Sunday 10 April 2022

ضمیر اور ضمیر فروش حصّہ دوم

0 comments
ضمیر اور ضمیر فروش حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مسلمان اہلِ علم، انسانی شخصیت (یعنی نفسِ انسانی) کے سلسلے میں مسلسل غور کرتے رہے ہیں اس لیے کہ نفس کا تزکیہ (جس کے معنی اصلاح اور نشو و نما کے ہیں) دین میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ نفسِ انسانی میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں ۔ ترقی کے مدارج کے سلسلے میں قرآنی ارشادات سے استفادہ کرتے ہوئے ، اہلِ علم نے تین درجات کا تذکرہ کیا ہے : (١) اگر انسان کا نفس ، لہو ولعب (کھیل کود) کی جانب ہو ، اس کو نہ نیکی کی طرف رغبت ہو اور نہ نیک کام میں اس کا جی لگے تو ایسے نفس کو ’’نفس امارہ بالسوء‘‘ کہتے ہیں ۔ (۲) اگر نیک و بد اور حسن و قبح کا احساس کرے، کبھی کبھی برائی کا مرتکب ہو بیٹھے لیکن فوراً ہی متنبہ ہوکر اپنی خطا کا معترف ہو اور صدورِ عصیان پر اپنے آپ کو ملامت کرے تو ایسے نفس کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں ۔ (۳) اگر نفس ، نیکی کا شائق اور بدی سے بیزار ہو، عبادت و ریاضت پر مائل، صبر و تحمل کا خوگر اور حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہو تو ایسے پاک نفس کا نام ، نفسِ مطمئنہ ہے ۔

کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو ۔ اس ضمیر میں لازماً ، بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے ۔ اور چاہے انسان ، کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اس کا ضمیر ، اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے ، قطعِ نظر اس سے کہ اُس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو ، وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط ۔

یہ (احساس) اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نِرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے ، اُس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے ۔

انسان کے اندر ضمیر اور اخلاقی حس کی موجودگی اتنی واضح اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے ۔ البتہ اس اخلاقی حس کی توجیہ کے سلسلے میں غیب کے قائلین اور غیب کے منکرین کے درمیان ، بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جو سوچنے والے خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور غیبی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اُن کے نزدیک اخلاقی حس اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے اور انسان کا شرف و امتیاز ، اخلاقی حس کی موجودگی سے وابستہ ہے ۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے : أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِ ۔ وَلِسَاناً وَشَفَتَیْنِ ۔ وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ ۔ (سورہ البلد: ۸-۱۰)
تجمہ : کیا ہم نے اُس (انسان) کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی) کے دونوں نمایاں راستے اُسے نہیں دکھا دیے ؟

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا ۔ فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا ۔ (الشمس: ۷-۱۰)                                                      
ترجمہ : اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اُس پر الہام کردی ۔ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اُسے دبا دیا ۔

وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ ۔ وَطُورِ سِیْنِیْنَ ۔ وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِ ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ (سورہ التین: ۱-۴)                                             
ترجمہ : قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی ۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔

انسانوں میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں : ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ، جہاں اُن سے زیادہ نیچ ، کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی ۔ دوسرے ، وہ جو ایمان و عملِ صالح کا راستہ اختیار کرکے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو ان کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے ۔ (چشتی)

غیب پر ایمان لانے والے ، انسانی شخصیت میں ضمیر کی موجودگی کو اُن علامات میں شمار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمتِ بالغہ کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔ اس کے برعکس جو لوگ غیب کے قائل نہیں ہیں اور اس بنا پر خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ، ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انسانی ضمیر، محض سماجی روایات کا نام ہے ۔ اُن کے خیال کے مطابق انسانوں کو تجربے نے یہ بتایا کہ انسانی سماج کی بقا اور انسانوں کے درمیان باہمی تعاون کےلیے بعض صفات ناگزیر ہیں (مثلاً سچائی ، دیانت داری وغیرہ) ۔ اسی طرح لوگوں نے یہ دیکھا کہ جھوٹ اور فریب وغیرہ کے فروغ سے سماجی انتشار پیدا ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے سماج کے لیے مفید صفات کو مطلوب ٹھہرادیا اور مضر خصائل کو ناپسندیدہ اور غیرمطلوب قرار دیا ۔ آہستہ آہستہ بعض اوصاف کے مطلوب یا غیر مطلوب ہونے کے اس تصور میں تقدس کا رنگ پیدا ہوگیا اور محض سماجی روایات کے بجائے انہیں اخلاقی حس سے تعبیر کیا جانے لگا ۔ گویا منکرینِ غیب کے نزدیک جن معیارات کو اخلاقی معیارات کہا جاتا ہے وہ محض اپنی سماجی افادیت کی وجہ سے اختیار کرلیے گئے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کے وجودِ حیوانی میں ’’فطرتِ انسانی‘‘ نامی شے واقعتا پائی جاتی ہو، جو (سماجی تجربے سے قطعِ نظر) اخلاقی حس کی، بطورِ خود (Innate) موجودگی پر دلالت کرتی ہو ۔

مادیت سے متاثر ، انسانی ضمیر کی مندرجہ بالا توجیہ کو تسلیم کرنا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہزار کٹھ حجتیوں کے باوجود ، انسان اپنے ان اندرونی احساسات کو نہیں جھٹلا سکتا جو کوئی برا فعل کر گزرنے کے بعد ضمیر کی ملامت کی صورت میں ، اس کے اندرون میں نمودار ہوتے ہیں ۔ مزید برآں ضمیر انسانی کی مادّی و تجرباتی تعبیر کے غلط ہونے کی قوی تر دلیل ، یہ واقعہ ہے کہ جب کسی فرد (مثلاً زید) کو بکر کی بددیانتی یا فریب سے واسطہ پیش آتا ہے تو زید کو سخت شکایت ہوتی ہے اور وہ اپنی شکایت کا اظہار کرتے وقت ، اخلاقی معیارات ہی کا سہارا لیتا ہے ۔ انسانو ںکا یہ طرزِ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاقی حسن و قبح کے تصورات محض سماجی معاہدے نہیں ہیں جو اجتماعی مفاد کی خدمت کےلیے استوار کرلیے گئے ہوں بلکہ ان اخلاقی تصورات کی جڑیں ، انسان کی فطری ساخت میں پیوست ہیں ۔ اس اعتبار سے انسان محض حیوانی وجود یا محض سماجی جاندار نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا اصل جوہر اخلاق ہے ۔

غور سے دیکھیں تو غیب کے منکرین سے انسانی شخصیت اور سماج کو سمجھنے میں ، لغزش ہوئی ہے ۔ وہ انسانوں کے طرزِ عمل کے مشاہدے سے جو نتیجہ نکالتے ہیں ، اس کو اِن الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے : انسانوں کے درمیان تعاون ، اشتراکِ عمل اور بقائے باہم کےلیے بعض قدروں کو اپنا لیا جانا مفید ثابت ہوا ہے ، چنانچہ ان قدروں کو لوگوں نے آفاقی حقیقتوں کا درجہ دے دیا ہے ۔ (چشتی)

منکرینِ غیب کا نکالا ہوا مندرجہ بالا نتیجہ ، امرِ واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے ۔ اگر انسان کج فہمی کا شکار نہ ہو تو وہ درجِ بالا موقف کے بجائے ، (انسانی سماج کے مشاہدے سے) جو درست نتیجہ اخذ کرے گا ، وہ یہ ہوگا : ⬇
انسانی فطرت ، وجدانی طور پرنیکی اور بدی نیز حق و باطل کے امتیاز  سے واقف ہے ۔ چونکہ نیک رویہ ، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے ، اس لیے جب انسان نیکی کی روش اختیار کرتے ہیں تو سماج میں ہم آہنگی اور استحکام پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس بدی اور برائی ، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ٹکراؤ کے ہم معنی ہے چنانچہ انسانوں کا برا طرزِ عمل ، سماج میں انتشار اور فساد پیدا کرتا ہے ۔ گویا جو رویہ حقیقت کے مطابق ہے ، وہی انسانوں کےلیے مفید بھی ہے ۔ قرآنِ مجید اس جانب اشارہ کرتا ہے : أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء  مَاء  فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء  وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالَ ۔ (سورہ الرعد : ۱۷)                                                 ترجمہ : اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے ۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کےلیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ۔ اس مثال سے اللہ ، حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے ۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کےلیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے ۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے ۔

آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہ پڑے ۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق ، خدا نے جتنا چاہا پانی جاری کر دیا ۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہوگیا ۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا ۔ (چشتی)

اسی طرح تیز آگ میں لوگ ، چاندی ، تانبہ ، لوہا اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تاکہ زیور ، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں ۔ اس کام میں بھی اس طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد ، خشک یا منتشر ہوکر ، جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہی زمین میں باقی رہ جاتی ہے ، جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں ۔ یہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو ۔

جب وحی آسمانی ، دینِ حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوبِ بنی آدم ، اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں ۔ پھر حق اور باطل، باہم بھڑ جاتے ہیں تو میل ابھر آتا ہے ۔ بظاہر باطل ، جھاگ کی طرح ، حق کو دبا لیتا ہے لیکن اس کا یہ اُبال عارضی اور بے بنیاد ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا ، خدا جانے کِدھر گیا ۔ جو اصلی اور کارآمد چیز ، جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس وہی باقی رہ جاتی ہے ۔

قرآنِ مجید نے حق کے نافع ہونے کی طرف (اور باطل کے غیر نافع ہونے کی طرف) اشارہ کیا ہے ۔ حق اور باطل کا امتیاز ، زندگی اور معاملاتِ زندگی کے ہر گوشے میں کیا جانا چاہیے ۔ اس قرآنی طرزِ فکر کے مطابق جب انسانی زندگی کے اخلاقی پہلو پر غور کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وحی الٰہی پر مبنی اخلاقی تعلیمات ، محض اس بنا پر واجب التعمیل نہیں ہیں کہ اُن کے اچھے نتائج ، دنیا میں نکلتے ہیں ۔ اخلاقی تعلیمات کی سماجی افادیت تو اُن کے فیض کا صرف ایک جُز ہے ۔ محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کا اصل محرک اُن کا حق و صداقت پر مبنی ہونا ہے ۔ جب انسان ، انفس و آفاق کے دلائل پر غور کرتا ہے اور وحی الہی کے لانے والے پیغمبروں کی بے داغ سیرت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اُن کی دعوت کی صداقت پر یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔ اس یقین کے نتیجے میں وہ یہ جان لیتا ہے کہ پیغمبروں کے ذریعے لائی گئی تعلیمات حق و صداقت پر مبنی ہیں ۔ ان تعلیمات کا ایک اہم شعبہ محاسنِ اخلاق سے متعلق ہے ۔ چنانچہ وہ اُن کو اختیار کرتا ہے ۔ اس طرح حسنِ اخلاق کا اصل محرک حق پرستی کا جذبہ قرار پاتا ہے ۔ داعیانِ حق جو انبیاء کرام کے اُسوے کی پیروی کرتے ہوئے ، انسانوں کو درستگی اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں ، اُن کی اصلاحی مساعی میں حق پرستی کو اساسی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔  اخلاقی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ درستگی اخلاق کا حقیقی محرک ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے ، تاکہ انسان ، رائج الوقت افادی نقطہ نظر سے متاثر نہ ہو ۔

انسانی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو آزادی انتخاب ہے ۔ حق وباطل  کے درمیان انتخاب کی آزادی ، انسان کی اخلاقی حس سے گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ (چشتی)

اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی ایک قوّت رکھی ہے ، جس طرح ظاہری آنکھیں اگر اندھی نہ ہوں تو سیاہ و سفید کے فرق کو پہچانتی ہیں ، اسی طرح دِل کی وہ قوّت، جس کو “بصیرت” کہا جاتا ہے ، صحیح کام کرتی ہو تو وہ بھی نیکی اور بدی کے فرق کو پہچانتی ہے۔ اگر آدمی کوئی غلط کام کرے تو آدمی کا دِل اس کو ملامت کرتا ہے اسی کو “ضمیر” کہا جاتا ہے ، لیکن جب آدمی مسلسل غلط کام کرتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کا دِل اندھا ہوجاتا ہے اور وہ نیکی و بدی کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیتا ہے ، اسی کا نام “ضمیر کا مرجانا” ہے ۔ جن لوگوں کا ضمیر زندہ اور قلب کی بصیرت تابندہ اور روشن ہو ان کو بعض اوقات فتویٰ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز جائز ہے ، مگر ان کا ضمیر اس پر مطمئن نہیں ہوتا ، اس لیے ایسے اربابِ بصیرت ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں ، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث میں فرمایا گیا ہے : اپنے دِل سے فتویٰ پوچھو ، خواہ فتویٰ دینے والے تمہیں جواز کا فتویٰ دیں ۔ (چشتی)

جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی قوّت رکھی ہے ، جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی نیکی اور بدی کی پہچان اور صحیح اور غلط کی شناخت کے لیے بھیجا ، کیونکہ آدمی پر اکثر و بیشتر حرص ، ہویٰ اور خواہشات کا غلبہ رہتا ہے ، جو اس کی بصیرت کو اندھا اور اس کے ضمیر کو مردہ کردیتی ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے بھیجی ہوئی شریعت کو حق و باطل اور صحیح و غلط کے پہچاننے کا اصل معیار ٹھہرایا ہے ، پس کسی شخص کے ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ “معیارِ شریعت” پر مطمئن ہو، اور ضمیر کے مردہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو خلافِ شرع کاموں پر تو اطمینان ہو ، مگر اَحکامِ شرعی پر اطمینان نہ ہو ، اس لیے جو کام خلافِ شرع ہو اس پر کسی کے ضمیر کا مطمئن ہونا کافی نہیں بلکہ یہ اس کے دِل کے اندھا اور ضمیر کے مردہ ہونے کی علامت ہے ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے : بے شک بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دِل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔