Monday 29 April 2024

غیر نبی کےلیے علیہ السّلام اور غیر صحابی کےلیے رضی اللہ عنہ کہنا

0 comments
غیر نبی کےلیے علیہ السّلام اور غیر صحابی کےلیے رضی اللہ عنہ کہنا
محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے اور بعض جاننے کے باوجود فساد پھیلانے کی خاطر اس طرح کے مسائل پیدا کرتے ہیں جن کا آج تک تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے : اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 31)
ترجمہ : انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح ابنِ مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے ۔

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر غیر نبی کےلیے لفظ صلوٰۃ استعمال کیا گیا ۔

غیر نبی کےلیے لفظ صلوٰۃ : هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 43)
ترجمہ : وہی ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اُجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے ۔

اہل ایمان پر صلوۃ : خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 103)
ترجمہ : اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔

منافقوں کےلیے صلاۃ نہیں : وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِه إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُونَ ۔ (سورہ توبہ آیت 84)
ترجمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ۔

صبر کرنے والوں پر صلوٰۃ : أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 157)
ترجمہ : یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت ۔

قرآن پاک کی طرح مختلف احادیثِ مبارکہ میں بھی غیر نبی کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کو استعمال فرمایا ۔

ہدیہ پیش کرنے والے پر صلوٰۃ : حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں جب بھی کوئی صاحب صدقہ (ہدیہ) پیش کرتا تو سرکار فرماتے ”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَيه ’’ اے اللہ اس پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرما ۔ میرے والد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں اپنا صدقہ (ہدیہ) لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِيْ اوفٰی ’’ اے اللہ آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج ۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات جلد 2 صفحہ 941 طبع کراچی،چشتی)(صحيح مسلم جلد 1 کتابُ الزکوة)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا عنوان یعنی ترجمۃ الباب یوں لکھا ہے : هَلْ يُصَلّٰی عَلٰی غَيْرِ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم 
ترجمہ : کیا نبی کے بغیر کسی پر صلوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے ؟ ۔

اور ا س سے پہلے سورۃ توبہ کی آیت اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُم ’’اور اے نبی کریم ان کےلیے دعائے خیر کریں بے شک آپ کی دعائے خیر ان کےلیے باعث سکون ہے‘‘ سے اس کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔

مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ مزید حوالہ جات کےلیے دیکھئے : (سنن ابی دائود، کتاب الزکوة، باب دعاء المصدق لاهل الصدقة 2.106، رقم 1590)(سنن ابن ماجه کتاب الزکوة، 1.572 رقم 1796)(سنن نسائی، کتاب الزکوة، باب صلوٰة الامام علی صاحب الصدقة، 5.31، رقم 2459)(مسند احمد بن حنبل، 4.383، رقم 19435)(صحيح ابن حبان، 3.197، رقم 917، باب الادعيه

حضرت جابر اور ان کی زوجہ رضی اللہ عنہما کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْکَ وَعَلٰی زَوْجِکَ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہاری بیوی پر صلوٰۃ نازل فرمائے ۔ (صحيح ابن حبان، باب الادعية، ذکرالاباحاة... 3.197، رقم 916,چشتی)(سنن ابی داؤد کتاب الصلوة، باب الصلوة علی غير النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 2.88، رقم 1533)

غیر نبی کےلیے لفظ ’’سلام‘‘ کا استعمال

لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کی طرح غیر نبی کےلیے قرآن پاک کے متعدد مقامات پر لفظ ’’سلام‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ چند مقامات درج ذیل ہیں : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ۔ (سورہ النور آیت نمبر 27)
ترجمہ : اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکِنوں پر سلام نہ کرلو ۔

فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۔ (سورہ النور آیت نمبر 61)
ترجمہ : پھر جب کسی گھرمیں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ ۔

لاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ۔ (سورہ النسا آیت نمبر 94)
ترجمہ :  اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ۔

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ ۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 54)
ترجمہ : اور جب تمہارے حضور وہ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرماؤ تم پر سلام ۔

سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ۔ (سورہ النمل آیت نمبر 59)
ترجمہ : اور سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر ۔

کہاں تک نقل کروں ، قرآن و سنت میں جابجا انبیاء و غیر انبیاء اہل ایمان پر سلام کا لفظ یا اس کا مترادف بولا گیا ہے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لفظ استعمال کرتے ہیں ملاحظہ کریں : أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين بن علي عليه السلام ، فجعل في طست ، فجعل ينكت ، وقال في حسنه شيئا ، فقال أنس : كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم ، وكان مخضوبا بالوسمة ۔ (صحيح بخاری الرقم : 3748)

اس حدیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کےلیے لفظ علیہ السلام استعمال کیا ہے ۔

اسی طرح امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ لفظ استعمال کیا : حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِىٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم ۔ كَانَ يُصَلِّى قَبْلَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ ۔ (سنن أبي داود جلد ۲ صفحہ ۳۸)

اسی طرح عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 237 مطبوعہ قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے ۔ (ارشاد الباری شرح صحیح البخاری)

قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مظہری جلد 7 صفحہ 412 پر لکھا : رواہ احمد عن الحسین بن علی علیھما السلام ۔ وروی الطبرابی بسند حسن عن الحسین بن علی علیھما السلام ۔

اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تو اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ لفظ علیہ السلام ہی استعمال کرتے تھے ۔

اسی طرح مسلم شریف میں بھی کئی جگہوں پر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اہل بیت کے ساتھ لفظ علیہ السلام استعمال کیا ہے ۔

اکثر اسلامی کتب میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ لفظ سلام اللہ علیہا اور علیہا السلام پڑھا ہے ۔

صلاۃ و سلام کی لغوی تحقیق : آئیے ہم ان الفاظ کو لغوی اعتبار سے عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ ان کے کیا معنیٰ بیان ہو ئے ہیں ، سلام کے لغوی معنی ہیں سلامتی ، اور صلاۃ کے معنی میں دعا ، چنانچہ مشہور و متداول عربی لغت قاموس جلد ۴ ،صفحہ ۲۱۳طبع مصر میں : والصلاۃ الدعا ء والرحمۃ والاستغفار حسن الثنا ء من اللہ عزوجل علی رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم وعبادۃ فیھا  رکوع وسجود ۔
ترجمہ : صلاۃ سے مراد دعاء، رحمت،استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کی اچھی تعریف ہے ۔

مصباح المنیر جلداول صفحہ ۳۲۶ طبع بولاق مصر میں ہے : والصلاۃ قیل اصلھا فی اللغۃ الدعاء ۔۔۔وقیل الصلٰوۃ فی اللغۃ مشترکۃ بین الدعا ء والتعظیم والرحمۃ و البرکۃ ۔
ترجمہ : لغت میں لفظ ’’صلاۃ ‘‘ مشترک ہے اس کے معنی دعا ، تعظیم رحمت اور برکت کے ہیں ۔

اسی طرح مختار الصحاح صفحہ ۳۳۳طبع بیروت میں لکھا ہے : والسلام السلامۃ ۔ اسی طرح کتب لغت میں سے مغرب جلد اول صفحہ ۲۹۳ مطبوعہ حیدرآباد دکن میں بھی ہے ۔

لہٰذا صلاۃ و سلام لغوی اعتبار سے بھی انبیا علیہم السلام کے علاوہ دیگر شخصیات پر بالا ستقال یا با لتبع کہنے کا جواز ثابت ہو تا ہے کیونکہ ان دونوں کے جو معنیٰ بیان ہو ئے ہیں وہ ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کےلیے استعمال ہو سکتے ہیں ۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ۔ یہ اہل سنت کے مشاہیر علماء میں ہیں ، انہوں نے اپنے فتوی میں ائمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اسماء گرامی کے ساتھ ’’علیہ السلام ‘‘ کہنا جائز قرار دیا ہے یہاں سوال وجواب دونوں کو من و عن اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے تا کہ ہر قسم کے شکوک وشبہات کا قلع و قمع ہو جا ئے ۔
سوال : تحفہ اثنا عشریہ میں صلاۃ سلام یعنی درود و سلام با لا ستقلال بارہ اماموں کے حق میں لکھا ہے حالانکہ یہ امر اہل سنت نے ایسی مشابہت سے پر ہیز کرنا اپنے لیے لازم جا نا ہے تو اس امر کے جواز کےلیے سند اہلسنت کی کتب معتبرہ سے بیان کر نا چاہیے ۔
جواب : تحفہ اثنا عشریہ میں کسی جگہ صلاۃ بالا ستقلال غیر انبیاء کے حق میں نہیں لکھا گیا البتہ لفظ ’’علیہ السلام‘‘ کا حضرت امیر المومنین اور حضرت سیدۃ النساء جناب حسنین و دیگر ائمہ کے حق میں مذکورہ ہے اور اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ صلاۃ بالا ستقلال غیر انبیاء کے حق میں درست نہیں اور لفظ سلام کا غیر انبیاء کی شان میں کہہ سکتے ہیں اس کی سند یہ ہے کہ اہل سنت کی کتاب قدیمہ حدیث میں علیٰ الخصوص ابوداؤد ، صحیح بخاری میں حضرت علی و حضرات حسنین و حضرت فاطمہ و حضرت عباس کے ذکر کے ساتھ لفظ ’’علیہ السلام ‘‘ کا مذکورہ ہے البتہ بعض علمأ ماوراء النہر نے شیعہ کی مشابہت کے لحاظ سے اس کو منع لکھا ہے لیکن فی الواقع مشابہت بدون کی امر خیر میں منع ، نہیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ پہلی کتا ب اصول حنفیہ کی ’’شاشی‘‘ ہے اس میں نفس خطبہ میں بعد حمد و صلاۃ کے لکھا ہے ’’والسلام علی ابی حنیفہ واحبابہ‘‘ یعنی سلام نازل ہو ابو حنیفہ پر اور آپ کے احباب پر اور ظاہر ہے کہ مرتبہ حضرا ت موصوفین کا جن کا نام نامی اور اوپر مذکور ہوا ہے حضرت امام اعظم کے مرتبہ سے کم نہیں تو اس سے معلوم ہو اکہ اہل سنت کے نزدیک بھی لفظ سلام کا اطلاق ان بزرگوں کی شان میں بہتر ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ لفظ ’’علیہ السلام ‘‘ کا غیر انبیاء کی شان میں بھی’’ علیہ السلام‘‘ کہنا شرعاًثابت ہے ۔ (فتاویٰ عزیزی مترجم صفحہ ۲۳۴ ، ۲۳۵ مطبوعہ فتاوی عزیزی فارسی جلداول صفحہ ۸۸ ، ۸۹ مطبع مجتبائی دہلی۱۳۱۱ھ,چشتی)

نوٹ : فتاویٰ عزیزیہ ‘‘ فارسی ۱۳۱۱ھ کے بعد والے تمام مطبوعہ نسخوں میں خائن و بددیانت ناشرین نے مندرجہ بالا فتویٰ کو مع سوال و جواب حذف کر دیا ہے آج کل جو فارسی مطبوعہ عکسی نسخہ متداول ہے یہ محرف ہے ۔ البتہ کراچی سے شائع ہو نے والے اردو ترجمہ میں فتویٰ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی طبع کے نسخے کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔

ائمہ کرام و محدثین علیہم الرحمہ کے نزدیک غیر انبیاء کو علیہ السلام لکھنا : ائمہ حدیث اور اکابرین اہل سنت کے ہاں یہی طریقہ رائج رہا ہے چنانچہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد وغیر ہ کتبِ احادیث کے قلمی اور قدیم مطبوعہ نسخوں میں بہت سے مقامات پر حضرت اہل بیت کے اسماء مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھا ہوا موجود ہے اور ان کی مشہور شروحات مثلاً فتح الباری ، عمدۃ القاری وغیرہ میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ملتا ہے لیکن ان ہی کتب کے بعض مطبوعہ جدید نسخے بددیانت ناشرین کی تحریف کا نشانہ بن گئے اور علیہ السلام کی بجائے ’’رضی اللہ عنہ ‘‘ لکھا گیا ہے شاید اسی بنا پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑا ہے چنانچہ لکھتے ہیں ’’متقدمین میں اہل بیت رسول اور ازواج پر سلام کہنا متعارف تھا اور مشائخ اہل سنت کی پرانی کتابوں میں اہل بیت پر سلام لکھا ہوا پا یا جاتا ہے اور متاخرین میں اس کا چھوڑ دینا مروج ہو گیا ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۲۳۴ نول کشور لکھنو,چشتی)

چنانچہ خود شیخ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام تالیفات میں جہاں کہیں ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے ساتھ ’’علیہ السلام ‘‘ استعمال کیا ہے جیسا کہ اپنی کتاب ’’ما ثبت بالسنہ‘‘ طبع لاہور میں یوں عنوان قائم کیا ہے : ذکر مقتل سیدنا الامام الشیھد السعید سبط رسول اللہ الامام ابی عبد اللہ الحسین سلام اللہ علیہ وعلیٰ اباۂ الکرام 
اپنی ایک دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں : درموضع قبور امام حسن وزین العابدین ومحمد باقر وجعفرصادق سلام اللہ علیھم اجمعین ۔ (مدارج النبوۃ جلد ۲صفحہ ۵۴۵ طبع نول کشور)

(1) صحیح بخاری مع فتح الباری المطبعۃ الخیر یہ مصر جلد ششم کے صفحات ۲۶،۱۲۲،۱۳۱،۱۳۲،۱۷۷ پر فاطمہ علیہا السلام لکھا ہے ۔

(2) جلد ششم صفحہ ۱۱۹میں ’’الحسین بن علی علیہا السلام ‘‘تحریر ہے ۔

(3) جلد ششم صفحہ ۳۶۴پر ’’الحسن علی علیہا السلام ہے ۔

(4) جلد ہفتم کے صفحات ۵۳،۵۶،۱۱۴،۲۳۶،۳۴۵اور ۳۵۵میں ’’فاطمۃ علیہا السلام ‘‘موجود ہے ۔

(5) جلد نہم صفحہ ۱۰۹ پر ’’علی بن حسین علیہا السلام ‘‘ ۲۷۴،۴۰۷ میں ’’فاطمۃ علیہا السلام ‘‘تحریر ہے ۔

(6) جلد سیزدہم ،صفحہ ۳۴۷ پر’’حسین بن علی علیہاالسلام ‘‘لکھا ہے ۔

اس کے علاوہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم صفحہ ۲۳۷مطبوعہ قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے ارشاد الباری شرح صحیح البخاری جلداول صفحہ ۹۷ میں بھی یہی کچھ لکھا ہے ۔

امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۷۰۰مطبوعہ دارالطباعۃ العامرہ قسطنطنیہ میں لکھا : ھذہ الا ےۃ دالۃ علیٰ ان الحسن والحسین علیھما السلام کانا ابنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

تفسیر کبیر جلد ۲ جلد ہشتم صفحہ ۳۲۲ پر تحریر ہے : ھذہ ال آیات نزلت فی حق علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔۔۔فی کتاب البیسط انھا نزلت فی حق علیہ السلام ۔ ان الحسن والحسین علیھما السلام مرضا ۔ اخذ علی علیہ السلام بید الحسن والحسین ۔۔ ۔ولا ینکر دخول علی ابن ابی طالب علیہ السلام فیہ ۔ الذین یقولون ھذہ الا ےۃ مختصۃ بعلی علیہ السلام ۔

اسی طر ح قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مظہری جلد ہفتم صفحہ ۴۱۲ پر لکھا ۔

پس اے صاحبانِ علم و معرفت اپنا مرتبہ و مقام پہچانو ! حق تلاش کرو ، تحقیق و جستجو کرتے رہو ، علم روشنی ہے ۔ اس سے اپنا من بھی روشن کرو اور ماحول کو بھی نور بخشتے رہو ۔ بعض اہلِ علم نے اگر کچھ اصول اپنائے ہیں تو نیک نیتی سے اپنائے ہونگے مگر خلوص و نیک نیتی سے صحیح ، غلط اور غلط ، صحیح نہیں ہو سکتا ۔ نیک و بد ، جائز و ناجائز کے پرکھنے کی کسوٹی قرآن و سنت ہے ، خلوص نیت نہیں ۔ بزرگ اگر بعض کلمات مثلاً صلوٰۃ غیر نبی یا غیر فرشتہ کےلیے استعمال نہیں کرتے تو ان کی مرضی مگر ناجائز نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن و سنت کی محکم ہدایات تعامل کے ماتحت نہیں ۔ تعامل امت ان کے ماتحت ہے ۔ یہ کیسی سوچ ہے کہ ۔ تاابد اہلِ سنت پہ لاکھوں سلام ، جس کی ہر ہر ادا سنت مصطفیٰ ایسے پیر طریقت پہ لاکھوں سلام وغیرہ ، کہنا تو جائز ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام کہنا جائز نہیں ۔ السلام علیکم کہنا ہر مسلمان کو جائز ہے جبکہ اسی مسلمان کو علیہ السلام کہنا جائز نہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام عقلی و علمی بات نہیں ۔ لہٰذا اس پر سر پھٹول اور دنگا فساد ، امت میں انتشار و افتراق بہت نامناسب ، کم علمی ، کوتاہ بینی اور فی سبیل اللہ فساد ہے ۔

مختصر یہ کہ غیر نبی کےلیے بھی لفظ علیہ السلام استعمال کرنے میں حرج نہیں ۔ اس پر زیادہ سخت مؤقف اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کو ہمارے سلام کی حاجت نہیں ۔ ان پر تو پہلے ہی اللہ نے سلامتی نازل کر رکھی ہے ۔ ہاں ہم اپنی بخشش کےلیے ہی ان ہستیوں پر سلام بھیجتے ہیں ۔ جیسے ہم نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔تاکہ ہم ان کی شفاعت اور اللہ کی رضا کے حقدار ٹھہر سکیں ۔ وگرنہ اللہ کو ہمارے درود سلام کی کیا حاجت اللہ عزوجل تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتا ہے ۔

تَرَضِّيْ کا استعمال (رضی اللہ عنہ کہنا) ’’صلوٰۃ و سلام‘‘ کی طرح قرآن پاک کے متعدد مقامات پر مومنین ، صالحین کےلیے بھی ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔

جو سچے بندے ہیں : رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ۔
ترجمہ : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ (سورہ المائده آیت 119)

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۔ (سورہ المجادله آیت 22)
ترجمہ : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ یہ ہے اللہ کی جماعت ۔

رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ۔ (سورہ البینة آیت 8)
ترجمہ : اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ (خوشخبری) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرے ۔

رحمۃ اللہ علیہ کہنا : اسی طرح ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے الفاظ بھی مومنین صالحین کےلیے قرآن پاک میں جابجا مذکور ہیں : رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۔ (سورہ ھود آیت 73)
ترجمہ : اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم پر، اس گھروالو ۔

أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ۔ (البقره : 157)
ترجمہ : یہ لوگ ہیں (تنگی و تکلیف میں صبر کرنے والے) جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں ۔

مذکورہ آیات و احادیث مختصر سا انتخاب ہے ورنہ اس موضوع پر بہت کچھ اور بھی نصوص پیش کی جاسکتی ہیں ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے صلوۃ ، سلام ، رحمت و رضا اور ان سے مشتق ہونے والے تمام کلمات کا اطلاق انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیا ، علما ، شہداء علیہم الرحمہ بلکہ عام مسلمانوں پر بھی جائز ہے ۔ جب قرآن و سنت سے اس کا ثبوت موجود ہے اور وہ بھی عبارۃ النص سے ، تو ان کلمات طیبات کو ان میں سے کسی بھی طبقہ پر شرعاً ، عرفاً بولا جا سکتا ہے جبکہ ناجائز ہونے کی کوئی ایک بھی دلیل شرعی نہیں ۔ ان قطعی نصوص کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے قول کی آخر کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ ہم سوچیں کہ کیا ان صریح نصوص کے ہوتے ہوئے کسی عالم کا حوالہ دینا دین کی خدمت ہے ؟ طبع نازک پر بار نہ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک پڑھ لیجیے : عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : اتيت النبی صلی الله عليه وآله وسلم وفی عنقی صليب من ذهب فقال ياعدی اطرح عنک هذا الوثن وسمعته يقراء فی سورة براء ة اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله قال اما انهم لم يکونوا يعبدونهم لکنهم کانوا اذا احلوا لهم شئيا استحلوه واذا حرموا عليهم شيئًا حرموه ۔
ترجمہ : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس حال میں کہ میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی ، فرمایا عدی ! اس بت کو اتار پھینکو ، اور میں نے آپ کو سورہ براۃ (توبہ) میں سے یہ آیت کریمہ پڑھتے سنا کہ ’’ انہوں (یہود) نے اپنے علماء اور صوفیاء کو ، پروردگار عالم کے مقابلہ میں ، رب بنالیا تھا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سن لو ! انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی ، نہ کرتے تھے لیکن جب یہ پیشواء ان کےلیے کوئی چیز حلال قرار دیتے ، تو وہ (عوام) اسے حلال سمجھتے اور جب کوئی چیز ان پر حرام قرار دیتے تو یہ اسے حرام مان لیتے تھے ۔
(جامع الترمذی جلد 2 صفحہ 136 ابواب التفسير,چشتی)

غیر نبی کو نبی سے افضل سمجھنا کفر و گمراہی ہے

محترم قارئینِ کرام : یہ مضمون مسلمانانِ اہلسنّت کےلیے عموماً اور سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضیوں کےلیے ہم خصوصی طور پر پیش کر رہے جو سرِ عام اپنے اسٹیجوں پر اِن رافضیوں کو بلاتے ہیں اُن سے خطابات کرواتے ہیں اس طرح رافضیوں کے باطل عقائد کو پرموٹ کر رہے ہیں ۔ جملہ مسلمانانِ اہلسنّت غور فرمائیں کہ اس وقت ہمیں اور آپ کو کیا کرنا چاہیے پڑھیے اور سوچیے :

شیعہ مذہب کی کتاب ’’خورشدی خاور ترجمہ شبہائے پشاور ، مترجم محمد باقر مجلسی رئیس جوارس ، کتب خانہ شاہ نجف لاہور میں یہ لکھتا ہے کہ : چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام انبیاء سے افضل ہیں ، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے بھی افضل ہیں ۔ شیعیوں کا مولوی محمد باقر مجلسی رئیس جوارس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انبیاء سےافضل ہونے کے ثبوت میں دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کوفہ کا مشہور خطیب ہے ، اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا : اخبرنی انت افضل اَم آدم ؟ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جوابات : (1) انا افضل من آدم ۔ (2) انا افضل من ابراھیم ۔ (3) انا افضل من موسیٰ ۔ (4) انا افضل من عیسیٰ ۔ (خورشید خاور صفحہ نمبر 293 ، 293 ، 294،چشتی)

ان پانچ عبارتوں پر شیعہ عقیدہ کی بنیاد ہے جو کہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے ، صحیح عقیدہ کے مطابق امتی کسی پیغمبر کا بھی ہو وہ نبی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا ، صحابی کا مقام اور ہے اور نبی کا مقام اور ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں گو کتنا بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا اور کسی بھی نبی سے مرتبہ میں زیادہ ہرگز نہیں ہوسکتے ، لیکن شیعہ نے صحابی کو نبوت کا مقام دے کر شرکت فی الرسالۃ کیا ہے ، جو کہ شیعہ کے کفر کا واضح ثبوت ہے ۔

ان پانچ عبارتوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اس عبارت کو منسوب کرنا کفر و شرک سے بڑھ کر ہے ، پھر اسی کتاب میں آگے چل کر شیعیوں کا مولوی محمد باقر مجلسی رئیس جوارس لکھتا ہے کہ : امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شریک تھے ۔ چونکہ پیغمبر جب انبیاء سے افضل ہیں لہٰذا علی رضی اللہ عنہ بھی ان سے افضل ہوئے ۔ (خورشید خاور صفحہ نمبر 285 ، 292،چشتی) ۔ (نعوذ باللّٰہ من ذالک)

ذرا انصاف کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا شرک فی الرسالۃ نہیں تو اور کیا ہے ۔

کیا قرآن و سنت کی کھلی خلاف وروزی نہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ، لہٰذا شیعہ فرقہ باطلہ ہے اور ایسی کتابیں جن کی اشاعت ہورہی ہے ان کو فی الفور ضبط کرنا ایسے مجرموں اور ایسے جہنمیوں کو سزاد دینا مسلم حکمرانوں کا فرض ہے ۔

عقیدہ اہلسنّت : ولی (صحابی ہو یا غیر صحابی) کتنے ہی بڑے مرتبے والا ہو کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ، جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل بتائے وہ کافر ہے ۔ (قال التفتازان یرحمہ اللّٰہ تعالٰی : فما نقل عن بعض الکرامیۃ من جواز کون الولی افضل من النبی کفر وضلال ۔ (شرح عقائد النسفیۃ،لایبلغ الولی درجۃ الانبیاء صفحہ نمبر 343)

اُستَاذُ العلماء شیخ التفسیر والحدیث علاّمہ غلام علی اشرفی اوکاڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر نبی کو نبی علیہ السّلام سے افضل ماننا کفر و ضلالت اور الحاد و گمراہی ہے ۔ جو یہ کہیں کہ غیر نبی نبی علیہ السّلام سے افضل ہے اُن کا یہ اعتقاد کفر ہے ۔ (عقائدِالاِسلام صفحہ نمبر 9 مطبوعہ شعبہ نشر و اشاعت اشرف المدارس اوکاڑہ،چشتی)

صدرالشریعہ حضرت علاّمہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے ، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ عصمتِ انبیا (علیہم السّلام) کے یہ معنیٰ ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہولیا ، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنہیں محفوظ رکھتا ہے ، اُن سے گناہ ہوتا نہیں ، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں ۔ (بہار شریعت عقیدہ نمبر 16 جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 38 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،چشتی)

(1) (وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِیْنَ) پ۷، الأنعام: ۸۶. في ''تفسیرالخازن''، ج۲، ص۳۳، تحت الآیۃ : (وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِیْنَ) یعني : علی عالمي زمانھم ویستدلّ بہذہ الآیۃ من یقول : إنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ؛ لأنّ العالم اسم لکلّ موجود سوی اللہ تعالی فیدخل فیہ الملک فیقتضي أنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ . وفي ''التفسیر الکبیر''، پ۱، البقرۃ، ج۱، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ۳۴: (اعلم أنّ جماعۃ من أصحابنا یحتجون بأمر اللہ تعالی للملائکۃ بسجود آدم علیہ السلام علی أنّ آدم أفضل من الملائکۃ فرأینا أن نذکر ہہنا ہذہ المسألۃ فنقول: قال أکثر أھل السنّۃ: الأنبیاء أفضل من الملائکۃ) . وفي ''شرح المقاصد''، المبحث السابع، الملائکۃ، ج۳، ص۳۲۰۔۳۲۱: (فذہب جمہور أصحابنا والشیعۃ إلی أنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ)

(2) (في''منح الروض الأزہر'' ص ۱۲۱ : (أنّ الولي لا یبلغ درجۃ النبي، فما نقل عن بعض الکرامیۃ من جواز کون الولي أفضل من النبي کفر وضلالۃ وإلحاد وجہالۃ)، ملتقطاً. وفي''إرشاد الساري''، کتاب العلم، باب ما یستحب للعالم... إلخ، ج۱، ص۳۷۸: (فالنبي أفضل من الولي، وہو أمر مقطوع بہ، والقائل بخلافہ کافر، لأنّہ معلوم من الشرع بالضرورۃ).وفي ''الشفائ''، ج۲، ص ۲۹۰: (وکذلک نقطع بتکفیر غلاۃ الرافضۃ في قولہم: إنّ الأئمۃ أفضل من الأنبیاء).وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۱۲۵: (إنّ نبیاً واحداً أفضل عند اللہ من جمیع الأولیائ، ومن فضل ولیاً علی نبي یخشی الکفر بل ہو کافر)

سیادت کی آڑ میں عوامِ اہل سنت کو گمراہی کی طرف لے جانے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضیوں کو تاجدار مارہرہ شریف سیّد السّادات حضور سیدی وسندی سرکار ابو الحسین نوری میاں رحمۃ اللہ علیہ کا حیدری طمانچہ آپ فرما تے ہیں : مجتہد سے خطاء بھی ہوتی ہے اور وہ ٹھیک بھی رہتا ہے ۔ مزید فرماتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ بنی آدم میں انبیاء علیہم السّلام کے سوا کوئی اور معصوم نہیں اگرچہ اولیاء اللہ ہوں ، اگرچہ مرتبہ قطبیت اور درجہ غوثیت پر فائز ہوں ، یہاں تک کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنھم ، ہاں یہ حضرات عالی درجات لفظ محفوظ سے موسوم ہیں ۔ بنی آدم میں یہ عصمت خاصہ ہے حضرات انبیاء کرام علیھم الصّلاة و السّلام کا ، جو شخص نوع بشر میں انبیاء علیھم الصّلاة و السّلام کی سی عصمت اور معصومیت کسی اور کے لئے ثابت مانے وہ گمراہ و بددین ہے ۔ (سراج العوارف فی الوصایا والمعارف مترجم صفحہ نمبر 49 تیسرا نور،چشتی)

فیضِ ملّت شیخ الحدیث والتفسیر استاذُ العلماء علاّمہ محمد فیض احمد اویسی محدث بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السّلام معصوم ہیں انبیاء علیہم السّلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ، خواہ ولی ، غوث ، قطب ، ابدال ہوں (علیہم الرّحمہ) ، ہاں محفوظ ضرور ہیں ۔ اور جو کوئی غیر نبی کو نبی علیہ السّلام سے افضل کہے و کافر ہے ۔ (عقائدِ اہلِسُنّت صفحہ نمبر 12 مطبوعہ بھاٹی گیٹ لاہور پاکستان)،(سُنی عقائد صفحہ نمبر 9 بہاول پور) ۔ اللہ عزّوجل مسلمانانِ اہلسنّت کو جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔