Sunday 17 April 2022

فضائل و مناقب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حصّہ دوم

0 comments
فضائل و مناقب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میری والدہ نے مجھ سے پو چھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کتنے دنوں بعد جاتے ہو۔میں نے کہا کہ : اتنے اتنے دنوں سے میرا آنا جانا چھوٹا ہوا ہے ۔ اس پر وہ ناراض ہو گئیں ۔ تو میں نے کہا کہ:اچھا ، اب آپ مان بھی جائیے ۔میں آج ہی حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر نماز مغرب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ادا کروں گا ، اپنی اور آپ کی مغفرت کی دعا کرنے کی درخواست کروں گا ، حضرت حذیفہ کہتے ہیں : میں گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب ادا کیا ، پھر حضور عشاء تک نماز میں مشغول رہے ، عشاء پڑ ھنے کے بعد جب آپ لوٹے تو میں آپ کے پیچھے ہو لیا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب میری آواز سنی تو فر مایا : کون ؟ حذیفہ ، میں نے کہا : جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کیا کام ہے ؟ اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فر مائے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا : بے شک ایک فر شتہ جو آج رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ آیا ، آج اس نے اپنے رب سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے اس بات کی خوشخبری دے کہ : فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن ، حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما،حدیث :۳۷۸۱،چشتی)

شہادت عظمی

امام عالی مقام سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول ، 50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری ، مدینہ منورہ میں ہوئی،آپ کو زہر دیکر شہید کیا گيا،آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے ۔
توفي رضي الله عنه بالمدينة مسموماً۔۔۔۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين وقيل في خامس ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ الخلفاء،جلد 1 صفحہ 78)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ بڑے حلیم ، کریم اور متقی و پر ہیز گار تھے ، انہوں نے اپنی زندگی میں دو بار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ۔اس کے علاوہ جب بھی راہ خدا میں مال لٹانے کی باری آئی تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے ۵۰/مرتبہ پیدل حج کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ : مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہےکہ میں اس سے ملاقات کروں اور اس تک پیدل چل کر نہ جاؤں ۔

۱۷/رمضان سن ۴۰/ہجری میں اپنے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلیفہ ہوئے،چالیس ہزار سے زیادہ مسلمانوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کیا ۔ اور آپ نے چھ یا سات مہینے تک عراق ، خراسان ، حجاز اور یمن وغیرہ پر حکومت کیا ۔پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام سے آپ کے خلاف فوج کشی کی ،آپ نے بھی اپنی فوج اُتاری اور جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی اور قریب تھا کہ جنگ کی آگ بھڑک جائے تو آپ نے سوچا کہ :کوئی فریق دوسرے پر اس وقت تک غالب نہ ہوگا جب تک کہ دونوں طرف سے بہت سارے مسلمانوں کا خون نہ بہہ جائے ۔یہ سوچ کر آپ نے حضرت امیر معاویہ کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ : وہ اس شرط پر حکومت ان کے سپرد کرنے کےلیے تیار ہیں کہ ان کے بعد خلافت ہمارے پاس رہے اور یہ کہ ہمارے والد کے زمانے میں مدینہ ، حجاز اور عراق کے لوگوں کے پاس جو کچھ تھا اس کا مطا لبہ نہیں کریں گے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کو منظور کر لیا اور اس طرح سے غیب داں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے بچپنے ہی میں فر مایا تھا کہ ” یہ میرا بیٹا سردار ہے ، اللہ تعالی اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا دے گا ۔ جس ذات کےلیے حضور نے فر مایا ہو کہ : یہ سردار ہے اس کی عظمتوں کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے ۔ (اسد الغابہ باب الحاء والسین حسن بن علی رضی اللہ عنہما،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی سنِ وصال میں مورخین کا اختلاف ہے ، ایک قول یہ ہے کہ سن ۴۹ ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰ ہجری میں ہوا ، اور سن ۵۱ ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے ۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔

حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت پانچ ربیع الاول ہے : ⬇

علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا وصال انچاس ہجری ماہ ربیع الاول کو ہوا 
 وتوفي الْحَسَن بْن عَلِيّ بْن أَبِي طالب في ربيع الأول من سنة تسع وأربعين ۔ (تاریخ بغداد : 1/140)

أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) نے بھی سال انچاس اور پچاس لکھا مگر مہینہ ربیع الاول تھا ۔ ومات الحسن بن علي رضي الله عنهما بالمدينة واختلف في وقت وفاته فقيل مات سنة تسع وأربعين وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة خمسين ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الصحاب : 1/115)

محمد بن حبان ، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) اکاون ہجری اور ماہ ربیع الاول لکھتے ہیں
فمات في شهر ربيع الأول سنة إحدى وخمسين ۔ (الثقات لابن حبان :3/68)

ابن عساکر اورابن جوزی پچاس ہجری پانچ ربیع الاول لکھتے ہیں
مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ دمشق : 13/302)(صفوۃ الصفوۃ :1/762)

امام ذہبی نے پچاس ہجری ربیع الاول میں آپ کا وصال لکھا
تُوُفِّيَ الْحَسَنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلَ سَنَةَ خَمْسِينَ ۔ (تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام:2/397)

امام سیوطی نے سن (سال) انچاس ، پچاس اور اکاون لکھے اور کہا کہ ربیع الاول کی پانچ تاریخ تھی ۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين، وقيل: في خامس ربيع الأول سنة خمسين، وقيل: سنة إحدى وخمسين ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 147])

محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ) ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ مات الحسن بن على عليه السلام سنة 50 في ربيع الاول لخمس خلون منه ۔ (المنتخب من ذيل المذيل صفحہ نمبر 19)

مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ (الجزء المتمم لطبقات ابن سعد :1/354)

آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ، جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر انتقال کر گئے ۔ جب بیماری زیادہ بڑھی تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ : مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے ؟ تو آپ نے فر مایا : یہ سوال کیوں پوچھتے ہو ؟ کیا تم ان سے جنگ کروگے ۔ میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔

کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی ۔ یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے ۔ کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ : میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔ تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا ۔ جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا ؟ اس لیے ایک ایسے مقدس امام جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ، پھر جنہیں نوجوانانِ جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔