ضمیر اور ضمیر فروش حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ضمیر فروش : چاپلوس ، جعل ساز ، چالباز ، منافق ، دو منہ والا ، بے غیرت ، رو سیاہ ، خائن ، بے وفا ، بدچلن ، بدخواہ ، کاسہ لیس ، دروغ گو ، جھوٹی تاولیں کرنے والا ، بد عہد ، معاہدہ شکن ، بدزبان ، بدکلام ، مارآستین ، شرم و حیا سے عاری ، ذاتی مفاد کےلیے قوم کا سودا کرنے والا ، قوم کو دھوکہ دینے والا، قوم کی امیدوں پر نہ اترنے والا ، اپنے مطلب کی تکمیل کےلیے کسی بھی حد تک جانے والا ، بادشاہ وقت کو سجدہ کرنے والا ، چند ٹکوں کی خاطر پوری قوم کو رسوا کرنے والا ، قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اپنا فائدہ ڈھونڈنے والا ، قوم کو الو بنانے والا ، اسے بےوقوف سمجھ کر پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا ، مسجد کا سودا گر ، خانقاہوں کی حرمت کو پامال کرنے والا ، تنظیموں کے مقاصد کو سبوتاژ کرنے والا ، مدارس کی عظمت پر حرف پیدا کرانے والا ، حاکمِ وقت کا تلوا چاٹنے والا ہوتا ہے ضمیر فروش ۔
ضمیر فروش افراد ہر تنظیم میں ہیں ، ہر این جی او میں ہیں ، ہر ادارے میں ہیں ، مدارس میں ہیں ، مکاتب میں ہیں ، یونیورسٹی میں ہیں ، خانقاہوں میں ہیں ۔ مسلمانوں کے ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر میں ضمیر فروش موجود ہیں ۔ ابتدائے اسلام سے ضمیر فروش فطرت والے افراد نے اسلام اور مسلمانوں کو دھوکہ دیا ۔ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دھوکہ دیا ، کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ غداری کی ، کبھی تبع تابعین کے ساتھ فراڈ کیا ، کبھی صلاح الدین ایوبی کو سازش کا شکار بنایا ، حتی کہ ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو دھوکہ دیا ، یہ ضمیر فروشوں کی فطرت ہے اور اس فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ۔ ہندوستان میں بھی ضمیر فروشی کا کام جاری رہا اور جاری ہے ۔ بلکہ اسے یہاں پروان چڑھایا ۔ مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں اتحاد نہ ہونے دیا ، انہیں منتشر کرکے اپنا فائدہ نکالا ، کبھی مغلوں کی انگریزوں سے جاسوسی کی ، ان کے اقتدار کو چھینا ، کبھی ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کی ، انہیں شہادت کے رتبے تک پہنچایا ، کبھی سراج الدولہ کے ساتھ بیوفائی کی ، ہاں ضمیر فروش عبد اللّٰہ بن اُبی ابن سلول ، میر جعفر اور میر صادق جیسے ضمیر فروشوں کے قبیل سے ہیں ۔ ضمیر فروشوں کو خوشی اس بات پر ہوتی ہے کہ ضمیر فروش کیوں قوم کی طرح کسمپرسی میں رہیں ، وقتی فائدے کےلیے ضمیر فروشوں نے اپنی اولادوں کو بھی اس راہ پر لگا دیا ہے ، ضمیر فروشوں کو دین سے نہ کوئی مطلب نہ کوئی سروکار ، ضمیر فروش نام کے مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا واجب العین سمجھتے ہیں اگر ضمیر فروش انہیں دھوکہ نہ دیں تو اِن دکان نہ چلے ، اگر ضمیر فروش ان کا سودا نہ کریں تو ضمیر فروشوں کا کوئی خریدار نہ ملے ، اگر ضمیر فروش انہیں نہ بیچیں تو کوئی ضمیر فروشوں سے سودا نہ کرے اور پھر ضمیر فروشوں کی روزی روٹی نہ چلے ، ضمیر فروشوں کی جبہ و دستار کا بوسہ نہ لیاجائے ، ضمیر فروشوں کی ٹائی کوٹ کو سلام نہ کیاجائے ، ضمیر فروشوں کی ٹوپی و کیپ کی عزت نہ رکھی جائے ۔ اسی لیے ضمیر فروش اپنی دنیاوی جاہ و حشمت کےلیے قوم کا سودا کرتے ہیں ، قوم کو رسوا کرتے ہیں ، قوم کو ذلیل کرتے ہیں ، ضمیر فروش مسلمانوں کی مسجد کی جگہ مندر کی حمایت کرتے ہیں ، ان کے غم پر خوشی مناتے ہیں ، شور و شرابہ کرتے ہیں ۔ منافق بن کر ، بے غیرت بن کر ، سودا کرکے ، رسوا کرکے ، بیچ کر ، خرید کر ضمیر فروشوں کو خوشی ملتی ہے اور اسی خوشی کی تکمیل کےلیے مزید سودے ہوں گے ، مزید ضمیر فروشی ہوگی ، مزید کاسہ لیسی ہوگی ، مسلمانوں کو اگر نہ بکنا ہے ، نہ رسوا ہونا ہے ، نہ ذلیل ہونا ہے تو بہت جلد اپنا اپنا احتساب کریں ، جبہ و دستار میں ملبوس حقیقی قائدین کو پہنچانیں ، ٹائی کوٹ میں ملبوس رہبر کو سمجھیں ، جعلی و فراڈ قائدین سے بچیں ، قائدین کے ظاہری جلال سے دھوکہ نہ کھائیں ، علم سے مرعوب نہ ہوں ، اگر ضمیر فروش خود کو محدث کہتے ہیں تو حدیث کی روشنی میں ضمیر فروشوں کے محدث ہونے کا احتساب کریں ، آنکھ بند کرکے ضمیر فروشوں پر ایمان نہ لائیں ، اگر ضمیر فروش برسوں سے حدیث پڑھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ضمیر فروش سودےبازی نہیں کر سکتے ، اگر ضمیر فروش خانقاہ میں بیٹھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ضمیر فروش دنیا دار نہیں ، اگر ضمیر فروش اعلیٰ خاندان سے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ضمیر فروش نے دشمن سے سانٹھ گانٹھ نہ کی ہو گی ، آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں ، کس طرح ضمیر فروشوں نے قوم پر شب خون مارا ہے ، کس طرح انہیں رسوا کیا ہے ، کس طرح انہیں ذلیل کرکے ضمیر فروشوں کو سکون میسر ہوا ہے ، کس طرح ان سے امن کی درخواست کرکے ضمیر فروشوں نے اپنی دکانیں چمکائیں ہیں ، کس طرح انہیں بے گھر کرکے ضمیر فروشوں نے اے سی روم میں ان کے غم میں آنسو بہائے ہیں ، لگژری گاڑی میں بیٹھ کر کس طرح انہیں پیدل چلتا دیکھ کرخوشی محسوس کی ہے ، گول میز کانفرنس کر کے کس طرح ان کے دکھوں کا سودا کیا ہے ۔ بیرون ممالک جاکر کس طرح ان کی کسمپرسی پر پیسے اینٹھے ہیں ، ان کو مظلوم بتا کر کس طرح ریال و لیرا حاصل کیا ہے ، ڈالر و روپیہ جمع کیے ہیں ۔ (چشتی)
ضمیر فروشوں نےاعلیٰ و ارفع خانوادے سے ہونے کے باوجود اپنی کلاہ بیچ دی ، دستار کی لاج نہ رکھی ، امیر شہر کو سجدہ کرنے میں فخر محسوس کیا ۔ ارباب اقتدار کے سامنے ضمیر فروش اتنا جھک گئے کہ دستار کی عظمت پامال ہوگئی ، قوم کے صبر پر لعنت بھیجی ، ملامت کی ، انہیں حوصلہ دینے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی ۔ اور اسی میں ضمیر فروشوں کی خوشی کا راز پوشیدہ ہے ۔ اگر قوم کو ضمیر فروشوں جیسے زہریلے ناگوں سے بچنا ہے تو وہ بہت جلد ضمیر فروشوں کو پہچان لے ؛ ورنہ تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں ۔ ضمیر فروشوں کی مٹی تو پلید ہوگی ہی ؛ لیکن پہلے تمہاری پلید ہوگی ؛ کیوں کہ ضمیر فروش تمہیں پورا کا پورا بیچ چکے ہیں ۔ بین بج رہا ہے ، ضمیر فروش سانپوں کی طرح ایک ایک کر کے قوم کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں ۔ اسی لیے ضمیر فروشوں سے ہوشیار ہو جائیں ۔ علمائے سوء اور علمائے حق کی پہچان کرتے ہوئے اپنے ملک ، اپنے دین ، اور اپنی حفاظت کے سامان پیدا کریں ۔ اللہ عزوجل ہمیں ضمیر فروشوں اور اُن کی اولادوں کے شر سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment