Sunday 10 April 2022

ضمیر اور ضمیر فروش حصّہ اوّل

0 comments
ضمیر اور ضمیر فروش حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : انسانی شخصیت کی درست معرفت کےلیے اُس کی ماہیت سے متعلق دو اہم صداقتوں ۔ اخلاقی حس اور آزادی انتخاب ۔ کا ادراک ضروری ہے ۔ ان میں سے پہلی صداقت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہر انسان صالح فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ فطری طور پر ہر انسان کا وجدان اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ اس کا ایک رَب ہے ، جس نے اُسے تخلیق کیا ہے اور جو تنہا عبادت کا مستحق ہے ۔ اسی طرح اُس کی فطرت اپنے خالق کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی رکھتی ہے ۔ انسان فطری طور پر یہ بھی جانتا ہے کہ سچائی ، دیانت داری ، حیا اور عدل و انصاف اچھی خصلتیں ہیں اور انسانی شخصیت کا حسن اِن اوصافِ حسنہ کی موجودگی سے وابستہ ہے ۔ ان اچھی صفات کے برعکس ، کذب ، بددیانتی ، بے حیائی اور ظلم و زیادتی ناپسندیدہ ہیں اور انسانی شخصیت کے اندر بگاڑ پیدا کرتی ہیں ۔ انسان کی اس فطرتِ صالحہ کا زندہ مظہر ، انسانی ضمیر ہے جو نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے اور نیکی کی طرف انسان کو مائل کرتا رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو ’’نفسِ لوامہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے : لَاۤ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ (1) وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (2) ۔ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ (3) ۔ (سورہ القیامہ: ۱-۳)
ترجمہ : میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے ۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) اُس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ۔

گو کہ آج کی بے ضمیری دُنیا میں ضمیر کی بات کرنا بجائے خود اپنے ضمیر کے خلاف بات کرنے کے مترادف ہے تاہم ہمارے خیال میں ایسی بات ضرور کرنی چاہیے جس سے کسی کے ضمیر پر دباٶ پڑے اور ضمیر چیخ اُٹھے ورنہ تو وہ بالکل ہی بے حس ہوجائے گا بلکہ مرجائے گا۔ سو ضمیر کے حوالے سے آج ہم نے کہنا یہ ہے کہ یہ دُنیا کا واحد لفظ ہے جو کھربوں انسانوں میں لفاظی کی حد تک سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ مقبول بھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بیک وقت واحد لفظ ہے جس کا ترجمہ یا کارکردگی اول تو کسی کو معلوم ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو عافیت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ اس کی کارکردگی بلکہ سرے سے اس  کی شناخت و پرداخت و یادداشت سے مُنکر ہو لیا جائے تاکہ یہ انسان کو اُس کی فلاح و اصلاح کے حوالے سے دبائو کا شکار کر کے کسی دوسری ایسی دُنیا میں نہ لے جائے جو اُسکی ذاتی پیچیدہ ، پُراسرار اور اخلاق سوز حرکات سے بھرپور دُنیا سے قطعی طور پر مختلف ہو چنانچہ اس لفظ کو بصد کوششِ بسیار محض لفظ ہونے تک محدود رکھا اور سمجھا جاتا ہے جبکہ فقیر کی ذاتی رائے میں حقیقتِ حال یہ ہے کہ یہ لفظ محض ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے ہونے کا جواز ہے ۔ (چشتی)

یہ آپ کی بنیادی بنیاد ہے ، یہ انسان کی ابتداء ہے اور اسی کی موت پر اس کی انتہا ہوجائے گی یاد رکھیے پوری دُنیا میں یہی ایک روشن طاقت کام کر رہی ہے جس روز یہ روشنی انسانوں کے اندر سمٹی ہوئی ایک انتہائی جری اور پُراسرار قوت کا نام ہے جو شخص اپنی زندگی میں اس کا سامنا کر گیا ، اس کے سامنے قدِ آدم کھڑا ہو گیا وہی جیت گیا سو خود سے خود مت ہارئیے ، ٹھوکر مت کھائیے ، جب تک یہ طاقت آپ میں موجود ہے آپ ناقابلِ شکست ہیں اس سے خالی ہونا نہ صرف یہ کہ اخلاقی تنزل کی انتہا ہے بلکہ دونوں دنیاٶں میں آپ کی مکمل اور حتمی تباہی ہے اس تباہی سے بچنے کےلیے اس کو زندہ رکھیے ، اسے کمزور نہ ہونے دیں، اس کے جینے کی خاطر بیشک مر جائیے کیونکہ یہی آپ کی اپنے ساتھ اور کائنات اور ربِ کائنات کے ساتھ ایمانداری ہے اس کی آواز پر کان کھلے رکھیں ، اس کی ہمیشہ سنتے رہیں کیونکہ آپ کے اندر کی یہ نور بھری طاقت جھوٹی ، دوغلی یا منافق نہیں ہے۔ مت بھولیں کہ ہمارے پورے جسم کے پوست میں یہی ایک بوٹی سب سے زیادہ طاقت ور اور زور آور ہے یہ نہ چین لیتی ہے نہ چین لینے دیتی ہے خود پھڑکتی ہے تو آپ کو بھی پھڑکا دیتی ہے اور دراصل ضمیر کے پھڑکے ہوئے لوگ ہی کھرے لوگ ہوتے ہیں یہ قوت جب کوئی اخلاق سوز واقعہ دیکھتی ہے ، انسانی اقدار کو موئے آتش دیدہ بنتے دیکھتی ہے تو ہمارے دل کے پہلوٶں کی دیواروں سے سر ٹکرانے لگتی ہے انہیں توڑتی پھوڑتی ہے ‘یہ ہمیں جگاتی ہے‘ جگائے رکھتی ہے ہمیں چکرا ڈالتی ہے ، ضد کرتی ہے لہٰذا اس کے سامنے سر جھکا دیں ، اس سے جھگڑا مت کریں ، اس کو مت ماریں، اس کے جینے میں آپ کا جینا اور اس کے مرنے میں آپ کا مرنا ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کی چُبھن کی وجہ ہی سے آپ میں جان ہے ۔ اس کانٹے کی وجہ سے انسان کی پوری زندگی پھول ہے ‘ سارے جگ میں اسی خشبو کی خشبو ہے‘ سو اس خشبو کی حفاظت کیجیے‘ اس کو اپنے اندر ڈھانک کر رکھیے ، اس کی عزت کیجیے ، اس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچنے دیں یہ پوری زندگی آپ کو پھول کی طرح ترو تازی رکھے گی‘ یہ آپ کے اور آپ کے پیدا کرنے والے کے بیچ ربط کا سب سے بڑا واسطہ اور راستہ ہے اس کے راستے پر سیدھے قدموں سے چلتے جائیے پوری دنیا سیدھے راستے پر رواں دواں ہوجائے گی ۔

آپ نے اکیلے یہ کام کرلیا تو اسی میں آپ کی دونوں دُنیاٶں کی سنوار ہے مگر انسان اکیلا کہاں ہے ہم سب انسان مل جل کر دنیا کہلاتے ہیں اور پوری دُنیا ضمیر کی بیداری ہی سے سنور سکتی تھی سو یہ مت کہئے کہ ’’ضمیر‘‘ محض ایک لفظ ہے یہ پوری کائنات ہے ایسی خوبصورت کائنات جو آپ کے اردگرد کی بدی‘ بدنیتی اور جھوٹ و منافقت بھری کائنات سے قطعی طور پر مختلف ہے اس کی تعظیم و تکریم کیجئے اِسی حساب سے دُنیا بھی (اگر باضمیر ہو تو) آپ کی تعظیم و تکریم کرے گی جبکہ اللہ تعالیٰ بھی اجر عظیم عطا کرے گا ۔ (چشتی)

ضمیر کی آواز

یہ وہ خوبصورت آواز ہے جو دل کی گہرائیوں سے قلبی کیفیات کے زور پر اٹھتی ہے اور ہر اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے جو انسان اپنے نفس کے بے قابو گھوڑے پر سوار انسانیت کی حدود پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اخلاقیات کے بندھن توڑتا ہے ۔ اپنی معاشرتی بداعمالیوں سے معاشرے کے امن اورچین میں خلل پیدا کرتا ہے ۔ اس کے جھٹکے اس وقت تک لگتے رہتے ہیں جب تک انسان اپنی نفسانی خواہش سے باز نہیں آتا ۔ کبھی یہ اخلاقی پابندیوں کا واسطہ دیتی ہے ، کبھی گناہ کے فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے ، کبھی خاندانی شہرت پر داغ لگنے کی دھمکی دیتی ہے ، کبھی ذاتی بے راہ روی کے طعنے دیتی ہے، کبھی آخرت کے عذاب کا خوف دلاتی ہے ، کبھی معاشرتی تنقید کا ڈر ذہن میں بٹھاتی ہے ، کبھی قانونی حجاب کے پردے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی احتساب کا خوف رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن جب کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو ، بے عملی اور بے راہ روی غالب رہے تو جرم گناہ کے ساتھ یہی ندامت کا روپ سامنے لاتی ہے ۔ (چشتی)

یہ وہ خیر کا عنصر ہے جو شر پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے ۔ندامت کے جھٹکے اور غلطیوں سے توبہ اس کے روپ ہیں جو جرم گناہ کو مسخ کر دیتے ہیں ۔ یہ منبع ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے ۔ یہ دل و دماغ کی وہ کیفیتیں ہیں جو خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ چونکہ انسان دنیاوی طلب میں اس قدر حریص اور بے پرواہ ہوتا ہے ۔ لذت کے شوق اور منعفت میں سبقت لے جانے کے جذبے سے اخلاقی بندھن سے بے پرواہ ، رزقِ حلال اور حرام میں تمیز کئے بغیر آگے بڑھنے میں سبقت ، آسائشات اور خواہشات کے دھارے میں بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اس طرح انسانی شخصیت میں ضمیر کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے ۔جب یہ کیفیت زیادہ طاقتور اور با اثر ہو جائے تو اندر کا انسان مردہ ہو جاتا ہے جو اخلاقی کیفیات کو محسوس نہیں کرتا۔اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔حلال اور حرام کی پہچان رک جاتی ہے ۔ لوگوں کی محسوسات کی رسائی کانوں تک پہنچنا بند ہو جاتی ہے ۔ یہی معاشرتی اکائی کی بد ترین مثال ہے ۔ اگر انسان رزق حلال اور حرام میں تمیز کر سکے ، بچوں کی پرورش میں رزقِ حلال کی خواہش کرے ، جدوجہد کو شعار بنائے ، محنت کی عظمت کو پہچانے تو ضمیر کی بقاء اس کی بداعمالی میں رکاوٹ بنتی ہے۔اس سے انسانیت کی بقا ء اور معاشرتی پھیلاؤ میں خرابیاں کم ہوتی ہیں ۔ تسکین ہوتی ہے ۔ اطمینان قلب ہوتا ہے ۔ ہر عمل میں انصاف کا عنصر نظر آتا ہے ۔ شرم و حیاء کا حجاب ، اچھے برے کی تمیز ، اچھائی اور برائی کا پیمانہ ، نیکی اور بدی کا احساس ، ٹھیک اور غلط کی سوچ ، حق اور نا حق کی پہچان ، یہ زندگی کو پرکھنے کے آلے ہیں جو ضمیر کی زندگی سے اپنا وجود قائم رکھتے ہیں ۔اندر کے انسان کا باہر کے انسان پر حاوی ہونا ، معاشرتی خرابیوں اور برائیوں کی راہ میں رکاوٹ کا بہترین آلہ ہیں ، اس کی بناوٹ میں بہترین کردار جہاں ماں کی گود، معاشرتی ماحول ہیں وہاں یہ کام مدرسوں اور دینی تعلیمات کا تھا ۔ نہ جانے اب یہ اثرات کیوں مٹتے جا رہے ہیں : ⬇

جن چراغوں سے تعصب کا دھواں اٹھتا ہو
ان چراغوں کو بجھا دو تو اجالے ہوں گے

کوئی تو ہو جو قربانی دے ‘ ایثار کرے ‘ ہمت باندھے ‘ راستہ کی نشان دہی کرے ‘ معاشرہ بدلنے سے منزلیں بدلتی ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا ہوگا ، دیکھنا ہو گا ، ایثار کرنا ہوگا اور قربانی کے جذبے سے آگے بڑھنا ہوگا ۔ (چشتی)

 یہ زمین کی زرخیزی اس میں دفن خزانوں کے کھوج کی کس نے راہ دکھلائی ۔ جب یہ سب کچھ مالک کائنات کی عطاء ہے تو انسان میں انسانیت کیوں نہیں ۔ ہم اس کائنات میں خوبصورتی کا رنگ بھرنے کی بجائے کیوں گندگی پھیلا رہے ہیں ۔ اس ذات مقدس نے ہمیں سب کچھ دینے کے باوجود انسانیت کی بقاء کےلیے ہمیں تعلیم دی ۔ کردار کی درستگی کےلیے انسانوں میں انبیاء علیہم السلام بھیجے ۔ انبیاء علیہم السلام کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور انتہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آ کر ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس کے بعد کئی لوگوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن یہ ایک اٹل فیصلہ ہے کہ اس کائنات کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں ۔ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام اس کائنات میں تشریف لائے ۔ انبیاء کے بعد اولیاء اور صوفیاء کا دور شروع ہوتا ہے ۔ پہلے ولی حضرت علی رضی اللہ عنہ ٹھہرے اور پھر ان کی لڑیاں اور کرنیں بکھرتی چلی گئیں ۔ ان کے کردار کی روشنی ہماری رہنمائی کےلیے نمونہ بنی ۔ پھر معاشرتی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں دینی وسعت دی گئی ۔ ضابطے بنانے کی اہلیت دی گئی ۔ ان پر عمل پیرا ہونے کےلیے انتظامی چھتری دی گئی ۔رزق حلال کے حصول کےلیے تمام اجزاء انسانی مکمل دئیے گئے ۔سوچ کے دائرے ، کون و مکاں کی گہرائیوں کو جاننے کی اہلیت دی گئی ۔ کہاں ہیں وہ خلوص کے رشتے جنہوں نے اخوت اور محبت کی بنیاد رکھی ، کہاں گئے وہ گنج ہائے گراں مایہ جنہوں نے درس انسانیت دیا ۔ ہماری زندگیاں دوسروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں ۔ ہم انسانیت کو مجبور بنائے ذاتی اغراض کی رو میں کیوں بہتے جا رہے ہیں ؟ ہم مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ ہم رسم و رواج کے پابند اس لیے ہیں کہ لوگ ہمیں بڑا سمجھیں ۔ ہم نمائش کے پابند اس لیے ہیں کہ لوگ ہمیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر جانیں ۔ ہم جھوٹ کا سہارا اس لیے لیتے ہیں کہ سچائی سے ہمیں ڈر لگتا ہے ۔ ہم تعریف سننا اس لیے پسند کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت میں اس بات کی کمی ہوتی ہے ۔ ہم قانون کو اس لیے توڑتے ہیں کہ لوگ ہمیں قانون سے بالاتر سمجھیں ۔ ہم لوٹ مار اس لیے کرتے ہیں کہ دولت کے بغیر ہم شخصیت کو نامکمل پاتے ہیں ۔ ہم انصاف اس لیے نہیں کرتے کہ رزق حرام نے ہمارے ضمیر مردہ کر دئیے ہیں ۔ ہم دوسروں کو اپنانے کی کوشش اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت نامکمل ہوتی ہے ۔ ہم میں خود احتسابی نہیں ۔ زندگی کے سفر میں جب نظر پڑتی ہے تو عجب تصویر سامنے آتی ہے ۔

آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو گئے ہیں اور یہ مسائل صرف معاشی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہیں ۔ اب محبتیں صرف کم نہیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور نفرتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ رشتوں کی کشش بھی مال و زر سے ناپی اور تولی جا رہی ہے ۔ آؤ آج بھی ہم غور کریں کہ ہم نے کہاں کا قصد کیا اور کہاں چل پڑے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔