Thursday, 31 March 2016

موجودہ حالات اسلام اور پاکستان

عرب کے جو علاقے اس وقت ظالم اور غاصب اسرائیل کے قبضے میں ہیں ‘ اُن میں سے ایک مشہور بندرگاہ’’ ایلہ‘‘ بھی ہے ۔ اُمت مسلمہ کی عمومی غفلت اور عربوں کی خصوصی کوتاہیوں نے یہ دن دکھایا ہے کہ فلسطین کے باشندے خود اپنی ہی سرزمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ’’ ایلہ‘‘ بحیرئہ قلزم کی شاخ ’‘’ خلیج عقبہ ‘‘ کے کنارے پر واقع ہے اور اس سر زمین سے ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ منسوب ہے ‘ جس کی طرف قرآنِ مجید نے سورئہ بقرہ کی آیت ۶۵ اور ۶۶ میں اور سورئہ اعراف کی آیت ۱۶۲تا ۱۶۴میں اشارہ کیا ہے ۔ قرآن مجید کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کتابِ ہدایت ہے ‘ اس کی ایک ایک آیت میں ہمارے لیے بے شمار اَسباق پنہاں ہیں ‘ پھر خاص طور پر یہ واقعہ ہمارے موجودہ حالات سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے ہفتے بھر میں جمعہ کا دن ہی محترم چلا آرہا تھا ۔ یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اصرار کیا کہ ان کیلئے ہفتے ( سبت) کا دن عبادت و برکت کیلئے مقرر کیا جائے ۔ وحیٔ الٰہی کی روشنی میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہفتے کا دن ان کیلئے مقرر فرما دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ اس دن کی حرمت و عظمت کو قائم رکھیں ۔ اس دن میں ان کیلئے خریدو فروخت ، زراعت و تجارت اور شکار جیسی تمام معاشی سرگرمیاں ممنوع قرار پائیں ۔

ساحلِ سمندر پر واقع بستی میں رہنے والے یہودیوں نے حیلہ سازی سے اس حکم کو مذاق بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ ڈھیل دی کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں بکثرت نظر آتیں اور دوسرے دنوں میں اتنی مچھلیاں نظر نہ آتیں ۔ پہلے پہل تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم توڑنے کیلئے حیلے بہانوں کا سہارا لیا ۔ کبھی ہفتے والے دن مچھلیاں آجاتیں تو یہ راستے میں رکاوٹ بنا کر اُن کی واپسی کا راستہ بند کر دیتے اور اتوار کے دن خوب شکار کرتے ۔ کبھی ایسا کرتے کہ ہفتے کے دن کسی بڑی مچھلی کی دُم میں رسی اٹکا کر اسے زمین کی کسی چیز سے باندھ دیا اور اتوار کے دن اُسے پکر کر پکا لیا ۔ پھر جب ان حیلوں بہانوں سے اُن کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک کوئی عذاب نہیں آیا تو وہ کھلم کھلا شکار کرنے لگے اور احکامِ الٰہی کو پامال کرنے لگے ۔

رفتہ رفتہ ’’ ایلہ‘‘ کے رہنے والے تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک گروہ تو وہ تھا جو مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھے اور احکامِ الٰہی کھلم کھلا توڑ رہا تھا ۔ دوسرا گروہ اُن لوگوں کا تھا جو شروع میں ان نافرمانوں کو سمجھاتے رہے ‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکتے رہے لیکن جب وہ نہ مانے تو یہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھانا ‘ نصیحت کرنا اور گناہوں کے برے انجام سے ڈرانا چھوڑ دیا ۔ تیسرا گروہ اُن باہمت لوگوں کا تھا جنہوں نے ایسے حالات میں بھی ہار نہیں مانی اور وہ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کو نصیحت اور فہمائش کرتے رہتے ۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر مایوس نہ ہوتے بلکہ ہر صبح ایک نئے حوصلے‘ نئے ولولے اور بلند ہمت سے اپنا یہ فریضہ سرا نجام دیتے ۔ ان میں سے پہلے گروہ کو سزا کے طور پر شکلیں مسخ کر کے بندر بنا دیا گیا ۔ دوسرے گروہ کے لوگ چونکہ خاموش رہے ‘ اس لیے قرآن کریم بھی ان کے بارے میں خاموش ہے اور تیسرے گروہ کے لوگوں کی قرآن میں تعریف کی گئی ‘قرآن مجید بتاتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان لوگوں میں سے دوسرے گروہ کے لوگ جو حوصلے ہار چکے تھے ‘ تیسرے گروہ کے اولو العزم لوگوں سے کہتے کہ تمہیں ان ہٹ دھرم اور ضدی لوگوں کو سمجھانے سے کیا ملتا ہے ؟ دیکھتے نہیں ہو کہ یہ مسلسل نا فرمانیوں پر کمر بستہ ہیں ‘ جن کا نتیجہ سوائے عذابِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ جیسے ہم گھروں میں چپ ہو کر بیٹھ چکے ہیں ‘ تم بھی ایسا ہی کیوں نہیں کر لیتے ۔ تیسرے گروہ کے جواں ہمت لوگوں نے مایوسی میں لپٹی ان باتوں کا جو زبردست چشم کشا اور بصیرت افروز جواب دیا ‘ جسے بتانے کیلئے یہاں یہ پورا واقعہ لکھا گیا ‘ قرآن مجید کے الفاظ میں وہ جواب یہ ہے :’’ قالو ا معذرۃ ً الی ربکم و لعلھم یتقون (الاعراف ۶۴)

اس قرآنی جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں نے جواب میں یہ کہا کہ: یہ روک ٹوک اور نصیحت ہم اس لیے کر تے ہیں کہ ہم تمہارے رب کے سامنے بری الذمہ ہو جائیں کہ ہم نے ہر طرح کے حالات میں اپنا فرض ادا کیا تھا اور شاید ان میں سے کچھ لوگ ہی راہِ راست پر آکر پرہیز گاری اختیار کر لیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اُن عظیم لوگوں کا یہ عارفانہ اور حکیمانہ جواب نقل فرما کر حقیقت میں ہر صاحبِ ایمان کو متنبہّ فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں برائی کا دور دورہ ہو جائے ، احکامِ الٰہی کھلم کھلا پامال ہونے لگیں ‘ اسلامی فرائض کا انکار بلکہ استہزاء عام ہو جائے تو ایک مسلمان کا فرض یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بچالے ‘صرف اپنی ذات کی حد تک نیک ہو جائے اور پھر اپنے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائے بلکہ نافرمانوں کو اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرانا ، انہیں حوصلہ ، ہمت اور خیر خواہی سے نصیحت کرتے رہنا اور اپنی یہ کوششیں مسلسل جاری رکھنا بھی اُس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ اسی طرح یہاں یہ بھی پتہ چل گیا کہ حق کے داعی کو کبھی بھی حالات سے دل گرفتہ ہو کر اور لوگوں کے رویے سے مایوس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس امید کے ساتھ اپنا پیغام پوری قوت کے ساتھ پہنچاتے رہنا چاہیے کہ شاید کوئی ایک اللہ کا بندہ ہی بات سمجھ لے ۔ بے شک مایوس وہ ہو ‘ جس کا رب نہ ہو ۔

موجودہ حالات میں ہم میں سے ہر شخص اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح دینی احکام پامال ہو رہے ہیں ‘ مسلمان کہلانے والے شعائر اسلامی داڑھی ‘ پردہ اور دیگر فرائض کا مذاق اڑا رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ حق کی طرف بلانے والے ‘ سچائی کا پیغام سنانے والے ‘ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنانے والے بھی حالات کی تیز و تند ہوائوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں تو یہ وقت حوصلے ہارنے اور ہمتیں پست کرنے کا نہیں ۔ یہ تو وقت ہے ایک نئے حوصلے ‘ نئے عزم اور نئے جذبے سے کام لینے کا ۔ مخالفت کی آندھیاں ‘ وساوس کے طوفان اور شیطانی خیالات کے پہاڑ ‘ یہ کبھی بھی اہل ِ ایمان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے اور وہ یہ کہتے ہوئے ان سے گزر گئے کہ ’’ یہ تو چلتی ہیں ‘ تجھے اونچا اڑانے کیلئے ‘‘ ۔

ارض ِ وطن پر آج کل اہلِ حق کے لیے آزمائشوں کا موسم آیا ہوا ہے اور مذہبی طبقے کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو ہی (نعوذ باللہ) ساری خرابی کی بنیاد باور کروایا جا رہا ہے۔حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے‘ ہماری تمام مصیبتوں کی بنیاد اسلام سے بے وفائی ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو اور جذبوں سے سینچنے والی نسل کے افراد یکے بعد دیگرے بڑی تیزی سے اُٹھتے جارہے ہیں لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی نوعمری میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس مملکت کو وجود میں آتے دیکھا۔ وہ آج بھی بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جس نعرے نے جذبات کو مہمیز بخشی، بے بس اور کمزور لوگوں کو ہندوئوں اور انگریزوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا، وہ یہ ایمان افروز الفاظ تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘

آپ پاکستان کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد کی تاریخ کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیں، آپ کو ہر قدم پر اسلام اور مسلمانوں کا حوالہ ملے گا۔ خواہ وہ اقبال مرحوم کا خطبہ الہ آباد ہو یا شیر بنگال کی قرار دادِ پاکستان، وہ بانیٔ پاکستان کی تقریریں ہوں یا ہجرت کرنے والے خاندانوں کی لہو رنگ داستانیں، آپ کو کہیں کسی موقع پر بھی سیکولرازم نامی چڑیا کا پَر بھی نظر نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی بات الگ ہے اور سیکولرازم الگ۔ اسلام تو اپنے دیس میں بسنے والے پر امن غیر مسلموں(ذمّیوں) کے حقوق کا بھی سب سے بڑا محافظ اور داعی ہے لیکن سیکولرازم تو اسلام کے خلاف ایک نظریہ اور تحریک کا نام ہے۔ اس لئے امن و امان کے مسئلہ کو بہانہ بنا کر سیکولرازم کو ثابت کرنا، بدیہی حقائق کا منہ چڑانا ہے۔

زکی کیفیؔ مرحوم نے انہی واقعات کو کیا خوبصورت تعبیر بخشی تھی:

اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے

اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقاء ہے

بنیاد پہ قائم نہ رہے گا تو فنا ہے

دنیا کی نگاہوں سے نہیں بات یہ مستور

ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور

یہاں یہ بات ذکر کر دینا بھی مناسب ہوگا کہ کسی ملک میں جو بھی قانون بنتے ہیں، اُن سب کی بنیاد اُس مملکت کا دستور ہوتا ہے۔ دستور میں اُس ملک کے نصب العین کی پوری تفصیل اور وضاحت درج ہوتی ہے، دستور کے خلاف قانون سازی اُس مملکت کی اساس سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دستور کا ابتدائی حصہ ایک قرار داد پر مشتمل ہے جس کو ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس کو عام طورپر ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے صرف دو مختصر اقتباسات نذر قارئین ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں ’’اسلامی مملکت‘‘ تھا یا بعض لوگوں کے زعم کے مطابق ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘۔ اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:

’’اس کائنات کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہے اور اس نے پاکستان کے باشندوں کی وساطت سے مملکت پاکستان کو جو اختیارات دئیے ہیں وہ ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’آزاد و خود مختار مملکتِ پاکستان کے دستور میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘

 قربان جائیں رب کی قدرت اور اُس کی رحمت پر! جس نے دینِ اسلام میں ایسی لچک رکھی ہے کہ اس کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں بی بی سی سن رہا تھا، جس میں ترکی کے معروف شہر انقرہ سے ایک صحافی وہاں کی موجودہ صورتحال پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’آج بھی ترکی کے اَسّی فیصد عوام پکے مسلمان ہیں اور وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، صرف بیس فیصد شہری علاقوں میں بسنے والے لوگ ایسے ہیں جو ترکی کو سیکولراسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں ترک فوج کی حمایت حاصل ہے‘‘

اللہ اکبر! کمال اتاترک کی سرزمین، جہاں صدیوں سے رائج اسلامی قانون کو منسوخ کرکے سوئٹز رلینڈ کے کفریہ قوانین مسلط کئے گئے، انگریزی ہیٹ عوام کے سروں پر مسلط کرنے کیلئے سینکڑوں بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، اذان پر پابندی عائد کردی گئی، مدارس اور تمام دینی ادارے ختم کردئیے گئے، ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر رومن کردیا گیا، ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس مرحوم کو فوج نے صرف اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا کہ وہ پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کی ’’سازش‘‘ کر رہے تھے۔ مگر پون صدی گزرنے کے باوجود کسی مُلّا کے مطابق نہیں، بی بی سی کے کہنے کے موافق،آج بھی اسلام وہاں کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہاہے۔

ترکی کے عوام جب اتنے طویل عرصے تک سیکولرازم کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو پاکستان کی زمین اتنی بانجھ تو نہیں ہوئی کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں یہاں اسلام کے نام لیوا ختم ہو جائیں۔ یہاں کی مائوں نے بچوں کے کانوں میں اذان اور قرآن کی لوری دینی تو نہیں چھوڑدیں کہ کوئی بزور طاقت انہیں بے دین اور ملحد بناتا رہے۔ یہاں ابھی دینی ادارے، تنظیمیں اور شخصیات تو ختم نہیں ہوئیں کہ اس ملک کا حلیہ ہی تبدیل کردیا جائے اور کوئی بولنے والا بول نہ سکے۔

اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو ہدایت اور راہِ حق پر چلنے والوں کو استقامت عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)

Saturday, 26 March 2016

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ صلح نامہ لکھا جو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار کے درمیان حدیبیہ کے دن ہوا تھا۔ اس عہد نامہ کی عبارت میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاط لکھوانے پر مشرکوں نے کہا کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ نہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کی رسالت کو تسلیم کرتے تو پھر لڑائی کیا تھی۔ اس پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ اس لفظ کو کاٹ دو۔ ادب اور تعظیم کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جو اس لفظ کو کاٹے۔ لہذا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانے کا حکم دیا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معذرت کا اظہار کردیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ

وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.

’’اور جو کچھ رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘۔ (الحشر: 7)

سورۃ احزاب میں ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَامُوْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَمْرًا اَنْ يَکُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ط وَمَنْ يَعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِيْنًا.

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرمادیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘۔ (الاحزاب: 36)

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حکم عدولی کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصحاب تو وہ تھے جو ایک اشارہ پر جان تک قربان کردیتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنفس نفیس خود حکم فرمانے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کو نہیں مان رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عدولی نہیں، اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زجرو توبیخ فرمادیتے یا کوئی آیت نازل ہوجاتی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے دل سے ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بجا لاتے تھے۔ اس ادب کے مقابلے میں اس طرح کی حکم عدولی جس کا مطمع نظر ادب و تعظیم مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہو، کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں وقعت و عظمت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل طور پر موجود تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں پر ادب کا اس قدر تسلط تھا کہ محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کاکرنا اُن کی اپنی نظر میں انہیں محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے ادب بنادے تو وہ ادب کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے حکم کی اطاعت پر معذرت کا اظہار کردیتے ہیں۔ گویا نص قطعی کے مقابلہ میں بھی ادب ہی کو ترجیح ہے۔ اس تمام واقعہ سے اس امر کی صراحتاً وضاحت ہوگئی کہ دین سارا ادب ہی کا نام ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عمداً نماز عصر کو ترک کردینا، محض اس خیال سے کہ اگر میں نے اپنا زانو ہلایا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو میری گود میں سر رکھے آرام فرمارہے ہیں بیدار ہوجائیں گے اور آپ کے آرام میں خلل آجائے گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل و دماغ میں موجود ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہ نے محض حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے زانو کونہ ہلایا۔ حتی کہ آفتاب غروب ہوگیا اور نماز عصر کا وقت جاتا رہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نماز کے فوت ہوجانے کا حال عرض کیا گیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! علی تیری اور میری اطاعت میں تھا، پس آفتاب کو طلوع کردے۔ پس اسی وقت ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت تسکین کے ساتھ نماز عصر ادا کی پھر آفتاب حسب معمول غروب ہوگیا۔

نماز کا وقت پر پڑھنا اطاعت الہٰی میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کمال ادب کو دیکھتے ہوئے ان کے اس عمل کو نہ صرف اپنی اطاعت بلکہ اطاعت الہٰی میں شمار فرمایا اور پھر اس ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر بھی انہیں سورج واپس پلٹاتے ہوئے عصر کی نماز قضا کے بجائے وقت پر پڑھوا کر عطا کردیا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دل محبت و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس حد تک معمور تھا کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر مکہ بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ نے کفار مکہ کی اجازت کے باوجود آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کعبہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا آپ نے بیت اللہ شریف کے طواف کرنے کے مقابلے میں (جو عبادت میں داخل ہے) حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کو افضل جانا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسلام میں چوتھا شخص ہوں اور میرے نکاح میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے دی ہیں اور میں نے جب سے اپنا داہنا ہاتھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے ملایا ہے اس دن سے میں نے اس ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو کبھی نہیں چھوا۔

ادب کا یہ وہ مرتبہ عظمیٰ ہے جس کا حق ہر شخص ادا نہیں کرسکتا بلکہ یہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہی حصہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ادب ایک ایسا خاصہ ہے کہ جو کسی حکم یا مثال کا محتاج نہیں بلکہ اہل ایمان کے دلوں کی خاص کیفیت کا نام ہے جس کو وہ ایمان سے متعلق کرتے ہیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مکان کی چھت پر ایک پرنالہ تھا۔ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نئے کپڑے پہنے ہوئے مسجد جارہے تھے۔ جب اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اتفاق سے اس دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر دو مرغ ذبح کئے جارہے تھے، ان کا خون نالے سے نیچے بہہ رہا تھا، اس خون کے چند قطرے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر پڑگئے۔ آپ نے فوراً اس نالے کے اکھاڑ ڈالنے کا حکم صادر فرمایا تاکہ یہاں سے گزرنے والوں کے کپڑے اس سے خراب نہ ہوں۔ لوگوں نے فوراً اس پرنالے کو اکھاڑ دیا اور آپ گھر واپس آکر دوسرے کپڑے پہن کر مسجد میں تشریف لائے۔ نمازکے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آکر کہنے لگے یاامیرالمومنین! خدا کی قسم اس پرنالے کو جسے آپ نے اکھاڑ ڈالا ہے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ لگایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر نہایت مضطرب اور پریشان ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اے عباس! میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ آپ اپنے پاؤں میرے کندھے پر رکھ کر اس پرنالے کو جیسا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لگایا تھا اسی جگہ پر لگادو۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو پہلی جگہ پر لگادیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دل میں موجود محبت اور عظمت و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے لگے ہوئے پرنالے کو بھی اس کی جگہ سے ہٹانا بے ادبی سمجھتے تھے۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کوئی ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کے منہ پر طمانچہ کھینچ مارا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا تو عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر ان کی گردن اڑادیتا۔ اسی وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّوْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْکَانُوْا اٰبَآئَهُمْ اَوْ اَبْنآئَهُمْ اَوْاِخْوانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ط اُولٰئِکَ کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْيْمَانَ وَيَدَ هُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ.

’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے‘‘۔

(المجادلة: 22)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں فنا تھے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت اور اس کا ادب ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ آغاز خلافت میں منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے تو منبر کے جس درجے پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ادباً اس سے نچلے درجہ پر بیٹھے۔ بعد ازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایام خلافت میں اسی منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینا چاہا تو وہ اس درجہ سے بھی نیچے کے درجے پر بیٹھے جہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے کیونکہ ان کے نزدیک مقام رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے ساتھ خلیفہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا ادب بھی واجب تھا۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور میزبانی و خدمت رسول ﷺ

مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سات ماہ تک معروف صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مہمانی کا عظیم شرف بخشا۔ ظاہر ہے اس عرصے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اور اپنے اہل عیال کے کھانے پینے اور دیگر گھریلو اخراجات کے لئے کسی کام اور محنت کی ضرورت نہ تھی۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی سعادت اور خوش نصیبی تھی کہ دیگر جاں نثار اور وفا شعار انصار کی زبردست خواہش اور حد درجہ تمنا کے باوجود اللہ کریم نے انہیں نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’مہمان نوازی‘‘ کے لئے منتخب فرمالیا تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تواضع اور مہمانداری کرکے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل نہ کرتے۔ وہ اگرچہ کوئی امیر کبیر آدمی نہ تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک رات پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو پانی کے نیچے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمرے میں ٹپکنے کے اندیشے کے باعث انہیں اپنے ہی لحاف کے ذریعے اس پانی کو جذب کرنا پڑا تھا۔ گھر میں اتنا کپڑا (تولیہ وغیرہ) نہ تھا کہ اس سے پانی کو جذب کرسکتے۔

(سهيلی الروض الانف، 2: 239)

اس کے باوجود ام ایوب رضی اللہ عنہ روزانہ بڑی عقیدت اور چاہت سے کھانا تیار کرکے اور پہلے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتیں اور جو کھانا بچ رہتا، اسے میاں بیوی بطور تبرک بڑے شوق سے کھاتے اور برتن کی اسی جگہ سے کھاتے جہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کے نشان لگے ہوتے تھے۔

(ابن اثير الجزری، اسدالغابة، 2: 81)

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ تو مہمان نوازی کے طور پر ’’ماحضر‘‘ بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتے ہی تھے، اس دوران کئی دوسرے انصار صحابہ بھی روزانہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھانا اور دیگر تحائف پیش کرنے میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہیں تھے۔ چنانچہ سمہودی نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب کے گھر جلوہ افروز ہوگئے تو سب سے پہلا آدمی جو ہدیہ لے کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائش گاہ میں داخل ہوا وہ میں تھا۔ گندم کی روٹی سے تیار کی گئی ثرید کا پیالہ کچھ گھی اور دودھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھتے ہوئے میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ پیالہ (کھانا) میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر مجھے ’’بارک اللہ فیہا‘‘ کے الفاظ سے برکت کی دعا دی اور اپنے تمام ساتھیوں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر تناول فرمایا۔ میں (زید بن ثابت) ابھی دروازے سے نہیں ہٹا تھا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (رئیس الانصار) کا غلام ایک ڈھکا ہوا پیالہ سر پر رکھے ہوئے آگیا۔ میں نے ابو ایوب کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس پیالہ کا ڈھکنا اٹھا کر دیکھا تو اس میں ثرید تھی جس کے اوپر گوشت کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ غلام نے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر وہ پیالہ پیش کردیا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہ گزری تھی جس رات ہم بنی مالک بن النجار میں سے تین چار آدمی باری باری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش نہ کرتے ہوں حتی کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت کدہ میں منتقل ہوگئے۔

(سمهودی، وفاء الوفاء، 1: 264)، (ابن کثير، سيرة النبی، ج1، ص480-481)

ایمان کیا ہے آئیے اس مختصر تحریر کو پڑھتے ہیں

ایمان چھ طرح کا ہے۔

اللہ پر یقین،2۔ فرشتوں پر یقین،3۔ اللہ کی پہلی تمام کتابوں پر یقین، 4۔تمام انبیاء پر یقین،5۔ آخرت پر یقین، 6۔قسمت پر یقی

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک حضرت محمد معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰة ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔بخاری شریف-8

یعنی ایمان کے ارکان پانچ ہیں۔

1۔ ایمان اللہ اور رسولﷺ پر 2۔ نماز پڑھنا 3۔زکوۃ دینا 4۔ حج کرنا 5۔ روزہ رکھنا

اس کے علاوہ ایمان دل کے ساتھ ماننیں، زبان سے اظہار اور اعضا کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے، ایمان تین امور پر مشتمل ہے۔

1. اقرار بالقلب ’’دل کے ساتھ اعتراف۔

2 نطق باللسان ’’زبان سے شہادت‘‘

3.عمل بالجوارح ’’اعضاء کے ساتھ عمل۔‘‘

دل کے اقرار، طمانیت اور سکون کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے انسان خود بھی محسوس کرتا ہے، مثلاً: جب وہ کسی محفل ذکر میں ہویامحفل میں وعظ ونصیحت اور جہنم و جنت کا ذکر خیرہو تو بندے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا جہنم و جنت کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے پھر جب وہ اس مجلس سے اٹھ جائے اور اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اوردل کے اس یقین میں کمزوری آجاتی ہے جو مجلس میں حاضری کے وقت تھی۔

احادیث مبارکہ:

1.عمرو بن خالد نے ہم سے حدیث بیان کی ، ان کو لیث نے یہ حدیث بیان، وہ یزید سے یہ روایت کرتے ہیں، وہ ابوالخیر سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ والہ وصحبه وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ ، اور جس کو پہچانو اُس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اُس کو بھی ، الغرض سب کو سلام کرو ۔(بخاری شریف)

2.ابوالیمان نے ہم سے حدیث بیان کی ، ان کو شعیب نے خبر دی ، ان کو ابوالزناد نے اعرج سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بیشک رسول کریم معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم نے فرمایا ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں ۔(بخاری شریف-14)

3.عبداللہ بن محمد جعفی نے ہم سے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سےابوعامر عقدی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے ابوصالح سے روایت کیا ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ، انہوں نے جناب نبی کریم معلم و مقصود کائنات ﷺ سے نقل کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں ۔ اور حیاء ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔(بخاری شریف-16)

4 ۔ اس حدیث کو ابوالیمان نے ہم سے بیان کیا ، ان کو شعیب نے خبر دی ، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں ، انہیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو اور کسی بھی اچھی بات میں ( اللہ تعالیٰ کی ) نافرمانی نہ کرو ۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور الله تعالیٰ اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ تعالیٰ کےحوالے ہے ، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے ۔ ( عبادہ کہتے ہیں کہ ) پھر ہم سب نے ان ( سب باتوں ) پر آپ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبه وسلم سے بیعت کر لی (بخاری شریف-18)

نماز کا مکمل طریقہ اور دعائیں

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔ البقرہ 43 ترجمہ:اورنماز قائم کرو اوزکوةٰ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ الماہدہ 12 ترجمہ:اگر تم نماز کی پابندی کرو گے اور زکواة دیتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور الله کواچھے طور پر قرض دیتے رہو گے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سےدور کردوں گا اور تمہیں باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ دن میں پانچ نمازیں مسلمان پر فرض ہیں۔ نماز فجر سورج نکلنے سے پہلے۔ نماز ظہر سورج ڈھلنے کے بعد۔ نمازعصر سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے تک۔ نماز مغرب سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد۔ نماز عشا مغرب کے دیڑھ دو گھنٹہ بعد پڑھی جاتی ہے۔ نماز پورے خشوع وخضوع(عاجزی، گڑگڑانا) اور پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہے۔ اہمیت:نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے اور اس کی اندازہ آپ اس بات سے لگ
ا سکتے

ہیں کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺنے نماز کو جنت کی کنجی اور اپنی انکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ نماز ہر حالت میں مسلمان پر فرض ہے۔حتکہ حالت جنگ میں بھی نماز کا حکم ہے۔آپﷺنے امت کو جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی "مسلمانوں نماز اور اپنے غلاموں کا ہمیشہ خیال رکھنا" نماز کے طریقہ کے بارے میں یوں فرمایا"اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو" صحیح بخاری حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا آدمی اورشرک یا کفر کے درمیان (حد فاصل) ترک نماز ہے۔(مسلم) حضرت عمرواپنے باپ شعیب اور شعیب اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور معلم و مقصود کائنات نے فرمایا جب تمھارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، جب دس برس کے ہو جائیں اور نماز باقاعدہ نہ پڑھیں تو نماز پڑھانے کے لئےانہیں مارو۔ نیز دس برس کی عمر کے بچوں کو علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ۔ (ابوداؤد)
نماز کی شرائط اور فرائض:

1۔ بدن کا پاک ہونا 2کپڑوں اور جائے نماز کا پاک ہونا 3۔ستر کا ڈھانپنا (مردوں کا ناف سے گھٹنوں تک اور عورتوں کا چہرے ہتھیلیوں اور قدموں کے علاوہ تمام بدن کا ڈھانپنا فرض ہے) 4۔نماز کی جگہ کا پاک ہونا 5۔نماز کا وقت ہونا 6۔قبلہ رخ ہونا 7۔ نماز کی نیت کرنا، یہ سب شرائط ہیں 8۔ تکبیر تحریمہ 9۔ قیام یعنی کھڑا ہونا 10۔قرآت (ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا) 11۔رکوع 12۔ سجدہ 13۔ قعدہ 14۔اپنے ارادہ سے نماز ختم کرنا۔
وضو کے فرائض:

پاکی حاصل کرنے کے لئے وضو ضروری ہے اور اس کے چار فرائض ہیں۔ 1۔ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونا 2۔پیشانی کے اوپر سے لے کر تھوڑی کے نیچے تک منہ دھونا 3۔ چوتھائی سر کا مسح کرنا 4۔ دونوں پاؤں کا ٹخنوں سمیت دھونا
وضو کی سنتیں:

نیت کرنا۔ شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ تین بار ہاتھ کلائی تک دھونا۔ تین بار کلی کرنا۔مسواک کرنا۔تین بار ناک میں پانی ڈالنا۔ تین بار چہرہ دھونا۔سارے سر کا اور کانوں کا مسح کرنا۔داڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا۔یہ سب ایک ہی وقت میں کرنا کہ پہلے عضوء کے خشک ہونے سے پہلے دوسرا دھونا۔
مکروہات :

دائیں بائیں گردن موڑنا۔ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ قبلہ رخ سے منہ موڑنے سے نماز ختم ہو جاتی ہے۔ انگلیاں چاٹنا انگڑائی لینا بھی مکروہ ہے۔ مرد کا سجدے میں ہاتھ زمین پر بچھانا بغیر عذر کےچاروں زانو(آلتی پلتی مار کر) بیٹھنا صف سے علیحدہ تنہا کھڑا ہونا سامنے یا سر پر تصویر ہونا تصویر والے کپڑے میں نماز پڑھنا

قیام،رکوع اور سجود:

قیام کھڑے ہونے کو کہتے ہیں۔ اس میں آپ کی نظریں سجدہ والی جگہ پر ہونی چاہیں اور ہاتھ اس طرح بندھے ہونے چاہیں کہ بائیں کے اوپر دائیاں ہاتھ باندھیں اور دونوں ناف کے تقریباً نیچے ہوں۔ رکوع میں پورا جھکنا ضروری ہے اور گھٹنوں کو پورا پکڑنا ایسے کہ انگلیاں نیچے کی طرف ہوں اور گھوٹنا پورا چھپ جائے۔ سجدے میں دونوں ہاتھوں کے درمیان منہ ہو اور ناک اور ماتھا زمین پر لگا ہونا چاہیے۔ ناک کا ایک بار پوری طرح لگانا ضروری ہے۔ ہاتھوں کی انگلیاں بند ہونی چاہیں۔مردوں کی پیٹھ اور کہنیاں اٹھی ہوئی ہوں ۔ پاؤں کھڑے ہونے چاہیں۔کمر ،ہاتھ اور گھٹنوں میں اتنی جگہ ہو کہ بکری کا چھوٹا بچہ گذر سکے۔
تکبیر یا اقامت:

جب فرض نماز کے لئے کھڑے ہونے لگتے ہیں تو نماز شروع کرنے سے پہلے ایک شخص وہی اذان والے کلمے کہتا ہے اسے اقامت کہتے ہیں ۔ تکبیر میں حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلوۃ ذیادہ کہا جاتا ہے۔ جو اذان دے اسے موذن اور تکبیر کہے اسے مکُبٌر کہتے ہیں۔

اس کے بعد دائیں منہ گھماتے ہوئے کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ پھر بائیں منہ گھماتے ہوئے کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ اس طرح دو رکعت نماز مکمل ہو گئی۔ نماز کے بعد مسنون اذکار(جو حضور معلم مقصود کائنات ﷺنے کیے) اللَّهُ أَكْبَرُ ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے صحیح البخاری:ـکتاب الاذان:باب الذکربعدالصلاة،رقم842،مسلم ،رقم583 أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں (تین مرتبہ ) ائے اللہ ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری طرف ہی سلامتی ہے ، تو بابرکت ہے ائے بزرگی اور عزت والے [مسلم:ـکتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ،حدیث نمبر 591]۔ سُبْحَانَ اللَّهِ (33دفعہ)۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ(33دفعہ)۔ اللَّهُ أَكْبَرُ (34) دفعہ اللہ پاک ہے ، تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں ،اللہ سب سے بڑا ہے [مسلم:کتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ ،حدیث نمبر٥٩٦]۔ اللَّهُ أَكْبَرُ صرف 33دفعہ ہی پڑھے اور 100 کی عدداس دعاء سے پوری کرے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے ، اور اس کے لیے تمام تعریفات اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- [مسلم:ـکتاب المساجد...:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ ،حدیث نمبر٥٩٧]۔ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اُسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے ستائش ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اﷲ تو جو چیز دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے مقابلے میں سود مند نہیں۔ [بخاری:ـکتاب الاذان:باب الذکر بعدالصلوٰة،حدیث نمبر844]۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے ، اور اس کے لیے تمام تعریفات اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر ، گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں ، اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، ہم اس کی عبادت کرتے ہیں ، اسی کے لئے فضل ہے اور بہترین ثنا (تعریف ) اسی کے لیے ہے ، اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، ہم اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہیں اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو [مسلم:ـکتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ،حدیث نمبر594]۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِن عَذَابِ القَبْرِ اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں ذلت (بڑھاپے) کی زندگی کی طرف لوٹائے جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ [بخاری :ـکتاب الجھاد والسیر:باب مایعوذ من الجبن،حدیث نمبر2822]۔ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ اے اللہ اپنا ذکر کرنے ، شکر کرنے اور بہترانداز میں تیری عبادت کرنے میں میری مدد فرما [أبوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب فی الاستغفار،حدیث نمبر1522بسندصحیح]۔ رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ. اے پروردگار تو آخرت کے دن اپنے عذاب سے مجھے بچا۔ [مسلم:كتاب صلاة المسافرين وقصرها:باب استحباب يمين الإمام رقم 709 (٢) قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (١) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (٢) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (٣) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (٤) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (٥) ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ، اور اندھیری رات کی تاریکی سے جب وہ چھا جائے ، اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے ، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (١) مَلِكِ النَّاسِ (٢) إِلَهِ النَّاسِ (٣) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (٤) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (٥) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (٦) ائے نبی صلی اللہ علیہ وسم کہہ دیجئے میں لوگوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ، لوگوں کے مالک کی ، لوگوں کے معبود کی ، وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے ، جولوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ، جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ہے [ترمذی:ـکتاب فضائل القرآن:باب ماجاء فی المعوذتین،حدیث نمبر2903 صحیح بالشواھد]۔ نماز کے بعد مسنون اذکار(جو حضور معلم مقصود کائنات ﷺنے کیے) اللَّهُ أَكْبَرُ ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے صحیح البخاری:ـکتاب الاذان:باب الذکربعدالصلاة،رقم842،مسلم ،رقم583 أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں (تین مرتبہ ) ائے اللہ ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری طرف ہی سلامتی ہے ، تو بابرکت ہے ائے بزرگی اور عزت والے [مسلم:ـکتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ،حدیث نمبر 591]۔ سُبْحَانَ اللَّهِ (33دفعہ)۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ(33دفعہ)۔ اللَّهُ أَكْبَرُ (34) دفعہ اللہ پاک ہے ، تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں ،اللہ سب سے بڑا ہے [مسلم:کتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ ،حدیث نمبر٥٩٦]۔ اللَّهُ أَكْبَرُ صرف 33دفعہ ہی پڑھے اور 100 کی عدداس دعاء سے پوری کرے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے ، اور اس کے لیے تمام تعریفات اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- [مسلم:ـکتاب المساجد...:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ ،حدیث نمبر٥٩٧]۔ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اُسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے ستائش ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اﷲ تو جو چیز دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے مقابلے میں سود مند نہیں۔ [بخاری:ـکتاب الاذان:باب الذکر بعدالصلوٰة،حدیث نمبر844]۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے ، اور اس کے لیے تمام تعریفات اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر ، گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں ، اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، ہم اس کی عبادت کرتے ہیں ، اسی کے لئے فضل ہے اور بہترین ثنا (تعریف ) اسی کے لیے ہے ، اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، ہم اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہیں اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو [مسلم:ـکتاب المساجد ومواضع الصلوٰة:استحباب الذکربعد الصلوٰة وبیان صفتہ،حدیث نمبر594]۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِن عَذَابِ القَبْرِ اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں ذلت (بڑھاپے) کی زندگی کی طرف لوٹائے جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ [بخاری :ـکتاب الجھاد والسیر:باب مایعوذ من الجبن،حدیث نمبر2822]۔ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ اے اللہ اپنا ذکر کرنے ، شکر کرنے اور بہترانداز میں تیری عبادت کرنے میں میری مدد فرما [أبوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب فی الاستغفار،حدیث نمبر1522بسندصحیح]۔ رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ. اے پروردگار تو آخرت کے دن اپنے عذاب سے مجھے بچا۔ [مسلم:كتاب صلاة المسافرين وقصرها:باب استحباب يمين الإمام رقم 709 (٢) قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (١) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (٢) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (٣) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (٤) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (٥) ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ، اور اندھیری رات کی تاریکی سے جب وہ چھا جائے ، اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے ، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (١) مَلِكِ النَّاسِ (٢) إِلَهِ النَّاسِ (٣) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (٤) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (٥) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (٦) ائے نبی صلی اللہ علیہ وسم کہہ دیجئے میں لوگوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ، لوگوں کے مالک کی ، لوگوں کے معبود کی ، وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے ، جولوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ، جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ہے [ترمذی:ـکتاب فضائل القرآن:باب ماجاء فی المعوذتین،حدیث نمبر2903 صحیح]

Wednesday, 16 March 2016

حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم اور روح مبارک لوٹائے جانے پر اعتراض کا جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حیات ہیں آپ پر درود پیش کیا جانا اور روح کو لوٹانا منکرین حیات النبی صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کے اعتراض کا مدلّل جواب از استاذی المکرّم حضور غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفیٰ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ:۔مجھ سے سوال کیا گیا کہ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مزار پر انوار میں زندہ ہیں مگر ایک حدیث یہ بھی وارد ہے کہ
’’کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے لیکن اللہ تعالیٰ مجھ پر میری روح کو واپس کر دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روح مقدس بعض اوقات آپ سے جدا ہوجاتی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کس طرح مطابقت ہو گی؟
یہ ایک بہترین سوال ہے۔ جس میں غور وخوض کی ضرورت ہے۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا اپنی قبر انور میں زندہ ہونا اور اسی طرح باقی کل انبیاء علیہم السلام کا زندہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو علم قطعی کے ساتھ ہمیں معلوم ہے۔ اس لئے کہ اس پر ہمارے نزدیک قطعی دلیلیں قائم ہو چکی ہیں اور اس بارے میں روایتیں متواتر ہو چکی ہیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء علیم السلام کے ان کی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ تالیف فرمایاہے۔
حیات انبیاء علیہم السلام پر دلالت کرنے والی حدیثوں میں سے بعض احادیث حسب ذیل ہیں۔
(۱) صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَیْلَۃً اُسْرِیَ بِہٖ مَرَّ بِمُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ
ترجمہ: بے شک نبی ﷺ معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر اس حال میں گزرے کہ وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
(۲) ابونعیم نے ’’حلیہ‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ:
اَنَّ النَّبِیَّ ا مَرَّ بِقَبْرِ مُوْسٰی ں وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْہِ
(ترجمہ) تحقیق نبی اکرمﷺ موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
(۳) ابویعلی نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے کتاب حیاۃ الانبیاء میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیَائٌ فِیْ قُبُوْرِہِمْ یُصَلُّوْنَ
(ترجمہ) انبیاء کرام علیہم السلام اپنی نورانی قبروں میں زندہ ہیں اور وہاں نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
حلیہ میں ابونعیم نے یوسف بن عطیہ سے روایت کی انہوں نے ثابت بنانی رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ وہ حُمید طویل سے فرمارہے تھے۔
’’آپ کو کوئی ایسی حدیث بھی ملی ہے، جس میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی دوسرے کا نماز پڑھنا بھی مذکور ہو۔‘‘
حُمید نے کہا نہیں!یعنی قبر میں نماز پڑھنے کی حدیث صرف انبیاء علیہم السلام کے متعلق وارد ہوئی ہے۔
(۴) ابوداؤد اور بیہقی نے اوس بن اوس ثقفی سے روایت کی ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا دِن سب دِنوں سے افضل ہے۔ لہٰذا اس دِن بہت کثرت کے ساتھ تم مجھ پر درود بھیجا کرو۔ کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! وصال کے بعد جب آپ بوسیدہ ہوجائیں گے تو اس وقت ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔‘‘
(۵) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور اصبہانی نے ترغیب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا بُلِّغْتُہٗ
(ترجمہ) جس نے مجھ پر درود بھیجا، میری قبر کے نزدیک میں اُسے سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر درود بھیجا دور سے، وہ مجھے پہنچادیا جاتا ہے۔‘‘
(۶) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سید عالمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
اِنَّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ قَائِمٌ عَلٰی قَبْرِیْ مَا مِنْ اَحَدٍ یُّصَلِّی عَلَیَّ صَلٰوۃً اِلاَّ بَلَغَنِیْہَا
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی اسماع (یعنی سب کی آوازیں سننے کی طاقت) عطا فرمائی ہے اور وہ میری قبرِ انور پر مقرر ہے۔ تو کوئی درود بھیجنے والا کسی وقت، کہیں سے مجھ پر درود نہیں بھیجتا، مگر وہ فرشتہ اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(۷) امام بیہقی نے ’’حیاۃ الانبیاء‘‘ میں اور امام اصبہانی نے ’’ترغیب‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ حضورﷺ نے فرمایا
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِائَۃً فِی الْجُمُعَۃِ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الْاٰخِرَۃِ وَثَلٰثِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا ثُمَّ وَکَّلَ اللّٰہُ بِہٖ مَلَکًا یُّدْخِلْہُ عَلَیَّ فِیْ قَبْرِیْ کَمَا یُدْخَلُ عَلَیْکُمُ الْہَدٰیَا اِنَّ عِلْمِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ کَعِلْمِیْ فِی الْحَیَاۃِ
(ترجمہ) جمعہ کے دِن اور جمعہ کی رات جس نے ایک سو مرتبہ مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس کی ایک سو حاجتیں پوری فرمائے گا۔ ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی پھر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقر کردیا ہے جو اس تحفہ درود کو میری قبرِ انور میں میرے سامنے اس طرح پیش کرتاہے، جیسے تمہارے سامنے تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ بے شک میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا جیسا کہ حیاتِ دنیا میں ہے۔
بیہقی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں
یُخْبِرُنِیْ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ بِاِسْمِہٖ وَنَسَبِہٖ فَاَثْبُتُہٗ عِنْدِیْ فِیْ صَحِیْفَۃِ بَیْضَائَ
(ترجمہ) وہ فرشتہ مجھے خبر دیتا ہے ان سب لوگوں کی، جو مجھ پر درود بھیجتے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ اور ان کے نسبوں کے ساتھ تو میں سب کچھ سپید کتابچہ میں لکھ لیتا ہوں۔‘‘
(۸) امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَا یُتْرَکُوْنَ فِیْ قُبُوْرِہِمْ بَعْدَ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً وَّلٰکِنَّہُمْ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ یَدَی اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی حَتّٰی یُنْفَخَ فِی الْقُبُوْرِ
(ترجمہ) بے شک انبیاء علیہم السلام چالیس راتوں کے بعد اپنی قبروں میں نہیں چھوڑے جاتے اور لیکن وہ اللہ سبحانہ کی بارگاہِ اقدس میں نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ صور پھونکا جائے۔ (یعنی قیامت تک)
اور روایت کی سفیان ثوری نے ’’الجامع‘‘ میں انہوں نے کہا کہ ہمارے شیخ نے ہمیں فرمایا کہ حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اپنی قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھالیا جاتا ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا کہ موت کے بعد انبیاء علیہم السلام کے زندہ ہونے کے متعلق بہت سے شواہد ہیں یہ کہہ کر انہوں نے واقعۂ معراج میں انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی ملاقات کا ذکر کیا اور حضور کا انبیاء کے ساتھ کلام کرنا اور انبیاء کا حضور سے کلام کرنا بیان کیا۔
(۹) امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا
وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ فِیْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْاَنْبِیَائِ فَاِذَا مُوْسٰی قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فَاِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌکَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ شَنوئَ ۃَ وَ اِذَا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ وَاِذَا اِبْرَاہِیْمُ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ صَاحِبُکُمْ یَعْنِیْ نَفْسَہٗ فَحَانَتِ الصَّلوٰۃُ فَأَمَمْتُہُمْ
(ترجمہ) بے شک میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں دیکھا۔ ناگہاں موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور میں نے اچانک دیکھا کہ وہ دبلے پتلے گھنگریالے بالوں والے ہیں۔ گویا کہ وہ قبیلۂ شنوء ہ کے آدمیوں میں سے ہیں اور عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہارے صاحب (یعنی خود حضور ں کی ذاتِ مقدسہ) بہت زیادہ مشابہ ہیں۔ پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے ان کی امامت کی۔
(۱۰) امام بیہقی نے روایت کی
اَنَّ النَّاسَ یُصْعَقُوْنَ فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ
(ترجمہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (نفخۂ اولیٰ کے وقت) تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جو ہوش میں آؤں گا۔
امام بیہقی اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حدیث کا مضمون اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے، جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بعد الوفات انبیاء علیہم السلام کی رُوحیں ان کی طرف لوٹا دی گئی ہوں اور شہداء کی طرح یقینی طور پر زندہ ہوں تاکہ نفخ صور کے وقت ان پر بے ہوشی طاری ہونا ممکن ہو اور دنیا میں زندہ رہنے والے لوگوں کی طرح وہ بھی بے ہوش ہوجائیں۔ اس بے ہوشی کو کسی اعتبار سے بھی ہم موت قرار نہیں دے سکتے۔ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وقتی طور پر ان کے احساس اور شعور پر مدہوشی کا ایک حجاب آجائے گا۔
بیہقی کا بیان ختم ہوا۔
(۱۱) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابویعلی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیَنْزِلَنَّ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ ثُمَّ لَاِنْ قَامَ عَلٰی قَبْرِیْ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ لَاُجِیْبَنَّہٗ
(ترجمہ) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا فرماتے تھے قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ عیسیٰ بن مریم ضرور (آسمان سے) نازل ہوں گے۔ اس کے بعد اگر وہ میری قبر پر آکر ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکاریں تو میں انہیں ضرور جواب دوں گا۔‘‘
(۱۲) ابونعیم نے دلائل النبوۃ میں سعید بن مسیب سے روایت کی کہ میں نے واقعہ حرہ کے موقع پر دیکھا۔ جب کہ مسجد نبوی میں میرے سوا کوئی دوسرا نہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہوتا مجھے حضورﷺ کی قبر مبارک سے اذان کی آواز آتی تھی۔
(۱۳) اسی طرح ابن سعد نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ ایامِ حرہ میں جب لوگ قتل ہورہے تھے تو وہ مسجد نبوی کے اندر تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا تو میں قبر مبارک سے اذان کی آواز سنتا تھا۔
(۱۴) امام دارمی نے اپنی مسند میں فرمایا کہ مروان بن محمد نے سعید بن عبدالعزیز سے روایت کی کہ جن ایام میں حرہ کا واقعہ پیش آیا اُن دِنوں مسجد نبوی میں نہ اذان ہوئی نہ تکبیر کہی گئی۔ ان ایام میں سعید بن مسیب مسجد نبوی میں مقیم رہے۔ قبرِ انور سے جب ایک آواز آتی تو انہیں نماز کا وقت معلوم ہوجاتا۔
ان روایات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور باقی تمام انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تو شہداء کرام کے حق میں فرمایا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ۔
(ترجمہ) اور نہ گمان کرو ان لوگوں کو جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مُردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام تو شہداء کے مقابلہ میں زندہ ہونے کے زیادہ مستحق ہیں اس لئے کہ وہ شہداء کی نسبت بہت زیادہ بزرگی اور عظمت والے ہیں۔ ہر نبی میں شہادت اور نبوت دونوں صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا آیت کے عموم میں پایا جانا ظاہر ہے۔

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ پڑھنا قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ)کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پردورو سلام پڑھنا جائزومستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
:ارشاد باری تعالی ہے:إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاترجمۂ کنزالایمان : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
(سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)

اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں

مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے:(عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی ﷺ بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا‘‘۔
(مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم ﷺ پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔

اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضورﷺ کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم ﷺ پردورد اورسلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ،اور دورد تاج ،دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور اقدس ﷺ کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟
خاص یہ الفاظ "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" بزروگوں کی وضع ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ۔جیسا کہ مذکورہ ہوا۔

ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے جیسا کہ سوال میں بھی مذکور ہے تو میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہو تا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہو تا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام اور بزرگان دین کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یارسول اللہ کے الفاظ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور ﷺ کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔کیا نعوذباللہ ،اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔

بلکہ حقیقت بات یہ ہے کہ ندائے یارسول اللہ ﷺکا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
(لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضاً)
ترجمۃکنزالایمان :یعنی’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے-
( النور:63)

اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے:
( والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ ﷺ قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ)
‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ،یااباالقاسم ،تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺکی عزت اورتوقیر کے لئے اس سے منع فرمادیااور فرمایا کہو’یانبی اللہ ،’یارسول اللہ ،اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا -
(تفسیر ابن کثیر :ج،6ص81مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور :ج،8ص230پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضورﷺ)کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو(یعنی یامحمد کہہ کرنہ
-پکارو)لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو
(تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت)

حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم ﷺ نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ ﷺ کا استقبال کیا:
( ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ،یارسول اللہ،یامحمد ،یارسول اللہ‘‘)
یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یا محمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ ،کا نعرہ لگاتے تھے.
(صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

:امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد ﷺ میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم ﷺکے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔
(فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور)

علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی ﷺ میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں
( یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ )’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ ﷺ آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔(ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)

اس مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔کنزالعمال، (3188)(موطا امام مالک)

مسلکی اختلاف میں انتہا پسندی نے ملّت اسلامیہ کا بیڑہ غرق کر دیا ذرا سوچیئے

بعد ازاں جب مسالک معرض وجود میں آگئے اور ان کے مابین اخلاص پر مبنی علمی اختلاف کی بجائے نفسانیت پر مبنی مخالفت آگئی اور یہ مخالفت مخاصمت اور عداوت میں بدل گئی، ہوتے ہوتے باہمی منافرت اس حد تک بڑھی کہ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کرنے لگے۔ بقول ابن انشا ایک وقت تھا کہ دائرہ اسلام میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا اب صرف خارج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آج مختلف مسالک کے مابین منافرت سازی، تکفیر بازی اور بدعت و شرک اندازی کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دوسرے سے سلام کے بھی روادار نہیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان نے مجھے اپنا واقعہ سنایا ذرا آپ بھی پڑھیئے ، ہمارے پڑوس میں ایک دینی گھرانہ تھا۔ باشرع اور ماتھوں پر محراب رکھنے والے یہ لوگ بظاہر بڑے اچھے لگے لیکن پہلے تعارف کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ نہ تو سلام میں پہل کرتے ہیں اور نہ ہی زبان سے سلام کا جواب دیتے۔ بس سرکو ہلکی سی جنبش دیتے گذر جاتے۔ آخر ایک دن ان کی بے اعتنائی کا راز کھل ہی گیا۔ محلے کی ایک خاتون ان کے ساتھ والے گھر میں ختم کا تبرک تقسیم کرنے جارہی تھی۔ اس مذہبی گھرانے کا ایک بچہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے سمجھا شاید رومال سے ڈھکا تبرک ان کے گھر لارہی ہے، قریب پہنچی تو بچہ پکار اٹھا : ہمارے گھر نہ لانا ہم ختموں کا تبرک نہیں کھاتے، ہم مسلمان ہیں۔

مسلک گزیدہ لوگوں کی یہی وہ سوچ ہے جس نے اخوت اسلامی کو تباہ اور وحدت امت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ہماری وہ صلاحیتیں اوروسائل جو غیروں کو دعوت دین کے لئے استعمال ہوتے وہ اپنوں کو غیر مسلم اور کافر ثابت کرنے میں صرف ہونے لگے۔ چنانچہ ہر مسلک کے کتب خانوں میں ایسی فکر پر مبنی کتابوں کے انبار لگنے لگے جس میں مخالف کو مشرک، بدعتی اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا جاتا ہے۔ اسی سے نفرت کی آندھیاں اور طوفان اٹھتے ہیں اور ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر غارت گری پر اتر آتے ہیں۔

سقوط بغداد تو ماضی بعید کی بات ہے جس کے پس پردہ مسلکی بغض و عناد اور منافرت کا گھناؤنا کردار بھی کار فرما تھا، لیکن سقوط ڈھاکہ تو کل کی بات ہے۔ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مشہور عالم دین اور صاحب علم و فضل مولانا متین ہاشمی سقوط ڈھاکہ سے کچھ ہی عرصہ قبل مسلکی مخالفت اور منافرت کی بناء پر رونما ہونے والے بعض واقعات بیان کرتے ہیں۔ جن میں سے دو زیر بحث موضوع کی وضاحت کے لئے درج کئے جاتے ہیں۔

٭ سلہٹ میں ایک مرتبہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے اور ولاالضالین کے تلفظ پر مناظرہ بازی کے بعد ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا دیئے گئے جس کے نتیجے میں چاقو چھریوں کا ایسا آزادانہ استعمال ہوا کہ سات آدمی مارے گئے۔ مارنے والوں کا یقین تھا کہ ہم نے جہاد کیا اور مقتولین کے ہمنواؤں نے سمجھا کہ ہمارے ساتھیوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔

٭ دوسرا واقعہ چاٹ گام کے علاقے میں مشہور علمی مقام پٹیا میں ہوا جہاں دو مختلف مسلکوں کے مدارس ہیں۔ دونوں میں مناظرہ ہوا ہر جماعت نے دوسری جماعت کے مدرسے کو آگ لگا دی، تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کی تفسیر و حدیث اور فقہ کی کتابیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ مولانا ہاشمی بڑے دکھ سے لکھتے ہیں کہ یہ کتابیں چنگیز خان یا ہلاکو خان نے نہیں جلائی تھیں نہ کسی ہندو یا سکھ نے بلکہ ان قرآن اور احادیث کے نسخوں کو جلانے والے ایک طرف نعرہ تکبیر اور دوسری طرف نعرہ رسالت بلند کر رہے تھے۔

مولانا متین ہاشمی جو سقوط ڈھاکہ سے پہلے کہ یہ دل دوز منظر دیکھ کر آئے تھے بڑے دکھ سے کہتے ہیں کہاں ہیں وہ مدرسے جہاں سے اسلام کی محبت کے متوالے برچھیاں اور بھالے لے کر نکلتے تھے اور ولاالضالین میں ضاد کو ’’دال‘‘ سے مشابہ کر کے پڑھنے والوں پر جہاد کیا کرتے تھے؟ نگاہ عبرت اور گوش نصیحت رکھنے والوں کو مولانا ہاشمی بتاتے ہیں کہ ان دینی مراکز اورمدرسوں میں مکتی باہنی کے دفاتر بن گئے اور اس علاقے میں ہزاروں ایسے علماء کو قتل کر دیا گیا جن کو نہ کفن میسر آیا نہ ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ان کی لاشوں کے ساتھ کیا ہوا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔

بقول غالب :

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

علمی اختلاف میں ہمارے اسلاف علیہم الرّحمہ کا عمل مبارک

دشمنی اور بغض و عناد پر مبنی مخالفت و گروہ بندی اور بات ہے جبکہ علمی اختلاف رائے بالکل ہی الگ چیز ہے۔ علم و تحقیق میں رائے کا مختلف ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ شریعت کے منافی بھی نہیں۔ اسلام میں اس کی گنجائش ہے کیونکہ علمی اختلاف رائے سے ہی علم کے افق وسیع ہوتے اور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک طرف فقہی دنیا میں علمی اختلاف رائے کی بنا پر شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی وغیرہ فقہی مکاتب فکر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تصوف کی دنیا میں چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی اور اویسی سلاسلِ طریقت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ تھا کہ ان کے مابین علمی و فکری اختلاف فتنہ و فساد برپا کرنے یا امت کا شیرازہ منتشر کرنے کا باعث ہوا ہو۔

ان مختلف علمی مکاتب فکر کے باوجود امت کا شیرازہ بکھرنے سے محفوظ رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو صرف اولیٰ قرار دیا تھا، اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں بنایا تھا۔ ہمیں تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی ایک خانقاہ نے اٹھ کر دوسری خانقاہ کو جلا دیا ہو یا کسی حنفی نے کسی شافعی کے مدرسے پر حملہ کرکے اس کے علمی ذخیرے کو نذر آتش کر دیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے مابین مروت، رواداری، تحمل و برداشت اور دیگر اخلاقی قدریں اخلاص کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے، علمی استفادہ کرتے دوسرے مکتب فکر کے شیوخ کو بھی اپنے شیخ کی طرح جانتے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی فرق نہ کرتے۔

٭ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں، ان کی مسجد میں نماز ادا کرنے لگتے ہیں تو رفع یدین نہیں کرتے۔ کسی نے استفسار کیا کہ حضرت آپ کے نزدیک رفع یدین ضروری ہے لیکن آج آپ نے خود اپنی تحقیق پر عمل نہیں کیا، کیا آپ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے، فرمایا : نہیں بلکہ مجھے اتنے بڑے امام کی بارگاہ میں آکر ان کے مسلک کے خلاف عمل کرتے شرم آتی ہے۔(الخیرات الحسان)

٭ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں علم و فضل فقہی بصیرت اور زہد و اتقاء میں بلند مقام رکھتے تھے، بہت سے مسائل میں ان کے مابین شدید علمی اختلاف بھی ہوا لیکن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی فوت ہوئے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لئے ان کے ہاں چلے گئے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ لاکر اپنی مسند پر بٹھایا اور خود بڑے ادب کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام صاحب کے جانے کے بعد کسی نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : حضرت آپ نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتنا اکرام کیوں کیا؟(الخیرات الحسان)

فرمایا : یہ شخص علم کے بڑے بلند درجے پر فائز ہے، پھر سائل کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فرمایا : چلو اگر میں ان کے علم کی وجہ سے ان کی عزت نہ کرتا تو کیا ان کی عمر کا بھی لحاظ نہ کرتا کہ وہ مجھ سے بڑے ہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کر لیتا تو ان کے ورع و تقوی کا لحاظ بھی نہ کرتا کہ پرہیزگاری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

سبحان اللہ کیا للہیت ہے کہ نفسانیت کا شائبہ تک نہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا شدید علمی و فقہی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، مروت، رواداری میں کمی نہیں آتی تھی۔

درخشندہ روایات کی حامل امت مسلمہ کی حالت زار

درخشندہ روایات کی حامل امت مسلمہ اس وقت جس زوال، انحطاط اور باطل طاغوتی قوتوں کے جبرو استبداد کا شکار ہے وہ بڑا ہی عبرت انگیز ہے۔ اس وقت 57 سے زائد چھوٹی بڑی مسلمان حکومتوں کا وزن دنیا کے پلڑے میں ایک تنکے سے بھی کم ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ امت مسلمہ کا باہمی انتشار و افتراق ہے۔

حیرت اس بات پرنہیں کہ عالم کفر ان کو ذلیل و رسوا کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہوچکا ہے کیونکہ صادق و مصدوق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پہلے ہی الکفرملة واحدة فرما کر ان کے اتحاد کی خبر دے چکے، حیرت اور دکھ اس بات پر ہے کہ وہ امت جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔

اَلْمُوْمِنُ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُه بَعْضًا وَشَبّک بَيْن اَصَابِعه.

’’مومن ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے (پھر مثال سمجھانے کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال کی طرح بنایا‘‘۔

مطلب یہ تھا کہ جس طرح انگلیاں الگ الگ وجود رکھتی ہیں لیکن ایک ہاتھ کے اجزا ہونے کی وجہ سے آپس میں مل کر ایک قوت ہیں اسی طرح مومن بظاہر الگ الگ وجود رکھتے ہیں لیکن عقیدہ توحید و رسالت کے ذریعے ایک طاقت ہیں اور مل ایک کر مضبوط دیوار کی مانند ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا کہ جس کا ایک عضو بیمار ہوتو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔

امت مسلمہ کے باہمی نزاعات و اختلافات اور تفرقہ بازی نے جو صورت اختیار کرلی ہے اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا تھا :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا

(آل عمران : 103)

’’اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ‘‘۔

دین کی نسبت سے اخوت و محبت کی لڑی میں پروئے جانے کے لمحات تاریخ اسلامی کے درخشندہ ترین لمحات تھے اور ان لمحات کو دوام بخشنے کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO

(آل عمران : 105)

’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہےo‘‘۔

اس وقت عالم کفر کے ہاتھوں دنیائے اسلام کی جو درگت بن رہی ہے اور آئے دن اس کی ذلت و رسوائی کے جو مناظر چشم فلک دیکھ رہی ہے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اسی باہمی تفرقہ و انتشار کی سزا ہم بھگت رہے ہیں جس سے بچنے کی تاکید احکم الحاکمین نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں دے دی تھی اور جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا اور باہم دست و گریباں ہوگئے۔ چنانچہ ہم پر ذلت و رسوائی اور ظلم و جبر کا ایک ایسا عذاب عظیم مسلط ہوگیا ہے جو ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...