فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ سابقہ مضمون میں تفصیل سے عرض کیا جا چکا ہے کہ تہجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں ۔ اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزا پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا ، کیوں کہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کےلیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کےلیے اختیار کر لیا ۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے ، پھر وتر پڑھتے تھے ، حالاں کہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا ، حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً، ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاء بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ۔ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) ۔ یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت) ۔ غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑ دیا ، حالاں کہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے ، جو عربی زبان میں ماضی استمراری کےلیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا ۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں ۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے : ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ ۔ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی ، پھر دو رکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی ، پھر وتر پڑھے ۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے ۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ غرضیکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا ، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی ، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے ، کیوں کہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ چاروں آئمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے ۔ امام بخاری تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے ، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے ، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے ۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کےلیے صحیح بخاری کی سب سے مشہور و معروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)
بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں ، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے ، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا ......) پڑھ لیں ۔ جب کہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے ، جیساکہ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ ۔ (سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
نوٹ : یاد رہے غیر مقلدین نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی پر ایک بھت بڑا الزام لگاتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے رمضان المبارک میں تہجد نہیں پڑھی حالانکہ تہجد نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم پر فرض تھی اور تراویح نفلی عبادت بھلا ان گستاخوں کو کون سمجھائے کہ اس طرح کے جاھلانہ فتوؤں سے تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارکِ فرض قرار دے رہے ہو اور یہ اتنی بڑی گستاخی ہے نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی کی کاش تمہارے ہی لوگوں کو سمجھ آجائے جو اندھے مقلد ہیں اپنی مساجد کے ملاّؤں کے اور خود کو غیر مقلد کہتے وہی تمہیں مساجد و بازاروں میں گھسیٹیں گے کہ نعوذ بااللہ تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارک فرض قرار دیتے ہو اور شرم پھر بھی نہیں آتی ؟
آخری میں ایک سوال اے گروہ آلِ نجد غیر مقلدین کیا نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد فرض چھوڑ دیتے تھے یا نفلی عبادت تراویح نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے نہیں پڑھی اس سوال کا جواب علمی دلائل سے دو ؟
اور ہاں تہجد اور تراویح نبی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کےلیے کس حیثیت میں مانتے ہو ؟
بیس رکعت نماز تراویح کے منکرین سے کچھ سوالات
بر صغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو تقسیم کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں ، ایمان تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ نماز تراویح کی رکعات کا ہے ۔ شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ لوگوں نے ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا ۔ حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور کرہ ارض پر موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے ۔ عوام الناس کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث سے پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر دلیل و ثبوت ہیں : ⬇
امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت ۔ (جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان،چشتی)
تجمہ : اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، بیس رکعت ۔ یہی حضرت سفیان ثوری ، ابن مبارک ، امام شافعی کا قول ہے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا ، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں ۔
یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ امت کے جلیل القدر ائمہ کرام رضی اللہ عنہم متفقہ طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔ اس روایت میں ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے احادیث شریف پر عظیم کتاب "موطا امام مالک" میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرما کر اس فتنے کو لگام ڈال دی ۔
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت ۔ (مؤطا امام مالک)
ترجمہ : ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق میں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے : یحی بن سعید کہتے ہیں کہ : ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة ۔ (مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا ۔
قارئینِ کرام توجہ فرمائیے وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں صراحت ہو کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو ۔
اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔ یہاں فقیر چند سوالات درج کر رہا ہے ، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں ان سے یہ سوالات کیجیے ان شاء اللہ حق واضح ہو جائے گا ۔ ⬇
1 ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح با جماعت ادا کی گئی ہو ؟
2 ۔ شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے ، عمل یا تو غلط ہوتا ہے یا درست ، اگر آپ کے نزدیک آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں آج بھی بیس رکعات با جماعت ادا کی جاتی ہیں ۔ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ حرمین شریفین والے یا آپ ؟
3 ۔ ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر آٹھ رکعات تروایح ادا کی جاتی ہیں ؟
4 ۔ تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء پر ہی کیوں اعتراض ، آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے ؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح پڑھانے کےلیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے ؟
5 ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دورِ عمر رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو ؟
6 ۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف اور قرنِ اولٰی کے ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں ، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں ؟
7 ۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں ، ہندوستانی و پاکستانی غیر مقلد وہابی علماء وہاں موجود ہوتے ہیں ، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے ؟
8 ۔ عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ جامعۃ الازہر کے مفتی ، علماء اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں ، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے ؟
9 ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا با جماعت عمل شروع کیا ، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت ، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے ، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا ، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں ۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول کے قول و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت مانیں ؟
10 ۔ ہم سابقہ مضامین میں لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مستند احادیثِ مبارکہ سے بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کےلیے رہنماء ہیں ، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم ہندوستان میں پیدا ہونے والی کسی مولوی کی بات پر یقین کر کے تراویح کی رکعات آٹھ مان لیں ؟
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے ۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہو رہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں ۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہو جائے ۔ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں : اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں ؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو ؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ۔
11 ۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے ، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھر پور ۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ امام مسجد نبوی یا آپ ؟
صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا ۔ فقیر کی گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجیے ۔ اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر سکتے تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجیے ۔ تمام قارئینِ کرام سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجیے ۔ اس سے کم نوافل ہو سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment