فضائل و مناقب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَوْمًا: يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ. فَقُلْتُ: وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُةُ، تَرَي مَا لَا أَرَي تُرِددُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور الله کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ (یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم: 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب: الاستئذان، باب: ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم: 2693)
عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَي أَنَّکِ فِي سَرَقَةٍ مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ: هَذِهِ امْرَأَتُکَ، فَاکْشَفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اللهِ يُمْضِهِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا کہ اگر یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: تزويج النبي عائشة، 3 / 1415، الرقم: 3682، و في کتاب: النکاح، باب: قول الله ولا جناح عليکم فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم: 2438، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 41، الرقم: 24188،چشتی)
عَنْ أَبِي عُثْمَانَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلٰى جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلٰىکَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ. قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: أَبُوْهَا. قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ ۔
ترجمہ : حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر فرمایا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟ فرمایا: اس کا والد، میں نے عرض کیا: ان کے بعد کو ن ہے؟ فرمایا: عمر، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے نام لئے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584، الرقم: 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أبي بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: فضل عائشة، 5 / 706، الرقم: 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم: 6885)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَ إِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي. قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَ مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِکَ؟ فَقَالَ: أَمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّکِ تَقُولِيْنَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَ إِذَا کُنْتِ غَضْبَي قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللهِ، يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ یہ بات آپ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ رب محمد کی قسم! اور جب تم ناخوش ہوتی ہو تو کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم! وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ خدا کی قسم! یارسول الله! اس وقت میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: غيرة النساء ووجدهن، 5 / 2004، الرقم: 4930، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1890، الرقم: 2439، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 49، الرقم: 7112، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 61، الرقم: 24363،چشتی)
عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها: أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُوْنَ بِهَا أَوْ يَبْتَغُوْنَ بِذَلِکَ مَرْضَاةَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس عمل سے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب: قبول الهدية، 2 / 910، الرقم: 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم: 2441، و النسائي في السنن، کتاب: عشرة النساء، باب: حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم: 3951، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم: 11723)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَيَتَعَذُّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ ؟ أَيْنَ أَنَا غَدًا ؟ اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا کَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللهُ بَيْنَ سَحْرِي وَ نَحْرِي وَ دُفِنَ فِي بَيْتِي ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ میں آج کہاں رہوں گا؟ کل میں کہاں رہوں گا؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرانور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ قبض کرلی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في قبر النبي ﷺ، 1 / 486، الرقم: 1323، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة رضی الله عنها ، 4 / 1893، الرقم؛ 2443)
عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ وَ أَنَا أَنْظُرُ إِلٰى الْحَبَشَةِ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّي أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَسْأَمُ فَاقْدُرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيْثَةِ السِّنِّ الْحَرِيْصَةِ عَلَي اللَّهْوِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے لیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کھیل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں ان کا کھیل دیکھتی رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شائق ہو وہ کب تک دیکھے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: نظر المرأة إلي الحبش و نحوهم من غير ريبة، 5 / 2006، الرقم: 4938، و مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة العيدين، باب: الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 / 608، الرقم: 892، و النسائي في السنن، کتاب: صلاة العيدين، باب: اللعب في المسجد يوم العيد و نظر النساء إلي ذلک، 3 / 195، الرقم: 1595، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 85، الرقم: 24596، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 179، الرقم: 282،چشتی)
عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ. قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قُبَيْلَ مَوْتِهَا عَلَي عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوْبَةٌ. قَالَتْ: أَخْشَي أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيْلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ مِنْ وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ؟ فَقَالَ: کَيْفَ تَجِدِيْنَکِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنْ اتَّقَيْتُ. قَالَ: فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالَي، زَوْجَةُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَمْ يَنْکِحْ بِکْرًا غَيرَکِ وَ نَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ السَّمَاءِ، وَ دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثَنَي عَلَيَّ وَ وَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۔
ترجمہ : امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف کریں گے۔ حاضرین نے کہا: یہ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اچھا انہیں اجازت دے دو۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ جواب دیا: اگر پرہیزگارہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء الله بہترہی رہے گا کیونکہ آپ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا: حضرت عبد الله بن عباس آئے تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التفسير، باب: ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779، الرقم: 4476،چشتی)
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضی الله عنها لَا تُمْسِکُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ هَا مِنْ رِزْقِ اللهِ تَعَالَي إِلَّا تَصَدَّقَتْ بِهِ ۔
ترجمہ : حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب قريش، 3 / 1291، الرقم: 3314)
عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَارِسِيًا کَانَ طَيبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ: وَ هَذِهِ لِعَائِشَةَ فَقَالَ: لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ، قَالَ: نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتَّي أَتَيَا مَنْزِلَهُ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے عرض کیا: نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اس شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی، اس نے عرض کیا: ہاں یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم: 2037، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم: 12265)
عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلٰى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم: 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6، الرقم: 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم: 1237، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141،چشتی)
عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ: مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا ۔
ترجمہ : حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)
عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ ۔
ترجمہ : حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12، الرقم: 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم: 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجاله رجال الصحيح،چشتی)
عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها في رواية طويلة: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِفَاطِمَةَ: إِنَّهَا (أَي عَائِشَةَ) حِبَّةُ أَبِيْکَ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا ایک طویل حدیث میں روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا: رب کعبہ کی قسم! بے شک عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في الانتصار، 4 / 274، الرقم: 4898، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 322)
عَنْ ذَکْوَانَ حَاجِبِ عَائِشَةَ: أَنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَي عَائِشَةَ... فَقَالَتْ: ائْذِنْ لَهُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: فَأَدْخَلْتُهُ فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ: أَبْشِرِي، فَقَالَتْ: أَيْضًا، فَقَالَ: مَا بَيْنَکِ وَ بَيْنَ أَنْ تَلْقَي مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ الْأَحِبَّةَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ، کُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَ لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أَصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللهُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أَنْزَلَ اللهُ عزوجل لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَ أَنْزَلَ اللهُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ، فَأَصْبَحَ لَيْسَِﷲِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اللهِ يُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنْکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًا ۔
ترجمہ : حضرت ذکوان جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ملنے کی اجازت طلب کرنے کیلئے تشریف لائے۔. . تو آپ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو انہیں اجازت دے دو، راوی بیان کرتے ہیں پھر میں ان کو اندر لے آیا پس جب وہ بیٹھ گئے تو عرض کرنے لگے: اے ام المومنین! آپ کو خوشخبری ہو، آپ نے جواباً فرمایا: اور تمہیں بھی خوشخبری ہو، پھر انہوں نے عرض کیا: آپ کی آپ کے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میں سوائے آپ کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے کے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ازواج مطہرات سے بڑھ کر عزیز تھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے پاکیزہ چیز کے کسی کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور ابوا والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ’’پس تیمم کرو پاکیزہ مٹی کے ساتھ۔‘‘ اور یہ سارا آپ کے سبب ہوا اور یہ جو رخصت اللہ تعالیٰ نے (تیمم کی شکل میں) نازل فرمائی (یہ بھی آپ کی بدولت ہوا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے حضرت جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے پس اب اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جس میں اس (سورئہ براءت) کی رات دن تلاوت نہ ہوتی ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اے ابن عباس! بس کرو میری اور تعریف نہ کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی (جسے کوئی نہ جانتا ہوتا) ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 276، الرقم: 2496، و ابن حبان في الصحيح في الصحيح، 16 / 41، 42، الرقم: 7108، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 321، الرقم: 10783، و أبو يعلي في المسند، 5 / 5765، الرقم: 2648،چشتی)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ: رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلٰى مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ: وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ: ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ، قَالَتْ: وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اللهُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے یہ منظر دیکھا؟ آپ نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے، پس کتنا ہی اچھا دوست (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس) اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم: 24506، 2 / 871، الرقم: 1635، و الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم: 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20)
عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا رَأَيْتُ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طَيِّبَ نَفْسٍ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ لِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِعَائِشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهَا وَ مَا تَأَخَّرَ مَا أَسَرَّتْ وَمَا أَعْلَنَتْ فَضَحِکَتْ عَائِشَةُ حَتَّي سَقَطَ رَأْسُهَا فِي حِجْرِهَا مِنَ الضِّحْکِ، قَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَيَسُرُّکِ دُعَائِي، فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا يَسُرُّنِي دُعَاؤُکَ، فَقَالَ ﷺ: وَاللهِ، إِنَّهَا لَدُعَائِي لِأُمَّتِي فِي کُلِّ صَلَاةٍ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہری و باطنی، تمام گناہ معاف فرما (ایسا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرائے مزاح فرمایا) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی الله عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا (یعنی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں) اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کیلئے خاص ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 6 / 48، الرقم: 7111، الحاکم في المستدرک، 4 / 13، الرقم: 6738، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32285، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 498، الرقم: 2032، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 145، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)
عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم: 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)
عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ ۔
ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم: 26044، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18،چشتی)
عَنِ الزُّهْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ عِلْمُ عَائِشَةَ أَکْثَرُ مِنْ عِلْمِهِنَّ ۔
ترجمہ : حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم: 299، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجال هذا الحديث ثقات،چشتی)
عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا رَأَيْتُ خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔
ترجمہ : قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم: 298، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 398، الرقم: 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)
عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَ لَا بِفَرِيْضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَ لَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔
ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں کی باتیں، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 49، 50، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32)
عَنْ أُمِّ ذَرَّةَ وَ کَانَتْ تَغْشَي عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَعَثَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلٰىهَا بِمَالٍ فِي غَرَارَتَيْنِ ثَمَانِيْنَ أَوْ مِائَةَ أَلْفٍ فَدَعَتْ بِطَبْقٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صَائِمَةٌ فَجَلَسَتْ تَقْسِمُ بَيْنَ النَّاسِ فَأَمْسَتْ وَ مَا عِنْدَهَا مِنْ ذَلِکَ دِرْهَمٌ فَلَمَّا أَمْسَتْ، قَالَتْ: يَا جَارِيَةُ، هَلُمِّي فِطْرِي فَجَاءَ تْهَا بِخُبْزٍ وَ زَيْتٍ، فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ ذَرَّةَ: أَمَا اسْتَطَعْتِ مِمَّا قَسَمْتِ الْيَوْمَ أَنْ تَشْتَرِي لَنَا لَحْمًا بِدِرْهَمٍ نَفْطُرُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: لاَ تُعَنِّفِيْنِي، لَوْ کُنْتِ ذَکَرْتِيْنِي لَفَعَلْتُ ۔
ترجمہ : حضرت ام ذرہ، جو کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لئے) ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہو گئی تو آپ نے فرمایا: اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا: کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا: اب میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 67،چشتی)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ امْرَأَ تَيْنِ أَجْوَدَ مِنْ عَائِشَةَ وَ أَسْمَاءَ وَ جُوْدُهُمَا مَخْتَلِفٌ: أَمَّا عَائِشَةُ، فَکَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْئَ إِلٰى الشَّيْيئِ حَتَّي إِذَا کَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ وَ أَمَّا أَسْمَاءُ فَکَانَتْ لَا تُمْسِکُ شَيْئًا لِغَدٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی الله عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہو جاتیں تو آپ انہیں (غربا اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں، جبکہ حضرت اسماء (بھی) اپنے پاس کل کیلئے کوئی چیز نہیں بچا کر رکھتی تھیں ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 106، الرقم: 286، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 58، 59)
عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلٰى عَائِشَةَ بِطَوْقٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيْهِ جَوْهَرٌ قُوِّمَ بِمِائَةِ أَلْفٍ، فَقَسَّمَتْهُ بَيْنَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت عطا سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو سونے کا ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا ۔ (أخرجه هناد في الزهد، 1 / 337، الرقم: 618، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 29،چشتی)
عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، کَانَتْ تَسْرَدُ الصَّوْمَ. وَ عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ عَائِشَةَ کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّهْرَ وَ لاَ تَفْطُرُ إِلَّا يَوْمَ أَضْحَي أَوْ يَوْمَ فِطْرٍ ۔ و في رواية عنه: قَالَ: کُنْتُ إِذَا غَدَوْتُ أَبْدَأُ بِبَيْتِ عَائِشَةَ أُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَغَدَوْتُ يَوْمًا فَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تَسَبِّحُ وَ تَقْرَأُ: (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) وَ تَدْعُوْ وَ تَبْکِي وَ تُرَدِّدُهَا فَقُمْتُ حَتَّي مَلَلْتُ الْقِيَامَ فَذَهَبْتُ إِلٰى السُّوْقِ لِحَاجَتِي ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هِي قَائِمَةٌ کَمَا هِيَ تُصَلِّي وَ تَبْکِي ۔
ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عید الاضحی اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں ۔ اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) اور دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہیں ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں ۔ (أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم: 4048، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 375، الرقم: 2092، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 31) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)
No comments:
Post a Comment