Monday 4 April 2022

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ ششم

0 comments
فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ائمہ احناف آٹھ تراویح کے قائل تھے کا جواب : فقیر کی ایک پوسٹ پر ایک پُر جوش کاپی پیسٹر غیر مقلد وہابی نے وہابیہ کے ایک فورم سے ایک مضمون کاپی کر کے کمنٹ میں پیسٹ کیا ہوا تھا جسے فقیر نے دیکھا وہ یہ کہ : امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابن ہمام ، علامہ ابن نجیم حنفی ، امام طحطاوی ، ملا علی قاری ، علامہ سیوطی علیہم الرّحمہ یہ تمام حضرات آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے ۔ ان غیر مقلدین کے مکّاری اور جھوٹ کا پردہ ہم کئی بار چاک کر چکے ہیں مگر یہ لوگ یہودیانہ فطرت سے باز نہیں آتے آدھے حوالے دینا حوالہ جات میں کتر و بیونت کرنا جھوٹ بولنا غیر مقلد وہابی مذہب کی کی گھٹی میں شامل کیا جاتا ہے اگر یہ لوگ جھوٹ نہ بولیں تو غیر مقلدیت اپنی موت آپ مر جائے گی آیئے ان کے جھوٹ و مکّاری کے پرخچے اڑتے اور منافقت عیاں ہوتے دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں اصل حقائق و دلائل ۔

غیر مقلدین کے اعتراض جھوٹ اور مکر و فریب کا جواب
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : مسند امام اعظم سے جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کی ہے وہ تہجد کے متعلق ہے نہ کہ تراویح کے ۔خود حدیث میں صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل کے الفاظ موجود ہیں جن کا معنیٰ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی اور رات کی نماز سے مراد تہجد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز تہجد تیرہ رکعات ہوتی تھی وتر بھی اس میں شامل ہوتے تھے ۔

حدیث مبارک میں لفظ صلوۃالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام صاحب تو نماز تہجد کی رکعات ثابت کر رہے ہیں نہ کہ نماز تراویح کی ۔

مناسب ہے کہ آپ کے سامنے امام صاحب رحمہ اللہ کا مسلک بھی نقل کر دیا جائے تاکہ بات کھل کر سامنے آجائے ۔ کتاب الآثار لابی یوسف میں روایت موجود ہےابو حنیفۃ عن حماد عن ابراھیم ان الناس کا نو ایصلون خمس ترویحات فی رمضان ۔
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حماد سے وہ ابراھیم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک لوگ رمضان میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات پڑھاتے ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے : التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء توارثھا الخلف عن السلف من لدن تاریخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ یومنا و ہٰکذا رویَ الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہا سنۃ لاینبغی ترکھا ۔۔۔۔وقد واظب علیھا الخلفاء الراشدون رضی اللہ عنہم وقال علیہ السلام علیکم بسنتی وسنۃالخلفاء من بعدی ۔ (فتاویٰ قاضی خان برھامش فتاویٰ عالمگیریہ جلد 1 صفحہ 332،چشتی)
ترجمہ: نماز تراویح مردوں اور عورتوں کےلیے سنت مؤکدہ ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک ہر دور کے اخلاف) بعد والوں (نے اپنے اسلاف) پہلے والوں (سے اس کو توارث سے پایا ہے اور اسی طرح حسن رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک تراویح سنت ہے اس کو چھوڑنا ، نا مناسب ہے ، پھر لکھتے ہیں : مقدار التراویح عند اصحابنا والشافعی رحمہ اللہ ماروی الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ قال القیام فی شھر رمضان سنۃ لاینبغی ترکھا یصلی اھل کل مسجد فی مسجد ھم کل لیلۃ سوی الوتر عشرین رکعۃ خمس ترویحات بعشر تسلیمات یسلم فی کل رکعتین ۔ (فتاویٰ قاضی خان ص234)
ترجمہ : تراویح کی مقدار ہمارے اصحاب وامام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو حسن رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے فرمایا قیام رمضان (تراویح) سنت ہے اس کو ترک کرنا، نا مناسب ہے ۔ہر مسجد والے اپنی مسجد میں ہر رات وتروں کے علاوہ بیس رکعات تراویح پڑھیں ۔پانچ ترویحے ۔دس سلاموں کے ساتھ اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیں ۔

بدایۃ المجتہد میں ہے : فاختار مالک فی احد قولیہ وابو حنیفۃ والشافعی و احمد وداؤد رحمہم اللہ القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر ۔ (بدایۃ المجتہد جلد نمبر 1 صفحہ 210،چشتی)
ترجمہ : امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں اور امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد اور داؤد ظاہری نے بیس رکعات تراویح کا قیام پسند کیا ہے ، سوائے وتر کے ۔

رحمۃالامۃ میں ہے : فالمسنون عند ابی حنیفۃ والشافعی و احمد رحمہم اللہ عشرون رکعۃً ۔ (رحمۃالامۃ صفحہ 23)
ترجمہ : امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مسنون تراویح بیس رکعات ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : فقہ حنفیہ کے تمام متون اور شروحات میں التراویح عشرون رکعات اور خمس ترویحات کی تصریح موجود ہے لیکن اتنی بڑی تصریحات کے باوجود معترضین کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نام پر عوام الناس کو دھوکہ دینا اور ان کی طرف آٹھ رکعات تراویح کی جھوٹی نسبت کرنا نہایت تعجب خیز ہے اور حیران کن ۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا شاذ قول : محترم قارئین مذکرہ بالا امام ابن ہمام کے قول کی حیثیت شاذ اور مرجوح ہے اور ان کا ذاتی تفرد ہے ہمارے علماء اہل السنت اس کی تصریح بارہا کر چکے ہیں کہ شاذ اور تفرادت کا کوئی اعتبار نہیں چنانچہ امام ابن ہمام رحمہ اللہ کے عظیم شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں: لاعبرۃ بابحاث شیخنا یعنی ابن الہمام التی خالفت المنقول یعنی فی المذہب ۔ (شامی جلد 1 صفحہ 225،چشتی)
ترجمہ : ہمارے شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ کی وہ بحثیں جن میں منقول فی المذہب مسائل کی مخالفت ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

باقی معترضین کا یہ کہنا کہ امام ابن رحمۃ اللہ علیہ ہمام آٹھ رکعات تراویح کے قائل ہیں یہ بات سراسر بددیانتی ہے ہے کیونکہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل نہیں بلکہ وہ بھی پوری امت کی طرح بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں : چنانچہ لکھتے ہیں :ثم استقر الامر علی العشرین فانہ المتوارث ۔ (فتح القدیر جلد 1 صفحہ 407)
یعنی بالآخر تراویح کے مسئلہ نے بیس رکعات پر استقرار پکڑا پس عمل توارث کے ساتھ چلا آرہاہے ۔

امام ابن ہمام رحمہ اللہ بیس رکعات تراویح کے ہی قائل ہیں البتہ ان کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو مستحب سمجھنا او رتہجد وتراویح کی الگ الگ حدیثوں کو ایک دوسرے کا معارض سمجھنا شاذ، خلافِ اجماع ہے اور تفرد ہے۔

اہل سنت و جماعت کا اصول ہے:وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع . (درمختارج1ص31،چشتی)
یعنی قاضی کا حکم کرنا یا مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت اور اجماع کی مخالفت ہے ۔ یعنی باطل اور حرام ہے ۔

امام ابنِ نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی معترضین ان کی ایک عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے حالانکہ امام ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قولہ عشرون رکعۃ‘‘بیان لکمیتھا وھو قول الجمھور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بثلاث وعشرین رکعۃ و علیہ عمل الناس شرقاً و غرباً۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق جلد 2 صفحہ 66،چشتی)
ترجمہ : مصنف کا قول ہے کہ تراویح بیس رکعات ہےیہ نماز تراویح کے عدد کا بیان ہے کہ وہ بیس رکعات ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اس لئے کہ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ 23رکعات پڑھتے تھے (بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر) مشرق اور مغرب میں لوگوں کا اسی پر عمل ہے۔

امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کےقائل نہیں بلکہ وہ بھی دوسرے علماء احناف کی طرح بیس کے قائل ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پر توارث کے ساتھ اجماع ہے ۔ (طحطاوی جلد 1 صفحہ 468)
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نام سے جو عبارت پیش کی گئی وہ عبارت ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ بذات خود بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃً ۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے ۔ (مرقاۃ جلد 3 صفحہ 194،چشتی)
اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح نقایہ صفحہ 104 میں بھی بیس رکعات تراویح پر اجماع نقل کیا ہے ۔

امام سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ، چنانچہ امام موصوف ؛ علامہ سبکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ومذھبنا ان التراویح عشرون رکعۃلما روی البیہقی وغیرہ بالا سناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال کنا نقوم علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعشرین رکعۃ والوتر ۔ (الحاوی للفتاویٰ ج1ص350)
اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعات ہے اس لیے کہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔پھر لکھا ہے :استقر العمل علی ہذا ۔یعنی بالآخر بیس رکعات تراویح پر عمل پختہ ہوا یعنی خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیس رکعات پر اتفاق اور اجماع کیا ہے ۔

اور پھربعض لوگ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ہم خیال سمجھ کر ان کی یہ عبارت نقل کر دیتےہیں : واما ما رواہ ابن ابی شیبۃمن حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃً والوترفاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذاالذی فی الصحیحین مع کو نھا اعلم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلامن غیرھا واللہ اعلم۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 319)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ تراویح میں امام شافعی رحمہ اللہ کے سچے پیروکار تھے اور شافیعہ کا بیس رکعات تراویح پر اتفاق چلاآرہا ہے ۔
امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ ؛ امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے نقل کرتے ہیں : انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین فلما کان فی اللیلۃالثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج الیھم ثم قال من الغد خشیت ان تفرض علیکم فلا تطیقو نہا ۔
اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ”متفق علی صحتہ“اس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ (تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافع الکبیر ج1ص540)

معلوم ہوا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے اس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔

علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی کا مسلک : آپ کے مجموعہ فتاویٰ سے سوال اور جواب ملاحظہ فرمائیں ۔

سوال : حنفیہ بست رکعت تراویح سوائے وتر میخوانند و در حدیث صحیح از عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وارد شدہ ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ پس سند بست رکعت چیست ؟

جواب : روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محمول بر نماز تہجد است کہ در رمضان و غیر رمضان یکساں بود و غالباً بعد یازدہ رکعت مع الوتر بر سند و دلیل بریں محل آنست کہ راوی ایں حدیث ابو سلمہ است درنیہ ایں حدیث میگویدقالت عائشہ رضی اللہ عنہا فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنام قبل ان توتر قال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولا ینام قلبیکذا رواہ البخاری ومسلم و نماز تراویح در عرف آں وقت قیام رمضان مےگفتند و حد صحاح ستہ بروایات صحیحہ مرفوعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعین عدد قیام رمضان مصرح نشدہ این قدر ہست کہقالت عائشہ کان رسول اللہ یجتہد فی رمضان مالا یجتہد فی غیرہ رواہ مسلم لیکن در مصنف ابن ابی شیبہ و سنن بیہقی بروایت ابن عباس وارد شدہکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یصلی فی رمضان جماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر و رواہ البیہقی فی سننہ باسناد صحیح عن السائب بن یزید قال کانو ا یقومون فی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ ۔ (مجموعہ فتاوی مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ ص 59,58،چشتی)

اس عبارت میں وضاحت کے ساتھ مولانا عبد الحئی لکھنوی فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت تہجد پر محمول ہے پھر بھی ان کے نام لے کر یہ کہنا کے وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے بہر حال ہماری سمجھ سے دور ہے ۔

علامہ موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں : ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وان لم یواظب علیہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضاً لازم الاتباع وتارکھا آثم و ان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ فمن اکتفٰی علی ثمان رکعات یکون مسیئاً لترکہ سنۃ الخلفاء وان شِئت ترتیبہ علی سبیل القیاس فقل عشرون رکعۃ فی التراویح مما واظب علیہ الخلفاء الراشدون وکل ما واظب علیہ الخلفاء سنۃ موکدۃ ثم تضمہ مع ان کل سنۃ موکدۃ یاثم تارکھا فینتبع عشرون رکعۃ یا ثم تارکھا و مقدمات ھذا القیاس قدا ثبتنا ھا فی الاصول السابقہ ۔ (تحفۃ الاخیار فی احیاء سنۃ سید الابرار صفحہ 209،چشتی)
ترجمہ : تراویح میں بیس رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس لئے کہ اس پر خلفائے راشدین نے مداومت کی ہے اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مداومت نہیں کی اور پہلے بتایا جا چکا ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی واجب الاتباع ہے اور اس کاچھوڑنے والا گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ترک کرنے والے سے کم ہے لہٰذا جو شخض آٹھ رکعات پر اکتفاء کرے وہ برا کام کرنے والا ہے کیونکہ اس نے خلفا راشدین کی سنت ترک کر دی اگر تم قیاس کے طریقے پر اس کی ترتیب سمجھنا چاہو تو یوں کہو بیس رکعات تراویح پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی اور جس پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی ہو وہ سنت مؤکدہ ہے لہٰذا بیس رکعات تراویح بھی سنت مؤکدہ ہے پھر اس کے ساتھ یہ بھی ملاؤ کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے لہٰذا بیس رکعات کا تارک بھی گنہگار ہو گا۔ اس قیاس کے مقدمات ہم اصول سابقہ میں ثابت کر چکے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : علامہ عبد الحئی لکھنوی تو فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھ کر باقی رکعتوں کو چھوڑنے والا گناہ گار ہے کیونکہ بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی رقمطراز ہیں : فمودی ثمان رکعات یکون تارکا للسنۃ المؤکدہ ۔ (حاشیہ ہدایہ جلد 1 صفحہ 131مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان،چشتی)

یعنی صرف آٹھ رکعات تراویح ادا کرنے والا سنت مؤکدہ کا تارک (گناہ گار) ہے کیونکہ سنت مؤکدہ کو ترک کرنا گناہ ہے ۔

علاوہ ازیں علامہ عبدالحئی لکھنوی نے مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ پر لکھا : بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے اور نمازتراویح سنت مؤکدہ ہے ۔

مندرجہ بالا دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ علمائے اہل سنت و جماعت بالخصوص علمائے احناف کو آٹھ رکعات تراویح کا قائل ماننا سراسر نا انصافی ہے ۔ تمام علمائے احناف کثراللہ سوادھم امت مرحومہ کی اجماعیت کو تسلیم کرتے ہوئے 20 رکعات تراویح ہی ادا کرتے ہیں ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ) (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔