مرزا غلام احمد غلامِ انگریز کا غلاظت بھرا انجام
محترم قارئینِ کرام : جھوٹے مدعی نبوت مرتد و زندیق مرزا غلام احمد قادیانی غلامِ انگریز کو درجنوں بیماریاں لاحق تھیں اور یہ بیماریاں ساری زندگی اس کے ساتھ چمٹی رہیں ۔ بالآخر اس کی زندگی کا عبرتناک انجام قریب آگیا ۔ روزنامہ الفضل قادیان ، مرزا قادیانی کی اہم تحریروں میں سے درج ذیل اقتباس نقل کرتا ہے جو ہر قادیانی کےلیے دعوتِ فکر ہے : اور جو شخص کہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ وہ نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے ، وہ بہت بری موت مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے ۔ (روزنامہ الفضل قادیان جلد 28 نمبر 50 صفحہ 1 مورخہ 2 مارچ 1940)
اب اس معیار پر مرزا قادیانی کو جانچ لیتے ہیں ۔ یعنی اگر مرزا قادیانی اپنے دعوئوں میں سچا تھا تو اس کا انجام اچھا ہونا چاہیے تھا ، اوراگر اپنے دعوئوں میں جھوٹا تھا تو ''نہایت ہی بد اور قابل عبرت انجام'' ہونا چاہیے تھا۔ مزید براں خود مرزا قادیانی کا کہنا ہے : واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کےلیے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا ۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ نمبر 288)(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 288 از مرزا قادیانی)
نوٹ : مولوی ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد وہابی کا حوالہ ہم صرف تاریخی حیثیت سے حوالہ کےلیے پیش کر رہے ہیں ۔
مولوی ثناء اللہ سے آخری فیصلہ '' میں اللہ تعالیٰ نے مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی سے لکھوایا تھا : بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب ۔ السلام علی من اتبع الھدیٰ ! مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود، کذاب ، دجال ، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور دجال اور کذاب ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے ۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں … اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائوں گا ۔۔۔۔۔۔ اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے ۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں ، آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیش گوئی نہیں محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک !… اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے، تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے ۔ آمین ! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا ! اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی ہی میں ان کو نابود کر ۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے ۔ بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے ۔ آمین یا رب العالمین !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین ۔ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں ۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ (مرزا غلام احمد قادیانی کا اشتہار مورخہ 5اپریل 1907ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 705 ، 706 طبع جدید،چشتی)
اس اشتہار کی اشاعت کے ہفتہ عشرہ بعد ہی 25 اپریل 1907ء کو اخبار بدر قادیان میں مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی روزانہ ڈائری میں شائع ہوا کہ : یہ خدا کی طرف سے ہے ۔ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری (یعنی مرزا قادیانی کی) طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 206 طبع جدید از مرزا قادیانی)
اس پیش گوئی کے تقریباً ایک سال بعد مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی موت نے ''آخری فیصلہ'' کر دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھا کیونکہ اس کی موت مولوی ثناء اللہ امرتسری کی زندگی میں بقول اس کے ''خدائی ہاتھوں کی سزا'' سے ہوئی ۔ ہر شخص دم بخود رہ گیا کہ خود مرزا قادیانی کی دعا پر قدرتِ حق نے عجب فیصلہ کیا ۔ 25 مئی 1908ء کو شام کھانے کے بعد اس کی حالت اچانک بگڑنے لگی ۔ اسے مسلسل دَست یعنی جلاب شروع ہوگئے ۔ ایک دو دفعہ رفع حاجت کے لیے لیٹرین گیا ، بعد ازاں ضعف کی وجہ سے نڈھال ہوگیا ۔ اس کے جسم کا پانی اور نمک ختم ہوگیا تھا ۔ بلڈپریشر کم ہونے سے ٹھنڈے پسینے آنے لگے ۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئیں اور نبض اتنی کمزور ہوگئی کہ محسوس کرنا مشکل ہوگئی ۔
مرزا قادیانی کی موت مرزےکے بیٹے کی زبانی
مرزا بشیر احمد ایم ، اے ابن مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے : حالت دگر گوں ۔ حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پائوں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا، تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ۔ میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے ، اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا: تم اب سو جاؤ ۔ میں نے کہا ۔ نہیں میں دباتی ہوں ۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا ۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے ۔ اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا ۔ اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے۔ پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پائوں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے ۔ اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی ۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 11 از مرزا بشیر احمد ایم اے)
بقول حکیم نورالدین '' ہیضہ کی صورت میں جب آنتیں متاثر ہوتی ہیں تو قے کے ساتھ اسہال ہوتے ہیں ۔ قے کا آنا بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ متعدد بیماریوں کی علامت ہے ۔ آنتوں کے فالج اور رکاوٹ میں غذا ہی قے کا باعث بنتی ہے ۔ کھانے کے فوراً بعد شراب یا افیون کے استعمال سے بھی قے ہوتی ہے ۔ اگر اسہال کے ساتھ قے بھی شامل ہو تو مرض اسہال کے بجائے ہیضہ بن جاتا ہے ۔ (بیاض نورالدین صفحہ 209)
مسلسل اسہال اور قے کی وجہ سے مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کے جسم ، بستر اور کمرے میں سخت بدبو اور تعفن پھیل گیا تھا ۔ اس کی حالت دگرگوں ہوگئی اور نورالدین کو بلانے کے لیے کہا ۔ حکیم نورالدین آیا تو مرزا قادیانی نے اسے کہا ''مجھے اسہال کا دورہ ہوگیا ہے ۔ آپ کوئی دوائی تجویز کریں ۔ (ضمیمہ الحکم 28 مئی 1908)
حکیم نورالدین نے چند مقوی ادویات کھانے کو دیں مگر مرزا قادیانی نے قے کر دیں ۔ اس کے بعد اس کی نبض ڈوبنے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد ایک انگریز ڈاکٹر آیا مگر وہ نہایت عبرتناک حالت دیکھتے ہی چلا گیا ۔ ایسی ہی بھیانک حالت میں مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو صبح ساڑھے دس بجے جہنم واصل ہو گیا ۔
قادیانی کہتے ہیں کہ : مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی موت ہیضہ سے نہیں ہوئی ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کی موت کس عارضہ سے ہوئی ؟ اس کے لیے کسی ڈاکٹری رپورٹ کی احتیاج نہیں ، بلکہ مرزا قادیانی کے ''نام نہاد صحابی'' اور خسر میر ناصر نواب کی ثقہ روایت سے خود مرزا قادیانی کا اپنا ''اقرارِ صالح'' موجود ہے : حضرت (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا ، جب آپ کو سخت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا ، جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو مجھے مخاطب کرکے فرمایا : میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے ۔ اس کے بعد کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں آپ نے نہیں فرمائی ، یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (حیاتِ ناصر صفحہ 14 از شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی)
لیجیے ! بہت ''بری موت'' کے تینوں مرحلے اللہ تعالیٰ نے خود مرزا قادیانی کی زبان و قلم سے طے کرا دیئے ، یعنی پہلے اس سے لکھوایا کہ مفتری بہت ہی بری موت مرتا ہے ، پھر اس کی تعیین و تشخیص بھی اسی کے قلم سے کرا دی کہ طاعون اور ہیضہ کی موت ہی وہ ''بری موت'' ہے ، جو بطور سزا ''خدا تعالیٰ کے ہاتھوں'' سے کسی سرکش مفتری کو دی جاتی ہے، اور پھر خود اسی کی زبان سے یہ اقرار بھی کرا دیا کہ وہ ''وبائی ہیضہ'' سے ''بہت بری موت'' مر رہا ہے، اور یہ اقرار ریکارڈ پر موجود ہے ۔ قادیانیوں کی نفسیات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ وہ مرزا قادیانی کو ''مسیح موعود'' مانتے ہیں مگر اس کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کا ''مسیحا مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی'' کہتا ہے ۔ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے ۔ مگر قادیانی مصر ہیں کہ حضرت صاحب کا کہنا درست نہیں ہے ۔
مرزا قادیانی کہتا ہے خدا جھوٹوں کو ہلاک کرتا ہے
مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی لکھتا ہے : اے بدقسمت بدگمانو ! کیا ممکن ہے کہ کوئی خدا پر جھوٹ باندھے اور پھر اس کے دست قہر سے بچ رہے۔ خدا جھوٹوں کو ہلاک کرے گا اور وہ جو اپنے دل سے باتیں بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کا الہام ہے ، وہ ہلاک کیے جائیں گے کیونکہ انہوں نے دلیری کرکے خدا پر بہتان باندھا ۔ (ایام الصلح صفحہ 115 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 341 از مرزا قادیانی)
مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی یہ بات سو فیصد خود اس پر ثابت ہوئی اور سچا (مولوی ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد وہابی) زندہ رہا اور جھوٹا (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) ہیضہ کی بری موت مر گیا ۔ مرزا قادیانی کی تاریخ وفات ہے : لَقَدْ دَخَلَ فِیْ قَعَرِ جَہَنَّمْ ۔ ١٣٢٦ھ ، 26 مئی 1908 ۔
شیخ یعقوب قادیانی لکھتا ہے : حضرت (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا ، جب آپ کو سخت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا، جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو مجھے مخاطب کرکے فرمایا : میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے ۔ اس کے بعد کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں آپ نے نہیں فرمائی، یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (حیاتِ ناصر صفحہ 14، از شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی)
تاریخ احمدیت ہے میں دوست محمد شاہد قادیانی لکھتا ہے : اتنے میں صبح ہو گی کہ اور حضرت مسیح (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) کی چارپایی کو باہر صحن سے اٹھا کر اندر لے آیے ۔ جب ذارا روشنہ ہوگیی تو حضور نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے ؟ عرض کیا گی اکہ حضور ہو گیا ہے ۔ اس پر حضور نے بستر پر ہی ہاتھ مار تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی ۔ مزید لکھا ہے : غالبا آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر حضور زبان سے جواب نہیں دے سکتے اس لیے کاغذ قلم و دوات منگوائی گئی اور حضور نے باییں ہاتھ پر سہارا لیکر بستر سے کچھ اٹھ کر لکھنا چاہامگر چند الفاظ بمشکل لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹا ہوا چلا گیا اور حضور پھر لیٹ گئے ۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ١۵۴)
اب غور سے پڑھیں یہ حوالہ کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی بستر سے اٹھ نہیں سکتا تھا اب آگے سنیےاس کے آگے کیا ہوا سلسلہ احمدیہ کا مصنف لکھتا ہے : ضعف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا ۔ (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۷۷١)
اب ساتھ ساتھ یہ بھی پڑھ کر مکمل تسلی کر لیں کہ ضعف کیوں ہو رہا تھا اس کی وجہ بیان کرتے ہویے مرزا بشیر مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کا بیٹا لکھتا ہے : کمزوری لحظہ بہ لحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی ۔ (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۷۷١)
اور یہ بھی یاد رہے اس دست سے پہلے ہی مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی بستر پر گر چکا تھا چنانچہ سیرت المہدی کا قادیانی مصنف لکھتا ہے : جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے ۔ اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی ۔ (سیرت المہدی جلد ١ صفحہ ١١،چشتی)
یہ بھی یاد رہے یہ حالت نور الدین وغیرہ کو بلانے سے پہلے کی ہے ۔
اب توجہ کریں کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی حالت دگر گوں ہوگئی اور وہ بستر پر گر گیا اس کے بعد زبان تک بند ہوگئی اور حتی کے آٹھ بجے کے قریب مرزا صاحب کے ہاتھ بھی حرکت نہیں کر سکا اور مرزا کی موت ساڑھے دس بجے ہوئی اگر پہلے دست سے بات شروع کی جاے تو مرزا صاحب کی حالت 11 بجے خراب ہونا شروع ہوئی اگر اندازہ بھی لگایا جائے تو کم از کم 2 بجے یہ سب آئے اور مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی اس سے پہلے ہی بستر پر گر چکا تھا اور ان کے آنے کے بعد بھی مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی نے دست کیا اور یہ دست بستر پر ہی تھا اس کے بعد تقریبا ساڑھے دس بجے ہوا تو مرزا قادیانی نے کم ازکم سات آٹھ گھنٹے بستر پر دست کے ساتھ گزارے اور نماز کے بعد تو ان کی حالت بالکل ہی خراب تھی اور اس کے بعد بھی ضعف بڑھا اور اس کی وجہ بیان ہوگی کہ دست تھے تو نماز کے بعد تقریبا ساٹھے پانچ گھنٹے مرزا قادیانی نے بستر پر ہی دست کیے اور اس حالت میں مر گیا ۔۔۔ لہذا ان حقائق سے قادیانی حضرات انکار تو نہیں کر سکتے مگر تاویلات کریں گے ہم تمام قادیانیوں سے کہتے ہیں اگر اس تحریر کو غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے تو ہر قادیانی کو ویقین آجائے گا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی نے بستر پر دست کرتے ہوئے موت پائی اور مزے کی بات خود مرزا قادیانی نے لکھا کہ : اگر خدا کا فضل و رحمت مجھ پر نہ ہوتی تو میرا سر اسی پاخانے میں ڈالا جاتا ۔ (تذکرہ صفحہ ۹١۵ الہام نمبر ۸۹۹١،۷،٦)
محترم قارئینِ کرام : مباہلہ سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہے اور مباہلہ میں جھوٹے پر اللہ کا عذاب لپک کرنازل ہوا کرتا ہے کیونکہ اس مباہلہ میں مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی نے رب ذوالجلال سے لکھ کر درخواست کی تھی کہ مولاتو جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ماردے لہٰذا اسے سچے حریف مولوی ثناء اللہ امرتسری کی زندگی میں مارنے کا پروگرام بن گیا لیکن سب سے پہلے سوال یہ اٹھا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کو کس مرض سے مارا جائے اس سوال پر ساری بیماریاں اللہ کے حضور محو التجا ہوئیں ۔''بخار بولا ! مولا تو اس کو میرے حوالے کر میں اپنی تپش سے اس کے وجود کو جلا کر خاک سیاہ بنا دوں گا۔کینسر بولا ، رب ذوالجلال ! اسے میرے شکنجے میں دے ، میں اس کے پورے جسم کو پھوڑا بنا دوں گاور ایڑیاں رگڑ گڑ کر اسکی جان قسطوں میں نکلے گی۔سردرد بولا مالک کائنات ! تو مجھے اس پر مسلط کردے میں اس کے دماغ کے پرخچے اڑا دوں گا ۔ ایک کونے میں مسٹر ہیضہ بیٹھا تھا ۔ وہ بڑے احترام سے کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔ مولا ! تیرے پاس بڑی ہولناک بیماریاں ہیں میں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن مولا! کیونکہ تیری ساری بیماریوں میں سب سے گندہ میں ہوں اور تیری ساری مخلوق میں سب سے گندہ مرزا قادیانی ہے لہٰذا اصول یہی ہے کہ گندے کو گندہ مارے ۔ اس لئے مرزے کو مارنے کا حق میرا بنتا ہے۔ماحول پر خاموشی چھا گئی اور فیصلہ ہیضہ کے حق میں ہوگیا ۔
پھر سوال اٹھا کہ اس کی موت کا دن کونسا رکھا جائے ؟ ہر دن اللہ سے التجائیں کرنے لگا کہ مرزا اس کے دامن میں تڑپ تڑپ کر جان دے اور وہ اسے تڑپتا پھڑکتا دیکھ کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرسکے ۔ لیکن منگل نے روتے ہوئے کہا ۔ اے اللہ! مرزا قادیانی کذاب کا کہنا تھا کہ منگل کا دن بڑا منحوس ہے ۔ اس کے منہ سے یہ نکلے ہوئے تیر میرے سینے میں پیوست ہوجاتے ہیں ، خداوند ! اب میرے ساتھ انصاف یہی ہوگا کہ اسے منگل والے دن ہی مارا جائے تاکہ رہتی دنیا تک جن و انس اس پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتے رہیں کہ دیکھو مردود جس دن کو منحوس کہتا تھا اسی دن مرگیا۔ پھر کیا تھا منگل بازی لے گیا ۔
سوال اٹھا کہ اسے دن کو مارا جائے یا رات کو ؟ دن کہنے لگا میرے مالک اسے دن میں مارا جائے کیونکہ یہ اپنی نبوت کاذبہ کا سارا کام دن میں کرتا تھا ۔ لوگوں سے پیسے دن میں بٹورتا تھا ۔ دن میں ہی اپنے الہامات سناتا تھا ۔ مناظرے اور مباحثے کرتا تھا ۔ کچہری میں رشوتیں وصول کرتا تھا ۔ میرے مالک اس نے مجھ میں بڑے گناہ کئے تھے اس لئے میرا قرض چکایا جائے اور اسے دن میں ہی مارا جائے ۔ رات گلوکیر آواز میں بولی اگر فیصلہ اس کے گناہوں اور سیاہ کرتوتوں کے تناسب سے ہی کرنا ہے تو میرے مولا ! ای پلومر کی شراب رات کو پیتا تھا ۔ بھانو سے ٹانگیں دبواتا تھا ۔ رات کو ہی ابلیس آکر اسے اپنی شیطانی وحی سے نوازتا تھا اور اگلے دن کاپروگرام دیتا ۔ رات کے اندھیرے میں ہی اپنی باطل تصانیف کرتا ۔ لوگوں سے سارے دن کا بٹورہ ہوا چندہ رات کو ہی گنتا تھا اور خوشی سے آوارہ قہقہے لگاتا تھا ۔ اور پھر جب یہ شیطانی کام کرتے کرتے تھک جاتا تو بستر پر دراز ہوجاتا اور پھر رات کی تاریکی اور سناٹے میں نوجوان لڑکیاں اسے پنکھنا جھلنے لگتیں اور یہ ننگ انسانیت بے حیائی کی ہوائوں میں بے غیرتی کی نیند سوجاتا ۔ مگریہ فیصلہ ہوگیا کہ مرزا دن کو مردار ہوگا ۔
پھر سوال اٹھا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کو دن کو کتنے بجے مارا جائے ۔ سب سے آخر میں ''دس'' اٹھا اور عرض کرنے لگا ۔ اے سمیع و علیم ! اگر اسے ایک بجے ماراجا ئے تو اسے ایک جرم کی سزا ملے گی ۔ اسی طرح اگر رات کے بارہ بجے بھی اس کا خاتمہ کیا گیا تو اس کی فرد جرم میں صرف بارہ جرائم ہوں گے لیکن میرے مالک ! اس کے جرائم تو ان گنت ہیں ۔ میرے مولا ! یہ شخص ہر پہلو سے اور ہر جہت سے اسلامی دنیا کا مجرمِ اعظم ہے ۔ لہٰذا اس کے تمام جرائم کو ایک ''اصطلاح'' دس نمبر یا قرار دے سکتے ہیں اور کیونکہ یہ دس نمبریا ہے بلکہ یہ دس نمبریا سے بھی بڑھ کر ''ساڑھے دس نمبریا'' ہے ۔ لہٰذا اسے ساڑھے دس بجے مارا جائے ۔ یہ جواب بڑا منطقی اور عقل و دانش پر مبنی تھا ۔ اس لئے مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی موت کا وقت ساڑھے دس بجے مقرر ہوگیا ۔
پھر سوال اٹھا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کو کس موسم میں مارا جائے گرمی میں یا سردی میں؟گرمی نے گرم گرم دلائل دیتے ہوئے کہا ۔ اے خدا! اسے گرمی کے موسم میں مردار کر کیونکہ اگر یہ سردی کے موسم میں مرا تویہ ایک دو دن نکال جائے گی۔ اور اگر گرمی میں مرا تو ایک غلیظ مرتد مردہ ، اوپر سے ہیضہ کی موت۔ منہ اور مقعد سے غلاظت کا اخراج مسلسل، کفن کا غلاظت میں لتھڑا جانا اوپر سے چلچلاتی اور جلاتی دھوپ ، میت سے بدبو کے ایسے بھبھوکے اٹھیں گے کہ قادیانیوں کے دماغ پھٹ جائیں گے ۔ جنازے کا جلوس جہاں سے گذرے گا بدبو کی تاب نہ لاتے ہوئے لوگ بھاگ جائیں گے ۔ گرمی کے دلائل سننے کے بعد سردی نے گرمی کی افادیت پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے گرمی کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا ۔
پھر سوال اٹھا کہ مہینہ کون سا رکھا جائے ؟موسم گرما میں آنے والے سارے مہینے اپنے اپنے حق میں دلائل دینے لگے ۔ لیکن ماہ مئی سب پر سبقت لے گیا ۔ مئی عرض کرنے لگا اے رب ذوالجلال ! موسم گرما کا آغاز مجھ ہی سے ہوتا ہے ۔ میری نوکیلی اور آگ برساتی ہوئی کرنیں مرزے کے جسم سے بدبو ، تعفن اور سڑاند کے ایسے طوفان اٹھائیں گی کہ الامان والحفیظ۔ اس کے علاوہ میرا ایک قدرتی حق بھی بنتا ہے کہ م سے مئی اور م سے مرزا قادیانی ۔ م سے مئی اور م سے مسیح کذاب ۔ م سے مئی اور م سے مینارة المسیح ۔ م سے مئی اور م سے مرتد ۔ ماہ مئی بولے جارہا تھا اور سارے مہینے اس کے دلائل سن رہے تھے ۔ فیصلہ میرٹ پر ہوگیا اور مئی فاتح قرار پایا ۔
پھر سوال اٹھا کہ مئی کی تاریخ کون سی رکھی جائے ؟ ہر تاریخ کو باری باری بولنے کا موقع دیا گیا ۔ لیکن 26 تاریخ اللہ کے حضور التجا کرتے ہوئے کہنے لگی ۔ ''اے رب السموت والارض ! اس نبی کاذب کا پورا نام''مرزا غلام احمد قادیانی نبی فرنگ ہے ۔'' اگر اس کے پورے نا م یعنی ''مرزا غلام احمد قادیانی نبی فرنگ '' کے حروف تہجی کو گنا جائے تو وہ پورے چھبیس بنتے ہیں ۔ اس لئے میرا قدرتی اور فطری حق ہے ۔ 26 مئی کی اس انوکھی ، نرالی اور اچھوتی دلیل پر سب نے اسے مبارک باد دی ۔
موت کی تاریخ مقرر کرنے کے بعد پھر سوال اٹھا کہ مرزا قادیانی کو کس شہرمیں ماراجائے خدا کی دھرتی پر بسنے والے سارے شہر جھولیاں پھیلا پھیلا کر اللہ سے یہ مراد طلب کرنے لگے ۔ شہر لاہور گویا ہوا ، خداوند ! ہر شہر تیرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمن کو دبوچنے کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ لیکن اس کا میرے ذمہ ایک قرض ہے ، آج سے کچھ برس قبل اس دجال نے تیرے ولی کامل حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑی رحمۃ اللہ علیہ کو لاہور کی شاہی مسجد میں مناظرے کا چیلنج دیا تھا ۔ لیکن عین وقت عیار مرزا قادیانی میدان سے فرار ہوگیا اور میں دانت پیستا رہ گیا ۔ اور اس وقت سے آج تک انتقام کے شعلوں میں جھلس رہا ہوں ۔ تو اسے میرے حوالے کردے تاکہ میں اپنے جھلستے ہوئے کلیجے کو ٹھنڈا کرسکوں ۔ لاہور نے اپنا مقدمہ خوب لڑا اور فاتح ٹھہرا ۔ یہ مسئلہ تو طے ہوگیا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی لاہور میں مرے گا ۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھا کہ لاہور میں کس مقام پر مرے گا ۔ فیصلہ ہوا ٹٹی خانہ کے حق میں ہو گیا ۔
پھر سوال اٹھا کہ مرزا قادیانی کو دفن کس شہر میں کیا جائے ؟ لیکن قادیان نے اجازت طلب کر کے سب سے پہلے اپنا خطاب شروع کیا ۔ اے عادل اعظم ! اس نے میری کوکھ سے جنم لیا ۔ اپنے نام کے ساتھ میرا نام لکھا ۔ مجھے ہی اس نے اپنی نبوت کا مرکز بنایا ۔ ا س کے برپا کردہ فتنہ کو میرے نام ملنے لگایعنی فتنہ قادیان ۔ اس لعین نے میرے وجود کو گالی بنا دیا ۔ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا ۔ میری دھرتی پر پلنے والے یہ زہریلا سانپ میرے ہی سپرد کیا جائے تاکہ قبر میں لٹا کرتو میں اس کی پسلیاں توڑ سکوں ۔ لپکتے شعلوں میں اسے جلتا دیکھ سکوں ۔ برستے کوڑوں میں اس کی چیخیں سن سکوں ۔ سانپوں کو اس کی آوارہ زبان نوچتے ملاحظہ کرسکوں ۔ مولا ! یہ میرے ارمان ہیں میری یہ التجائیں قبول کر لے ۔ قادیان کے دلائل اتنے مبنی بر حقیقت تھے کہ فوراً قادیان کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا ۔
پھر سوال اٹھاکہ اس کے جنازے کو کس سواری پر رکھ کر قادیان لے جایا جائے ؟ یکہ (تانگہ) بولا ! اسے میرے حوالے کردے ، میں دولتیاں جھاڑ جھاڑ کر اس کا منہ توڑ دوں گا ۔ کار بولی ! اے مولا ! میں راستے میں کسی ویرانے میں جا کر پنکچر ہوجاؤں گی اور یہ وہیں گل سڑ جائے گا ۔ بس بولی ۔ اسے مجھے دے دیں میں راستے میں خراب ہوجاؤں گی ۔ یہ تو سڑاند سے پھول کر دوگنا ہوجائے گا ۔ باقی قادیانی دھکا لگا کر پھول کر چوگنے ہوجائیں گے ۔ آخر میں مال گاڑی بولی اے قہار ! یکے ، کارا ور بس میں انسان سفر کرتے ہیں لیکن مجھ میں بھیڑ ، بکریاں ، گدھے ، دنبے ، گائیں ، بھینسیں ، مرغیاں ، بطخیں ، کتے اور خنزیر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچائے جاتے ہیں ۔ یہ (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) انسان کے روپ میں جانوروں سے بدترین مخلوق ہے ۔ لہٰذا یہ حق صرف میرا ہے ۔ مال گاڑی کے دلائل بڑے وزنی تھے ۔ لہٰذا مال گاڑی کو اس کا مال دے دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام مکمل ہوگیا ۔ اور سیل کردیا گیا ۔
سورج مشرق کی کوکھ سے طلوع ہو کر مغرب کی لحد میں ڈوبتارہا ۔ آخر 26 مئی آگیا ۔ منگل کا دن آگیا ۔ مسٹر ہیضہ مسلح ہو کر لاہور پہنچ گیا ۔ مرزا قادیانی اپنے ایک مرید کے گھر واقع برانڈرتھ روڈ لاہور وارد ہوتا ہے ۔ مریدوں کے ہجوم میں شیطانی گفتگو کا دور چل رہا ہے ۔ دن اپنی مسافت طے کر کے اپنے اجالوں سمیت رخصت ہوچکا ہے ۔ رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے ۔ دستر خوان بچھ گیا ہے ۔ پلاؤ ، قورمہ ، مرغا ، حلوہ ، فرنی ، تیتر اور بٹیر اپنی بہار دکھا رہے ہیں اور خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں ۔ پیٹ کا حریص مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی دونوں ہاتھوں اور بتیس دانتوں سے کھانے کا صفایا کررہا ہے ۔ پیٹ کا مٹکا بھر چکا ہے ۔ لیکن نیت کا مٹکا خالی ہے ۔ سامنے مسٹر ہیضہ کھڑا مسکرا رہا ہے اور حملے کے سگنل کا منتظر ہے ۔ آن واحد میں ہیضہ ماہر کمانڈو کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور مرزا قادیانی کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے ۔ پیٹ کو سنبھالتا ہوا لیٹرین کی طرف بھاگتا ہے ۔ فارغ ہو کر آتا ہے کہ فوراً دوسرا دَست ٹھاہ کر کے آجاتا ہے، پھر لیٹرین کی طرف دوڑتا ہے۔ کمزوری اور نقاہت جسم پر قبضہ کرلیتی ہیں جب فارغ ہو کر آتا ہے تو رات کو سورج نظر آرہا ہوتا ہے ۔ چارپائی پر لٹا دیا جاتا ہے ۔ پھر اتنی ہمت نہیں رہتی کہ اٹھ کر لیٹرین میں جائے چارپائی کے ساتھ عارضی لیٹرین بنادی جاتی ہے ۔ مسٹر ہیضہ اپنی سپیڈ تیز کردیتے ہیں ۔ دَست مشین گن کی گولیوں کی طرح وارد ہونے لگتے ہیں ۔ دَستوں اور زندگی میں دَست بدَست لڑائی ہونے لگتی ہے ۔ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی چارپائی پر گرگیا ہے ۔ نبضیں ڈھیلی پڑ گئی ہیں ۔ ماتھے پر ٹھنڈے پسینے آگئے ہیں ۔ نتھنے پھیل رہے ہیں ۔ آنکھیں پتھرا رہی ہیں ۔ اور انگریزی نبوت کا جسم ''ٹوسٹ'' کررہا ہے ۔ ڈاکٹر انگریزی نبی کے جسم میں ٹیکے لگا رہے ہیں ۔ لیکن فاتح مرزاقادیانی ''مسٹر ہیضہ'' مرزا قادیانی کے سینے پر سوار ہوچکا ہے ۔ لیجئے دن کے ساڑھے دس بجنے والے ہیں ۔ موت گھر کی دیوارعبور کر چکی ہے اور فرشتہ اجل نے فولادی ہاتھوں سے غلیظ جسم سے روح نکال لی ہے ۔ اور مرزا قادیانی ہیضہ کی تباہ کن بائولنگ سے کلین بولڈ کیا جاتا ہے ۔ فضاؤں میں قادیانی زبانوں کی چیخیں بلند ہوتی ہے ۔ ابلیس کا لاڈلا بیٹا داغ مفارقت دے گیا ہے ۔ فرنگی کا کذّاب (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) نبی انتقال کرگیا ہے ۔ مسیلمہ کذاب کا سانڈو منہ موڑ گیا ہے ۔ جھوٹ کا ابا مرگیا ہے ۔ خباثت کا تایا فوت ہوگیا ہے ۔ دجل و فریب کا خالو چل بسا ہے ۔ عریانی فحاشی کا پھوپھا خاموش ہوگیا ہے اور گالیوں کا ہیڈ ماسٹر جہنم میں ٹرانسفر ہوگیا ہے ۔ مرید کے گھر میں مرزا قادیانی کی لاش پڑی ہے ۔ بدبو نے اپنے جوہر دکھانے شروع کردئیے ہیں ۔ لاہور میں مرزا قادیانی کی موت کی نوید مسرت بادصبا کی طرح پھیل جاتی ہے ۔ اور عاشق رسول اہل لاہور اس فرنگی نبی کو ''کڑاہی توپوں'' کے اکیس اکیس ''کڑاہی گولوں'' کی سلامی دینے کی خفیہ تیاری شروع کر دیتے ہیں ۔ گھروں کاسارا کوڑا کرکٹ کڑاہیوں میں ڈال کر چھتوں کی منڈیروں پر رکھ دیا جاتا ہے ۔ جونہی جنازے کا جلوس مرید کے گھر سے سرکتا ہے ۔ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی لاش پر ''کڑاہی توپوں'' کی سلامی شروع ہوجاتی ہے ۔ کڑاہیوں کے گولے فضا میں رقص کرتے ہوئے آتے ہیں اور مرزا قادیانی کا منہ چوم چوم جاتے ہیں ۔ مرزا قادیانی غلاظت میں ڈوب جاتا ہے ۔ حفاظت کے لئے آئے ہوئے سپاہیوں کی وردیاں بھی غلاظت سے بھر جاتی ہیں ۔ بڑی مذمت اور مرمت کے بعد میت کو ریلوے سٹیشن لایا گیا ۔ میت کو قادیان لے جانے کے لئے ریل گاڑی میں بکنگ کرائی جانے لگی ۔ لیکن جب اصول پرست اور اکھڑ ریلوے افسر کو پتہ چلا کہ مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کی موت ہیضہ سے ہوئی ہے تو اس نے ریلوے قانون کے مطابق یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ ہیضہ ایک وبائی مرض ہے ۔ اس لئے خطرہ کے پیش نظر میت کو بک نہیں کیا جاسکتا ۔ قادیانی بھاگم بھاگ اعلیٰ انگریز ریلوے افسر کے پاس پہنچے اور رورو کر کہنے لگے ، جناب آپ کا انگریزی نبی (مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی) ریلوے سٹیشن پر بے یارومددگار پڑا ہے ۔ مسلمان ٹھٹھہ و مذاق کررہے ہیں ۔ اور ہم آپ کے بنائے ہوئے نبی کے خادم ذلت کی خاک چاٹ رہے ہیں ۔ اعلیٰ ریلوے حکام کی طرف سے سپیشل رپورٹ کے تحت میت کوآخر مال گاڑی میں بک کیا جاتا ہے اور مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی بکروں ، چھتروں ، دنبوں ، گائیوں ، بھینسوں ، گدھوں ، گھوڑوں ، مرغیوں ، بطخوں او ر خنزیروں کی رفاقت میں قادیان روانہ ہوجاتا ہے ۔ قادیان میں چند نفوس اس کا نام نہادہ جنازہ پڑھتے ہیں اور پھر قادیان کی غلاظت کو قادیان میں گاڑ دیا جاتا ہے ۔ ہم اب بھی مرتد و زندیق مرزا غلامِ انگریز قادیانی کذّابِ اعظم کے فریب میں مبتلا لوگوں کو دعوتِ اسلام دیتے ہیں کہ دنیا چند روزہ اس چند روزہ دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد مت کر ۔ ذلت آمیز انجام سے بچو اور اسلام کے دامنِ رحمت میں لوٹ آؤ ۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جملہ اہلِ اسلام کو ہر فتنے خصوصاََ فتنہ قادیانیت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment