Thursday, 14 April 2022

علمائے سو اور علمائے حق

علمائے سو اور علمائے حق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : علمائے سو کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ۔ (سور آل عمران: ۱۸۷)
ترجمہ : جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کروگے اور جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے اسے نہیں چھپاٶ گے ۔ انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت وصول کرلی ۔ یہ ان کی بہت ہی بری خریداری ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرما یا : علم اس لیے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعے علما پر فخر کرو گے، جاہلوں سے جھگڑا کروگے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرو گے ۔ جو ایسا کرے گا وہ آگ میں جائے گا ۔ (سنن ابن ماجہ)

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : عالم (سو) کو سخت عذاب دیا جائے گا ، اس کے عذاب کی سختی کو بڑی سمجھتے ہوئے جہنمی اس کے پاس آئیں گے اور پو چھیں گے تم تو کل اچھی باتیں بتاتے تھے آج تمہارا یہ حال کیسا ہے ؟ وہ کہے گا : میں بھلائی کا حکم دیتا تھا مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا، برائی سے روکتا تھا لیکن خود برائی میں ملوث رہتا تھا ۔ (صحیح مسلم)

ہمیں چاہیے کہ علم دین حاصل کر کے اس پر عمل کریں ، پھر دوسروں کو عمل کی تلقین کریں ۔

علمائے سو کی پہچان

احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں علمائے سو کی مختلف نشانیاں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں سے چند علامتیں پیشِ خدمت ہیں ، رب کریم اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمارا حشر علمائے ربانیین کے ساتھ فرمائے ۔

قال النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : من تعلم العلم ليباهي به العلماء، أو يماري به السفهاء، أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله جهنم ۔ رواه ابن ماجه ۔
 ترجمہ : جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا ، تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے ، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کرے گا ۔

قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : العلم علمان فعلم باطن في القلب فذاك هو النافع وعلم ظاهر على اللسان فذلك حجة الله على خلقه۔ رواه الديلمي في مسند الفردوس من طريق أبي نعيم ۔
ترجمہ : نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم دو طرح کا ہے ایک علم باطن جو دل میں ہوتا ہے ( ایسا علم جس پر عامل ہو اور وہ اس قلب پر اثر انداز ہو) اور وہی نافع ہے، دوسرا علم ظاہر (جو بغیر عمل کے ہو) جو زبان پر ہوتا ہے، وہ لوگوں پر اللہ کی حجت ہے ۔

عن الأحوص بن حكيم، عن أبيه، قال: سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن الشر. فقال : لا تسألوني عن الشر، وسلوني عن الخير، يقولها ثلاثاً، ثم قال: ألا إن شر الشر شرار العلماء، وإن خير الخير خيار العلماء ۔ رواه الدارمي ۔
ترجمہ : احوص بن حکیم نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو ۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا خبردار ! بدترین شر علماء کا شر ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ کی بھلائی علماء کی خیر ہے ۔

علمائے سُوء کی ایک پہچان دنیا داری بھی ہے ، جس کے سبب اُن کے دل و دماغ سے علم کا نور اٹھ جاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں وہ خشیت الٰہی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ بعض علماء ایسے ہیں جنہوں نے اپنے علم سے دنیا کی زیب و زینت کے حصول کو بنیادی مقصد بنا رکھا ہے ، جبکہ بعض ایسے شدید ترین دنیادار ہیں جو مقبول انام بننے کےلیے اور قوم پر اپنی حاکمیت مسلط کرنے کےلیے اپنی باتوں کو دین بنا پیش کرتے ہیں ، جبکہ اپنے مخالفین یا جن کی آراء ان سے متصادم ہوتی ہیں یا جو ان کے مقاصد کے حصول میں سپر ہوتے ہیں ، ان پر بلا تحقیق فسق و فجور ، گمرہی و تذبذب حتی کہ ارتداد تک کا حکم لگانے میں دریغ نہیں کرتے ۔ العیاذ باللہ ۔

ارباب علم و دانش پر مخفی نہیں کہ نور اور تاریکی برابر نہیں ۔ (سورہ الفاطر: آیت 21) اور نا ہی اہل علم اورغیر عالم برابر ہیں ۔ (سورہ الزمر: آیت09) اس لیے ہم یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ" نور علم "کے بغیر ہم میں کا کوئی بھی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا یہان تک کہ وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے بصورت دیگر ہماری حالت اس شخص کی طرح ہو گی جو صحرا میں ریت کو پانی کا چشمہ سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ" العطش العطش" کا نعرہ لگاتے لگاتے ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے ۔ (سورہ النور :آیت 39)

محسن انسانیت اور مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت پر حد درجہ مہربان اور رحیم اور بھلا چاہنے والے ہیں ۔ (سورہ التوبہ: آیت 128)
اسی لیے دیگر احکام دینیہ و دنیویہ کی طرح قرب قیامت ہونے والے نت نئے فتنوں سے چودہ سو سال پہلے ہی اپنی امت کو روشناس کرایا ۔ جیسا کہ حضرت حُذَيْفَةَ رضی الله عنه سےمروی ہے آپ کہتے ہیں , قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مَقَامًا,مَا تَرَکَ شَيْئًا یَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ اِلَّا حَدَّثَ بِهِ الی آخرالحدیث ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر الله قدرًا مقدورًا، 6 / 2435، الرقم : 6230،چشتی)(مسلم في الصحیح، کتاب : الفتن وأشراط الساعۃ، باب : إخبار النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم في ما یکون إلی قیام الساعۃ، 4 / 2217، الرقم : 2891)
ترجمہ : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر ہم سے خطاب فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان نہ فرما دی ہو ۔ الی آخر الحدیث متفق علیہ ہے ۔

حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں : قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْئِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَھْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَھُمْ وَأَھْلُ النَّارِ مَنَازِلَھُمْ۔ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِیَهُ مَنْ نَسِیَهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول الله تعالی وھو الذي یبدأ الخلق ثم یعیده وھو أھون علیه، 3 / 1166، الرقم : 3020،چشتی)
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ الی آخر الحدیث ۔

ان اخبار و واقعات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علمائے حق اور علمائے سوء (جو علمائے حق کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ان) کی نشاندہی فرمائی , بلاشبہ امت مسلمہ میں چودہ سوسالہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے برگشتہ ہونے اور امت میں افتراق و انتشار کا فریضہ انجام دینے والے , اپنی بد عملی کو اسلام کا حصہ گرداننے والے علماء سو ہیں جو فہم قرآن و سنت سے عاری ہونے کے باوجود اپنی مرضی کے مطابق قرآن و احادیث کی من مانی تاویل پیش کرتے رہنا اور اسی کو عین اسلام تصور کرتے رہنا ان کا خاص اور نمایاں وصف اظہر من الشمس ہے ۔ اس لیے ذیل میں علمائے سوء (برے) کی عادات و اطوار , علامات اور کیا وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ اور ان سے امت کو لاحق خطرات کیا ہیں ؟اور کیسے علمائے حق کی شناخت کرکے ان سے استفادہ حاصل کیا جائے ؟ بغیر کسی تبصرے کے ان کےمتعلق چند احادیثِ مبارکہ پیش کی جارہی ہیں : ⬇

قَالَ ابوذر كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا " مجھے میری امت کے لئے دجال کےعلاوہ (ایک اور چیز کا)خوف ہے" آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ " ۔
(سنن ابن ماجہ باب : ما يكون من الفتن باب(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان, قدر تفصیلی روایت کچھ اس طرح مرقوم ہے : ⬇
عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال:‏‏‏‏"زويت لي الارض حتى رايت مشارقها ومغاربها ، واعطيت الكنزين الاصفر او الاحمر ، والابيض يعني:‏‏‏‏ الذهب والفضة ، وقيل لي:‏‏‏‏ إن ملكك إلى حيث زوي لك ، وإني سالت الله عز وجل ثلاثا:‏‏‏‏ ان لا يسلط على امتي جوعا فيهلكهم به عامة ، وان لا يلبسهم شيعا ويذيق بعضهم باس بعض ، وإنه قيل لي إذا قضيت قضاء فلا مرد له ، وإني لن اسلط على امتك جوعا فيهلكهم فيه ، ولن اجمع عليهم من بين اقطارها حتى يفني بعضهم بعضا ويقتل بعضهم بعضا ، وإذا وضع السيف في امتي فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة ۔ "وإن مما اتخوف على امتي "ائمة مضلين" ، وستعبد قبائل من امتي الاوثان"وستلحق قبائل من امتي بالمشركين ، وإن بين يدي الساعة دجالين كذابين قريبا من ثلاثين ، كلهم يزعم انه نبي ، ولن تزال طائفة من امتي على الحق منصورين لا يضرهم من خالفهم ، حتى ياتي امر الله عز وجل"، قال ابو الحسن:‏‏‏‏ لما فرغ ابو عبد الله من هذا الحديث ، قال:‏‏‏‏ ما اهوله ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ”میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا ، (واضح رہے کہ اسی وجہ سے اسلام پورب میں ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم میں اندلس تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا وہ فروغ نہیں ہوا) ۔ پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ (سونا) اور سفید (چاندی) بھی مجھے دیے گئے اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری امت کی حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے ، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا : پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کرے تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑائے، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں( باہم) تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی ، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف "گمراہ ائمہ" کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے ، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ (علماء حق ) ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کوئی ضرر و نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آجائے ۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں : جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا : یہ حدیث کتنی ہولناک ہے ۔ (صحیح مسلم/الإمارة ۵۳ (۱۹۲۰)، الفتن ۵ (۲۸۸۹) إلی قولہ : ''بعضھم بعضاً'' مع فقرة الطائفة المنصورة)(سنن ابی داود/الفتن ۱ (۴۲۵۲)،چشتی)(سنن الترمذی/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)،(تحفة الأشراف : ۲۱۰۰)(وقد أخرجہ : مسند احمد (۵/۲۷۸، ۲۸۴)(سنن الدارمی/المقدمة ۲۲ (۲۰۵)
أبوداود(4252)(والترمذي (2229)(سنن أبي داود)

اب سوال یہ ہے کہ حدیث میں "گمراہ ائمہ" سے مراد کون لوگ ہیں ؟
وقال النووي رحمه الله في " شرح مسلم " (18/64) : والمقصود بالأئمة المضلين : الأئمة المتبوعون الذين يضلون الناس عن سبيل الله ، فيدخل في ذلك : الحكام الفسدة ، والعلماء الفجرة ، والعُبَّاد الجهلة وكما وجد في أهل الكتاب علماء فجرة يصدون الناس عن سبيل الله ويضلونهم كما قال تعالى : ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيراً مِنْ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ) التوبة/34 ، فقد وجد من هذه الأمة من العلماء والعباد من كان مثل علماء وعباد أهل الكتاب ۔
قال سفيان بن عيينة رحمه الله : كَانُوا يَقُولُونَ : مَنْ فَسَدَ مِنْ عُلَمَائِنَا فَفِيهِ شَبَهٌ مِنْ الْيَهُودِ ، وَمَنْ فَسَدَ مِنْ عُبَّادِنَا فَفِيهِ شَبَهٌ مِنْ النَّصَارَى . وقال غير واحد من السلف : احْذَرُوا فِتْنَةَ الْعَالِمِ الْفَاجِرِ وَالْعَابِدِ الْجَاهِلِ ، فَإِنَّ فِتْنَتَهُمَا فِتْنَةٌ لِكُلِّ مَفْتُونٍ" انتهى من " مجموع الفتاوى " لابن تيمية (1/197) .
وقال السندي في " حاشية ابن ماجة " (2/465) : (أئمة مضلين) أي : داعين الخلق إلى البدع " انتهى ۔
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : (الأئمة المضلين) أئمة الشر ، وصدق النبي صلى الله عليه وسلم ، إن أعظم ما يخاف على الأمة الأئمة المضلون ، كرؤساء الجهمية والمعتزلة وغيرهم الذين تفرقت الأمة بسببهم ۔
والمراد بقوله : ( الأئمة المضلين ) : الذين يقودون الناس باسم الشرع ، والذين يأخذون الناس بالقهر والسلطان ، فيشمل الحكام الفاسدين ، والعلماء المضلين ، الذين يدعون أن ما هم عليه شرع الله ، وهم أشد الناس عداوة له " انتهى من " القول المفيد على كتاب التوحيد " (1/365) ۔ علامہ نوی نے شرح صحیح مسلم میں کہا " وہ پیشوا مراد ہیں جن کی اتباع کی جاتی ہےاور لوگوں کو راہ حق سے گم راہ کرتے ہیں تو اس میں بدکارحکمران ,علماء سو,اور جاہل عبادت گزار سبھی شامل ہیں جیسا کہ کتاب اللہ میں زیر آیت اِ"نَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ " میں علماء سوء کا تذکرہ موجود ہےکہ لوگون کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور انہیں گم راہ کرتے ہیں ہے ۔ (سورہ التوبۃ آیت 34) اس آیت اور ماقبل حدیث کے پس منظر میں سفیان بن عیینہ کہتے ہیں ہماری امت کے "علماء سوء "یہود کے احبارکے مثل ہیں اور ہمارے جاھل عبادت گزار نصاری کے راہب کی طرح ہیں (کیون کہ ایک میں بدعملی تو دوسرے میں جہالت اس لیے دونوں ہی خطرہ ہیں ) , اور بعض لوگوں نے کہا علمائے سو اور جاھل عبادت گزار کے فتنے سے بچو کیوں کہ ان دونوں کا فتنہ تمام فتنوں کا سرچشمہ ہے ۔ سندی نے حاشیہ ابن ماجہ میں کہا کہ ائمہ ضالین سے مراد (خلاف شرع) بدعت کو رواج دینے والے علماء ہیں , شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں ائمہ ضالین سے مراد وہ فرقہ جہمیہ اور معتزلہ کے سردار ہیں (یاوہ) جن کی وجہ سے امت میں اختلاف پیدا ہوا وغیرہ " ماقبل مذکورہ اقوال کی متابعت میں راقم الحروف کہتا ہے دور حاضر میں اہل سنت و جماعت کے علاوہ سبھی نومولود فرقے , فرق ضالہ , مضلہ اور ناریہ ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے خاطر ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ منتشر کر دیا اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بے ادبیاں کیں بلا شبہ ان کے کفریہ عقائد و نظریات جو ان کی کتابوں میں مرقوم ہیں اس سے آج امت افتراق و انتشار کا شکار اور پریشان ہے ۔ بقول اقبال" خداوندا یہ تیرے سادے دل بندے کدھر جائیں" ۔ (حدوث الفتن فی جہاد اعیان السنن از علامہ محمد احمد مصباحی)(برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب از مولانا مبارک حسین مصباحی)

اب رہا یہ کہ علماءسوء کیسے گمراہ ہوئے اور لوگوں کو کیسے گمراہ کریں گے ؟ تو حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما سےمروی ہے وہ کہتے ہیں ۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نےفرمایا ۔ "إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يُبْقِ عالمًا اتَّخذ الناس رؤوسًا جهالاً، فسُئِلوا فأفتوا بغير علم؛ فضلوا وأضلوا, متفق عليه ۔ (صحیح البخاری, کتاب العلم باب کیف یقبض العلم،چشتی)
ترجمہ : اللہ تعالی جب علم کو اٹھائے گا تو اس کاطریقہ یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں کے اوراپنے بندوں کے سینے سے علم کھینچ لے بلکہ اللہ علماء کو روئے زمین سے اٹھالے گا۔اس طرح علم بھی اٹھ جائے گا یہاں تک کہ جب عالم زمین پر باقی نہیں بچے گا تولوگ جاہلوں ٕکواپنا سردار بنالیں گےاور انہیں سے مسا ئل (شرعیہ) دریافت کریں گے۔تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے..... اور جب علم اٹھتا جائے گا تو نیکی کی دعوت ختم ہوتی جائے گی اور برے اعمال کا فروغ ہوگا اور اسی کو لوگ دین اسلام سمجھ بیٹھیں گےجیسا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين ۔
ترجمہ : کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (خلاف شرع کام) اسطرح گھیر لے گا کہ ایک جوان اس کے ساتھ (اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہو جائےگا ، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اسے بطور سنّت لیں گے توجب کبھی بھی اس (غیرشرعی کام) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دیں گے، تو کہا جائے گا : " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا ؟ انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے پوچھا : " ایسا کب ہوگا ؟ " آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہوں گے ، قراءت کرنے والے کثرت میں ہوں گے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہوں گے، تمہارے سردار کثرت میں ہوں گے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کریں گے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا ۔ (المستدرك على الصحيحين کتاب الفتن والملاحم,3542 - ذكر فتنة يهرم فيها الكبير ، ويربو فيها الصغير،چشتی)
عن الزبير بن عدي، قال: اتينا انس بن مالك، فشكونا إليه مانلقى من الحجاج ،فقال :" اصبروا، فإنه لا ياتي عليكم زمان إلا الذي بعده شر منه حتى تلقوا ربكم، سمعته من نبيكم صلى الله عليه وسلم".
زبیر بن عدی نے بیان کیا کہ، ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حجاج (بن یوسف) کے طرز عمل کی شکایت کی، انہوں نے کہا کہ صبر کرو کیونکہ تم پر جو دور بھی آتا ہے تو اس کے بعد آنے والا دور اس سے بھی برا ہو گا یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ میں نے یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ (صحیح البخاری كِتَاب الْفِتَنِ بَابُ لاَ يَأْتِي زَمَانٌ إِلاَّ الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ) : عن زید بن وھب سمعت عبد الله بن مسعود يقول : لا يأتي عليكم يوم إلا وهو شر من اليوم الذي كان قبله حتى تقوم الساعة ، لست أعني رخاء من العيش يصيبه ولا مالا يفيده ولكن لا يأتي عليكم يوم وإلا وهو أقل علما من اليوم الذي مضى قبله ، فإذا ذهب العلماء استوى الناس فلا يأمرون بالمعروف ولا ينهون عن المنكر فعند ذلك يهلكون ۔
ترجمہ : قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بدتر معاملات نہیں ہیں بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہےجب علماء فوت ہو جائیں گے اور لوگ برابر ہوجائیں گے,وہ نہ برائی سے روکیں گے اور نہ نیکی کی طرف بلائیں گے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جائےگی ۔ (سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)،چشتی)(الخطیب (٤٥٦/١) ؛ فتح الباری (٢٦/١٣))
وعن طريق الشعبي عن مسروق عنه قال : لا يأتي عليكم زمان إلا وهو أشر مما كان قبله أما إني لا أعني أميرا خيرا من أمير ولا عاما خيرا من عام ولكن علماؤكم وفقهاؤكم يذهبون ثم لا تجدون منهم خلفا ، ويجيء قوم يفتون برأيهم " "بطریق شعبی حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تم پرایک زمانہ آئے گا اور وہ پہلے والے سے بھی بدتر ہوگا میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں ایک سردار دوسرے سردار سے بہتر ہوگا اور ایک عام آدمی دوسرے عام آدمی سے بہتر ہوگا بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تمہارے فقہاء کرام تم سے رخصت ہوجائیں گے اور تم ان کا نائب نہیں پاوگے اوران کی جگہ ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن وحدیث سے (ہٹ کر اپنی رائے کے ذریعے) فتوی دیں گے " ۔

سیدنا عمر بن الخطاب نے زیاد بن حدیر رضی اللہ عنہ سے کہا : عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ» ۔
کیا آپ جانتے ہیں اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں, انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کی غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔(الگ سے عالم اور ائمہ کا ذکر بتاتا ہے کہ ائمہ سے مراد کوئی بھی حاکم اور ذمہ دارہے ۔ (مشكوةألمصابیح 89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717،چشتی)(الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536، تلبيس الجهميا 4/191)

عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔
"المُستظل بن حُصین سے روایت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ربِّ کعبہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ عرب ( سےاسلام)کب ختم ہو گا ,جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے (اور نہ ہی وہ لوگ (والی ہونگے) جنہیں معلوم ہوکہ جہالت کیا چیز ہے "۔ (جاہل لوگ دین وملت کے سربراہ بنیں گے) ۔ (مصنف ابن أبي شيبہ 6/410، طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم حلیه7/243، الحارس بن مسكين, البدايۃ وا لنہایۃ11/650)

عن شبيب بن غرقدة عن المستظل بن حصين البارقي قال خطبنا عمر بن الخطاب فقال: قد علمتُ وربِّ الكعبة متى تهلك العرب. فقام إليه رجلٌ من المسلمين فقال: متى يهلكون يا أمير المؤمنين؟ قال: حين يسوس أمرَهم من لم يعالج أمر الجاهلية ولم يصحب الرسول صلى الله عليه وسلم ۔
مستظل بن حصین البارقی نے کہا کہ عمر بن خطاب نے ہم میں خطاب کیااور فرمایا ربِّ کعبہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ عرب ( سےاسلام)کب ختم ہو گا توایک مسلمان مرد نے کہا وہ لوگ کب ہلاک ہونگے( عرب سے اسلام کب ختم ہو گا) اے امیر المومنین؟ فرمایا جس وقت ان کے معاملات میں وہ شخص سرداری کرےگا جو امورجہالت کامعالج نہیں(ناواقف, جاہل) ہوگا اورجب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے "۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف,(6/ 410) وابن سعد في الطبقات (6/ 129) والحاكم في المستدرك (4/ 475) والبيهقي في الشعب (6/ 69) وأبو نعيم في الحلية (7/ 243) والحارث بن مسكين (البداية والنهاية 11/ 650) كلهم من طريق،چشتی)

اب سوال یہ ہے کہ علمائے سو کی علامات اور شناخت کیا ہے ؟ تو ان کی کچھ نشانیاں اوپر مذکور ہوٸیں مزید درج ذیل ہیں : ⬇

 دوسروں کو تو راہ حق کی دعوت دیں گے اورخود اپنے علم پر عمل پیرا نہیں ہونگے جیسا کہ، قرآن پاک میں اللہ رب العزت فرماتا ہے : أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ۔ (سورة البقرة: آیت:44) ترجمہ : کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ، تو کیا تمہیں سمجھ نہیں ؟ ۔
اور جیسا کہ شبِ معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جن عذاب و ثواب کے مشاہدات کرائے گئے ، اُن میں سے ایک یہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : “میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا ہے، میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ آپ کی امت کے وہ خطباء (علماء) ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہیں ۔ (سنن الکبریٰ، بیہقی: 1773)(صحيح الجامع: 129)(صحيح الترغيب:125+2327،چشتی)

وہ علمائے حق یا جاہلوں میں اپنی برتری کا اظہار مطمح نظر رکھیں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من طلب العلم لیماري بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ النار رواہ الترمذي ۔ (مشکواة المصابیح : ۳۴،چشتی)
ترجمہ : جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے ، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کرےگا ۔

رضائے الہی کے بغیر دنیاوی منفعت کا حصول پیشِ نظر رکھیں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرَضًا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا رواہ احمد ۔ (مشکاة: ۳۵)
ترجمہ : جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا ۔

جھوٹی احادیث بیان کریں گے اور قرآن مقدس میں خلاف شرع اپنی رائے زنی کریں گےجیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اتقوا الحديث عني إلا ما علمتم ,فمن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار، ومن قال في القرآن برايه فليتبوا مقعده من النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحیح الترمذی ۔ صحیح مسلم/المقدمة 1 (بدون رقم)،چشتی)(سنن ابن ماجہ/المقدمة 5 (41)
ترجمہ : میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے (خلاف شرع) کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔

ریاکاری اور دکھاوے کےلیے نیکیاں کریں گے تاکہ دُنیا کے فائدے حاصل ہوں اور اہل دنیا انہیں نیک ، صالح ، متقی ، عالِم ، مجاھد اور سخی وغیرہ کہیں ایسے عالم اور غیر عالم لوگوں کےبارے میں سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں : أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَى الْعِبَادِ لِيَقْضِىَ بَيْنَهُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ وَرَجُلٌ قُتِلَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ لِلْقَارِئِ أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِى قَالَ بَلَى يَا رَبِّ. قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ قَالَ كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ. فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ إِنَّ فُلاَنًا قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ۔ وَيُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ قَالَ بَلَى يَا رَبِّ. قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ قَالَ كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ.
فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلاَنٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ۔ وَيُؤْتَى بِالَّذِى قُتِلَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ فِى مَاذَا قُتِلْتَ فَيَقُولُ أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِى سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ. فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللَّهُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلاَنٌ جَرِىءٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ». ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى رُكْبَتِى فَقَالَ « يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلاَثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔
ترجہم : قیامت کے دِن اللہ تبارک و تعالیٰ بندوں کے فیصلے فرمانے کے لیے اُن کی طرف نزول فرمائے گا ،اور اُس دِن ہرقوم (گروہ ، جماعت ، فرقہ) گھٹنے ٹیکے ہوں گے ، تو سب سے پہلے اُس آدمی کو بلایا جائے گا جِس نے قران سیکھا ، اور اُس آدمی کو جو (بظاہر) اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا، اور ایک بہت مالدار آدمی کو. تو اللہ قاری (قران کا علم پانے والے) سے فرمائے گا کیا میں نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا تھا تمہیں اُس کا علم نہیں دِیا تھا ؟ ۔ وہ شخص کہے گا. اے میرے رب بے شک (تو نے دِیا تھا)
تو اللہ قاری (قران کا علم پانے والے) سے فرمائے گا تو تُمہیں جو عِلم دِیا گیا ، تُم نے اُس کے ذریعے کیا کِیا ؟ ۔ وہ شخص کہے گا میں دِن رات اُس کی تلاوت کرتا تھا ، اُس پر عمل کرتا تھا ,تو اللہ قاری (قران کا علم پانے والے) سے فرمائے گاتو نے جھوٹ بولا اور فرشتے بھی کہیں گے تو نے جھوٹ بولا ۔ تو اللہ قاری (قران کا علم پانے والے) سے فرمائے گا بلکہ تُم نے قراءت کی اس لئےکہ تمہیں قاری (اور عالِم )کہا جائے ، اور (لوگوں کی طرف سے ) یہ کہہ دِیا گیا. اور( پھر ) مالدار آدمی کو لایا جائے گا ، تو اللہ اُس مالدار آدمی سے فرمائے گا کیا میں نے تمہیں (مال و دولت میں) اتنی وسعت نہیں دِی تھی کہ تُو کِسی بھی معاملے میں کِسی کا محتاج نہ رہے ؟ مالدار آدمی کہے گا بے شک (دِی تھی ) اے میرے رب ! تو اللہ اُس مالدار آدمی سے فرمائے گا,تو جو کچھ میں نے تمہیں دِیا تھا تُم نے اُس سے کیا کِیا ؟ ۔ مالدار آدمی کہے گا میں اُس کے ذریعے رشتہ داریاں نبھاتا تھا، اور صدقہ کیا کرتا تھا ۔ تو اللہ مالدار آدمی سے فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا اور فرشتے بھی کہیں گے تو نے جھوٹ بولا ۔ تو اللہ مالدار آدمی سے فرمائے گا بلکہ تُم نے مال اس لیے خرچ کیا کہ تمہیں مال خرچ کرنے والا رحم دِل کہا جائے ، اور (لوگوں کی طرف سے ) یہ کہہ دِیاگیا ۔ اور پھر اُس شخص کو لایا جائے گا ، جو (بظاہر) اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو گا ، (مجاہد)
تو اللہ اُس شخص سے فرمائے گا تُم کِس وجہ سے قتل کیے گئے ؟
وہ شخص کہے گا مجھے تیری راہ میں جِہاد کرنے کا حُکم دِیا گیا ، تو میں نے قتال کیا ، یہاں تک میں قتل کر دِیا گیا,تو اللہ اُس شخص سے فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا اور فرشتے بھی کہیں گے تو نے جھوٹ بولا , تو اللہ اُس شخص سے فرمائے گا بلکہ تُم نےاس لیے جہاد کیا کہ تمہیں بہادر کہا جائے ، اور (لوگوں کی طرف سے ) یہ کہہ دِیا گیا , پِھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے (ابو ہریرہ کے) دونوں گھٹنوں پر (اپنے مُبارک ہاتھوں سے) ضرب لگائی اور اِرشاد فرمایا اے ابو ھریرہ اللہ کی مخلوق میں سے یہ وہ تین لوگ ہیں جِن سے قیامت والے دِن جہنم کی آگ بھڑکےگی) (الامان والحفیظ) ۔ العلاء بن ابی حکیم رحمۃ اللہ کا کہنا ہے کہ ایک آدمی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو وہ رونے لگے ، اور اس قدر روئے کہ ہمیں اُن کی جان کا خطرہ لا حق ہو گیا، تو ہم نے کہا یہ آدمی شر (والے اِرادے) کے ساتھ آیا ہے،
پھر (جب ) معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو افاقہ ہوا تو انہوں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ، اور فرمایا " اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے) سچ فرمایا ۔ (سُنن الترمذی حدیث 2557 کتاب الزُھد باب 48 مَا جَاءَ فِى الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ ، مختصر طور پر یہ حدیث شریف سُنن النسائی ۔ حدیث 3150 کتاب الجِہاد باب 22 مَنْ قَاتَلَ لِيُقَالَ فُلاَنٌ جَرِىءٌ، صحیح مُسلم /حدیث /5032 کتاب الإمارۃ /باب 43 مَنَ قَاتَلَ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ اسْتَحَقَّ النَّارَ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ قَالَ وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَدْخُلُهُ قَالَ الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ ۔ (ترمذی باب ماجاء فی الریاء والسمعۃ حدیث نمبر۲۳۰۵،چشتی)
ترجمہ : ﷲ تعالی سے "جُبّ الْحزن" سے پناہ طلب کرو ! صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے پوچھا "جُبّ الْحزن "کیا ہے ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جہنم کی ایک وادی ہے جس سے روزانہ سو مرتبہ خود جہنم پناہ مانگتی ہے ، صحابہ کرام نے پوچھا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس میں کون جائیں گے ؟ فرمایا اپنے عملوں کی ریا اور نمود کرنے والے قاری (عالم اورغیر عالم) جائیں گے ۔

علمائے سو جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔ بلاشبہ جیسا کہ ماقبل میں کئی احادیث گزریں جن میں شدت سے اس بات کا بیان ہے کہ علمائے سو اور دیگر ریاکاری کے پیکر افراد داخل نار ہوں گے ۔

علمائےحق کی نشانیاں اور ان کی کچھ علامات اور فضائل مندرجہ ذیل ہیں ۔ سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر واسألوني عن الخير يقولها ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلماء وإن خير الخير خيار العلماء ۔ (سنن الدارمي » المقدمة » باب التوبيخ لمن يطلب العلم لغير الله جلد 01صفحہ116)
ترجمہ : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے "شر" کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ "خیر" کے بارے میں سوال کرو اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین بار کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بروں میں بدتر علما ہیں اور اچھوں میں (اعلی درجہ کے) اچھے علماء ہے ۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معلوم ہوا جیسے علماء برے ہوتے ہیں اسی طرح علمائے حق کا بھی وجود مسعود ہوتا ہے اور سب میں بہتر علما ہوتے ہیں ۔ علمائے حق میں علم و عمل کے ساتھ ایمان کا وجود ناگزیر ہے جیسا کہ علم والوں کی تعریف ایمان کے ساتھ کچھ اس طرح ہے ، سورۂ روم, آیت 56/ میں اللہ کا فرمان ہے ۔ "وَقَالَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللَّہِ إِلَی یَوْمِ الْبَعْث" ۔ اور ان لوگوں نے کہا جن کو علم اورایمان عطا کیا گیا کہ تم لوگ جیسا کہ کتاب الله میں ہے یوم قیامت تک پڑے رہے ۔ اور سورہٴ مجادلہ آیت 11/ میں ہے ۔ "یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۔ "الله تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند فرماتاہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا ۔ علم اور ایمان کے علاوہ جو تیسری چیز انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ ہے تقوی کا عمل جیساکہ اللہ عزوجل فرماتاہے ۔ " إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۔ "(الفاطرآیت 28) " ۔ اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں علماء ہی ہیں" علمائے حق کے ساتھ اللہ بھلائی چاہتا ہے اس لیے انہیں دین کا فقیہ بناتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا ”من یرد الله بہ خیراً یُفَقِّہ فی الدین“ ۔ (الصحیح للبخاری کتاب العلم ) ۔ "الله جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے" ۔

حضرت أبو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا ۔ " من سلك طريقا يطلب فيه علما؛ سلك الله به طريقاً من طرق الجنة، والملائكة تضع أجنحتها رضا لطالب العلم، وإن العالم يستغفر له من في السموات، ومن في الأرض، والحيتان في الماء، وفضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب، إن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهما، وأورثوا العلم، فمن أخذه؛ أخذ بحظ وافر) ۔ (أبو داود والترمذي وابن ماجہ ,کتاب العلم) ترجمہ : جو (رضائے الہی کےلیے) علم کی طلب میں ایک راستہ پر چلا، الله تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور فرشتے اپنے( رحمت بھرے)بازو اس علم کےطالب کی خوشی کے لئے بچھا دیتے ہیں ,اس عالم کے لئے اسمان و زمین میں موجود تمام چیزیں اور سمندر میں موجود مچھلیاں استغفار کرتی ہیں, اور عالم کی فضیلت , عابد (عبادت گزار) پر ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے , علمائے کرام تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں کیونکہ انبیا کرام ورثہ میں درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں، توجس نے علم حاصل کیا اس نے انبیائے کرام کی میراث بہت زیادہ پائی" ۔
أبو حاتم بن حبان رضي الله عنه مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ : "اِن العلماء" الذين لهم الفضل الذي ذكرنا هم الذين يعلمون علم النبي صلى الله عليه وسلم دون غيره من سائر العلوم، ألا تراه يقول : (العلماء ورثة الأنبياء) والأنبياء لم يورثوا إلا العلم، وعلم نبينا صلى الله عليه وسلم، سنته، فمن تعرى عن معرفتها؛ لم يكن من ورثة الأنبياء) (2) اهـ "وأما قوله تعالى: وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ [النمل:16) فإن ما قبل الآية وما بعدها يبين أن المراد بهذه الوراثة وراثة العلم والنبوة، لا وراثة المال. قال تعالى: وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ [النمل: 15-16] وكذلك قول زكريا –عليه الصلاة والسلام-:وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا [مريم: 5-6]." علماء وہی ہیں جن کےلیے فضیلت مذکور ہوئی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حاصل کیا اور اس کے علاوہ دیگر علوم و فنون کے جانکار پر لفظ علماء کا اطلاق نہیں ہوگا ایسے ہی وہ شخص جو بظاہر عالم کے لبادہ میں ہے (یا کسی مدرسہ سے فارغ ہے) اور علوم دینیہ سے خالی ہے اس پر بھی نائب رسول کا اطلاق نہیں ہوگاکیا دیکھتے نہیں کہ حدیث میں علماء کو انبیاء کا وارث بتایا گیا ہے اور وارث وہی ہیں جنہوں نے علم نبوت و رسالت حاصل کیا جیساکہ مندرجہ بالا آیات سےبھی ظاہر ہےکہ انبیا کی وراثت سے وراثتِ علم ہی مراد ہے مال و زر کی وراثت نہیں " حاصل گفتگو یہ ہے کہ "علمائے حق" فضل خدا و رسول سے دنیاوآخرت میں شادکام , زہد وتقوی خلوص و للہیت کا سنگم , اللہ اور رسول کی تعلیمات سے ہم آہنگ, دل ودماغ پر نہ کوئی تفاخر اور نہ فخرو مباہات کا غرَّہ, عجز و انکساری کے پیکر, صبروشکرکا کوہ ہمالہ , رضائے الہی مقصد زندگی , فتنہ و فساد کو مٹانے والے ,علم دین اور عمل صالح کی ترویج و واشاعت کرنےوالے , امراض باطنہ جیسے تفرقہ بازی ,ریاکاری ,چغل خوری, غیبت اور باہمی حسد و جلن سے علاحدہ رہنے میں کوشاں ,امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے مقدس فریضہ سے باخبر, دنیوی علوم و معارف میں راہ اعتدال کے دلداہ اور دینی علوم کو فوقیت دینے میں مقدم , اخلاق وکردار میں پاگیزگی,حق گوئی ,وبے باکی جیسی عمدہ صفات سے مزین , "الخلق کلھم عیال اللہ" کے پیش نظر خلق خدا کی دستگیری کرنےکامزاج رکھتے ہیں, اِن کی دوستی اور دشمنی کا میعار ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسلک ہوگا,"الحب للہ والبغض فی اللہ" کےمصداق اللہ ورسول کا دشمن اِن کا بھی دشمن اور جو,اُن کا دوست وہ اِن کا بھی دوست ہوگا جب کہ علمائے سو کاطریقہ "علمائے حق" کے برعکس ہے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا اور آخرت میں عذاب نار کے حق دار ضرور ہونگے ۔ (الامان والحفیظ)

اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو ، اور ہمارے تمامی اہل علم کو ریا کاری سے بچنے ، اور دِین کے تمام کام خالصۃً لوجہ اللہ کرنے اور اپنی رضا کے حصول کےلیے ہی نیکیان کرنے کی طاقت و ہمت اور توفیق خیر بالدوام بخشے ۔ اللهم إنا نسألك علماً نافعاً، وقلباً خاشعاً، ورزقاحلالا طيبا واسعا، ولساناً ذاكراً، وعملا متقبلا۔ اللهم إنا نعوذ بك من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن عين لا تدمع ومن دعوة لا تسمع بجاه نبيك المصطفي صلي الله عليه أفضل الصلوات وأكرم التسليمات وعلي آله وصحبه أجمعين ۔ آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...