء‘‘میں کتاب طبقات مناوی اور ابو نعیم سے نقل فرمایا ہے ۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے محبوب ومقرب بندوںکی بے ادبی کی جائے تو ایسی سزاد ی جاتی ہے جس کو اہل زمانہ،زمانۂ دراز تک یاد رکھتے ہیں، جب اس بدبخت شخص نے مزارِمبارک کی بے حرمتی کی تو اللہ تعالی نے اُس کی عقل سلب کردی اور جنون کی بیماری میں مبتلا کردیا‘ اس لئے کہ اس نے اپنی عقل کو استعمال کرنے کے بجائے بدبختی کا مظاہرہ کیا اور مزارِاقدس کی بے حرمتی کی ، اس شخص کا جنون عام مجنونوں جیسا نہیں تھا ، اللہ تعالی کو یہ منظور تھا کہ اس کی خوب ذلت ورسوائی ہو، اس لئے عام پاگلوں کے برخلاف وہ کتوں کی طرح بھونکنے لگا ، جب تک دنیا میں زندہ رہا اسی فضیحت وذلت کی زندگی بسر کرتا رہا اور جب مرگیا تو اس کی قبر سے کتے کے بھونکنے کی آواز آیا کرتی تھی ۔

یہ واقعہ امت مسلمہ کےلیے بڑی عبرت کا باعث اور نصیحت کا ذریعہ ہے ، اللہ تعالی سب کو ادب واحترام ملحوظ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

نویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ حضرت نور الدین عبدالرحمن بن احمد جامی خراسانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 898ھ؁) نے اپنی کتاب ’’شواھدالنبوۃ ‘‘میں لکھا ہے : سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ پیدل تشریف لے جارہے تھے تو آپ کے قدم مبارک میں ورم آگیا، آپ کے غلام نے عرض کیا کہ آپ کسی سواری پرسوار ہوجائیں تاکہ قدموں کی سوجن کم ہو ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے غلام کی درخواست قبول نہ فرمائی اور فرمایا :جب اپنی منزل پر پہنچوتو تمہیں ایک حبشی ملے گا، اس سے تیل خرید لو! آپ کے غلام نے کہا :ہم نے کسی بھی جگہ کوئی دوا‘نہ پائی اور جب اپنی منزل پر پہنچے تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ وہی غلام ہے جس کے بارے میں تم سے کہاگیا ، جاؤ!اس سے تیل خریدواور قیمت اداکردو! غلام جب تیل خرید نے کے لئے حبشی کے پاس گیا اور تیل پوچھا تو حبشی نے کہا :کس کیلئے خرید رہے ہو؟ غلام نے کہا :حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کےلیے ، تو حبشی نے کہا : مجھے آپ کے پاس لے چلو! میں آپ کا غلام ہوں ، جب حبشی حضرت کے پاس آیا تو عرض کیا : میں آپ کا غلام ہوں ، آپ سے تیل کی قیمت نہیں لوںگا ؟بس میری بیوی کیلئے دعا فرمائیے ! وہ دردِزِہْ میں مبتلاہے اوردعا فرمائیے کہ اللہ تعالی صحیح الاعضاء بچہ عطافرمائے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:گھر جاؤ!اللہ تعالی تمہیں ویسا ہی بچہ عطا فرمائے گا جیسا تم چاہتے ہو‘ او روہ ہمارا پیروکار رہے گا، حبشی گھر پہنچا توگھرکی حالت ویسی ہی پائی جیسی اس نے امام حسن رضی اللہ عنہ سے سنی تھی ۔(شواھد النبوۃمترجم،ص302)

اس واقعہ میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی دوکرامات مذکور ہیں : ⬇

پہلی کرامت : آپ نے پہلے ہی بتایا کہ پیروں کا ورم کم ہونے کی دوا کہا ں اور کس کے پاس ملے گی ۔

دوسری کرامت : آپ نے یہ بیان فرمایا کہ حبشی کو خواہش کے مطابق صحیح وسالم لڑکا ہوگا اور وہ لڑکا اہل بیت کرام کاتابعدارو فرمانبردار ہوگا ۔

حضرت نور الدین عبدالرحمن بن احمد جامی خراسانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 898ھ؁)نے ’’شواہد النبوۃ ‘‘میں لکھا ہے : حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ ایک دن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے کسی صاحبزادہ کے ساتھ سفر میں تھے،ایک خشک باغ میں کچھ دیر کےلیے قیام فرماہوئے ۔

حضرت ابن زبیر نے کہا:کاش اس باغ میں کچھ تروتازہ کھجور ہوتے تو ہم کھاتے ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تازہ کھجور کھانا چاہتے ہو ؟ حضرت ابن زبیر نے کہا : ہاں! حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ دعاء کےلئیے ہاتھ اٹھاکر کچھ تلاوت فرمائے، اچانک کھجور کا ایک درخت ظاہر ہوا اور اس کو تازہ کھجور لگ گئے ، حضرت ابن زبیر کے ایک ساتھی نے کہا :یہ تو جادو ہے ، سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرما یا : یہ جادو نہیں بلکہ اس دعاکا اثر ہے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے نے کی تھی ، پھر لوگوں نے اس درخت پر چڑھ کر تازہ کھجور توڑے جن سے تمام لوگ شکم سیر ہوئے۔(شواھدالنبوۃمترجم، صفحہ 302،چشتی)(شہادت نامہ، مؤلفہ حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ، صفحہ 93)

پانچویں صدی ہجری کے مشہور مالکی فقیہ حضرت ابو عمر یوسف بن عبداللہ معروف بہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 463؁ھ) نے اپنی کتاب’’ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘ میں روایت بیان کی ہے :  عن عمیر بن إسحاق قال کنا عند الحسن بن علی فدخل المخرج ثم خرج فقال لقد سقیت السم مراراً وما سقیتہ مثل ہذہ المرۃ لقد لفظت طائفۃ من کبدی فرأیتنی أقلبہا بعود معی فقال لہ الحسین یا أخی من سقاک قال وما ترید إلیہ أترید أن تقتلہ قال نعم قال لئن کان الذی أظن فاللہ أشد نقمۃ ولئن کان غیرہ ما أحب أن تقتل بی بریئاً ۔
ترجمہ : حضرت عمیر بن اسحق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ‘آپ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھے ،آپ حمام میںگئے پھر تشریف لاکرفرمایا:  مجھے کئی باردھوکہ سے زہر پلایا گیا مگر اس بارکی طرح شدید نہیں ،اس کا اثر ہے کہ میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا تھو کا ہے، حیرت میں لکڑی سے اس کو الٹاتا،پلٹاتا رہا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :بھائی جان!آپ کو کس نے زہر دیا؟ امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آپ کیا چاہتے ہیں؟کیااُسے قتل کردوگے ؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا:  ہاں!آپ نے فرمایا:میں جس کو مجرم سمجھتاہوں اگر وہی ہے تو اللہ تعالی بہت سخت سزادینے والاہے،اور اگر کوئی دوسرا شخص ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے بے گناہ کو سزادی جائے۔
 (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، باب الافراد فی الحاء ، الحسن بن علی)

مذکورہ واقعہ اسی کتاب میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔

ائمہ دین کے پاس یہ امرمسلَّم ہے کہ اللہ تعالی نے کرامات اولیاء کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا مظہر بنایا ہے ، ہرایک ولی کی کرامت فیضان نبوت کا اثر ہے ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو متعدد بار زہر دیا گیا مگر اس کا اثر ظاہر نہ ہوا ، آپ کی یہ کرامت ا س معجزہ کے فیضان سے ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو یہودی عورت نے گوشت میں زہر کھلایا تھا مگر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر نہ ہوا۔

امام ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 430؁ھ)نے اپنی کتاب ’’دلائل النبوۃ ‘‘میں لکھا ہے : عن ابی ہریرۃ قال:کان الحسن عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی لیلۃ ظلماء وکان یحبہ حبا شدیدا فقال : اذہب إلی أمی فقلت : أذہب یا رسول اللہ ؟ قال : فجاء ت برقۃ من السماء فمشی فی ضوئہا حتی بلغ إلی أمہ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ آپ نے فرمایا : ایک وقت اندھیری رات میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے، امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اپنی والدہ محترمہ کے پاس جانا چاہتا ہوں ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عرض کیا :میں ان کے ساتھ جاؤں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ اتنے میں آسمان سے ایک نورظاہر ہوا جس کی روشنی میں چلتے ہوئے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ والدہ محترمہ کے پاس پہنچ گئے ۔ (دلائل النبوۃ للاصفھانی،باب ذکراضاء ۃ العصا،حدیث نمبر:487،چشتی)

تاریک رات میں آسمان سے روشنی کا ظاہر ہونا اور اس روشنی میں چلنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے امام حسن رضی اللہ عنہ کی کرامت ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔