صحابہ رضی اللہ عنہم کی لغزشوں پر گرفت کرنے والے جہنّمی
محترم قارئینِ کرام : آج کل سوشل میڈیا پر ایسا لگتا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک حضرت مولا علی اور حضرات اہل بیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی محبتیں اس وقت تک نا مکمل ہیں جب تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات کو نشانہ طعن نہ بنا لیا جائے ۔ کسی کی تعریف کرنے کےلیے کسی کی توہین کرنے کی یہ بد ترین مثال ہے جو بیمار مزاجی کی علامت ہے ۔ اب تو حد ہو گئی ہے کہ سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں نے شیعوں کے گھسے پٹے اور رٹے رٹائے اعتراضات کا طومار باندھ دیا ہے ۔ تقریباً انتالیس اعتراضات اس وقت اس بحث کے متعلق سب سے زیادہ سرخیوں میں ہیں اور واٹس آپ اور فیس بک پر گردش کر رہے ہیں ۔ ان اعتراضات میں کمال چابک دستی سے نہ صرف یہ کہ حدیث کی کتابوں میں خیانت سے کام لیا گیا ہے بلکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کچھ کفریات بھی منسوب کر دیے گئے ہیں جیسے بالترتیب اعتراض نمبر 9 ، 10 اور 13 میں ہے : (9) احکام قرآن کی مخالفت کروانا اور صحابہ کو حرام کھانے کی ترغیب دینا ایک دوسرے کا قتل جائز قرار دینا ۔ (صحیح مسلم شریف 4776) اس پر کتنا ثواب ہوگا ؟ ۔ (10) سود کو اعلانیہ جائز قرار دینا ۔ (صحیح مسلم 4061) اس پر اجر کتنا ملے گا ؟ ۔ (13) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دھوکے باز کہنا ۔ (بخاری شریف ، شرح مشکل الاثار امام طحاوی جلد 2 صفحہ 54) ۔ اس پر ثواب ؟
یعنی اس مضمون کو لکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ معاذ اللہ حضرت امیر معاویہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حرام کھانے کی ترغیب دیتے تھے ، ایک دوسرے کے قتل اور سود کو جائز قرار دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دھوکے باز کہتے تھے ۔ استغفر اللہ العظیم ۔
مندرجہ بالا بالا عبارتوں کی تلاش میں لگیے تو مسلم ، بخاری اور شرح معانی الآثار میں دور دور تک ان مفاہیم کا سراغ نہیں ملے گا ۔ اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ علمی دنیا میں نہ خیانت کرنے والوں کی کوئی کمی رہی اور نہ اپنی مطلب بر آری کے لیے افترابازی کرنے والوں کی ، لیکن الحمد للہ جب جب ایسے افترا باز ننگے ہوئے ہیں ، یہ پایا گیا کہ ان کا تعلق کسی باطل جماعت یا گم گشتہ راہ فرقے سے ہے ۔ امید نہ تھی کہ اپنے آپ کو جماعت حق اہل سنت و جماعت سے وابستہ گرداننے والے دشمنان معاویہ بھی اس قدر بے ایمانی پر اتر آئیں گے کہ صحابی رسول کی دشمنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی جھوٹ منسوب کرنے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ تمام باتیں از روئے شرع کفریات کی فہرست میں آتی ہیں لیکن کون تاریخ نہیں جانتا آج تک کسی غالی قسم کے رافضی نے بھی ان باتوں کو بنیاد بنا کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تکفیر نہیں کی ۔
اس کی پانچ وجہیں ہو سکتی ہیں : (1) یا تو خود معترضین کے نزدیک بھی یہ اعتراضات بے بنیاد ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنا بھرم بچانے کے لیے ان کی تکرار تو کرتے رہتے ہیں لیکن علمی طور پر ان کو سند بنا کر اپنا مدعا حاصل نہیں کر پا رہے ہیں ۔ (2) یا یہ اعتراض کرنے والے اتنے جاہل ہیں کہ انھیں اعتراض تو سجھائی دے رہا ہے لیکن اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں کر پا رہے ہیں بلکہ عقلیں ماری گئی ہیں کہ اتنے زبردست کفریہ اعتراضات کے با وجود حضرت امیر معاویہ کو "حضرت '' اور "صحابی رسول'' ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ اگر حضرت امیر معاویہ کو کافر جانتے ہوئے ادبا "حضرت'' کہتے ہیں تو خود اپنے ایمان کی خیر منائیں ۔ (3) تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امت آج تک امیر معاویہ کے ان کفریات سے یا تو دیدہ و دانستہ اغماض کرتی رہی اور پہلی باراچانک یہ حق پسند جماعت حرکت میں آئی جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہتی ہے ۔ (4) چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان چند کثیر المطالعہ معترضین کے علاوہ کسی بھی حدیث داں یا تاریخ داں کی ان ماٰخذ تک آج تک رسائی نہیں ہو سکی ۔ (5) یا پھر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ ان حضرات کی قوت فہم اتنی تیز ہے کہ بخاری و مسلم سب پڑھتے پڑھاتے رہے لیکن محولہ بالا حدیثوں کا جو مفہوم انھوں نے سمجھا ، آج تک کوئی شیخ الحدیث نہ سمجھ سکا ۔
عقلوں پر ماتم کا موقع یہ ہے کہ اگر یہ درج بالا کفریات ثابت ہیں تو پھر یہ حضرات دوسری فضولیات کی بجائے صرف اسی پر اپنا کل زور کیوں نہیں صرف کرتے کہ ایک بار میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کفر ثابت ہو جائے اور اسی کے ساتھ سرے سے مسئلہ ہی ختم ہو جائے ۔ سچ ہے : خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں چھین لیتا ہے
موقع کی مناسبت سے اعتراضات کے اس طومار میں سے اعتراض نمبر 7 کی بے ایمانی دیکھتے چلیے ، اعتراض ہے : حضرت علی کو منبروں پر گالیاں دینا جس کے متعلق ام المومنین سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ تم لوگ رسول اللہ کو گالیاں دیتے ہو کیوں کہ علی کو گالی دینا رسول اللہ کو گالی دینا ہے ۔ (سحیح بخاری 4251، ترمذی 3712، مسند الاحاکم 4744، مسند ابی یعلی 7013، المعجم الصغیر الطبرانی 882، نسائی الکبری 8476) ۔ اس پر کتنا اجر ملے گا ؟
یعنی معاذ اللہ رب العالمین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ منبروں پر حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیا کرتے تھے ۔ سنن کبریٰ میں منقول یہ پوری حدیث پڑھیے اور پھر بتائیے کہ اس میں کس لفظ سے یہ غیب سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ حدیث حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے اور حضرت ام المومنین کے مخاطب آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ؟
عن أبي عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقالت أيسب رسول الله صلى الله عليه و سلم فيكم فقلت سبحان الله أو معاذ الله قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من سب عليا فقد سبني ۔ (السنن الکبری للنسائی)
اہل ایمان دیکھ سکتے ہیں کہ اس حدیث میں کسی جگہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ، بلکہ یہ حدیث مطلق ہے اور غالب گمان ہے کہ یہ اس زمانے کی خوارج کی کارستانی ہوگی ، جس سے حضرت امیر معاویہ کا دامن صاف ہے ۔ در اصل جب کسی کے دل میں بغض کی بیماری جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر وہ یوں ہی بے ایمانیوں کے گل کھلاتی ہے ۔ اب ابھی وقت ہے کہ ایک صحابی رسول کی کردار کشی کر کے اپنی عاقبت کو داؤ پر نہ لگایا جائے اور ان حضرات عالیہ علیہ کے معفو عنہا مشاجرات کو دورِ قیامت کی جاہل عوام کے درمیان ایشو بنا کر نہ پیش کیا جائے تاکہ نہ رازہائے سر بستہ کھلیں اور نہ کسی کی رسوائیاں ہوں ۔ نہ خود کی عاقبت برباد ہو اور نہ دوسروں کی گمراہ گری کا سامان ۔
اس موضوع کے متعلق مطالعہ کے دوران ذخیرہ کتبِ احادیث میں ایک ایسی حدیث پاک نظر نواز ہوئی ، جس نے دماغ کی بتیاں روشن کر دیں اور آزمائش بھرے موجودہ حالات کی ایسی سو فیصدی عکاسی کہ یہ عکاسی صرف غیب داں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہی حصہ ہو سکتی ہے ، دیدہ عبرت کے ساتھ پڑھیے : امیر المومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے ابن عساکر کی حدیث ہے ، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تکون لاصحابی زلّۃ یغفرھا اللہ لھم لسابقتھم معی ثم یأتی قوم بعد ھم یکبھم ﷲ علی مناخرھم فی النار ۔
ترجمہ : میرے اصحاب سے لغزش ہو گی جسے اللہ عزوجل اُس سابقہ کے سبب معاف فرما دے گا جو اُن کو میری بارگاہ میں ہے لیکن پھر اُن کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ ان کے منہ کے بل جہنم میں اوندھا کرے گا ۔ یہ ہیں وہ کہ صحابہ کی لغزشوں پر گرفت کریں گے ۔ (المعجم الاوسط الجزء الثالث صفحہ نمبر 300 ، حدیث نمبر 3219 مطبوعہ دارالحرمین،چشتی)،(مجمع الزّوائد و منبع الفوائد الجزء السّابع کتاب الفتن حدیث نمبر 12020 دارالکتب علمیہ بیروت)،(فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، جلد 29صفحہ 281)
فقیر چشتی نے جب سے یہ حدیث پڑھی ہے نہ صرف موجودہ مسئلہ کا فلسفہ سمجھ میں آ گیا ہے بلکہ مسئلہ معاویہ میں پڑے فریق کا آخری انجام بھی روشن روشن ہو گیا ہے ۔ سچ یہ ہے یہ حدیث اس مسئلے میں حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے جس کے بعد آزمائشوں کی گنجائش تو ہے ، بحثوں کی نہیں ۔ ہوش و حواس کی سلامتی اور فکر آخرت کے ساتھ جو بھی اس حدیث کا مطالعہ کرے گا ، اگر واقعی اپنی آخرت کے تئیں وہ سنجیدہ ہے تو اس مبحث سے اپنا دامن بچانے میں ہی عافیت جانے گا۔ ہاں! جس کا مقدر آزمائش ہے ، وہ بہر حال چہ می گوئیاں کرے گا اور جیسا کہ فی الوقت لوگ کر رہے ہیں ، کرتا رہے گا یہاں تک کہ بفرمان حدیث ۔ العیاذ باللہ تعالی ۔ جہنم میں اوندھا جا گرے گا ۔ ذرا ایک لمحے کےلیے سوچیں ! کیا دنیا کو یہ زمینی حقیقت باور نہیں کہ جس جذبے کے ساتھ یہ امت نسبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک آل رسول پر جان فشانی کر تی رہی ہے ، اسی جذبے کے ساتھ صحبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک صحابی رسول کی عظمتوں پر بھی تو پہرہ دیتی رہے گی ۔ اس حقیقت کے ادراک کے با وجود اس مسئلے میں دل خراش بحثوں کا کیا صاف مطلب خود فریبی نہیں ؟
خدارا ! اب بس کریں ، امت پہلے سے بڑی آزمائشوں میں گھری ہے ، مزید اس کا امتحان نہ لیں ، نمائش کی بجائے، حقیقی طور پر آپ کا اپنا جو بھی علمی موقف ہے ، اگر آپ کا دل اس پر مطمئن ہے ، آپ تمام تر مطلوبہ علمی صلاحیتوں سے لیس ہیں اور اس کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کی نجات میں مخل نہیں ہوگا تو آپ کو مبارک ۔ ورنہ عقل مندی یہ ہے کہ اپنا مزید نقصان کرنے اور امت کو مزید آزمائش میں ڈالنے سے پہلے ہی اس مسئلے میں ماضی قریب کے عظیم عاشق رسول ، عبقری عالم دین ، توفیق یافتہ مفتی ، اعلی حضرت امام رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے درج ذیل محتاط ترین فتاوی کو اپنے لیے فیصلہ کن اور حکم بنا لیں ، جن میں ایک طرف تعلیمات حدیث کا نچوڑ ہے تو دوسری طرف اکابر کے علمی اختلافات کا فیصلہ کن انداز میں بہترین خلاصہ بھی ہے ۔ آج نہ سہی ، کل جب بھی ہم سنجیدگی کے ساتھ ان فتاوی کے مفاہیم و مطالب پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے ، ان کو ایک توفیق یافتہ قلم کا فیضان گراننے پر مجبور ہوں گے ۔ آپ لکھتے ہیں اور کیا خوب لکھتے ہیں : اہل سنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر طعن حرام اور ان کے مشاجر ت میں خوض ممنوع، حدیث میں ارشاد : اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۔ (المعجم الکبیر،حدیث نمبر ۱۴۲۷) جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے ، (بحث و خوض سے) رُک جاؤ ۔ رب عزوجل کہ عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ سیّد عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دو قسمیں فرمائیں : مومنین قبل الفتح ، جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے راہِ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح ، جنھوں نے بعد کو ۔ فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ : لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) تم میں برابر نہیں وہ جنھوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنھوں نے فتح کے بعد خرچ اور جہاد کیا ۔ اور ساتھ ہی فرما دیا : وکلا وعد ﷲ الحسنی۔ (القرآن الکریم ۵۷/۱۰) دونوں فریق سے ﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ۔ اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرما دیا کہ ساتھ ہی ارشاد ہوا : واﷲ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے ، یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے باایں ہمہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ۔ اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھیے کہ مولیٰ عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ، اُس کے لیے کیا فرماتا ہے : ان الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خٰلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقٰھم الملئٰکِۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔ (القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳) بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا ، وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں اس کی بھِنک تک نہ سُنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، اُنھیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ۔
سچا اسلامی دل اپنے رب عزوجل کا یہ ارشاد عام سن کر کبھی کسی صحابی پر نہ سوءِ ظن کرسکتا ہے ، نہ اس کے اعمال کی تفتیش ، بفرض غلط کچھ بھی کیا ، تم حاکم ہو یا اللہ ؟ تم زیادہ جانو یا ﷲ ؟ انتم اعلم ام ﷲ ۔ (القرآن الکریم ۲/۱۴۰) کیا تمھیں علم زیادہ ہے یا ﷲ تعالے کو ؟ دلوں کی جاننے والا سچا حاکم یہ فیصلہ فرماچکا کہ مجھے تمہارے سب اعمال کی خبر ہے میں تم سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ۔ اس کے بعد مسلمان کو اس کے خلاف کی گنجائش کیا ہے ، ضرور ہر صحابی کے ساتھ "حضرت'' کہا جائے گا ، ضرور "رضی اللہ تعالیٰ عنہ'' کہا جائے گا ، ضرور اس کا اعزاز و احترام فرض ہے ۔ ولوکرہ المجرمون۔ (القرآن الکریم ۸/۸) اگرچہ مجرم بُرا مانیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)
ایک جگہ درج بالا آیات کریمہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان ﷲ عزوجل بتاتا ہے ، تو جو کسی صحابی پر طعن کرے ، ﷲ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ، اور ان کے بعض معاملات ، جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ، ارشاد الٰہی کے مقابل پیش کرنا ، اہل اسلام کا کام نہیں ، رب عزوجل نے اُسی آیت میں اس کا منہ بھی بند فرمادیا کہ دونوں فریق صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھلائی کا وعدہ کر کے ساتھ ہی ا رشاد فرمایا : واللہ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) اور اللہ تعالیٰ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرو گے ۔ باایں ہمہ میں تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ۔ اس کے بعد کوئی بکے ، اپنا سر کھائے ، خود جہنم جائے ۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں : ومن یکون یطعن فی معاویۃ فذالک کلب من کلاب الھاویۃ ۔ (نسیم الریاض الباب الثالث) جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتّا ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)
اسی میں ہے : اہل سنت کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا ، خطائے اجتہادی تھی ، اجتہاد پر طعن جائز نہیں ، خطائے اجتہادی دو قسم ہے : مقرر و منکر ۔ مقرروہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ۔ اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطا یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں ، بایں ہمہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کیا ، باقی مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مداخلت حرام ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29،چشتی)
مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کلامی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حضرت مرتضوی امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولیٰ علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم ہم اہل سنت ان میں حق ، جانب جناب مولیٰ علی مانتے اور ان سب کو مورد لغزش بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ (کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن و تشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کےلیے شرع میں ثابت ہوئے، رکھتے ہیں ، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے ۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ تو ہم اہل سنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)
مجھے لگتا ہے جو بھی علم دوست ، اصلاح پسند ، سنجیدہ فکر ، مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی حقیقی محبتوں کا امین ، اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے مخلصانہ محبت رکھنے والا مسلمان درج بالا فتاوی کا بہ نگاہ انصاف مطالعہ کرے گا ، ضرور اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہوئے اہل سنت کے معتدل مذہب کی طرف رجوع لائے گا اور اسی موقف کو راہ نجات سمجھے گا ۔ ہاں! بموجب حدیث جس کے مقدر میں آزمائش لکھ دی گئی ہے ، بہر حال گھر کر رہے گا ۔
فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم میرے صحابہ کو برا نہ کہو
محترم قارئینِ کرام : شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔
صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470)،(صحیح بخاری مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 613 ، 614 مطبوعہ پرگریسو بکس اردو بازار لاہور)(والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861،چشتی)(أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540،چشتی)(النسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309)(ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ'' ۔
ترجمہ : اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں ، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر ، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی ، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر ۳۶۶۲)
شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات جلد 4 صفحہ641)
قرآن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا چنانچہ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھ) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے ، جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ جلد 6 صفحہ 395 تحت الحدیث : 4699،چشتی)
فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ “ شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھ) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری جلد 6 صفحہ 442 تحت الحدیث : 3673)
شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ کی فضیلت محض ” رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت “اور” وحی کا زمانہ پانے “ کی وجہ سے تھی ، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح جلد 6 صفحہ 286 تحت الحدیث : 4699,چشتی)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا ، یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُنا ہے تو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا ! یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کےلیے چُنا ، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 335،چشتی)
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا انعام حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جو سب ہمیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ جلد 2 صفحہ 1063 حدیث : 2337)
سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)
علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیر البحر المحیط جلد 5 صفحہ 96 تحت الآیۃ المذکورۃ)
یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment