Saturday 2 April 2022

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ پنجم

0 comments
فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : بیس (20) رکعات نماز تراویح پر علمائے امت کا اجماع ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد : ترمذی شریف میں بابُ مَاجَاءَ فِي قِیَامِ شَھْرِ رَمضان کے تحت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے قیام رمضان یعنی تراویح کے باب میں احادیث پیش کرتے ہوئے فرمایا : واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة وَأ کْثرُ أھلِ العِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَن عَلِّيٍ وَ عُمَرَ وَغَیْرِھِمَا مِنْ أصحابِ النبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَ ھُوَ قَولُ الثَّوريِّ وَ ابْنِ المبارَکِ و الشَّافَعيِّ وقالَ الشافِعيُّ وَ ھَکذا أدْرکْتُ بِبَلَدِنَا مَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ۔ (ترمذی جلد ص 104)
ترجمہ : تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں ، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے ، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں ، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں قَدْ ثَبَتَ أنَّ اُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ کانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي قِیَامِ رَمَضانَ یُوتِرُ بِثَلاثٍ فَرَأی کَثِیْرٌ مِنْ العُلَمَاءِ أنَّ ذَلِکَ ھُوَ السُنَّۃُِ لأنَّہُ أقَامَہُ بَیْنَ المُھَاجِرِیْنَ وَالأنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْہُ مُنْکِرٌ ۔
ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) لوگوں کو قیام رمضان ( نماز تراویح) کے بیس (20) رکعات پڑھاتے اور وتر تین رکعات پڑھاتے تھے ، کثرت سے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کرام اور انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ۔(فتاوی ابن تیمیہ ص 112 ج 23) علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : اگر کوئی نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگی ۔ (الاختیارات صفحہ 64 ،چشتی)

غنیۃ الطالبین یں ہے : وَصَلاۃُ التَراویْحِ سُنَّۃُ النَّبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وَھِيَ عِشْرُونَ رَکْعَۃً یَجْلِسُ عَقِبَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُسَلِّمُ ۔
ترجمہ : نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور یہ بیس رکعات ہے ہر دو رکعت کے بعد بیٹھے اور سلام پھیرے ۔ (غنیۃالطالبین صفحہ 567)

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔ امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے (یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے) ۔ (فیض الباری شرح بخاری العرف الشذی بحر الرائق طحاوی،چشتی)

آثار امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ (صحابہ وتابعین) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھے (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ، اس طرح پانچ ترویحات ، بیس رکعتں ہوگئیں)

امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب “ مبسوط “ جو کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے میں فرماتے ہیں : تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ، اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر ( 16 رکعتیں ) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں ( یعنی دو دو رکعتیں کر کے ) اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں۔(مبسوط جلد 2)

ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا ، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔ اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لیے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔ ( بدائع الصنائع جلد 1)

علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔ والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ۔ (ہدایہ ج1 ص 151،چشتی)

علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله علیه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه ، امام شافعی رحمة الله علیه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد)

علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا فرمایا ۔ (المغنی)

علامہ نووی شافعی رحمة الله علیه لکھتے ہیں ۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے ، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله علیه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہو رعلماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)

امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔ (المبسوط  2 / 145)
اورابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ابوعبداللہ (یعنی امام احمد) رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہیں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اور امام مالک رحمہم اللہ تعالی علیہم کہتے ہیں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔ (المغنی لابن قدامہ المقدسی 1 / 457)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اور ہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کر کے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔ (المجموع للنووی  4 / 31)

قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی 595ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں ۔ واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث ۔ رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ ، شافعی ، احمد رحمہم اللہ اور داوٴد رحمۃ اللہ علیہ نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے ، اور ابنِ قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے ۔ (بدایة المجتہد ج ص 156، مکتبہ علمیہ لاہور)

مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی 1201ھ) لکھتے ہیں
“وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل۔” اور تراویح، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا) عمل تھا ، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں ، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر) ۔ (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ص 315،چشتی)

امام محی الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 676ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں (فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداوٓد وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بنیزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔” رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام داوٴد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے ، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تراویح نو ترویحے ہیں ، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (مجموع شرح مہذب جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 32،چشتی)

حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی 620ھ) المغنی میں لکھتے ہیں“والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون ۔” امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں ۔ امام ثوری ، ابوحنیفہ اور شافعی رحمہم اللہ علیہم بھی اسی کے قائل ہیں ، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ چھتیس کے قائل ہیں ۔ (مغنی ابنِ قدامہ صفحہ 798 ، 799 ، مع الشرح الکبیر)

تراویح کی ابتدا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوئی ، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو ، چار چار آدمی جماعت کر لیتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا ، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں ، اور بیس رکعات ہی سنتِ موٴکدہ ہیں ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح ، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے ۔ جعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ 173،چشتی)

اس لیے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں ، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے ۔ تہجد الگ نماز ہے ، جو کہ رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں مسنون ہے ، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے ، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جا سکتا ، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں ، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں ، اس لیے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔

جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، وہ بھی تراویح پڑھے ۔ جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا ، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے ، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا ۔ (صحیح بخاری صفحہ 269، باب فضل من قام رمضان،چشتی)

اور یہ خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے دُوسرے سال یعنی 14ھ کا واقعہ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر 121)(تاریخ ابنِ اثیر جلد صفحہ 189) (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔